محترم محمد علم اللہ بھائی سے مصاحبہ!

احبابِ ذی وقار! ہماری قسمت کی بازتابی ملاحظہ فرمائیے کہ محترمہ مریم افتخار صاحبہ اور محترم عدنان اکبری صاحب نے ہمیں مصاحبہ کمیٹی میں شامل کیا اورجائے مصاحبہ پر پہنچنے کے لیے ”ہوائی “کا ٹکٹ تھما دیا۔ اب بھلا ”اندھا کیا چاہے ؟دو آنکھیں“کے مصداق ہم کیسے رک سکتے تھے۔۔۔فوراً بستہ کسا اور ہواپر محوِ پرواز ہوائی جہاز سے "ہوائی" آن پہنچے۔۔۔ اور اب آپ کے سامنے موجود ہیں۔۔۔
جائے مصاحبہ کا انتخاب کرتے ہوئے عدنان بھائی کے پیشِ نظر یقینا بیگم اختر ریاض الدین کی قلمی سحر کاری رہی ہوگی جسے ہماری نگاہِ شوق (ترمیماً )کچھ اس انداز سے دیکھتی ہے کہ ۔۔۔ ہم جو کہ لمحہ بہ لمحہ کروٹیں بدلتے بحر الکاہل کے پہلو میں بچھی ریت پر سایہ کیے کچے پکے پپیتے اور ناریل کے درختوں کی چھاوں میں بیٹھے ہیں۔۔۔سمندر کی لہریں ساحل پر وقفے وقفے سے یوں مونگے اگلتی جارہی ہیں گویا صاحبِ مصاحبہ کا استقبال کر رہی ہوں۔دور پہاڑوں پر تاحدِ نگاہ سبزہ ہے۔۔۔گہرا اور نہایت گہرا سبزہ۔۔۔اور اسی سبزے کی ایک کڑی ہمارے پاوں تلے بچھی وہ مخملی گھاس ہے ۔۔۔جس پر پاوں رکھتے ہوئے گناہ کا خیال جاںگزیں ہونے لگتا ہے ۔۔۔گمان ہوتا ہے گویا کائنات پر نئے سرے سے شباب آتا جارہا ہو۔۔۔معزز محفلین !ان مناظر کی سحر کاری اپنی جگہ لیکن یقین جانیے آج کے صاحبِ مصاحبہ کی ہمارے درمیان موجودگی نے ماحول کو اور زیادہ دلفریب بنادیا ہے ۔ ۔۔اور یہ دلفریبی کیوں نہ بڑھے کہ حضرت کی ملنساری، ہنس مکھ طبیعت اور علم دوستی سے کون واقف نہیں۔۔۔
تو محفلین آپ سب کی بھرپورتالیوں کی گونج میں دعوت دوں گا جناب ۔۔۔۔۔محمدعلم اللہ صاحب کو!۔(محفلین کی تالیاں)
(محمدعلم اللہ بھائی کرسی مائیک کے نزدیک لے آتے ہیں)
 
آخری تدوین:
آپ کا مکمل نام اور یہ کس نے انتخاب کیا ۔۔؟
پیدائش کا ضلع ، عمر اور آپ کے ضلع کی کوئی خصوصیت ؟
کچھ گھر والوں کے بارے میں بتائیے۔خاندان میں کون کون شام ہے؟
آج کل طالب علم ہیں یا یہ سلسلہ رک چکا ہے ؟ اگر رک چکا ہے تو عملی زندگی میں کیا کر رہے ہیں ؟ اب تک حاصل کردہ تعلیم کا درجہ ؟ اگر جاری ہے تو اور کتنی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ہے ؟
عمومی پسندیدگی کے بارے میں بتائیے پسندیدہ قاری اور سورۃ ؟پسندیدہ نعت خواں اور نعت ؟پسندیدہ زبان ؟پسندیدہ شاعر ؟ اور کیوں ؟پسندیدہ شاعرہ ؟اور کیوں ؟
پسندیدہ گلو کار، گلو کارہ اور گیت؟پسندیدہ کھیل اور کھلاڑی ؟پسندیدہ رنگ ؟پسندیدہ لباس ؟پسندیدہ ریسٹورنٹ ؟پسندیدہ کھانا؟پسندیدہ ہیرو؟پسندیدہ ہیروئن ؟پسندیدہ فلم ؟پسندیدہ ڈرامہ ؟پسندیدہ سیاستدان ؟پسندیدہ مشاغل ؟
ابھی تک زندگی میں کون کونسی کامیابیاں حاصل کیں؟
 
