حسان خان
لائبریرین
مخمس بر غزلِ فخرِ شعرائے روزگار، مشہورِ امصار و دیار جناب نواب اسد اللہ خان غالب رحمۃ اللہ علیہ
بے اصل ہے نیرنگ جہاں کا مرے آگے
دھوکا ہے طلسمِ تہ و بالا مرے آگے
اک شعبدہ ہے دہر کا نقشا مرے آگے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
رہتا ہے مجھے بخت سے شکوا ترے پیچھے
دیتا ہے مزا موت کا کا جینا ترے پیچھے
وحشت سے نہیں آپ میں آتا ترے پیچھے
مت پوچھ کہ کیا حال ہے میرا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
ہوں خاک نہیں خاک کو رتبا مرے ہوتے
سب کچھ ہے مگر کچھ نہیں چشما مرے ہوتے
کوئی ہو کبھی رخ نہیں کرتا مرے ہوتے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے
ہوں شام سے میں فکرِ صبوحی میں گرفتار
کس کو سرِ معنی ہے کہاں لذتِ اشعار
منگوائیے شیشے مئے خوش رنگ کے دو چار
پھر دیکھئے اندازِ گل افشانئ گفتار
رکھ دو کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے
جز نامِ عدو اس لئے کہتا ہوں کہ اچھا
منظور ہے جو چاہیں کریں ذکر احبا
کچھ اور سمجھتا ہے بگڑنا مرے دل کا
نفرت کا گماں ہوتا ہے میں رشک سے گذرا
کیونکر کہوں لو نام نہ اُن کا مرے آگے
اک تو ہے کہ اپنا نہیں ہوتا بتِ خود کام
ورنہ مرے قائل ہیں زمانے کے دل آرام
اعجاز کی باتیں ہیں کرامات کے پیغام
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
مرتا تو ہوں اب کیوں دمِ آخر یہ ستم ہے
کس واسطے یارو یہ غضب، جائے کرم ہے
تسکیں تو کوئی دم عوضِ یاس و الم ہے
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
ہذیاں ہے سخن دانیِ سحباں مرے نزدیک
سب ہیچ ہیں خاقانی و خاقاں مرے نزدیک
ہر مشکلِ دشوار ہے آساں مرے نزدیک
اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجازِ مسیحا مرے آگے
اے زاہدو آئے نہ کہاں تک مجھے غصّا
کب تک میں کروں صبر کہاں تک رہوں چپکا
مشہور ہے تسلیم کے مانند ہمیشا
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہمراز ہے میرا
غالب کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
(امیر اللہ تسلیم لکھنوی)