مجھے جستجوئے عشق ہے تیری قربتوں کا سوال ہے

متلاشی بیٹا ! آپ خوش قسمت ہیں کہ محترم عبید صاحب اور برادر وارث صاحب نے اتنا وقت دیا اب تھوڑی سی محنت کرو اور سیدھا لکھ دو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے جستجوءِ وصال ہے، تیری قربتوں کا سوال ہے
تو مزاج ِ عشق سے آشنا ہے یہ میرا خام خیال ہے
یا

مجھے جستجوءِ وصال ہے، تیری قربتوں کا سوال ہے
میں کشان ِ عشق سے آشنا ہوں کہ ہجر تیرا محال ہے
بس ایک بات دھیان میں رہے کہ ایک شعر کا خیال دوسرے کسی شعر میں نہ دہرائیں، ہر شعر میں ایک جیسی بات کرنے کی بجائے کچھ مختلف کہنے کی کوشش کیجئے اور وزن کیلئے الفاظ کو آگے پیچھے کر کے یا بے وزن الفاظ کے ہم معنی یا مترادف الفاظ استعمال کر کے وزن درست کرنے کی کوشش کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔خوش آباد
 

متلاشی

محفلین
محترمی و مکرمی جناب فاروق درویش صاحب آپ کی نوازشوں کا بہت بہت شکریہ۔۔۔آپ کی بیان فرمودہ باتوں کو تہِ دل سے ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا۔
 

متلاشی

محفلین
اساتذان جناب الف عین صاحب اور فاروق درویش صاحب کی خدمت یہ غزل بطور اصلاح۔۔۔مرے خیال سے اب اس میں بحور واوذان کی کوئی غلطی نہیں۔۔۔اگر ہو تو اساتذانِ گرامی مطلع فرمائیں۔

مجھےجستجوترےعشق کی، تری قربتوں کاسوال ہے
نہیں عشق سے ابھی آشنا، مرے دوستوں کا خیال ہے
مرا خامہ اس کا گواہ ہے ، مری شاعری بھی دلیل ہے
مری سانس ہے جو رواں دواں، تری چاہتوں کا کمال ہے
تو نگاہ سے مری دور ہے ، دل وجاں سے پھر بھی قریب ہے
یہ فراق ہے نہ وصال ہے ، تری شفقتوں کا یہ حال ہے
تجھے زندگی میں ہے کیا ملا، یہی عشق تو نہیں زندگی
تو نہ ان کی بات کا خوف کر، ترے دشمنوں کی یہ چال ہے
جونہ مل سکاوہ تو کیا ہوا، کسی اور کا وہ نصیب تھا
نہیں ہار یہ ترے عشق کی ، تری الفتوں کا زوال ہے
مری منزلیں تو ہیں دور پر، مری جستجو کو دوام ہے
مری عاشقی ہے جدا نصر، کوئی مثل ہے نہ مثال ہے
15-10-11
 

متلاشی

محفلین
شاید یہاں اساتذان نظرِ کرم فرمانا بھول گئے ہیں۔۔۔ میں نے پوچھا کہ تھا کہ کیا یہ غزل اب مکمل طور پر بہر میں ہے یا ابھی بھی بحور و اوذان کی کوئی غلطی باقی ہے۔۔۔۔! مہربانی فرما کر مطلع کریں۔۔۔ شکریہ۔۔۔!
 
Top