مانگنے کا بڑھتا رجحان

انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔ انہی کی حصول کی تگ و دو میں انسانی زندگی گردش کرتی نظر آتی ہے۔وہ کاروبار ، تجارت ، ملازمت ، کھیتی باڑی ، مزدوری اور کاری گری وغیرہ سے اپنے اور اہل و عیال کی ضروریات کا سامان کرتے ہیں ۔ان سے ہٹ کر کچھ لوگ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہے جو بہت کچھ پاس ہونے کے باوجود مانگنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں جو انہیں وراثت میں ملی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے یہ عادت مرتے دم تک نہیں چھوٹتی۔ ہمارے پڑوس میں شیلا نامی عورت رہتی تھی، اُس کو یہ عادت اپنے سہل پسند والدین سے منتقل ہوئی تھی۔بزرگوں کے مطابق اُن کے والدین محنت مزدوری سے جی چراتے، کبھی کبھار گھر کے حالات سخت خراب ہوجاتے تو کچھ ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیتے لیکن سہل پسندی ان کی رگوں میں پھر جاگ جاتی ، سر تا پا خون میں دوڑ پڑتی اور پھر ہمسائیوں سے کھانا پینا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مانگنے لگ جاتے۔بس یہی وجہ تھی کہ والدین سے یہ عادت شیلا کو بھی منتقل ہوئی ۔شیلا کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ (۱) ایک دفعہ شیلا ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ قیمہ ہوگا ، وہ رفعت ( شیلا کی چھوٹی بہن ) کی سہیلی آئی ہے اُس کے لئے کوفتے بنانے ہیں۔ (۲) یوں ایک مرتبہ وہ دہی مانگنے آئی۔ اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوفہ مچھلی بازار سے لائی ہے اور اسے پکانے کے لئے دہی چاہیے۔ (۳) ایک دفعہ ہانپتے ہوئے آئی اور کہا کہ ڈاکٹر سے آئی ہوں۔ گھر پر مرچیں موجود ہیں اگر آپکے پاس گوشت اور دیگر سبزی مل جائے تو مہربانی ہوگی ۔ (۴) اکثر وہ استری مانگنے آتی تھی۔ ایک دن وہ آئی لیکن ہماری استری اپنی خراب طبیعت کی بناء پر مستری کے پاس تھی۔ جب اُسے حقیقت احوال بتایا گیا تو کہنے لگی کہ کوئی بات نہیں، میں اپنی استری صندوق سے نکال لوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے حالاں کہ اُن کے گھروں میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے لیکن عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شرم و حیا سے عاری اور عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر مانگنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ ایسے مانگنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اُن کی اپنی غیرت و حمیت ختم ہوجاتی ہے حتیٰ کہ خودداری اور شرم و حیا صفر کی سطح پر پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اُن کی اُمیدیں انسانوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور وہ یہ بھلا وفراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا ہے ۔اس صورت حال میں معاشرے کے باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور اگر اس معاملے میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو یہ لوگ پیشہ ور بھکاریوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔یہاں یہ لکھنے میں انتہائی افسوس اور دکھ ہو رہا ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع فرمایا ہے اور محنتی کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے ، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں ہمارے اردگرد رہتے ہیں اور اُن کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان کی اصلاح باشعور افراد پر فرض بنتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پر نا صرف خود عمل پیرا ہونا ہوگا بلکہ ان کو گھر گھر پھیلانا ہوگا۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’ اے قبیصہ ! تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ۔ایک وہ آدمی جو کسی قرض کا ضامن ہوگیا ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے ۔یہاں تک کہ بقدر قرض پالے پھر باز رہے۔دوسرا وہ آدمی جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہو تو اس کے لئے اپنے گزر بسر تک یا گزر اوقات کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔ تیسرا وہ آدمی ہے جس کے تین دن فاقہ میں گزر جائیں اور اس کی قوم کے تین کامل العقل آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں آدمی کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لئے گزر بسر کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔اے قبیصہ ! ان تین کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ، سنن دارمی)۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’ جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے ) انگاروں کا سوال کرتا ہے خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم )۔ ایک مرتبہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیاکہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ ّ( ابو داؤد ، نسائی )۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ جواب دیا ۔ ہاں ! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں ، کچھ کو بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دونوں چیزیں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا۔ انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپ ﷺ یہ چیزیں نیلام فرمارہے تھے۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے بولی اسی پر ختم کردی اور سامان اس شخص کو دے دیا اور اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا۔ ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھروالوں کو دے دواور دورے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناں چہ انہوں نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا۔ خاتم النبیین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دست مبارک سے لگایااور فرمایا۔ جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ ، بیچو اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناں چہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے۔ جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے۔ کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا کھانا۔ آپ ﷺ نے محنت مزدوری کی کمائی دیکھ کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔

ان تمام احادیث مبارکہ ﷺ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ محنت مزدوری کرکے کمانے پر زور دیتا ہے ۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اگر اجازت ہے تو وہ بہ درجہ مجبوری ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو گھروں اور معاشرے میں پھیلائیں تاکہ مانگنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں صرف اپنے دَر کا سوالی بنائے۔ امین۔
 

سیما علی

لائبریرین
انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔ انہی کی حصول کی تگ و دو میں انسانی زندگی گردش کرتی نظر آتی ہے۔وہ کاروبار ، تجارت ، ملازمت ، کھیتی باڑی ، مزدوری اور کاری گری وغیرہ سے اپنے اور اہل و عیال کی ضروریات کا سامان کرتے ہیں ۔ان سے ہٹ کر کچھ لوگ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہے جو بہت کچھ پاس ہونے کے باوجود مانگنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں جو انہیں وراثت میں ملی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے یہ عادت مرتے دم تک نہیں چھوٹتی۔ ہمارے پڑوس میں شیلا نامی عورت رہتی تھی، اُس کو یہ عادت اپنے سہل پسند والدین سے منتقل ہوئی تھی۔بزرگوں کے مطابق اُن کے والدین محنت مزدوری سے جی چراتے، کبھی کبھار گھر کے حالات سخت خراب ہوجاتے تو کچھ ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیتے لیکن سہل پسندی ان کی رگوں میں پھر جاگ جاتی ، سر تا پا خون میں دوڑ پڑتی اور پھر ہمسائیوں سے کھانا پینا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مانگنے لگ جاتے۔بس یہی وجہ تھی کہ والدین سے یہ عادت شیلا کو بھی منتقل ہوئی ۔شیلا کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ (۱) ایک دفعہ شیلا ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ قیمہ ہوگا ، وہ رفعت ( شیلا کی چھوٹی بہن ) کی سہیلی آئی ہے اُس کے لئے کوفتے بنانے ہیں۔ (۲) یوں ایک مرتبہ وہ دہی مانگنے آئی۔ اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوفہ مچھلی بازار سے لائی ہے اور اسے پکانے کے لئے دہی چاہیے۔ (۳) ایک دفعہ ہانپتے ہوئے آئی اور کہا کہ ڈاکٹر سے آئی ہوں۔ گھر پر مرچیں موجود ہیں اگر آپکے پاس گوشت اور دیگر سبزی مل جائے تو مہربانی ہوگی ۔ (۴) اکثر وہ استری مانگنے آتی تھی۔ ایک دن وہ آئی لیکن ہماری استری اپنی خراب طبیعت کی بناء پر مستری کے پاس تھی۔ جب اُسے حقیقت احوال بتایا گیا تو کہنے لگی کہ کوئی بات نہیں، میں اپنی استری صندوق سے نکال لوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے حالاں کہ اُن کے گھروں میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے لیکن عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شرم و حیا سے عاری اور عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر مانگنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ ایسے مانگنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اُن کی اپنی غیرت و حمیت ختم ہوجاتی ہے حتیٰ کہ خودداری اور شرم و حیا صفر کی سطح پر پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اُن کی اُمیدیں انسانوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور وہ یہ بھلا وفراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا ہے ۔اس صورت حال میں معاشرے کے باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور اگر اس معاملے میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو یہ لوگ پیشہ ور بھکاریوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔یہاں یہ لکھنے میں انتہائی افسوس اور دکھ ہو رہا ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع فرمایا ہے اور محنتی کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے ، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں ہمارے اردگرد رہتے ہیں اور اُن کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان کی اصلاح باشعور افراد پر فرض بنتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پر نا صرف خود عمل پیرا ہونا ہوگا بلکہ ان کو گھر گھر پھیلانا ہوگا۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’ اے قبیصہ ! تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ۔ایک وہ آدمی جو کسی قرض کا ضامن ہوگیا ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے ۔یہاں تک کہ بقدر قرض پالے پھر باز رہے۔دوسرا وہ آدمی جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہو تو اس کے لئے اپنے گزر بسر تک یا گزر اوقات کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔ تیسرا وہ آدمی ہے جس کے تین دن فاقہ میں گزر جائیں اور اس کی قوم کے تین کامل العقل آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں آدمی کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لئے گزر بسر کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔اے قبیصہ ! ان تین کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ، سنن دارمی)۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’ جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے ) انگاروں کا سوال کرتا ہے خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم )۔ ایک مرتبہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیاکہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ ّ( ابو داؤد ، نسائی )۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ جواب دیا ۔ ہاں ! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں ، کچھ کو بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دونوں چیزیں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا۔ انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپ ﷺ یہ چیزیں نیلام فرمارہے تھے۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے بولی اسی پر ختم کردی اور سامان اس شخص کو دے دیا اور اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا۔ ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھروالوں کو دے دواور دورے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناں چہ انہوں نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا۔ خاتم النبیین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دست مبارک سے لگایااور فرمایا۔ جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ ، بیچو اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناں چہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے۔ جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے۔ کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا کھانا۔ آپ ﷺ نے محنت مزدوری کی کمائی دیکھ کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔

