محبت کی یہ نرم دلی کہ بات بات پہ رو دیا

محمد مسلم

محفلین
غزل
محبت کی یہ نرم دلی کہ بات بات پہ رو دیا
دھواں دھواں امیدوں کی پریشاں خاک پہ رو دیا
وہ انا، وہ خودی، وہ خود داریاں کیا ہوئیں؟
جنونِ عشق میں اپنے دامنِ چاک پہ رو دیا
وہ خوش لباسی گئی، وہ خوش کلامی گئی
دشتِ عشق میں فگار، قدمِ خاک پہ رو دیا
وہ تحکم، وہ تکلم، وہ رعب و دبدبہ تمام
جو شعارِ حیات تھا، میں اسی کی مات پہ رو دیا
کہاں وہ علم کی یورشیں؟ کہاں یہ دلسوز کلام؟
میں گر کے اس مقام سے، اپنی اوقات پہ رو دیا
کہاں تیری گرم نگاہی، کہاں یہ تیری سرد مہری
دیکھ کر منقلب، میں اپنے حالات پہ رو دیا
کہاں وہ سنگدلی اپنی، کہاں شعلہ آشام لہجہ
تیری زلف کا اسیر ہوا تو میں بات بات پہ رو دیا
کہاں خوابوں کی رنگینیاں، کہاں نیند سے وحشتیں
عاشقی میں ملی بیداری کی سوغات پہ رودیا
یہ گرد آلود چہرہ، یہ خاک خاک گیسو اپنے
میں خود ہی اپنے تبدیلیءِ حالات پہ رو دیا
کہاں وہ قہقہے گئے، کہاں وہ زمزمے گئے
ہوا گرفتارِ بلا، تو گردشِ حالات پہ رو دیا
سوچا تو نہ تھا کبھی، یوں ہو جائے گی جدائی
آخری ملاقات میں، وداعِ المناک پہ رو دیا
شاعری: محمد مسلم
 
Top