آپ کا مکمل نام اور یہ کس نے انتخاب کیا ۔۔؟
جواب :
میرا نام محمد علم اللہ ہے ۔ یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ کس کا انتخاب ہے ۔تاہم اغلب امکان یہی ہے کہ یہ ابا کا چنُا ہوا نام ہے ۔ اکثر لوگ میرے نام میں غلطی کرتے ہیں ، کوئی عِلمُ اللہ کہتا ہے ۔ کوئی علام اللہ تو کوئی علیم اللہ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہ دراصل عَلَمُ اللہ ہے ، جس کے معنی اللہ کی نشانی یا جھنڈا کے ہیں ۔

پیدائش کا ضلع ، عمر اور آپ کے ضلع کی کوئی خصوصیت ؟
جواب :
پیدائش کا ضلع رانچی ہے جو ہندوستان کی ریاست جھارکھنڈ (جنگلوں کا ٹکلڑا) کی راجدھانی ہے ۔یہ ایک خوبصورت شہر ہے جو سطح سمندر سے 651 میٹر کی بلندی پر واقع اس اس شہر کا کل بلدیاتی علاقہ 175.12 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ سطح مرتفع دکن کے مشرقی کناروں پر موجود چھوٹا ناگپور سطح مرتفع کے جنوبی حصے پر واقع ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق رانچی کی آبادی 11 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ ہے یعنی یہ ہندوستا ن کا 46 واں سب سے بڑا اور جمشید پور اور دھنباد کے بعد ریاست کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
رانچی میں شرح خواندگی 77.13 فیصد ہے، جس میں مردوں میں پڑھے لکھے افراد کی شرح 85.63 اور عورتوں میں 68.2 فیصد ہے۔رانچی فضائی، ریل اور سڑک کے ذریعے رابطے ملک کے دیگر شہروں سے منسلک ہے۔ یہ جنوب مشرقی ریلویز کے منافع بخش ترین مقامات میں سے ایک ہے اور ہندوستان کے تمام ہی بڑے شہروں سے براہ راست منسلک ہے۔ جبکہ برسا منڈا ہوائی اڈے سے پٹنہ، دہلی، ممبئی، بنگلور اور کولکتہ کے لیے براہ راست پروازیں بھی چلتی ہیں۔ حج پروازوں کی وجہ سے کولکتہ پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ہوائی اڈے پر سعودی عرب کے لیے خصوصی پروازوں کا بھی حال ہی میں آغاز کیا گیا ہے۔
رانچی کو "آبشاروں کا شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کے قرب و جوار میں کئی چھوٹی بڑی آبشاریں موجود ہیں۔ جن میں سب سے مشہور دسام، ہندرو، جونہا، ہرنی اور پنچ گھاگھ کی آبشاریں ہیں۔شہر سے تقریبا چودہ کیلو میٹر دور ایک قصبہ پڑتا ہے جس کا نام اٹکی ہے ، میری پیدائش وہیں 15 فروری 1989 کو ہوئی ۔
ہمارے ضلع کی بے انتہا خصوصیات ہیں ، یہاں کا پپیتہ بہت مشہور ہے ۔ زیادہ تر آدی واسی قبائلی لوگ آباد ہیں جو بہت بھولے بھالے اور بے ضرر ہوتے ہیں ۔ لیکن اب ا ن علاقوں اور یہاں کے مکینوں کو بھی سیاست نے بگاڑ دیا ہے جس کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں معروف مذہبی آریہ سماج کے اسی سالہ پیشوا کو جھارکھنڈ کے رانچی ضلع میں سر عام پیٹا گیا جس سے علاقہ کی بڑی بدنامی ہوئی ۔ ادھر گائے ذبیحہ کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات بھی تواتر سے یہاں پیش آئے ہیں جس نے عام لوگوں کو خصوصا اقلیتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

جاری
 

سید عمران

محفلین
یہ بھی خوب رہی کہ دوسروں کے انٹرویوز میں جھانکا جا رہا ہے اور اپنے انٹرویو کی کوئی خیر خبر ہی نہیں لی جا رہی ہے o_O
ہمارے انٹرویو کی خیر خبر مریم صاحبہ نے خوب لے رکھی ہے۔۔۔
بس وہ کام کے انٹرویو ز سے فارغ ہوجائیں تو آخر میں تلچھٹ بھی نمٹالیں گی!!!
 

سین خے

محفلین
ہمارے انٹرویو کی خیر خبر مریم صاحبہ نے خوب لے رکھی ہے۔۔۔
بس وہ کام کے انٹرویو ز سے فارغ ہوجائیں تو آخر میں تلچھٹ بھی نمٹالیں گی!!!