ان تمام احادیث مبارکہ ﷺ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ محنت مزدوری کرکے کمانے پر زور دیتا ہے ۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اگر اجازت ہے تو وہ بہ درجہ مجبوری ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو گھروں اور معاشرے میں پھیلائیں تاکہ مانگنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں صرف اپنے دَر کا سوالی بنائے۔ امین۔
پروفیسر شوکت صاحب !!!!
اہم ترین موضوع ہے،یہ لعنت ہر شہر کا مسلۂ بن گئی ہے ۔
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ بھی کراچی ہی سے پہنچتا ہے۔ یہاں ہر طبقہ کے لوگ موجود ہیں، اپَر کلاس سے لے کر پیشہ ور گداگر طبقے تک ۔ کراچی کے سگنل پہ گاڑی رکتے ہی ارد گرد ایسی صدائیں سننے کو ملتی ہیں کہ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی جیبوں میں سے کچھ نا کچھ دے ہی دیتے ہیں۔نت نئے طریقوں سے حلال روزی کمانے والے لوگوں کی جیبیں خالی کرائی جانا معمول بن گیا ہے۔ ان گداگروں میں بیشتر تعداد عورتیں، بوڑھے اور بچوں کی ہے جو کہ لوگوں پہ نفسیاتی وار کرتے ہیں ، ایسی ایسی دعائیں دیتے ہیں یا تو ایسی مجبوریاں بتائیں گے کہ سفید پوش لوگ جو پہلے ہی حالات کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ،بخشش کے طور پر پیسے دے ہی دیتے ہیں۔

کراچی میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا میں بدل چکا ہے۔ ایک پورا نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے کام کر رہا ہے اور یہ کام پوری پلاننگ کے ساتھ ہوتا ہے۔اس نیٹ ورک کے لوگ اپنے بندے مختلف جگہوں پہ کھڑے کرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں ان کو واچ بھی کیا جا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور یہ جگہیں کرائے پہ دی جاتی ہیں اور ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے اس کی جگہ پہ دوسرا بھکاری نہیں کھڑا ہو سکتا اور ساتھ ساتھ بھیک مانگننے کے اوقات کار بھی متیعن ہوتے ہیں۔اس گداگر مافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے اس کو اتنے ہی پوش علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے جیسے کہ ڈیفینس، کلفٹن، طارق روڈ اور گلشن کے علاقوں میں دوسرے علاقوں کی بنسبت زیادہ بھیک مل جاتی ہے۔ زیادہ تر بھکاری اسپتال کے باہر بھی ملتے ہیں جہاں مریض کے ساتھ آنے والے سے بیماری سے صحت یاب ہونے کے صدقے میں، پیسوں کے بدلے دوائی دلانے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ دس بیس روپے کے بدلے سو دو سو کی دوائی مل جاتی ہے جسے بعد میں میڈیکل اسٹور والے کو ہی تھوڑے کم دام میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ان بھکاریوں کی بڑی تعداد شہر کے مصروف ترین سگنلز پہ کھڑی ہوتی ہے جہاں سے دن بھر میں ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں اور ایک منٹ کے لئے رکتے ہی یہ بھکاری گاڑیوں کی طرف لپکتے ہیں، اب تو بھیک مانگنے کا اسٹائل بھی بدل گیا ہے، تربیت یافتہ بچوں کے ہاتھوں میں وائپرز تھما دیے جاتے ہیں اور گاڑی کے سگنل پہ رکتے ہی بغیر اجازت وہ آپ کی چمکدار گاڑی کو مزید چمکا دیتے ہیں اور بدلے میں اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان ننھے ہاتھوں میں غبارے، گجرے ، قلم یا اسلامی تبرکات ہوتے ہیں اور ساتھ یہ درخواست کی جا رہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ چیزیں خریدنے میں دلچسپی نا رکھتا ہو تو مدد کے طور پہ پیسےہی دے دے۔
یہ بھکاری نا صرف بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں بلکہ بچے اغوا کرنا، لوگوں کی جیبیں تراشنا، خواتین کے پرس چھیننا، دکانوں پہ سے چیزیں غائب کرنا جیسے کاموں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مافیا کے لوگ ان کو ایجینٹ یا مخبر کے طور پہ بھی استعمال کرتے ہیں اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی یہ سہولت کار بن جاتے ہیں۔اکثر نومولود کو اغوا کر کے ھاتھ پاؤں سے معذور کر دیا جاتا ہے اور بھیک منگوائی جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق ان پیشہ ور بھکاریوں کی یومیہ آمدنی پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک باآسانی ہو جاتی ہے۔جبکہ رمضان کے مہینے میں یہ کمائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کراچی کے باہر سے آنے والے بھکاری واپس جا کے اگلے چھ مہینے تک آرام سے بیٹھ کے کھاتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ محنت کے بجائے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاری خواتین بچے اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوتی ہیں جو کہ صرف چند پیسوں کی خاطر معاشرے میں خطرناک ترین بیماریاں پہلانے کا باعث بن رہی ہیں۔

