ماسیاں روٹھا نہیں کرتیں

گلزیب انجم

محفلین
ماسیاں روٹھا نہیں کرتیں
تحریر :- گل زیب انجم سیروی

اگست ستمبر میں بدل چکا تھا پھر بھی موسم میں حبس باقی تھا موسم کی تبدیلی سے لوگوں میں بخار آ رہا تھا جس کے بےشمار ناموں میں سے ایک نام موسمی بخار بھی تھا ۔ کوئی سر میں پیڑ کی اور کوئی گلے میں خراش کی شکایت کر رہا تھا تو کوئی کھانسی اور نزلا کا رونا رو رہا تھا ۔۔ کھانسی جہاں گلے کے درد کا احساس دلا رہی تھی وہی پھیپڑوں کو متاثر کر رہی تھی ۔۔ ہماری ماسی جی بھی دو دن سے کھانسی سے نڈھال ہو رہی تھیں۔ دیسی ٹوٹکے آزمائے لیکن بے سود ثابت ہو رہے تھے آخر کار ڈاکٹروں سے رجوع کرنا پڑا ۔۔ وہ بھی ایک دو دوائیں دے کر ساتھ پرہیز کی تلقین کر رہے تھے لیکن کھانسی تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی ۔۔۔
جمعرات کا دن تھا ہم اور ان کے لخت جگر اعجاز احمد سامنے والے صوفے پر براجمان تھے کھانسی نے کچھ مہلت دی تو ہم سے حال احوال پوچھتے ہی حسب دستور بہو کو آواز دے کر چائے کا کہا اور ساتھ ہی تنبیہ کی کہ پانی نہ ٹھوکیاں (ڈالنا) بس دودھے وچ پتی بانہیں(دودھ میں پتی ڈالنا). ماسی جی کھانسی کا معجزانہ سا وقفہ پا کر ہم سے محو گفتگو ہوئیں تو پھر ماشاءاللہ ڈھائی تین گھنٹے تک کھانسی کی کھوں تک بھی نہ ہوئی ۔۔ ہم ماسی جی کی ان تین گھنٹوں کی گفتگو کو ہی موضوع تحریر بنائیں گے، گفتگو کا فن ہماری ماسی جی سے زیادہ کوئی پارلیمنٹرین خاتون بھی نہ رکھتی ہو گی، ہر ہر موضوع پر ایسی مدبرانہ، مفکرانہ اور مدلل گفتگو کہ سننے والا ششدر رہ جائے۔ ماسی جی کمال کا حافظہ رکھتی تھیں سیف الملوک کا شاید ہی کوئی ایسا شعر ہوا ہو جو انہیں از بر نہ تھا اس پر کمال یہ کہ ہر موضوع پر برملا شعر کہتی تھیں۔۔ کہیں بار ہم نے کھوجنے کے لیے شعر کا مفہوم یا مطلب بوجھنا چاہا تو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سمجھا دیتیں۔ ہم نے ہمیشہ آپ کی فہم و فراست پر حیرانی کا پہاڑ ہی اٹھایا کہیں بار سوچا کہ یہ ماسی جی کی ناخواندگی کا عالم ہے اگر خواندہ ہوتی تو اللہ جانے کیا ہوتا۔
ماسی جی یوں تو شعروں کا ذخیرہ رکھتی تھیں لیکن آج ان کی زبان پر یہ شعر " جے ویکھاں عملاں ولے تے کج نئیں میرے پلے " بار بار آ رہا تھا۔ ہم نے ظاہری معاملات پر نظر رکھتے ہوئے ہنس کر کہا اگر آپ کے پاس کج نئیں تے فیر کسنے کول اے ۔۔۔ یہ سن کر کہتی اے اللہ ہی جاننا اے ۔ ماسی جی نے ہم سے سلسلہ کلام جاری رکھے ہوئے سرہانے سے کوئی چیز اٹھائی اور چھوٹے بیٹے شیراز کو اشارے سے پاس بلا کر کہا جاؤ وہاں دے آؤ۔۔۔ شیراز جو ہمیشہ سے دو بار بات پوچھنے کا عادی ہے اس نے زبان سے تو کچھ نہ کہا لیکن گردن دو تین بار گھما کر تین جگہوں کے متعلق جاننا چاہا تو ایک جگہ پر ماسی جی نے اثبات میں سر ہلا کر کہا آخو۔۔
