محسن کراچی ہرچند رائے وشن داس

کراچی روشن کرنے والا

کراچی شہر کو روشنیوں کا شہر بنانے کا سہرا ہرچند رائے وشن داس کو جاتا ہے‘ ہرچند رائے وشن 1911ء تا 1921ء کے دوران کراچی میونسپلٹی کے صدر رہے اور اس عرصہ میں انہوں نے کراچی کو روشنیوں کا گہوارہ بنا دیا۔ ہرچند رائے کا جنم کوٹری شہر کے قریب ایک گاؤں میں ہوا تھا۔انہوں نے کراچی میونسپلٹی کے صدر کی حیثیت سے اپنے دور میں کراچی میں بے حد ترقیاتی کام کروائے۔ 1846 ء سے لے کر 1884ء تک کراچی میونسپلٹی میں افسروں اور اہل کاروں کا زور رہتا تھا اور اراکین بھی ایسے نامزد ہو کر آتے تھے جن پر اہل کاروں کا زور چلتا تھا۔یہ اراکین ہمیشہ افسروں کے کہنے پر عمل کرتے تھے۔1885ء سے کراچی میونسپلٹی میں نامزد اراکین کے علاوہ منتخب اراکین بھی آنے لگے۔ ہرچند رائے کی انتھک کاوشوں سے کراچی میونسپلٹی ایک عوامی ادارہ بنا۔ ہرچند رائے نے شہر کراچی میں مختلف برادریوں کے زیر انتظام کام کرنے والے سماجی اداروں کی بھی دل کھول کر مدد کی‘ان اداروں کو میونسپلٹی کی جانب سے مفت پلاٹ دئیے گئے تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔کراچی میں 1896ء سے 1897ء کے عرصے میں جب طاعون کی وباء پھیلی تو اس وقت ہرچند رائے میونسپلٹی میں کونسلر تھے‘ وباء سے نمٹنے کیلئے انھوں نے ایک عارضی ہسپتال قائم کیا جس کے انچارج ہرچند رائے اور ان کے کزن تھے۔ہرچند رائے نے پوری ٹیم کے ساتھ مل کر دن رات محنت کی۔
کراچی شہر میں ہر چند رائے کے دور سے قبل سڑکیں کچی ہوتی تھیں‘ سڑکوں کے کنارے پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ شہر میں تارکول ڈامبر سے بنائی جانے والی سڑکیں بھی انھوں نے متعارف کروائیں اور پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ بھی۔انھوں نے لیاری ندی کا رْخ تبدیل کر کے کراچی والوں کو ایک بڑی مصیبت سے چھٹکارا دلایا۔ لیاری ندی شہر کے درمیان میں بہتی تھی اور پانی کے تیز بہاؤ کے سبب شہریوں کے لیے مصیبت اور آزار کا سبب بنتی تھی۔ پانی اترنے کے بعد مچھروں کی بہتات ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے ملیریا کا بخار پھیل جاتا تھا۔اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے سیٹھ ہر چند رائے نے انجینئروں سے مشورے کے بعد ایک کارگر منصوبہ تیار کروایا۔ لیاری ندی گاندھی باغ (کراچی چڑیا گھر) کے قریب دھوبی گھاٹ پر بند باندھا گیا اور پانی کے بہاؤ کا رْخ تبدیل کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں مزید زمین میسر ہوئی اور اور ایک اور کوارٹر وجود میں آیا۔لوگوں کی رائے تھی کہ اس کوارٹر کا نام ہر چند رائے کے نام سے منسوب کیا جائے لیکن سیٹھ صاحب کا واضح موقف تھا کہ جب تک میونسپلٹی کی باگیں ان کے ہاتھ میں ہیں وہ اس قسم کا کوئی فائدہ نہیں لیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر چند رائے اپنے اصولوں کی کس حد تک پاس داری کرتے تھے۔
