متحدہ عرب امارات کا مریخ پر جانے والا خلائی مشن ’ہوپ‘

سین خے

محفلین
متحدہ عرب امارات کا ’ہوپ مشن‘

وناتھن ایموس
بی بی سی سائنس رپورٹر
14 جولائی 2020
اپ ڈیٹ کی گئی 20 جولائی 2020

_113523271_mediaitem113523270.jpg

،تصویر کا ذریعہUAE SPACE AGENCY

،تصویر کا کیپشن
متحدہ عرب امارات کی تاریخ کے پہلے خلائی مشن کو خراب موسم کی وجہ سے ملتوی کر دیا گیا تھا مگر آج اسے جاپان سے لانچ کر دیا گیا ہے

متحدہ عرب امارات کا مریخ پر جانے والا خلائی مشن ’ہوپ‘ آج جاپان کے تانیگاشیما خلائی اڈے سے روانہ کر دیا گیا ہے اور یہ سات ماہ کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گا۔

اس سے قبل اس کی 15 جولائی کے لیے طے شدہ لانچ کو خراب موسم کے باعث ملتوی کر دیا گیا تھا۔

پچاس کروڑ کلومیٹر طویل سفر کے بعد یہ روبوٹک خلائی جہاز فروری 2021 میں مریخ تک پہنچے گا۔

مریخ پر اس کی آمد متحدہ عرب امارات کے قیام کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر ہوگی۔

ہوپ مریخ پر رواں ماہ بھیجے جا رہے تین خلائی مشنز میں سے ایک ہے۔ امریکہ اور چین دونوں کی ہی خلائی گاڑیاں اپنی تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔


متحدہ عرب امارت کا مارس ہوپ مشن کیا ہے؟
متحدہ عرب امارات اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ سیارہ مِرّیخ کا موسم اور اس کی آب و ہوا کے تجزیے کے لیے ایک مصنوعی سیارچہ بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

ایک اعشاریہ تین ٹن وزنی اس سیٹلائٹ کا نام ہوپ یعنی اُمید ہے اور اسے جاپان کے ایک دور دراز خلائی اڈے تانیگاشیما سے ایک ایچ ٹو اے راکٹ کے ذریعے لانچ کیا گیا ہے۔

ہوپ کی سائنسی ٹیم کی سربراہ سارہ العامری ہیں جو متحدہ عرب امارات کی وزیرِ سائنسی ترقی بھی ہیں۔

وہ کئی لحاظ سے اس مشن کا چہرہ ہیں اور وہ اوائل میں محمد بن راشد سپیس سینٹر سے بطور سافٹ ویئر انجینیئر وابستہ ہوئی تھیں۔ اب وہ خلا کے لیے اپنے اس جذبے کو آگے پھیلانا چاہتی ہیں۔

_113364191_p08knd7f.jpg

،تصویر کا کیپشن
ہوپ کی سائنسی ٹیم کی سربراہ سارہ العامری ہیں جو متحدہ عرب امارات کی وزیرِ سائنسی ترقی بھی ہیں

متحدہ عرب امارات مریخ پر کیوں جا رہا ہے؟
متحدہ عرب امارات کے پاس خلائی جہاز ڈیزائن اور تیار کرنے کا محدود تجربہ ہے اور اس کے باوجود یہ ایسی چیز کی کوشش کر رہا ہے جو اب تک صرف امریکہ، روس، یورپ اور انڈیا ہی کامیابی سے کر پائے ہیں۔

مگر اس سے اماراتیوں کے عزم میں اضافہ ہوا ہے کہ انھیں بھی اس چیلنج پر کام کرنا چاہیے۔

امریکی ماہرین کی زیرِ تربیت ان کے انجینیئروں نے صرف چھ سال کے عرصے میں ایک جدید سیٹلائٹ بنا لی ہے اور جب یہ سیٹلائٹ مریخ تک پہنچے گی تو امید کی جا رہی ہے کہ اس سے نئے سائنسی حقائق سامنے آئیں گے اور اس سیارے کی فضا کے بارے میں تازہ معلومات حاصل ہو سکیں گی۔

