مجنونِ دوہزار بارہ :: میری ایک تازہ مزاحیہ نظم

عطاء رفیع

محفلین
چھیڑ خانی کے وہ قصے ہم جو سنتے روز تھے
کچھ تو ان میں کامیاب اور کچھ سبق آموز تھے

رفتہ رفتہ یہ فسانے کچھ اثر دکھلا گئے
جو درشتی تھی طبیعت میں اسے پگھلاگئے

کچھ پوائنٹس ہم نے پھر استاد بشیرے سے لیے
رہ گئے جو ایک دو، اللہ بخشے نے دیئے
(استاد بشیر اور اللہ بخش، میرے دو اساتذہ، جن سے عشق فرمانے کے اسباق لیے)

رفتہ رفتہ کچھ طبیعت بھی ادھر مائل ہوئی
دل کو بہلایا تو پھر اس کی رضا شامل ہوئی

ایک جوڑا لے لیا کہ امپریشن بھی پڑے
ساتھ ہی کچھ بال بھی پھر ہم نے لمبے کرلیے

کچھ پریکٹس بھی کَرِی کہ بعد میں غلطی نہ ہو
کہ ایک ہی شمع رہے جو خیر سے جلتی نہ ہو

ایک ڈیمو(demo) کی تمنا پھر ہمارے دل میں تھی۔
دیکھ لیں تاثیر کتنی ہمتِ کامل میں تھی؟

آرزوئے tease (چھیڑنا) لے کر سڑک پر نیکل پڑے
جس طرف اٹھی نظر ہم اس طرف ہی چل پڑے

دفعتاً آنکھوں کے آگے نازنیں اک آگئی
اس سراپے پر ہمارے ظلم سارے ڈھاگئی

ہوش گم کردہ، حواسِ پنج بھی کھویا کیے
کچھ توقف کرلیا، اس سمت پھر دیکھا کیے

استاد کے جن ٹوٹکوں سے تھے مسلح ہم ہوئے
ذہن کے پردے میں اس دم، یک بیک آنے لگے

سادگی کو ترک کرکے، چشمہ ہم پہنا کیے
ہاتھ بھی بالوں میں اِک دوبار ہم پھیرا کیے

لب ہلائیں؟ جملہ بولیں؟ یا اشارہ کریں؟
یہ کریں اور وہ کریں۔ یا اور ہی چارہ کریں؟

سوچتے ہی رہ گئے کہ کیا کریں؟ کیسے کریں؟
ایسے کریں تو کیا کریں، ویسے کریں تو کیا کریں؟

فیصلہ مشکل ہوا تو کچھ ہمیں سوجھا نہیں
بس تو پھر وہ ہوگیا، تھا جس طرح سوچا نہیں

اس طرح ہم ان کو روکے راستے کے بیچ میں
کہ باڈی لینگویج آگئی تھی سادہ سی اسپیچ میں

دو قدم ہم نے اٹھائے، ایک قدم ان کا اٹھا
ایک لحظہ تھا ہوا میں، جم کے سینے پر پڑا

ہم جنہیں محبوب سمجھے، وہ تو نکلے فائٹر
لات کھا، اچھلے گرے، یہ سب اسی کا تھا اثر

بعد اس کے لاتوں اور مکوں کی بارش ہوگئی
جسدِ نازک کی ہمارے خوب مالش ہوگئی

اس قدر خاطر تواضع سے نہ ہم ٹھنڈے ہوئے
بھائی اس کے اور بھی چھ سات مشٹنڈے ہوئے

چھ بار پورے زور سے ظالم ہمیں پھینکا کیے
اتنے ہی زیادہ زور سے وہ سب ہمیں کھینچا کیے

چھیڑنے سے ہم تو یارو توبہ تائب ہوگئے
جتنے دیکھے خواب تھے، وہ سارے غائب ہوگئے​
(یہ نظم استاد عادل لکھنوی سے متاثر ہوکر لکھی گئی، اور خیالات بھی انہی کی نظم سے ماخوذ ہیں۔ شکریہ)​
 
Top