ان بھکاریوں کے خاتمہ کے لئے متعدد بار اقدامات کئے گئے ہیں اور سینٹرز بھی بنائے گئے جہاں ان کو کھانا پینا اور بنیادی سہولتیں میسر کی جاتیں لیکن یہ دوبارہ بھیک نا مانگنے کا وعدہ کر کے وہاں سے بھاگ جاتےہیں۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان گداگروں کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور ان کی ناک کے نیچے ہی یہ ساری کاروائی کی جاتی ہے پھر بھی ان گداگروں کی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان بھکاریوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی ہم لوگ یہ ہیں، اگر لوگ ان کو دینا چھوڑ دیں اور حوصلہ شکنی کریں تو یہ چار و نا چار محنت کر کے ہی کھانے کمانے پہ اکتفا کریں گے۔ اگر حکومت کوئی مناسب اقدامات نہیں کر سکتی تو عام لوگوں کو چاہیے کہ ان گدا گروں کی صداوٗں پہ کان نا دھریں اور اس پیشے کی جتنی ممکن ہو مذمت کریں۔۔
سورس:
گدا گر مافیا
سامیعہ ظفر
سما بلاگ
فروری 2017،07
 
آخری تدوین:
پروفیسر شوکت صاحب !!!!
اہم ترین موضوع ہے،یہ لعنت ہر شہر کا مسلۂ بن گئی ہے ۔
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور پاکستان کو سب سے زیادہ فائدہ بھی کراچی ہی سے پہنچتا ہے۔ یہاں ہر طبقہ کے لوگ موجود ہیں، اپَر کلاس سے لے کر پیشہ ور گداگر طبقے تک ۔ کراچی کے سگنل پہ گاڑی رکتے ہی ارد گرد ایسی صدائیں سننے کو ملتی ہیں کہ لوگ نا چاہتے ہوئے بھی اپنی جیبوں میں سے کچھ نا کچھ دے ہی دیتے ہیں۔نت نئے طریقوں سے حلال روزی کمانے والے لوگوں کی جیبیں خالی کرائی جانا معمول بن گیا ہے۔ ان گداگروں میں بیشتر تعداد عورتیں، بوڑھے اور بچوں کی ہے جو کہ لوگوں پہ نفسیاتی وار کرتے ہیں ، ایسی ایسی دعائیں دیتے ہیں یا تو ایسی مجبوریاں بتائیں گے کہ سفید پوش لوگ جو پہلے ہی حالات کے ستائے ہوئے ہوتے ہیں ،بخشش کے طور پر پیسے دے ہی دیتے ہیں۔