_113363911_mediaitem113363434.jpg

بالخصوص سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس سے ہماری فہم میں اضافہ ہوگا کہ مریخ نے کس طرح اپنی فضا کا بڑا حصہ گنوا دیا جس کے ساتھ ہی اس پر موجود پانی کی کثیر مقدار بھی ختم ہوگئی۔

ہوپ کو ایک ایسا متاثر کُن مشن قرار دیا جا رہا ہے جس سے امارات اور عرب خطے میں زیادہ نوجوان لوگ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے گی۔

یہ بات اہم ہے کہ ہوپ پر کام کرنے والے اماراتیوں میں سے 34 فیصد خواتین ہیں۔ سارہ کہتی ہیں کہ 'مگر یہ بات زیادہ اہم ہے کہ ہمارے پاس اس مشن کی قیادت کرنے والی ٹیم میں بھی صنفی مساوات ہے۔'

متحدہ عرب امارات کی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ سیٹلائٹ اُن کئی منصوبوں میں سے ایک ہے جن کا مقصد ملکی معیشت کا انحصار تیل اور گیس سے ختم کر کے اسے سائنس و ٹیکنالوجی پر مبنی ایک معیشت بنانا ہے۔

مگر مریخ کے معاملے میں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی خطرات بہت ہے۔ سرخ سیارے تک بھیجے گئے تقریباً نصف مشن ناکام ہوئے ہیں۔ ہوپ کے پراجیکٹ ڈائریکٹر عُمران شریف ان خطرات سے آگاہ ہیں مگر ان کا اصرار ہے کہ ان کا ملک کوشش کرنے میں حق بجانب ہے۔

حق بجانب ہے۔

_113358981_emm-hope-060620190048rev2-5x7.jpg

،تصویر کا ذریعہMBRSC


بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'یہ ایک تحقیقی مشن ہے اور ناکامی کا امکان بالکل موجود ہے۔'

'تاہم بحیثیتِ قوم ترقی کرنے میں ناکامی کا آپشن موجود نہیں ہے۔ اور یہاں پر سب سے زیادہ معنی جو چیز رکھتی ہے، وہ اس مشن سے متحدہ عرب امارات کو حاصل ہونے والی صلاحیت اور علم ہے۔'

متحدہ عرب امارات کی حکومت نے پراجیکٹ کی ٹیم کو بتایا کہ وہ کسی بڑی غیر ملکی کمپنی سے خلائی جہاز نہیں خرید سکتے اس لیے انھیں یہ سیٹلائٹ خود بنانی ہوگی۔

اس کا مطلب اُن امریکی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری کرنا تھا جن کے پاس اس حوالے سے تجربہ موجود تھا۔ اماراتی اور امریکی انجینیئروں اور سائنسدانوں نے مل خلائی جہاز کے سسٹم اور وہ تین آلے تیار کیے جو مریخ کی فضا کا جائزہ لیں گے۔

زیادہ تر تیاری یونیورسٹی آف کولوراڈو کی ایک لیب میں ہوئی مگر خاصا کام دبئی میں محمد بن راشد سپس سنیٹر میں بھی ہوا۔

_113363433_mediaitem113363432.jpg

،تصویر کا ذریعہESA/DLR/FU BERLIN

،تصویر کا کیپشن
مریخ کی سطح کے خدوخال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کبھی بڑی مقدار میں پانی بہا کرتا تھا

یہ سیارچہ مریخ پر کیا کرے گا؟
اماراتی صرف وہ سائنس نہیں کرنا چاہتے تھے جو دوسرے ادارے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس لیے وہ ناسا کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ متحدہ عرب امارات ایسی کیا سائنس کر سکتا ہے جو موجودہ علم میں اضافہ کرے گی۔

ناسا کے مارس ایکسپلوریشن پروگرام اینالیسس گروپ کی سفارشات کی روشنی میں اس پراجیکٹ کے مقاصد طے کیے گئے۔

