ماں از ایوب خاور

ماں

ماں!ترے قدموں تلے
جب راکھ اُڑتی ہے تو سینے میں خلا جیسی کوئی شے گونجتی ہے
میری بینائی کے حصّے میں تو اب تک صرف تیرے چپ لبوں کا زہر آیا ہے، مری بینائی جس نے آج تک تیرے
لہو روتے ہوئے قدموں کے نیچے راکھ دیکھی ہے
بھرے کھیتوں میں فصلیں کاٹنے والی جوانی
زردپھولوں کی طرح سنسان آنکھوں کی کہانی کہتے کہتے آج کس منزل پر پہنچی ہے، مجھے اس کی خبر تو نہیں، تیرے محبت ڈھونے والے دل نے اپنی اجرتوں میں اپنے بیٹوں کے علاوہ کیا نہیں پایا مجھے اس کی خبر بھی تو نہیں، ہم خشک پتوں کو جلا کر سردیوں میں اپنے چھوٹے چھوٹے ذہنوں کو بڑے لوگوں کے قصّے بانٹتے تھے، ہم کہ تیری جاگتی آنکھوں کی لَو میں خواب جیسی کوئی دنیا دیکھتے تھے
صبح کاذب کی صدا
چکی کے پاٹوں اور تیرے ہاتھ کے چھالوں کے بیچ
اک گیت کی صورت اُترتی تھی، وہ گیت اب کھو گیا ہے
توبھی اب چپ ہوگئی ہے اور خلا ویسے کا ویسا ہے
ماں!مرے سینے می
تیری مامتا کا نور تو اب بھی اُترتا ہے مگر اقرار کی ساعت ہمیشہ سے اَدھوری ہے، نہ جانے کون سا کوہِ گراں ہے تیرے ہاتھوں میں کہ اب تک تیرے ہاتھوں کے لیے چہرا ترستا ہے، تجھے دیکھوں تو جی یہ چاہتا ہے، تجھ سے پوچھوں
’’ماں!یہ کن روگی زمانوں کے
بھروسے پر ابھی تک جی رہی ہو، کون سے صحراؤں میں اب تک ترے دریا روانی رو رہے ہیں، کون سے دشت و جبل ہیں جن میں تیری عمر کا بے رنگ سنّاٹا سفر طے کررہا ہے اور یہ کن کم زور دیواروں کے سائے میں تری تقدیر کی
چمپاچمیلی بجھ رہے ہیں
ماں!یہ توُ ہے یا کوئی خیمہ
طنابوں کی شکست آثار مٹھی سے نکل کرزرد موسم کی ہَوا میں
لڑکھڑا تا ہے
یہ میں ہوں یا کوئی سایہ تری ممتا کی
ٹھنڈی روشنی سے ٹوٹ کر پاتال اندر ڈوبتا جاتاہے ہم دونوں محبت کی گواہی کی طلب میں اپنے اپنے دل کی جانب رُخ کیے اپنے خدا سے پوچھتے ہیں
حشر کب تک آئے گا!
 
Top