کراچی میں گداگری کا پیشہ ایک مافیا میں بدل چکا ہے۔ ایک پورا نیٹ ورک ان گداگروں کے پیچھے کام کر رہا ہے اور یہ کام پوری پلاننگ کے ساتھ ہوتا ہے۔اس نیٹ ورک کے لوگ اپنے بندے مختلف جگہوں پہ کھڑے کرتے ہیں اور بھیک منگواتے ہیں ان کو واچ بھی کیا جا رہا ہوتا ہے۔اور تو اور یہ جگہیں کرائے پہ دی جاتی ہیں اور ہر بھکاری کی جگہ مخصوص ہوتی ہے اس کی جگہ پہ دوسرا بھکاری نہیں کھڑا ہو سکتا اور ساتھ ساتھ بھیک مانگننے کے اوقات کار بھی متیعن ہوتے ہیں۔اس گداگر مافیا کے گروپ میں جو بھکاری سب سے زیادہ کما کر دیتا ہے اس کو اتنے ہی پوش علاقے میں تعینات کیا جاتا ہے جیسے کہ ڈیفینس، کلفٹن، طارق روڈ اور گلشن کے علاقوں میں دوسرے علاقوں کی بنسبت زیادہ بھیک مل جاتی ہے۔ زیادہ تر بھکاری اسپتال کے باہر بھی ملتے ہیں جہاں مریض کے ساتھ آنے والے سے بیماری سے صحت یاب ہونے کے صدقے میں، پیسوں کے بدلے دوائی دلانے کا مطالبہ کرتے ہیں، تاکہ دس بیس روپے کے بدلے سو دو سو کی دوائی مل جاتی ہے جسے بعد میں میڈیکل اسٹور والے کو ہی تھوڑے کم دام میں فروخت کر دیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ ان بھکاریوں کی بڑی تعداد شہر کے مصروف ترین سگنلز پہ کھڑی ہوتی ہے جہاں سے دن بھر میں ہزاروں گاڑیاں گزرتی ہیں اور ایک منٹ کے لئے رکتے ہی یہ بھکاری گاڑیوں کی طرف لپکتے ہیں، اب تو بھیک مانگنے کا اسٹائل بھی بدل گیا ہے، تربیت یافتہ بچوں کے ہاتھوں میں وائپرز تھما دیے جاتے ہیں اور گاڑی کے سگنل پہ رکتے ہی بغیر اجازت وہ آپ کی چمکدار گاڑی کو مزید چمکا دیتے ہیں اور بدلے میں اپنی محنت کا معاوضہ طلب کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ان ننھے ہاتھوں میں غبارے، گجرے ، قلم یا اسلامی تبرکات ہوتے ہیں اور ساتھ یہ درخواست کی جا رہی ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص یہ چیزیں خریدنے میں دلچسپی نا رکھتا ہو تو مدد کے طور پہ پیسےہی دے دے۔
یہ بھکاری نا صرف بھیک مانگنے کا کام کرتے ہیں بلکہ بچے اغوا کرنا، لوگوں کی جیبیں تراشنا، خواتین کے پرس چھیننا، دکانوں پہ سے چیزیں غائب کرنا جیسے کاموں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مافیا کے لوگ ان کو ایجینٹ یا مخبر کے طور پہ بھی استعمال کرتے ہیں اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی یہ سہولت کار بن جاتے ہیں۔اکثر نومولود کو اغوا کر کے ھاتھ پاؤں سے معذور کر دیا جاتا ہے اور بھیک منگوائی جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق ان پیشہ ور بھکاریوں کی یومیہ آمدنی پندرہ سو سے دو ہزار روپے تک باآسانی ہو جاتی ہے۔جبکہ رمضان کے مہینے میں یہ کمائی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ کراچی کے باہر سے آنے والے بھکاری واپس جا کے اگلے چھ مہینے تک آرام سے بیٹھ کے کھاتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ محنت کے بجائے بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پیشہ ور بھکاری خواتین بچے اغوا کرنے کے ساتھ ساتھ جنسی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوتی ہیں جو کہ صرف چند پیسوں کی خاطر معاشرے میں خطرناک ترین بیماریاں پہلانے کا باعث بن رہی ہیں۔

ان بھکاریوں کے خاتمہ کے لئے متعدد بار اقدامات کئے گئے ہیں اور سینٹرز بھی بنائے گئے جہاں ان کو کھانا پینا اور بنیادی سہولتیں میسر کی جاتیں لیکن یہ دوبارہ بھیک نا مانگنے کا وعدہ کر کے وہاں سے بھاگ جاتےہیں۔حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان گداگروں کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور ان کی ناک کے نیچے ہی یہ ساری کاروائی کی جاتی ہے پھر بھی ان گداگروں کی کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو ان بھکاریوں کی حوصلہ افزائی کرنے والا بھی ہم لوگ یہ ہیں، اگر لوگ ان کو دینا چھوڑ دیں اور حوصلہ شکنی کریں تو یہ چار و نا چار محنت کر کے ہی کھانے کمانے پہ اکتفا کریں گے۔ اگر حکومت کوئی مناسب اقدامات نہیں کر سکتی تو عام لوگوں کو چاہیے کہ ان گدا گروں کی صداوٗں پہ کان نا دھریں اور اس پیشے کی جتنی ممکن ہو مذمت کریں۔۔
سورس:
گدا گر مافیا
سامیعہ ظفر
سما بلاگ
فروری 2017،07
شکریہ سیما علی صاحبہ
 
انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔ انہی کی حصول کی تگ و دو میں انسانی زندگی گردش کرتی نظر آتی ہے۔وہ کاروبار ، تجارت ، ملازمت ، کھیتی باڑی ، مزدوری اور کاری گری وغیرہ سے اپنے اور اہل و عیال کی ضروریات کا سامان کرتے ہیں ۔ان سے ہٹ کر کچھ لوگ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہے جو بہت کچھ پاس ہونے کے باوجود مانگنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں جو انہیں وراثت میں ملی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے یہ عادت مرتے دم تک نہیں چھوٹتی۔ ہمارے پڑوس میں شیلا نامی عورت رہتی تھی، اُس کو یہ عادت اپنے سہل پسند والدین سے منتقل ہوئی تھی۔بزرگوں کے مطابق اُن کے والدین محنت مزدوری سے جی چراتے، کبھی کبھار گھر کے حالات سخت خراب ہوجاتے تو کچھ ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیتے لیکن سہل پسندی ان کی رگوں میں پھر جاگ جاتی ، سر تا پا خون میں دوڑ پڑتی اور پھر ہمسائیوں سے کھانا پینا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مانگنے لگ جاتے۔بس یہی وجہ تھی کہ والدین سے یہ عادت شیلا کو بھی منتقل ہوئی ۔شیلا کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ (۱) ایک دفعہ شیلا ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ قیمہ ہوگا ، وہ رفعت ( شیلا کی چھوٹی بہن ) کی سہیلی آئی ہے اُس کے لئے کوفتے بنانے ہیں۔ (۲) یوں ایک مرتبہ وہ دہی مانگنے آئی۔ اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوفہ مچھلی بازار سے لائی ہے اور اسے پکانے کے لئے دہی چاہیے۔ (۳) ایک دفعہ ہانپتے ہوئے آئی اور کہا کہ ڈاکٹر سے آئی ہوں۔ گھر پر مرچیں موجود ہیں اگر آپکے پاس گوشت اور دیگر سبزی مل جائے تو مہربانی ہوگی ۔ (۴) اکثر وہ استری مانگنے آتی تھی۔ ایک دن وہ آئی لیکن ہماری استری اپنی خراب طبیعت کی بناء پر مستری کے پاس تھی۔ جب اُسے حقیقت احوال بتایا گیا تو کہنے لگی کہ کوئی بات نہیں، میں اپنی استری صندوق سے نکال لوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے حالاں کہ اُن کے گھروں میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے لیکن عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شرم و حیا سے عاری اور عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر مانگنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ ایسے مانگنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اُن کی اپنی غیرت و حمیت ختم ہوجاتی ہے حتیٰ کہ خودداری اور شرم و حیا صفر کی سطح پر پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اُن کی اُمیدیں انسانوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور وہ یہ بھلا وفراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا ہے ۔اس صورت حال میں معاشرے کے باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور اگر اس معاملے میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو یہ لوگ پیشہ ور بھکاریوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔یہاں یہ لکھنے میں انتہائی افسوس اور دکھ ہو رہا ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع فرمایا ہے اور محنتی کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے ، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں ہمارے اردگرد رہتے ہیں اور اُن کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان کی اصلاح باشعور افراد پر فرض بنتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پر نا صرف خود عمل پیرا ہونا ہوگا بلکہ ان کو گھر گھر پھیلانا ہوگا۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’ اے قبیصہ ! تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ۔ایک وہ آدمی جو کسی قرض کا ضامن ہوگیا ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے ۔یہاں تک کہ بقدر قرض پالے پھر باز رہے۔دوسرا وہ آدمی جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہو تو اس کے لئے اپنے گزر بسر تک یا گزر اوقات کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔ تیسرا وہ آدمی ہے جس کے تین دن فاقہ میں گزر جائیں اور اس کی قوم کے تین کامل العقل آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں آدمی کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لئے گزر بسر کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔اے قبیصہ ! ان تین کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ، سنن دارمی)۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’ جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے ) انگاروں کا سوال کرتا ہے خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم )۔ ایک مرتبہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیاکہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ ّ( ابو داؤد ، نسائی )۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ جواب دیا ۔ ہاں ! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں ، کچھ کو بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دونوں چیزیں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا۔ انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپ ﷺ یہ چیزیں نیلام فرمارہے تھے۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے بولی اسی پر ختم کردی اور سامان اس شخص کو دے دیا اور اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا۔ ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھروالوں کو دے دواور دورے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناں چہ انہوں نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا۔ خاتم النبیین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دست مبارک سے لگایااور فرمایا۔ جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ ، بیچو اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناں چہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے۔ جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے۔ کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا کھانا۔ آپ ﷺ نے محنت مزدوری کی کمائی دیکھ کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔

ان تمام احادیث مبارکہ ﷺ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ محنت مزدوری کرکے کمانے پر زور دیتا ہے ۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اگر اجازت ہے تو وہ بہ درجہ مجبوری ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو گھروں اور معاشرے میں پھیلائیں تاکہ مانگنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں صرف اپنے دَر کا سوالی بنائے۔ امین۔
دل کو چھو لینے والی تحریر ہے۔
 

راشد احمد

محفلین
پاکستان میں مانگنے کے رجحان کو بھکاریوں سے زیادہ ہمارے سیاستدانوں نے فروغ دیا۔یہی وجہ ہے کہ ہم قرض بھی لیتے ہیں تو وہ بھی بھیک کی صورت میں ہمیں ملتا ہے۔
 
انسان کی بنیادی ضروریات میں روٹی ، کپڑا اور مکان شامل ہیں۔ انہی کی حصول کی تگ و دو میں انسانی زندگی گردش کرتی نظر آتی ہے۔وہ کاروبار ، تجارت ، ملازمت ، کھیتی باڑی ، مزدوری اور کاری گری وغیرہ سے اپنے اور اہل و عیال کی ضروریات کا سامان کرتے ہیں ۔ان سے ہٹ کر کچھ لوگ پیشہ ور بھکاری ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے بھی موجود ہوتے ہے جو بہت کچھ پاس ہونے کے باوجود مانگنے کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں جو انہیں وراثت میں ملی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے یہ عادت مرتے دم تک نہیں چھوٹتی۔ ہمارے پڑوس میں شیلا نامی عورت رہتی تھی، اُس کو یہ عادت اپنے سہل پسند والدین سے منتقل ہوئی تھی۔بزرگوں کے مطابق اُن کے والدین محنت مزدوری سے جی چراتے، کبھی کبھار گھر کے حالات سخت خراب ہوجاتے تو کچھ ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیتے لیکن سہل پسندی ان کی رگوں میں پھر جاگ جاتی ، سر تا پا خون میں دوڑ پڑتی اور پھر ہمسائیوں سے کھانا پینا اور روزمرہ استعمال کی اشیاء مانگنے لگ جاتے۔بس یہی وجہ تھی کہ والدین سے یہ عادت شیلا کو بھی منتقل ہوئی ۔شیلا کے چند واقعات پیش خدمت ہیں۔ (۱) ایک دفعہ شیلا ہمارے گھر آئی اور کہنے لگی کہ قیمہ ہوگا ، وہ رفعت ( شیلا کی چھوٹی بہن ) کی سہیلی آئی ہے اُس کے لئے کوفتے بنانے ہیں۔ (۲) یوں ایک مرتبہ وہ دہی مانگنے آئی۔ اُن سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ موصوفہ مچھلی بازار سے لائی ہے اور اسے پکانے کے لئے دہی چاہیے۔ (۳) ایک دفعہ ہانپتے ہوئے آئی اور کہا کہ ڈاکٹر سے آئی ہوں۔ گھر پر مرچیں موجود ہیں اگر آپکے پاس گوشت اور دیگر سبزی مل جائے تو مہربانی ہوگی ۔ (۴) اکثر وہ استری مانگنے آتی تھی۔ ایک دن وہ آئی لیکن ہماری استری اپنی خراب طبیعت کی بناء پر مستری کے پاس تھی۔ جب اُسے حقیقت احوال بتایا گیا تو کہنے لگی کہ کوئی بات نہیں، میں اپنی استری صندوق سے نکال لوں گی۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی تعداد میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے حالاں کہ اُن کے گھروں میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کا دیا بہت کچھ اُن کے پاس ہوتا ہے لیکن عادت سے مجبور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شرم و حیا سے عاری اور عزت نفس کو بالائے طاق رکھ کر مانگنے کے عادی بن جاتے ہیں۔ ایسے مانگنے والوں کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا اور اُن کی اپنی غیرت و حمیت ختم ہوجاتی ہے حتیٰ کہ خودداری اور شرم و حیا صفر کی سطح پر پہنچ جاتی ہے کیوں کہ اُن کی اُمیدیں انسانوں سے وابستہ ہو جاتی ہیں اور وہ یہ بھلا وفراموش کر بیٹھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنے والا کبھی مایوس نہیں ہوتا ہے ۔اس صورت حال میں معاشرے کے باشعور افراد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان لوگوں کی اصلاح کریں اور اگر اس معاملے میں کوتاہی اور غفلت برتی گئی تو یہ لوگ پیشہ ور بھکاریوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے۔یہاں یہ لکھنے میں انتہائی افسوس اور دکھ ہو رہا ہے کہ جس دین نے بھیک مانگنے سے سب سے زیادہ منع فرمایا ہے اور محنتی کو اﷲ کا دوست قرار دیا ہے ، اسی دین کے نام لیواؤں میں بھکاریوں کا تناسب سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