شیراز تو چلا گیا اور اعجاز اس راز سے واقف ہی تھا لیکن ہم مارے تجسس کے تکرار کر بیٹھے کہ یہ کیا تھا ۔۔۔ آخر نہ چاہتے ہوئے بھی انہوں نے راز افشاء کر دیا ۔۔ ماسی جی کی فیاضی کے متعلق محلے کا ہر ہر شخص ادراک رکھتا تھا لیکن وہ یہی سمجھتا تھا کہ ان کی فیاضی صرف مجھ تک ہی ہے جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا تھا ۔۔
ماسی جی شیراز کو رخصت کرنے کے بعد پھر ہم سے باہم کلام ہوئیں تو ہم نے پھر وہاں سے ہی سلسلہ کلام جوڑتے ہوئے کہا ماسی جی تسی ہتھوں خالی نہی او ۔۔ کہنے لگے پتر جی جے اللہ قبول کرے تے۔۔۔ ماسی جی ہاتھوں سے سخاوت زبان پہ درود پاک کا ورد اور عمل سے مہمان نوازی میں مشغول رہتی تھیں جس کی گواہی زد عام وخاص تھی ۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ان کا ایک عمل ایسا بھی تھا جس نے ان کے جانے کے بعد سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ان کا پیار اور اخلاق سب کے لیے یکساں تھا جب کہ ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ ان کی یہ عنایت صرف اسی تک محدود ہے ۔۔ حقیقتاً ان کا یہ عمل بلا امتیاز رہا۔ ان کے پاس ہم ہمہ وقت دس دس لوگ بھی بیٹھے ہیں انہوں نے میانہ روی اختیار کرتے ہوئے دس ہی لوگوں سے دس باتیں مختلف موضوعات پر کی ہیں۔
جمعرات اپنی طوالت کو سمیٹتے ہوئے عصر کے وقت کو پہنچ چکی تھی اور ہم نے اجازت چاہی تو کہنے لگیں بیٹھے ہوئے ہو کیا کرو گے جا کر ہم نے دو تین عذر پیش کرنے کے بعد اجازت لے لی تو بڑے مشفقانہ انداز میں کہنے لگیں ٹھیک ہے جاؤ لیکن شام کو ضرور آنا۔ ہم شاید شام کو چلے آتے لیکن یہ سوچ کر نہ آ سکے کہ گزشتہ رات ماسی جی نے جاگتے ہوئے گزاری ہے گر آج سو لیں تو صحت کچھ بہتر ہو جائے گی ۔۔ یہ کیا پتا تھا کہ آج کی رات اور درد لے کر آئے گی ۔ ہمیں آج تک دکھ تو اس بات کا ہے کہ اعجاز نے ہمیں کیوں نہیں بتایا کہ جن کے متعلق آپ کا یہ گمان ہے کہ سو رہی ہوں گی وہ بے قراری میں رات کاٹ رہی ہیں۔۔ ماسی جی کو رات دو بجے کے بعد کچھ افاقہ ہوا تو اعجاز سے کہنے لگیں اپنی بہنوں کو بلا لو اعجاز سوچنے لگا اس وقت کس کو فون کروں پھر کنڈیشن بھی کچھ حساس نہیں چلو صبح فون کر لیں گے اسی اثنا ماسی جی پوچھ لیتی ہیں فون کیا ہے کہ نہیں۔ اب اس کے پاس کچھ کہنے کو نہیں تھا، لہذا فون کر دیا فرمانبردار اور ہمدرد بہنوں نے رات کے جس جس پہر فون سنا کوئی سوال کیے بغیر ہی چلی آئیں۔