یہ سیٹلائٹ یہ جانچے گی کہ مریخ کی فضا میں توانائی کیسے منتقل ہوتی ہے، اور یہ پیمائش دن کے تمام اوقات اور سال کے تمام موسموں میں کی جائے گی۔

اس کے علاوہ یہ مریخ پر موجود اس مٹی کا بھی جائزہ لے گی جو اس سیارے کے درجہ حرارت پر اثرانداز ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ یہ فضا کے بالکل اوپر موجود ہائیڈروجن اور آکسیجن کے ایٹموں کا بھی جائزہ لے گی۔ سائنسدانوں کو شبہ ہے کہ یہ ایٹم مریخ کی فضا کے بتدریج خاتمے میں کردار ادا کرتے ہیں۔

اس سب سے یہ معلوم ہو پائے گا کہ مریخ پر اب پانی کیوں موجود نہیں جو کہ ماضی میں واضح طور پر موجود تھا۔

یہ مشاہدات کرنے کے لیے ہوپ مشن سیارے سے 22 ہزار سے 44 ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر پرواز کرے گا۔
 

سین خے

محفلین

متحدہ عرب امارات مریخ پر مشن بھیجنے والا پہلا عرب ملک

متحدہ عرب امارات سے پہلے امریکہ، بھارت، سابق سوویت یونین اور یورپی سپیس ایجنسی مریخ کے لیے مشن بھیج چکے ہیں جبکہ چین بھی اپنا پہلا مریخ مشن روانہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو
جمعہ 10 جولائی 2020 16:00
sharethis.svg

97171-310667445.jpg



گذشتہ سال حضاالمنصوری وہ پہلے اماراتی شہری تھے جو خلا کے سفر پر گئے، ان کا یہ مشن آٹھ دن پر محیط تھا(اے ایف پی)

جوہری بجلی پروگرام اور خلا میں انسان بھیجنے کے بعد متحدہ عرب امارات کی نظریں اب مریخ پر ہیں۔

متحدہ عرب امارات سے پہلے امریکہ، بھارت، سابق سوویت یونین اور یورپی سپیس ایجنسی مریخ کے لیے مشن بھیج چکے ہیں جبکہ چین بھی رواں مہینے کے آخر تک اپنا پہلا مریخ مشن روانہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔

اپنے اتحاد کی 50 ویں سالگرہ پر متحدہ عرب امارات پرامید ہے کہ وہ 15 جولائی کو جاپان سے بھیجے جانے والے راکٹ سے اپنا ہدف حاصل کر لے گا۔ اس راکٹ پر کوئی انسان سوار نہیں ہو گا۔

دبئی اس سے پہلے 50 کروڑ درہم کی لاگت سے ایک خیالی مارشین سٹی تعمیر کرنا چاہتا ہے جو اس کے صحرا کو 'سائنس سٹی' میں تبدیل کر دے گا۔

گذشتہ سال حضاالمنصوری وہ پہلے اماراتی شہری تھے جو خلا کے سفر پر گئے، ان کا یہ مشن آٹھ دن پر محیط تھا۔

دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے منگل کو اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: 'ہمارے اجداد سفر کے دوران ستاروں کا تعاقب کر کے فتوحات حاصل کرتے تھے اور ہماری آنے والی نسلیں ان پر اپنا مستقبل تعمیر کریں گی۔'

یو اے ای کی سپیس ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل محمد الاحبابی کہتے ہیں: 'یو اے ای جان چکا ہے کہ خلا ہماری ترقی اور استحکام کے لیے بہت ضروری ہے۔'

مریخ مشنز کے 60 سال

گذشتہ 60 سال میں تقریباً 40 مریخ مشن روانہ کیے جا چکے ہیں جن میں سے نصف کامیاب رہے۔ یہاں ہم مشنز کی مختصر تفصیلات درج کر رہے ہیں۔

مریخ پر پہلا تحقیقی مشن سابق سوویت یونین نے 1960 میں روانہ کیا لیکن یہ اس کے بعد بھیجے جانے والے کئی مشنز کی طرح ناکام رہا۔ 1964 میں بھیجا جانے والا مشن وہ پہلا موقع تھا جب مریخ کا قریب سے مشاہدہ کیا گیا لیکن اس مشن میں کوئی تحقیق نہ کی جا سکی۔

