محترم استذہ اکرام کی خدمت میں ایک غزل برائے اصلاح۔

محمد عسکری

محفلین
دِلوں کو موم بناؤ تو کوئ بات بنے.
خوشی کے دیپ جلاؤ تو کوئ بات بنے.

حقیر و ناتواں مفلس کو سب ستاتے ہیں.
ترس غریب پہ کھاؤ تو کوئ بات بنے.

اداس رہنے سے دل کا سکون جاتا ہے.
غموں میں خود کو ہنساؤ تو کوئ بات بنے.

جہاں بھی دیکھو وہیں پر فساد برپا ہے.
پیامِ امن سناؤ تو کوئ بات بنے.

قدم قدم پہ فسوں گر ہیں بے وفائ کے.
ہنر وفا کے دکھاؤ تو کوئ بات بنے.

جسے بھی دیکھو غرور و حسد میں ڈوبا ہے.
خودی کا بغض مٹاؤ تو کوئ بات بنے.

صنم کی راہ میں جانوں کو وارنے والوں.
وطن پہ مرکے دکھاؤ تو کوئ بات بنے.

حرام مال کا حاصل بہت ہی آساں ہے.
حلال رزق کماؤ تو کوئ بات بنے.

ہزار غم ہیں تری زندگی میں ائے عارف.
دُکھوں میں شکر مناؤ تو کوئ بات بنے.
------محمد عسکری عارف------
 
Top