جمعہ مبارک کی صبح تھی ماسی جی کی رات کو مدنظر رکھتے ہوئے اعجاز نے دیر سویر کیے بغیر گاڑی نکالی ماسی جی اور دیگر دو تین افراد کو ساتھ لے کر کوٹلی جانے کو گھر سے نکل گیا ۔۔ ابھی سیری بازار تک نہ پہنچا تھا کہ ماسی جی نے کہا مجھے کچھ روپے مسجد میں دینے ہیں اعجاز نے کہا اب اس وقت کون ملے گا پھر بھی میں کوشش کرتا ہوں۔ یہی کہہ کر مجھے( یعنی راقم کو ) کال کی لیکن کال ہم پک نہ کر پائے دو تین بار کی کوشش کے بعد اعجاز نے قادری بٹ کے نمبر پر کال کی جو رنگ جاتے ہی پک ہو گئی تو اعجاز نے کہا کہ باہر سڑک تک آنا کوئی کام ہے ۔ گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی قادری بٹ وہاں کھڑے تھے ۔ ماسی جی انہیں ایک لاکھ روپے دے کر کہنے لگیں میری طرف سے مسجد کے چندے میں شامل کر لینا ۔۔
ماسی جی ویسے تو روزانہ کچھ نہ کچھ راہ اللہ میں دیا کرتی تھیں لیکن کبھی اتنا تعجب نہ ہوا تھا جتنا اس دن ہوا کہ ان کا یہ عمل عقل انسانی سے بالکل بالا تر تھا ۔۔ کیوں کہ کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ اسپتال جانے والا راہ میں ایک لاکھ روپے چندے میں دے دے پھر سوچ آتی ہے کہ شاید اللہ جب کرم کرتا ہے تو سوچیں بدل دیتا ہے بل کہ اس سمت کی طرف گامزن کر دیتا ہے جو اس کے مقرب بندوں کی ہوتی ہے ۔ ماسی جی لاکھ روپے دے کر دعا کی درخواست کرتے ہوئے جانب کوٹلی چل دی۔
کوٹلی پہنچ کر فرمانبردار بیٹے نے پہلی کوشش پرائیویٹ اسپتالوں میں رکھنے کی کی لیکن ڈاکٹروں نے یہ مشورہ دیا کہ آکسیجن کی کمی کے باعث ان کو ڈی ایچ کیو لے جایا جائے۔ اس مشورے کے تحت ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچے تھوڑی سی تگ و دو کے بعد ایڈمیشن مل گئی آکسیجن لگی تو پھیپڑوں کو کچھ تقویت ملی دو راتوں سے جاگتی آنکھوں کو راحت ملی تو ماسی جی سو گئی۔۔ ہم نے پورا دن اسی انتظار میں گزار دیا کہ ابھی ماسی جی آتی ہوں گئی جب سورج ڈھلنے لگا تو تشویش ہوئی کہ اللہ خیر کرے ماسی جی پہنچی کیوں نہیں ہیں ۔ فون کر کے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس رات بھی وہی رہنا ہے۔ ہم یہ سن کر بیقرار سے ہو گئے اور کوٹلی جانے کی ٹھان لی۔۔ اللہ مسبب الاسباب ہے اس نے ایسا سبب بنایا کے ہمیں انہی کا پوتا مل گیا جو کوٹلی انہیں دیکھنے جا رہا تھا اسی کے ساتھ ہم بھی چلے گئے۔۔ پورے راستے آنکھیں بوجھل سی رہی لیکن دماغ میں ملنے کی جستجو کے ساتھ ساتھ ماسی جی کے متعلق مختلف خیالات آتے رہے۔۔ اسپتال پہنچے تو ماسی جی کو ویسے نہیں پایا جیسا ہم سوچ رہے تھے بل کہ ان کے منہ پر آکسیجن ماسک لگے اور سوتے کے عالم میں پایا ۔۔ اونچی اونچی سانسوں کی آواز آ رہی تھی ہم نے قریب ہو کر ماتھے کو چومنا چاہا لیکن پاس کھڑی ان کی بہو نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ابھی کچھ دیر پہلے سوئے ہیں انہیں سونے دیں ۔ ہم کھڑے رہ کر بس ماسی جی کی ماسک سے باہر آتی سانسوں کو سن رہے تھے کہ برادرم اعجاز نے کہا آپ باہر چل کر بیٹھیں۔ باہر بنے سیمنٹ کے بینچ پر بیٹھ کر ہم سوچنے لگے کہ اگر ماسی جی ہوش میں ہوتی تو نہ جانے دیکھ کر کتنی بار بسم اللہ کہتی لیکن آج ہم آئے تو ماسی جی کو خبر تک نہیں۔۔ ایک ہی گھنٹہ گزرا ہو گا کہ اعجاز کہنے لگا اماں صبح تک ٹھیک ہو جائیں گی اور گھر لے آؤں گا آپ ایسا کریں کہ گھر چلے جائیں۔۔ میں نے پوچھا خیر ہو میرا کیا بوجھ ہے آپ پر کہنے لگا بوجھ تو کچھ نہیں بس آپ کی صحت کو اور اسپتال کے ماحول کو دیکھتے ہوئے کہا ہے۔ میں نے کہا میں اسی بینچ پر بیٹھ کر رات گزار سکتا ہوں آپ میری فکر نہ کریں تو کہنے لگا باہر بیٹھنا ہی مشکل ہے بارش بھی ہلکی ہلکی لگی ہوئی ہے اور بارش رکے گی تو مچھر نہیں بیٹھنے دے گا پھر آپ کے رہنے یہ نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لہذا بہتر ہے آپ گھر چلے جائیں ہم چار لوگ ہیں اماں جی کی دیکھ بھال کر لیں گے۔۔ اعجاز کے بار بار کہنے پر مجبوراََ واپسی کا ارادہ کر لیا ماسی جی کو پہلی سی حالت میں دوبارہ دیکھا پاؤں کو چھوا اور وارڈ سے باہر آ گیا۔ اعجاز کی طرف سے کافی تسلی آمیز احوال بیان کیا جا رہا تھا اس لیے ہم بھی مطمئن ہو کر واپس آ گئے یہ سوچ کر کہ صبح پھر آ جائیں گے ۔۔
رات تقریباً گیارہ بجے گھر پہنچے والدہ صاحبہ کی زیارت کی اور مختصر سے حال احوال بیان کر کے اپنے کمرے میں آ گئے چارپائی اور سوچوں کا ناتا تو پرانا ہے سو سوچیں ملنے آ گئی ۔۔۔ اسپتال کا ایک ایک پل پوری پوری عمارت بن کر سامنے آ رہا تھا ماسی جی کی کھڑکی کے ساتھ لگی چارپائی اور سرہانے پڑے آکسیجن سلینڈر سمیت ماسک کے ساتھ جڑی تمام نالیاں دکھ رہی تھی۔ ماسی جی کی موندی آنکھیں کلمے والی انگلی کے ساتھ لگا آلہ اور الٹے ہاتھ پر لگا کینولا سب کچھ ہی تو آنکھوں کے سامنے تھا ۔ اپنے واپس آنے پر سوچ آتے ہی تڑپ کر بیٹھ گیا سوچا یہ کیا کر دیا مجھے وہاں رہنا چاہیے تھا، ماسی جی جب ہوش میں آئی ہوں گی تب تو انہیں ہمارا پتا چلا ہو گا ۔ ہمارا اس طرح چلے آنا انہیں ناگوار گذرا ہو گا۔ پھر سوچیں کچھ اور منتشر ہوئیں تو خود پر بہت غصہ آیا لیکن اب سوائے صبح کے انتظار کے کچھ نہ تھا ۔۔
