ماضی و حال کے حکمرانوں کا بندر تماشا اور عدلیہ کا امتحان

زیرک

محفلین
ماضی و حال کے حکمرانوں کا بندر تماشا اور عدلیہ کا امتحان
70 سال سے جاری پاکستانی طرزِ حکومت کا جائزہ لیں تو یہی نتیجہ نکلا ہے کہ سب کے سب ناکارہ افراد پر مشتمل کھاؤ پیو ٹرخاؤ قبیلے کے رنگے سیار تھے اور ہیں۔ خلاصۂ مضمون یہ بنتا ہے کہ جن کو کوئی اور کام کرنا نہیں آتا تھا وہ ہمارے محکمۂ زراعت کی نرسری کی وجہ سے ہمارے سر پر حکمران بنا کر ٹھونس دئیے گئے۔ اول تو ان کے پاس کوئی پروگرام نہیں ہوتا، نہ کوئی وژن اور صلاحیت، اگر خوش قسمتی سے کوئی پروگرام ہوتا بھی ہے تو اسے پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیت کا ان میں نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ ان کا ماٹو یہ ہوتا ہے کہ خود کچھ نہ کرو اور سارا مدعا پچھلی حکومت پر ڈال دو، جتنا ممکن ہو سجے خوب بندر تماشا لگاؤ، 5 سال خوب دبا کر ڈگڈگی بجاؤاور پھر دبئی، لندن اور نیو یارک جا کر عیش کرو اور نئے آنے والوں کو مطعون کرو۔ کسی کو کچھ اچھا لگے یا نہ لگے مجھے اس سے کوئی غرض نہیں لیکن میں نے پچھلے 70 سالہ ادوار کا یہی نچوڑ نکالا ہے۔ بیڈ گورنس اور نااہلی پر مشتمل طرزِ حکمرانی کا نتیجہ ہے کہ آج کا امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ ٹیکس نہیں دیتا، اگر اگر بھولے سے ٹیکس دیتا ہے تو جواب میں اس کا عوضانہ مراعات کی صورت میں واپس بھی لے لیتا ہے۔ پاکستان کی تنزلی کا ذمہ دار یہی طبقہ ہے جو سیاسی، کاروباری، پیداواری، محکماتی مقدس مخلوق سے تعلق رکھتا ہے جو نہ صرف مفت مراعات استعمال کرتا ہے بلکہ ظلم یہ کرتا ہے کہ ان سب کا بل عوام کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ حکومت ان اَن ٹچ ایچلز سے تو ایک ٹکا وصول نہیں کر سکتی، اس کا آسان ترین حل یہ نکالا جاتا ہے کہ حکومتیں غریب عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکس، ایڈجسٹمنٹ کا بوجھ ڈال دیتی ہیں اور جگاڑ طریقوں سے ریونیو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس غریب کُش پالیسی کی وجہ سے پاکستان کا غریب طبقہ آج بھوکوں مرتا نظر آتا ہے۔ پچھلے ادوار کی طرح اس بار کی حکومت تبدیلی سرکار بھی خوب بندر تماشا دکھا رہی ہے، تقریریں جھاڑنے، ڈگڈگی بجانے کے سوا کوئی کام نہیں ہو رہا، ایک دن کچھ کہا جاتا ہے اور دوسرے دن اس کا الٹ پھر کہتے ہیں یہ یوٹرن تھا، یوٹرن نہ لوں تو وزیراعظم نہ رہوں۔ وقت آ گیا ہے کہ عوام سپریم کورٹ کے سامنے اکٹھی ہو اور بیڈ گورنس، حکمران نوازی اور مہنگائی کے خلاف سوؤ موٹو لینے پر احتجاج کرے۔ عوام مطالبہ کریں کہ سپریم کورٹ کے باہر ٹنگے ہوئے ترازو کے ایک پلڑے میں مزدور کی ممکنہ ماہانہ اجرت 12000 اور دوسرے پلڑے میں صدر پاکستان کی ماہانہ تنخواہ 8 لاکھ رکھ کر سپریم کورٹ کے باہر عدالت لگا کر عوام کی جیوری سے فیصلہ لیا جائے۔ میری نظر میں جیوری کا یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ پہلے تو غریب کی تنخواہ بڑھاؤ، اگر مشکل معاشی حالات میں ایسا ممکن نہیں تو پھر اس کا بوجھ صرف غریب پر مت ڈالا جائے، تمام کمانے والوں کی تنخواہ اس وقت تک 15000 ماہوار کر دی جائے جب تک کہ پاکستان مشکل معاشی حالات سے نہیں نکلتا۔ یہی نہیں بلکہ ایک قدم اور آگے جا کر مراعات یافتہ طبقے کو دی جانے والی مفت مراعات بھی یک مشت بند کر دی جائیں، تبھی جا کر مراعات یافتہ طبقے کو بھی پتا چلے کہ گزارا کیسے ہوتا ہے۔ اس سے یہ ہو گا کہ سارا بوجھ سب پر برابر بٹ جائےگا۔ عوام شور نہیں مچائیں گے اور مراعات یافتہ طبقے کو دی جانے والی اربوں کی رقوم بھی بچ جائیں گی۔ غریب نے 70 سال صبر کیا ہے اب باری مراعات یافتہ طبقے کی ہے وہ قربانی دے۔ مجھے معلوم ہے کہ ایسا ممکن نہیں لیکن ملک بچانا ہے تو پھر یہ اجتماعی قربانی دینا ہو گا، قومیں مشکل وقت میں قربانی دیا ہی کرتی ہیں۔
 
Top