گیارہویں سالگرہ محفلین کے نام

ابن سعید کے نام
نظر وہ ہے جو اُس کون و مکاں کے پار ہوجائے
مگر جب روئے تاباں پر پڑے بیکار ہوجائے
تبسم کی ادا سے زندگی بیکار ہوجائے
نظر سے چھیڑ دے رگ رگ مری ہشیار ہوجائے
تجلی ۔۔۔ چہرۂ زیبا کی ہو کچھ جامِ رنگیں کی
زمیں سے آسماں تک عالمِ انوار ہوجائے
تم اُس کافر کا ذوقِ بندگی ۔۔ اب پوچھتے کیا ہو
جسے طاقِ حرم بھی ابر ؤے خم دار ہوجائے
 
آخری تدوین:
نور سعدیہ شیخ کی سوچ فکر اور جذبے کی گہرائی کے نام
مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں مَیں، کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تو، کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ

خوبصورت! خوبصورت!

غدیر زھرا بہت ہی خوب دھاگے کا آغاز کیا آپ نے۔ اور بہت ہی شاندار طریقے سے محفلین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ پڑھ کر بہت لطف آیا۔

پھر باقی محفلین نے بھی آپ کی روایت کو بڑی خوبصورتی سے آگے بڑھایا۔ پہلے تو میرا یہی خیال تھا کہ دو چار صفحات پڑھ کر تبصرہ کر دوں گا۔ لیکن پھر پڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ سترہ صفحات پڑھ لیے۔ :)

ماشاءاللہ۔

جیتی رہیے۔ :) :) :)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
واہ واہ

خوبصورت! خوبصورت!

غدیر زھرا بہت ہی خوب دھاگے کا آغاز کیا آپ نے۔ اور بہت ہی شاندار طریقے سے محفلین کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ پڑھ کر بہت لطف آیا۔

پھر باقی محفلین نے بھی آپ کی روایت کو بڑی خوبصورتی سے آگے بڑھایا۔ پہلے تو میرا یہی خیال تھا کہ دو چار صفحات پڑھ کر تبصرہ کر دوں گا۔ لیکن پھر پڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ سترہ صفحات پڑھ لیے۔ :)

ماشاءاللہ۔

جیتی رہیے۔ :) :) :)
بہت شکریہ سر آپ کی محبت اور پذیرائی کے لیے :) محفل کی یہ روایت ہمیشہ سے رہی ہے سوچا اس بار مشعل ہم تھام لیتے ہیں :)
 
جاسمن صاحبہ کے نام
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اجالا ہو جائے

ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت

زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا

مرے اللہ! برائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اس رہ پہ چلانا مجھ کو​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
نور سعدیہ شیخ کی سوچ فکر اور جذبے کی گہرائی کے نام
مجھ کو جو موجِ نفس دیتی ہے پیغامِ اجل لب اسی موجِ نفس سے ہے نوا پیرا ترا
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا
گریہ ساماں مَیں، کہ میرے دل میں ہے طوفانِ اشک شبنم افشاں تو، کہ بزمِ گل میں ہو چرچا ترا

بہت خوبصورت انتخاب ۔۔۔ پہلے پہل حیران بھی ہوئی کہ یہ واقعتا میرے لیے ہے ۔ میں خود کو ایسا سمجھتی نہیں ہوں مگر آپ کا حسنِ ظن ، آپ کا نیک خیال جو آپ نے میرے بارے میں رکھا ہے ، میرے دل سے بے ساختہ دعا نکلی ہے ۔۔۔۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں یعنی آپ جیسے جن کے دم سے جہاں میں رونق بکھری ہوئی ہے ۔۔
 
شمشاد کے نام

آزاد کی رگ سخت ہے مانندِ رگِ سنگ
محکوم کی رگ نرم ہے مانندِ رگِ تاگ

محکوم کا دل مردہ و افسردہ و نومید
آزاد کا دل زندہ و پُر سوز و طرب ناک

آزاد کی دولت دلِ روشن نفسِ گر
ممحکوم کا سرمایہ فقط دیدۂ نمناک

محکوم ہے بیگانۂ اخلاص و مروّت
ہر چند کہ منطق کی دلیلوں میں ہے چالاک

ممکن نہیں محکوم ہو آزاد کا ہمدوش
وہ بندۂ افلاک ہے، یہ خواجۂ افلاک
 
Top