ما یوسی چھوڑ دیجئے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
مغرب کی طرف پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے اوپر سورج ڈوب رہا تھا ۔آفتابی گولے کا آدھا حصہ پہاڑ کی چوٹی کے نیچے جاچکا تھا
اور آدھا حصہ اوپر دکھائی دیتا تھا۔تھوڑی دیر کے بعد سورج ابھری ہوئی پہاڑیوں کے پیچھے ڈوب گیا۔
اب چاروں طرف اندھیرا چھانے لگا ۔سورج دھیرے دھیرے اپنا اجالا سمیٹتا جارہا تھا ۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا ماحول گہری
تاریکی میں ڈوب جائے گا۔مگر عین اس وقت جب کہ یہ عمل ہورہا تھا ،آسمان پر دوسری طرف ایک اور روشنی ظاہر ہونا شروع ہوئی۔

یہ بارہویں کا چاند تھا جو سورج کے چھپنے کے بعد اس کی محالف سمت سے چمکنے لگا اور کچھ دیر کے بعد پوری طرح روشن ہوگیا۔
سورج کی روشنی کے جانے پر زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک نئی روشنی نے ماحول پر قبضہ کر لیا۔
"یہ قدرت کا اشارہ ہے"​
میں نے اپنے دل میں سوچا کہ ایک امکان جب ختم ہوتا ہے تو اسی وقت دوسرے امکان کا آغاز ہوجاتا ہے ۔سورج غروب ہوا تو دنیا نے چاند سے اپنی بزم روشن کر لی۔​
اسی طرح افراد اور قوموں کے لیئے بھی ابھرنے کے امکان کبھی ختم نہیں ہوتے ۔زمانہ اگر ایک بار کسی کو گرادے تو اللہ کی اس دنیا میں اس کے لیئے مایوس ہونے کا سوال ہی نہیں۔وہ نئے مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ اپنے لیئے کامیابی کا سامان پیدا کرسکتا ہے۔ضرورت صرف یہ ہے کہ آدمی سمجھداری کا ثبوت دے اور مسلسل کوشش کرتا رہے بلکل بھی مایوس نہ ہو۔​
یہ دنیا اللہ تعالی نے عجیب امکانات کے ساتھ بنائی ہے ۔یہاں مادہ فنا ہوتا ہے تو وہ توانائی بن جاتا ہے ۔تاریکی آتی ہے تو اس کے اندر سے ایک نئی روشنی ظاہر ہوجاتی ہے ۔ایک مکان گرتا ہے تو دوسرے مکان کی تعمیر کے لیئے زمین خالی کر دیتا ہے ۔​
یہی معاملہ انسانی زندگی کے واقعات کا بھی ہے۔یہان ہر ناکامی کے اندر سے ایک نئی کامیابی کا امکان پیدا ہوتا ہے ۔دو قوموں کے مقابلے میں ایک قوم آگے بڑھ جائے اور دوسری قوم پیچھے رہ جائے تو بات یہیں ختم نہیں ہوتی ۔اس کے بعد ایک عمل شروع ہوجاتا ہے۔آگے بڑھی ہوئی قوم کے اندر عیش پسندی اور سہولت پسندی آجاتی ہے ۔دوسری طرف پیچھے رہ جانے والی قوم میں محنت اور جدوجہد کا نیا جذبہ جاگ اٹھتا ہے ۔​
اس کا مطلب حالات خواہ بظاہر کتنے ہی ناموافق دکھائی دیں،لیکن اس کے باوجود آدمی کے پاس ایک نئی کامیابی کا امکان موجود ہوگا ۔​
آدمی کو چاہیئے کہ اس نئے امکان کو تلاش کرے اور اس کو استعمال کرے ہوسکتا ہے اللہ تعالی اسے اس کوشش میں کامیاب کرے۔​
حضرت مولانا اسلم شیخو پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:​
یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھنے کا ہے کہ اصل ٹوٹ پھوٹ انسان کے اندر کی ٹوٹ پھوٹ ہے اور حقیقی تعمیر اور استحکام اس کے اندر کی تعمیر​
اور استحکام ہے،جو شخص خود اپنی نگاہ میں گر جائے ،دنیا میں اسے کوئی بھی نہیں اٹھا سکتا ،جو باطن کی دنیا میں شکست سے دوچار ہوجائے​
اسے ظاہری فتح کسی قسم کا سہارا فراہم نہیں کرسکتی ۔​
ظاہری نقشے بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں،مادی عمارتیں کبھی زمین بوس ہوجاتی ہیں اور کبھی فلک بوسی کا منظر پیش کرتی ہیں،گھر اور بستیاں،ملک اور شہر اجڑتے ہیں اور آباد بھی ہوجاتے ہیں ، ان کا بننا اور بگڑنا،آباد ہونا اور اجڑنا اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنی اہمیت انسان کا بننا اور بگڑنا رکھتا ہے ۔​
احساس کمتری سے اللہ کی پناہ مانگیئے۔مایوسی سے دور بھاگئے کہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا مسلمان کی شان نہیں۔​
جو یقیں کی راہ پر جل پڑے
انہیں منزلوں نے پناہ دی
جنہیں وسوسوں نے ڈرادیا
وہ قدم قدم پر بہک گئے
 

عاطف بٹ

محفلین
بہت شاندار تحریر ہے۔ اقبال کا وہ پیغام کتنا روشن ہے:
مسلم استی، سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیشِ نظر لا یخلف المیعاد دار
 
Top