ہر چند رائے ایک آزاد خیال اور مذہبی رواداری پر یقین رکھنے والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنی سماجی اور سیاسی زندگی کے دوران ہمیشہ اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔آپ سائمن کمیشن کے بائیکاٹ میں بھی شریک رہے غرض کہ آپ بے حد غیر متعصب اور بے لوث سماجی رہنما تھے۔سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیوں ہوا؟ انڈین نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ جس کے قائد جناح تھے نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا لیکن ایک مسلم لیگ سر محمد شفیع کی قیادت میں پنجاب میں بھی تھی، انھوں نے سائمن کمیشن کو خوش آمدید کیا تھا۔بہرحال کانگریس اور جناح صاحب کا موقف یہ تھا کہ چوں کہ کمیشن میں کوئی بھی ہندوستانی شامل نہیں اس لیے یہ کمیشن ناقابل قبول ہے۔سائمن کمیشن کی آئینی منظوری کے لیے انڈین قانون ساز اسمبلی کے 1 فروری کو ہونے والے اجلاس میں وائسرائے نے تقریر کی۔ ہرچند رائے اس وقت خراب صحت کی بناء پر کراچی میں تھے۔ اسمبلی میں کمیشن کے حوالے سے ووٹنگ ہونا تھی۔ ہرچند رائے نے اپنی خراب صحت کے باوجود اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔"14 فروری کو وہ بہ ذریعہ ٹرین لاہور میل کے ذریعے کراچی سے روانہ ہوئے۔ ٹرین جب سماسٹہ اسٹیشن پہنچی تو شدید سردی کے سبب ان کی حالت بگڑنے لگی۔ وہ خون کی اْلٹیاں کرنے لگے۔ انھیں علاج کے لیے کہا گیا لیکن وہ دہلی جانے کے لیے بضد تھے۔16 فروری کی صبح وہ دہلی پہنچے ان کی حالت بہت خراب تھی‘ انھیں ٹرین سے کرسی پر بٹھا کر موٹر میں سوار کرایا گیا اور اسپتال لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بضد تھے کہ اسمبلی جا کر ووٹ دیں گے۔ اسمبلی کی جانب آتے ہوئے ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی بالآخر وہ اسمبلی کے گیٹ پر جان کی بازی ہار گئے۔ یہ تھی ان کی نظریاتی وابستگی اور سیاسی خلوص کی انتہا۔
ان کی آخری رسوم شان و شوکت سے ادا کی گئیں۔ ان کا اگنی سنسکار جمنا ندی کے کنارے پر کیا گیا۔ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کی یاد میں 28فروری 1928ء کو خالق دینا ہال میں ایک عوامی جلسہ منعقد کیا گیا۔ موتی رام سترام داس کے مطابق جلسے میں فیصلہ کیا گیا کہ مرحوم کی یاد میں ایک یادگار تعمیر کی جائے‘ اس سلسلے میں ایک کمیٹی ترتیب دی گئی۔6 سال بعد 16 فروری 1934 کو کراچی میونسپلٹی کمپاؤنڈمیں ان کے مجسمے کی تقریب رونمائی کی گئی۔ مجسمہ بنانے پر 16 ہزار روپے خرچ ہوئے۔ یہ رقم کراچی کے شہریوں سے حاصل کی گئی تھی۔ یہ مجسمہ مسٹر ٹام نے بنایا تھا۔
آنجہانی ہرچند رائے وشن داس کے کراچی پر بڑے احسانات ہیں۔ ان کے کردار اور خدمات کے اعتراف میں کراچی میں ان کا ایک مجسمہ نصب تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہٹا دیا گیا۔مجسمہ ہٹانے تک تو خیر لیکن ان کے نام سے موسوم سڑک کا نام تبدیل کر کے اسے ایک دوسرے سربراہِ بلدیہ صدیق وہاب سے موسوم کر دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اس مجسمے کے بارے میں اطلاعات آئیں کہ یہ مجسمہ میونسپلٹی کے گوداموں میں موجود ہے‘ پھر اطلاعات آئیں یہ مجسمہ مہوٹہ پیلس میں موجود ہے بعدازاں بعض صحافیوں اور محققین نے وہاں پہنچ کر مجسمہ دیکھا تو وہ سر سے محروم تھا۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا منظر تھا۔یقینا یہ سر کسی بت شکن نے قلم کیا ہوگا۔

مصنف : اختر بلوچ
کتاب : کرانچی والا
 
Top