مفتی صاحب نمٹانا آپ کو ہی پڑے گا :p جوابات عنایت فرمائیے۔ ہم آپ کے جوابات کے انتظار میں سوکھے چلے جا رہے ہیں!
تیرہویں سالگرہ - محترم سید عمران صاحب سے گفتگو
 
آپ کا مکمل نام اور یہ کس نے انتخاب کیا ۔۔؟
جواب :
میرا نام محمد علم اللہ ہے ۔ یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ کس کا انتخاب ہے ۔تاہم اغلب امکان یہی ہے کہ یہ ابا کا چنُا ہوا نام ہے ۔ اکثر لوگ میرے نام میں غلطی کرتے ہیں ، کوئی عِلمُ اللہ کہتا ہے ۔ کوئی علام اللہ تو کوئی علیم اللہ وغیرہ وغیرہ ۔ لیکن یہ دراصل عَلَمُ اللہ ہے ، جس کے معنی اللہ کی نشانی یا جھنڈا کے ہیں ۔

پیدائش کا ضلع ، عمر اور آپ کے ضلع کی کوئی خصوصیت ؟
جواب :
پیدائش کا ضلع رانچی ہے جو ہندوستان کی ریاست جھارکھنڈ (جنگلوں کا ٹکلڑا) کی راجدھانی ہے ۔یہ ایک خوبصورت شہر ہے جو سطح سمندر سے 651 میٹر کی بلندی پر واقع اس اس شہر کا کل بلدیاتی علاقہ 175.12 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ سطح مرتفع دکن کے مشرقی کناروں پر موجود چھوٹا ناگپور سطح مرتفع کے جنوبی حصے پر واقع ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق رانچی کی آبادی 11 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ ہے یعنی یہ ہندوستا ن کا 46 واں سب سے بڑا اور جمشید پور اور دھنباد کے بعد ریاست کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے۔
رانچی میں شرح خواندگی 77.13 فیصد ہے، جس میں مردوں میں پڑھے لکھے افراد کی شرح 85.63 اور عورتوں میں 68.2 فیصد ہے۔رانچی فضائی، ریل اور سڑک کے ذریعے رابطے ملک کے دیگر شہروں سے منسلک ہے۔ یہ جنوب مشرقی ریلویز کے منافع بخش ترین مقامات میں سے ایک ہے اور ہندوستان کے تمام ہی بڑے شہروں سے براہ راست منسلک ہے۔ جبکہ برسا منڈا ہوائی اڈے سے پٹنہ، دہلی، ممبئی، بنگلور اور کولکتہ کے لیے براہ راست پروازیں بھی چلتی ہیں۔ حج پروازوں کی وجہ سے کولکتہ پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنے کے لیے ہوائی اڈے پر سعودی عرب کے لیے خصوصی پروازوں کا بھی حال ہی میں آغاز کیا گیا ہے۔
رانچی کو "آبشاروں کا شہر" کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کے قرب و جوار میں کئی چھوٹی بڑی آبشاریں موجود ہیں۔ جن میں سب سے مشہور دسام، ہندرو، جونہا، ہرنی اور پنچ گھاگھ کی آبشاریں ہیں۔شہر سے تقریبا چودہ کیلو میٹر دور ایک قصبہ پڑتا ہے جس کا نام اٹکی ہے ، میری پیدائش وہیں 15 فروری 1989 کو ہوئی ۔
ہمارے ضلع کی بے انتہا خصوصیات ہیں ، یہاں کا پپیتہ بہت مشہور ہے ۔ زیادہ تر آدی واسی قبائلی لوگ آباد ہیں جو بہت بھولے بھالے اور بے ضرر ہوتے ہیں ۔ لیکن اب ا ن علاقوں اور یہاں کے مکینوں کو بھی سیاست نے بگاڑ دیا ہے جس کے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں معروف مذہبی آریہ سماج کے اسی سالہ پیشوا کو جھارکھنڈ کے رانچی ضلع میں سر عام پیٹا گیا جس سے علاقہ کی بڑی بدنامی ہوئی ۔ ادھر گائے ذبیحہ کے نام پر ہجومی تشدد کے واقعات بھی تواتر سے یہاں پیش آئے ہیں جس نے عام لوگوں کو خصوصا اقلیتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔

جاری
ہائے ری قسمت! ہم خوامخواہ یہاں ہوائی پہنچے، پہلے بتادیتے کہ آپ اتنے حسین شہر میں رہ رہے ہیں تو آپ ہی کے شہر مصاحبے کا اہتمام ہوجاتا ۔ ویسے اب بھارت پہنچتے ہی پپیتے کی پوری پیٹی پاکستان پہنچنی چاہیے۔۔۔وہ بھی فوراً
 
اردو ادب سے کیسے شغف پیدا ہوا؟
گھر میں کون کون اردو سے گلاو رکھتا ہے ؟
آپ کے ہاں سلیبس میں اردو کی کیا پوزیشن ہے ؟ مطلب لازمی ہے یا اختیاری؟ اگر لازمی ہے تو کس درجے تک ؟
آپ کے شہر سے کون سے معروف ادبا کا تعلق رہا ہے ؟
کیا وہاں باقاعدہ مشاعروں کا اہتمام ہوتاہے ؟
آپ عملی زندگی میں کونسی ادبی تنظیموں سے منسلک رہے ؟
اردوکے حوالے سے کوئی اہم کامیابی؟
آپ کے خیال میں اردو کی بہتر خدمت کو ن اور کیسے کر رہا ہے ۔۔۔پاکستان یا بھارت ؟
پاکستان کے بارے میں وہاں کے مسلمانوں کے عمومی خیالات کیا ہیں ؟
اگر کبھی موقع ملا تو کونسے اسلامی ممالک کی سیر کرنا چاہیں گے ؟
کوئی ایسا بن پوچھا سوال جس کا خود سے جواب دینا چاہیں ؟
 
آخری تدوین:
کچھ گھر والوں کے بارے میں بتائیے۔خاندان میں کون کون شامل ہے؟

جواب :
اتنا سب کچھ مت پوچھئے یہ جاسوسی لگتی ہے ۔ ایسے گھر میں اللہ کا شکر ہے ۔ امی ابو بھائی ، بہن ، چچا ، چچی سبھی ہیں ۔ خاندان میں امی ، ابو بھائی ، بہن سبھی شامل ہیں ۔ دادا دادی کو دیکھ نہیں سکے تھے ۔ ہم لوگوں کا وجود بھی نہ تھا تب ہی دادا دادی اس دنیا سے جا چکے تھے ۔ ہمیشہ دادا ، دادی کو دیکھنے یا کسی بزرگ کا گھر میں ہونے کی کسک رہی ۔ ہم چار بھائی اور چار بہن ہیں ۔ میں چوتھے نمبر پر ہوں ۔ مجھ سے ایک بڑا بھائی اور دو بڑی بہنیں ہیں ۔
 
آج کل طالب علم ہیں یا یہ سلسلہ رک چکا ہے ؟ اگر رک چکا ہے تو عملی زندگی میں کیا کر رہے ہیں ؟ اب تک حاصل کردہ تعلیم کا درجہ ؟ اگر جاری ہے تو اور کتنی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ ہے ؟
جواب :
لکھنے پڑھنے والا تو ہمیشہ طالب علم ہی رہتا ہے ۔ اس حساب سے اگر دیکھا جائے تو طالب علم ہی ہوں ۔ ایسے با ضابطہ تعلیم کا سلسلہ ابھی رکا ہوا ہے ۔ پی ایچ کی تمنا ہے ۔ فی الحال جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہا ہوں ۔ جس میں خبریں بنانا اور میڈیا سے متعلق چیزوں کو دیکھنا ذمہ داریوں میں شامل ہے ۔ میں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ سے حاصل کی ۔ یہ مدرسہ، یوپی ضلع اعظم گڈھ کے سرائے میر میں واقع ہے ۔ میں نے وہیں سے فضیلت کی ، پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ و ثقافت میں گریجویشن اور ایم اے ۔میڈیا سے دلچسپی ہونے کے سبب ماس کمیونی کیشن سے بھی بعد میں ایم اے کیا ۔ اردو ادب سے دلچسپی ہے ۔شاعری ،کہانیاں اور افسانے لکھنا شوق ۔ اب تک دو کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں ۔ ایک تاریخ پر مبنی ہے "مسلم مجلس مشاور ت ایک مختصر تاریخ " یہ دو سو صفحے کی کتاب ہے ۔ اور اببی حال ہی میں ایک سفرنامہ منظر عام پر آیا ہے "ایران میں کچھ دن "کے نام سے ۔ دونوں کتابوں کو استاذ محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے ایڈٹ کیا ہے جو علم اور تحقیق کی دنیا میں ایک معتبر نام ہے ۔ دونوں کتابیں انھیں کے ادارے فیروس میڈیا ہاوس سے شائع ہوئی ہیں ۔
 
Top