جیسا کہ اوپری سطور میں بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ لوگ پیشہ ور بھکاری نہیں ہوتے بلکہ معاشرے میں ہمارے اردگرد رہتے ہیں اور اُن کو مانگنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ پختہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ان کی اصلاح باشعور افراد پر فرض بنتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات پر نا صرف خود عمل پیرا ہونا ہوگا بلکہ ان کو گھر گھر پھیلانا ہوگا۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے۔ ’’ اے قبیصہ ! تین آدمیوں کے علاوہ کسی کے لئے مانگنا جائز نہیں ۔ایک وہ آدمی جو کسی قرض کا ضامن ہوگیا ہو تو اس کے لئے مانگنا جائز ہے ۔یہاں تک کہ بقدر قرض پالے پھر باز رہے۔دوسرا وہ آدمی جس کی بے چارگی نے اسے زمین پر ڈال دیا ہو تو اس کے لئے اپنے گزر بسر تک یا گزر اوقات کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔ تیسرا وہ آدمی ہے جس کے تین دن فاقہ میں گزر جائیں اور اس کی قوم کے تین کامل العقل آدمی اس بات کی گواہی دیں کہ فلاں آدمی کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لئے گزر بسر کے قابل ہونے تک مانگنا جائز ہے۔اے قبیصہ ! ان تین کے علاوہ مانگنا حرام ہے اور مانگ کر کھانے والا حرام کھاتا ہے۔ ‘‘ ( صحیح مسلم ، سنن دارمی)۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ۔ ’’ جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے ) انگاروں کا سوال کرتا ہے خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔ ‘‘ ( صحیح مسلم )۔ ایک مرتبہ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’ کون مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ لوگوں سے کبھی کوئی سوال نہیں کرے گا ، میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیاکہ میں ضمانت دیتا ہوں۔ اس کے بعد حضرت ثوبان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ کبھی کسی سے کسی چیز کا سوال نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ ّ( ابو داؤد ، نسائی )۔ حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ ایک انصاری صحابی خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ سے سوال کیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ تمہارے گھر میں کوئی چیز ہے ؟ جواب دیا ۔ ہاں ! ایک ٹاٹ ہے جس کے کچھ حصے کو ہم پہنتے اور اوڑھتے ہیں ، کچھ کو بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ہے جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دونوں چیزیں لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر آئے۔ خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ نے ان چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا۔ انہیں کون خریدے گا؟ ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا ۔ ایک درہم سے زیادہ کون دے گا ؟ آپ ﷺ نے یہ بات دو تین مرتبہ فرمائی۔ گویا آپ ﷺ یہ چیزیں نیلام فرمارہے تھے۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ میں ان دونوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔ آپ ﷺ نے بولی اسی پر ختم کردی اور سامان اس شخص کو دے دیا اور اس سے دو درہم لے کر انصاری صحابی کو دیے اور فرمایا۔ ایک درہم کا کھانا وغیرہ خرید کر گھروالوں کو دے دواور دورے درہم کا کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لاؤ۔ چناں چہ انہوں نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل کیا۔ خاتم النبیین رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس اس میں لکڑی کا دستہ اپنے دست مبارک سے لگایااور فرمایا۔ جاؤ اور لکڑیاں کاٹ کر لاؤ ، بیچو اور دیکھو! پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں۔ چناں چہ وہ جنگل سے لکڑیاں لاکر فروخت کرتے رہے۔ جب پندرہ دن پورے ہوئے تو وہ دس درہم کما چکے تھے۔ کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا کھانا۔ آپ ﷺ نے محنت مزدوری کی کمائی دیکھ کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے اس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں بُرا نشان ہو۔

ان تمام احادیث مبارکہ ﷺ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلام مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ محنت مزدوری کرکے کمانے پر زور دیتا ہے ۔ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کرنے کی اگر اجازت ہے تو وہ بہ درجہ مجبوری ہے۔ پس ہمیں چاہیے کہ اسلامی تعلیمات کو گھروں اور معاشرے میں پھیلائیں تاکہ مانگنے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جاسکے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہمیں صرف اپنے دَر کا سوالی بنائے۔ امین۔
جناب پروفیسر صاحب انتہائی خوبصورت تحریر ہے
جب ایک بار ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے کی عادت خون میں سرایت کر جائے تو پھر جان چھڑانا بڑا مشکل ہوتا ہے
اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائیں
 
Top