احمد ندیم قاسمی مداوا حبس کا ہونے لگا آہستہ آہستہ

سین خے

محفلین
مداوا حبس کا ہونے لگا آہستہ آہستہ

مداوا حبس کا ہونے لگا آہستہ آہستہ
چلی آتی ہے وہ موج صبا آہستہ آہستہ

ذرا وقفہ سے نکلے گا مگر نکلے گا چاند آخر
کہ سورج بھی تو مغرب میں چھپا آہستہ آہستہ

کوئی سنتا تو اک کہرام برپا تھا ہواؤں میں
شجر سے ایک پتا جب گرا آہستہ آہستہ

ابھی سے حرف رخصت کیوں جب آدھی رات باقی ہے
گل و شبنم تو ہوتے ہیں جدا آہستہ آہستہ

مجھے منظور گر ترک تعلق ہے رضا تیری
مگر ٹوٹے گا رشتہ درد کا آہستہ آہستہ

پھر اس کے بعد شب ہے جس کی حد صبح ابد تک ہے
مغنی شام کا نغمہ سنا آہستہ آہستہ

شب فرقت میں جب نجم سحر بھی ڈوب جاتے ہیں
اترتا ہے مرے دل میں خدا آہستہ آہستہ

میں شہر دل سے نکلا ہوں سب آوازوں کو دفنا کر
ندیمؔ اب کون دیتا ہے صدا آہستہ آہستہ


احمد ندیم قاسمی


 
Top