15 جولائی، 1965 کو امریکی خلائی جہاز میرین چار نے اس وقت تاریخ رقم کر دی جب یہ سرخ سیارے کے اوپر سے گزرا اور اس کی بھیجی جانے والی 20 تصاویر میں سرخ سیارے کی صحرا نما سطح کو دیکھا گیا۔ جس کے بعد میرین چھ اور سات نے بھی 1969 میں درجنوں تصاویر حاصل کیں جبکہ میرین نو نے 1971 میں مریخ کے گرد چکر لگا کر پہلی بار وہاں موجود آتش فشاں پہاڑوں اور دریا کی تفصیلی تصاویر فراہم کیں۔

دسمبر 1971 میں سابق سوویت یونین کا خلائی جہاز مارس تھری وہ پہلا سپیس کرافٹ تھا جس نے مریخ پر سافٹ لینڈنگ کی لیکن 20 سکینڈز بعد اس کا زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

جولائی 1976 میں بھیجا جانے والا خلائی جہاز وائیکنگ وہ پہلا خلائی جہاز تھا جس نے مریخ پر کامیابی سے لینڈ کرتے ہوئے اپنا مشن مکمل کیا جس کے بعد ستمبر میں وائیکنگ ٹو کو روانہ کیا گیا۔ ان دونوں مشنز میں 50 ہزار سے زائد تصاویر پر مبنی مریخ پر زندگی نہ ہونے کے شواہد حاصل کیے گئے۔

1990 کی دہائی سے مریخ کی جانب دوبارہ توجہ دی جا رہی ہے اور اب تک سات مشنز ناکام ہو چکے ہیں لیکن امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے 1997 میں دو کامیابیاں حاصل کیں، جن میں جولائی میں مریخ پر بھیجا جانے والا مارس پاتھ فائنڈر اور ستمبر میں بھیجے جانے والا مارس گلوبل سرویئر شامل ہیں۔

یہ دونوں مشینز مریخ سے متعلق معلومات کے حصول اور وہاں موجود معدنیات کی تلاش میں کامیاب رہے۔ دسمبر 2003 میں یورپی سپیس ایجنسی کا بھیجا جانے والا تحقیقی مشن ابھی تک فعال ہے جبکہ منی لینڈر بیگل ٹو نے سیارے پر زندگی کے آثار سے متعلق کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔

امریکہ کے جیولوجیکل روبوٹس سپرٹ اور اوپرچیونٹی 2004 سے 2010 اور 2010 سے 2018 کے درمیان کامیابی سے اپنے مشن مکمل کر چکے ہیں۔ اوپرچیونٹی نے مریخ پر اب تک طویل ترین 45 کلو میٹر کا سفر کرتے ہوئے دو لاکھ سے زائد تصاویر حاصل کیں۔ 2012 میں بھیجے جانے والا روبوٹ کیوروسٹی مریخ پر موجود وہ واحد گاڑی ہے جو اب تک فعال ہے۔

مئی 2008 میں امریکی خلائی گاڑی فینکس نے مریخ پر منجمد پانی کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔ بھارت بھی ستمبر 2014 میں کامیابی سے مریخ کے مدار میں تحقیقی سیارہ بھیج چکا ہے۔

روسی یورپین مشن ایگزومارس بھی رواں سال میں مریخ پر کھدائی کے لیے مشن روانہ کرنے کی تیاری کر رہے تھا جسے کووڈ 19 کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکنیکی مشکلات کی وجہ سے 2022 تک موخر کر دیا گیا ہے۔ تاہم رواں ماہ جولائی میں مریخ کی جانب روانہ کیے جانے والے تین مشنز کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

متحدہ عرب امارات عرب دنیا میں وہ پہلا ملک ہو گا جو مریخ کی جانب مشن روانہ کرے گا جب کہ چین بھی اپنے مریخ مشن تیانوین ون اور امریکہ اگلے مشن 'پرزروینس' کی تیاری کر رہے ہیں۔
 
Top