ہفتے کی صبح بارگاہ ایزدی میں با جماعت حاضری دینے کے بعد والدہ صاحبہ کی قدم بوسی کرتے ہوئے پوچھا کوٹلی جانا چاہتا ہوں حکم ہوا ناشتا کر لو اور ساتھ ہی فون کر کے پتا کر لو ایسا نہ ہو کہ تم اسپتال اور اسپتال والے گھر ہوں۔ فون والی بات سن کر خیال آیا کہ ہو سکتا ہے ابھی اعجاز سویا ہوا ہو اس لیے کچھ دیر بعد فون کرتے ہیں ۔۔ کچھ دیر بعد کا سوچتے ہی ناشتے کا خیال آیا گھر والوں سے کہا ناشتا تیار کریں۔ ابھی باورچی خانے میں برتنوں کو حرکت ہو ہی رہی تھی کہ موبائل کی گھنٹی بجنے لگی لپک کر موبائل اٹھایا تو قادری بٹ کا نام سکرین پر پایا اتنی صبح قادری صاحب کا فون کیسے ہو سکتا ہے اللہ خیر کرے ۔۔۔ کافی ساری سوچوں کے بعد او - کے کی پریس کر کے انجانے خدشوں کے ساتھ کال ریسیوڈ کی انہوں نے مختصر سے انداز میں کہا یار اعجاز کال نہیں ریسیو کر رہا میں نے کہا میں چیک کر کے آپ کو بتاتا ہوں۔۔۔
چائے کا کپ آ چکا تھا تیز تیز گھونٹ بھرتے ہوئے موبائل پر ٹرائی جاری تھی لیکن ابھی تک مطلوبہ نمبر دوسری لائن پر مصروف ہے کا پیغام مل رھا تھا چائے کے آخری گھونٹ لیے جا رہے تھے جب قادری بٹ کا دوبارہ فون آیا وہ کہہ رہے تھے یار اعجاز کا نمبر تو ملا ہے وہ بات نہیں کر رہا صرف ہچکیوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ یہ بات سن کر اوسان خطا ہونے لگے لیکن میں نے ان کی کال ڈراپ کر کے فوراً اعجاز سے رابطہ کیا تو اس نے کال پک کر کے اتنا کہا۔ نہیں ہیں نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے یہ لفظ سنتے ہی کال کاٹ کر قادری بٹ سے رابط کیا اور انہیں بتایا کہ واقع ماسی جی ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ انہوں نے انا للہ پڑھتے ہوئے مجھ جلد آنے کا کہہ کر کال کاٹ دی۔
میں اناً فاناً ان کے گھر پہنچا اور وہاں سے ہم چار لوگ کوٹلی کے لئے روانہ ہو گئے۔۔
ابھی کھوئی رٹہ بائی پاس پر میگا مارٹ کے سامنے ہی پہنچے تھے کہ ایمبولینس دکھائی دی۔ ہم گولی کی رفتار سے گاڑی سے نکلے اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھے اعجاز سے لپٹ گئے جس کی زبان پر کسی دوسرے لفظ کے بجائے صرف انا للہ وانا الیہ راجعون کا ورد تھا ۔ ماں کی سانس کے ساتھ سانس لینے والا اکیلے ہی سانسیں لے رہا تھا سات ماہ سے ماں کے چرنوں میں بیٹھنے والا سحر و شام قدم بوسی کرنے والا ان ساری رفاقتوں سے محروم ہو چکا تھا ہمارے دلاسے کچھ کام نہیں کر رہے تھے۔ لاکھوں صفتوں والی ماسی کو ہر آنکھ رو رہی تھی تو اپنی اولاد کیسے صبر کرتی۔ وقت سرخاب کے پر لگائے گزر رہا تھا تدفین و تکفین کے مراحل انجام دیے جا چکے تھے آنگن پہلے سے زیادہ بھرا تھا مختلف لوگ تھے مختلف بولیاں تھی کوئی ماسی جی کا نام لے کر پکار رہا تھا کوئی ان کی جود و سخا کو موضوع بنائے ہوئے تھا کتنی پیاری پیاری سی باتیں ہو رہی نئے آنے والے اپنی آمد سے آگاہی آہ و زاری سے کر رہے تھے ۔ شیراز پر بار بار غشی طاری ہو رہی تھی فیاض دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر اسپتال پہنچ چکا تھا۔ اعجاز شدید بخار میں مبتلا ہو چکا تھا لیکن آس ہر صبر کی انتہا کر بیٹھا تھا ڈاکٹر سے رابطہ نہ ادوایات کا استعمال نتیجہ یہ نکلا کہ پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا ہو چکا تھا۔
سب پر ماسی جی کی جدائی کا صدمہ عیاں تھا بس آسمان سے آنسوؤں نہیں ٹپک رہے تو فرق نہیں رہا تھا اور ہم خود کو کوس رہے تھے کہ جمعرات کی شب ان کے پاس کیوں نہیں رہے، ہماری یہ پہلی اور آخری خطا تھی پھِر بھی ماسی جی یوں روٹھی کہ لاکھوں منت ترلے بے کار گئے ، بہت پکارا بہت کہا ماسی جی اتنی سی خطا پر ماسیاں روٹھا نہیں کرتیں ۔۔ لیکن بے سود رہا کہ سب پکاریں دیواروں سے ٹکرا کر لوٹ آئیں ۔۔۔
بچپن میں جب کہانیاں سنا کرتے تھے تو ان میں یہ بات مشترکہ ہوتی تھی کہ ایک فقیر نے کہا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔ ہم ساری کہانی بھول کر یہ سوچنے بیٹھ جاتے تھے کہ انسان پتھر کیسے ہو جاتا تھا۔۔ آج ماسی جی کو بچھڑے پینتالیس دن ہو گیے ہیں ہم جب بھی ان کے صحن میں اس جگہ کو دیکھتے ہیں جہاں وہ اکثر اوقات بیٹھا کرتیں تھیں تو پتھر کے ہو جاتے ہیں آنکھیں جھپکتی ہیں نہ ٹانگوں میں چلنے کی سکت رہتی ہے اب پتا چلا کہ فقیر سچ ہی کہتا تھا کہ پیچھے یعنی ماضی کو نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بچپن میں جب کہانیاں سنا کرتے تھے تو ان میں یہ بات مشترکہ ہوتی تھی کہ ایک فقیر نے کہا کہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔ ہم ساری کہانی بھول کر یہ سوچنے بیٹھ جاتے تھے کہ انسان پتھر کیسے ہو جاتا تھا۔۔ آج ماسی جی کو بچھڑے پینتالیس دن ہو گیے ہیں ہم جب بھی ان کے صحن میں اس جگہ کو دیکھتے ہیں جہاں وہ اکثر اوقات بیٹھا کرتیں تھیں تو پتھر کے ہو جاتے ہیں آنکھیں جھپکتی ہیں نہ ٹانگوں میں چلنے کی سکت رہتی ہے اب پتا چلا کہ فقیر سچ ہی کہتا تھا کہ پیچھے یعنی ماضی کو نہ دیکھنا ورنہ پتھر کے ہو جاؤ گے۔
بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔سچ ہے بالکل انسان کچھ صورتوں میں بالکل پتھر کے ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔
وقت بھی کیسا جلاد ہوتا ہے ہر لمحے کو ، ہر رشتے کو قلم کرتا چلا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔اور واقعی آسیب زدہ غار ہے جس کے بارے میں سنا کرتے تھے کہ ۔۔۔۔۔پیچھے مڑ کر مت دیکھنا ورنہ پتھر ہو جایئں گے ۔۔۔
 
Top