لے لو ، لے لو ؛ ادارے لے لو !

الف نظامی

لائبریرین
میں اپنے گھر کینیڈا میں بچوں کے ساتھ ایک نیوز چینل پر ایک ٹاک شو واچ کر رہا تھا۔ ایک نجی ٹی وی پر اینکر صاحب نے ایک معروف سیاستدان کو تبصرے اور تجزیے کیلئے مدعو کیا ہُوا تھا (ویسے تو پاکستان دنیا کے 216 ممالک کی فہرست میں اس لحاظ سے نمبر ون ہے کہ یہاں انٹرٹینمنٹ چینلز کی تعداد نیوز چینلز کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے) ٹاک شو میں تجزیہ نگار بتا رہے تھے کہ 1978ء میں جب سابق صدر ضیاالحق نے اتفاق فونڈری شریف برادران کو واپس کی تو انہیں بغیر کسی ٹینڈر کے یہ انڈسٹری دے دی گئی جبکہ ہزاروں اور بھی مالکان تھے جن کو پرائیوٹائزیشن کے بعد ضیاء دور یا اب تک اصل ادارے واپس نہ کئے گئے جیسے حبیب بینک لمیٹڈ وغیرہ، وہ صاحب فرما رہے تھے کہ کس طرح شریف برادران نے مسلم کمرشل بینک جس کی نجکاری میں بولی 69 ارب روپے کی لگی اس کو صرف 11 ارب روپے میں ایک سرمایہ دار کو فروخت کر دیا گیا اس طرح نواز شریف صاحب نے 1990ء میں اپنے اقتدار میں آنے کے صرف ایک مہینے بعد 60 ارب کا ٹیکہ حکومت کو لگا دیا ۔
خیر حکومتوں کو ٹیکے لگانے کی روایت بہت پرانی ہے مگر میرے کمسن بیٹے جو میرے ساتھ ٹی وی دیکھرہے تھے میں سے چھوٹا بیٹا جلال بولا بابا کیا انکل نواز شریف ڈاکٹر ہیں؟
ذرا سمجھ آئی تو میں نے کہا نہیں بیٹے وہ ڈاکٹر نہیں ہیں، تو بیٹا بولا وہ پھر ٹیکے کیوں لگاتے ہیں؟
اب میں جواں عمر بیٹے کو کیا بتاتا مگر آج کل کی نسل کو مطمئن کرنا بھی بہت ضروری ہے میں نے اسے سمجھایا کہ بیٹا جس طرح ڈاکٹرز کیلئے پریکٹس سے پہلے ایم بی بی ایس کی ڈگری/ لائسنس لینا ضروری ہے اس طرح ملک کے 20 کروڑ عوام کو ٹیکہ لگانے کے لائسنس اس ملک پاکستان کے 22 سرمایہ دار خاندانوں نے حاصل کر رکھے ہیں۔ ان لائسنس ہولڈروں کی تعداد قیام پاکستان سے مسلسل بڑھ رہی ہے شاید آج ان کی تعداد 500 سے بھی زیادہ ہو گئی ہے مگر غربت کی حالت یہ ہے کہ آج پاکستان کی 70 فیصد آبادی سطح غربت کی انتہائی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں جبکہ تعلیم جس کے بغیر آج کے آئی ٹی کے دور میں زندگی گزارنے کا تصور بھی محال ہے اس دور میں ہماری گذشتہ قومی و صوبائی اسمبلیوں میں 11 سو ممبران میں سے 800 سے زیادہ نے جعلی ڈگریوں پر بی اے کی سند حاصل کی تھی۔ یعنی پورے پاکستان میں گریجوایٹس مرد و خواتین کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں ہے جبکہ سرکاری طور پر بھی تعلیم یافتہ افراد کی شرح 23 سے زیادہ ہے یعنی یہ وہ فیصد تعداد ہے جس کی تعلیم میٹرک یا اس سے کم ہے۔ میں اپنے بچوں کو کیا بتائوں اگر ٹیکے لگانے والے انکل نہ ہوتے تو آج آپ سب بہن بھائی وطن میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے۔ آج اوورسیز پاکستانی دیارِ غیر میں امیگرینٹس کی زندگی نہ گزار رہے ہوتے۔ آج ہمیں مشرق وسطیٰ و عرب میں عجمی اور رفیق کے گھٹیا لقب سے نہ پکارا جا رہا ہوتا۔ آج ہمیں برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں بلیڈی فارنر اور ’’پاکی‘‘ کے القابوں کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ آج میرے وطن کے ہزاروں کوالیفائیڈ ڈاکٹرز یورپ میں ٹیکسیاں نہ چلا رہے ہوتے اور آج میرے وطن کے انجینئرز اور سکیلڈ(Skilled) لیبر عربوں کی گالیاں سُن کر بھی مسکرانے پر مجبور ہیں۔ آج میرے ملک کے نوجوانوں کو غیر ملکی یونیورسٹیوں میں داخلے کیلئے باپ دادا کی زمینیں نہ بیچنا پڑتی۔ اور آج میرے وطن عزیز کی حوا کی بیٹیوں کو دوبئی اور یورپ کے کلبوں اور نائٹ کلبوں کی زینت نہ بننا پڑتا۔ آج میرے وطن کے کمسن پھول نما بچوں کو عرب شیوخ اونٹ دور کیلئے استعمال نہ کرتے۔ آج پاکستان کے ہر گائوں ہر شہر میں ان نوجوانوں کی نعشیں ہر روز آنا معمول نہ بنیں جو روز یورپ کا بارڈر کراس کرتے ہوئے اپنی جانوں تک کی بازی لگا دیتے ہیں اور بہت سے تو کنٹینروں میں سانس گھٹ کر مر جاتے ہیں۔
میرے بچو! آج میرا ملک جو 1947ء کو حاصل کیا گیا تھا ہم سے آدھا حصہ جُدا نہ کر دیا گیا ہوتا۔ آج ہمار ے ملک کے بادشاہ کو آدھی رات کو اُٹھا کر فون پر دھمکیاں نہ دی جاتیں کہ لائن کے اس طرف یا ہماری طرف فیصلہ کرو۔ آج ملک کی فضا بارود سے بھری پڑی ہے اس نوزائیدہ مملکت پر آج تک پانچ جنگیں تھوپی گئی پھر بھی بین الاقوامی برادری ہم کو ہی جارح قرار دیتی ہے۔ ہمارا پڑوسی سیاچن، کارگل، کشمیر، حیدرآباد دکن پر غاصبانہ قبضہ کرے مگر عالمی برادری کی نظر میں جارحیت کا الزام ہم پر ہی لگے۔ ہمارے ملک کے سرمایہ داروں نے ملک سے انڈسٹری اٹھا کر اپنے پسند اور فیورٹ ملکوں میں لے گئے ہیں۔ دوبئی کوالالمپور، سنگاپور اور یورپ کے بیشتر ممالک ہمارے بھگوڑے سرمایہ داروں کے دم سے آباد ہیں۔ 90 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں جبکہ دنیا بھر کے مالیاتی اداروں اور بینکوں میں پاکستانی سرمایہ داروں کا سرمائے کا حجم ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہے مگر میرے بچے اس کے باوجود تم سمیت ہر پیدا ہونے والا بچہ پیدا ہوتے ہی اوسطاً ایک لاکھ روپے کا مقروض کیوں ہو جاتا ہے؟ میرے ملک کے طول و عرض میں ایک لاکھ سے زیادہ گھوسٹ سکول اور 50 ہزار سے زیادہ گھوسٹ ہسپتال، لاکھوں کلومیٹر سڑکیں، ہزاروں کھیل کے میدان اور سٹیڈیم گھوسٹ طریقے سے تو کاغذات میں موجود ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو فرضی روزگار اور جاب فراہم کر کے ان کی تنخواہیں اس ملک کے بیوروکریٹس ہڑپ کر رہے ہیں۔ جس ملک کا ایک ایڈمرل اور کئی جنرلز کرپشن کی لت میں مبتلا ہوں، جس ملک کا ہر سیاستدان کمیشن لینا اپنا حق سمجھتا ہو اور باقاعدہ سسٹم کے تحت ایس ڈی او سے لے کر چیف سیکرٹری، وزیر اعلیٰ، وزیراعظم اور صدر مملکت کا ریٹ مقرر ہو اور کمیشن مقرر ہو۔ ملک کے ایک سابق صدر نے صرف پانچ سال کے قلیل عرصہ میں ملک کے خزانے کو 60 ارب ڈالر کا ٹیکہ لگایا۔ 2 وزرائے اعظم اور سینکڑوں وفاقی اور صوبائی وزیروں کے طرف سے لگائے جانے والے ٹیکوں کا حساب اس کے علاوہ ہے جبکہ موجودہ حکومت کے سبھی سمدھی، عزیز، اقربائ، وزراء اور تجارتی برادری بھی اس کارِ خیر میں اپنے پیش روئوں سے مختلف نہیں ہیں۔
آج اس ملک کے 63 بڑے اداروں کی نجکاری کر کے قوم کو ایسا ٹیکہ لگانے کا پروگرام ترتیب دے دیا گیا ہے کہ اس ٹیکے کے اثر سے مدتوں تک یہ قوم ہوش میں نہ آئے گی اور اگر کبھی اردگرد کے شور شرابے کی وجہ سے ہوش میں آ بھی گئے تو بقول شاعر ’’سب کچھ لُٹا کر ہوش میں آئے تو کیا ہُوا‘‘
میں اپنے بچوں کو سب کچھ بتانا چاہتا ہوں وہ سب کچھ بھی جو ٹی وی اینکرز نہیں جانتے جو میرے ملک کے کالم نگار بھی نہیں جانتے، وہ سب کچھ جو میرے سینے میں دفن ہے کہ اس ملک کے خیر خواہوں نے اس ملک کو کس طرح لوٹا، کس منظم آرگنائزڈ طریقے سے ان پاسبانوں نے آنے والی نسلوں تک کا خون بیچ دیا ہے، کس طرح اس ملک کا ہر بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مقروض پیدا ہو گا۔ یہ خون پینے والا مافیا پاکستان تو بس اپنی باری لینے آتا ہے ٹیکہ لگانے کی۔
95 فیصد سیاستدانوں، بیوروکریٹس، اسٹیبلشمنٹ، سرمایہ د اروں، جاگیر داروں، وڈیروں، مخدوموں، نوابوں، پیروں، چوہدریوں کی اولادیں یورپ امریکہ کی یونیورسٹیوں میں لوٹنے اور خون چوسنے کا علم حاصل کر کے اس ملک کے عوام کو ٹیکہ لگانے آ جاتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کو انکل نواز شریف کے علاوہ بہت سے دوسرے ڈاکٹروں کا بھی بتانا چاہتا ہوں پھر سوچتا ہوں یہ سب سُن کر میرے بچے کہیں پاکستان سے نفرت نہ شروع کر دیں کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں کے رہبر اور رہزن میں کوئی فرق نہیں؟ یہ میری وطن سے محبت ہے یا کہ میری ہیپوکریسی کہ میں بچوں کے سامنے بیان کرنے سے کترا رہا ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ میرا ذکر آج پاکستان کے لوگ ٹیکہ نہ لگانے والوں میں کرتے ہیں اور یہی میری کمائی ہے اور یہی میرا غرور اور یہی میرا سرمایہ۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اکتوبر کے ابتدائی دنوں میں پاکستان کے عوام کے لئے ایک اور انتہائی بری خبر آئی جس کے مطابق پاکستان کے موجودہ حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے لئے گئے 6.7 ارب ڈالرز کے پروگرام کی ایک شرط کو منظور کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں ملک کے 31سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اخباری خبروں کے مطابق پرائیوٹائزیشن کمیشن نے تو 30 اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کی فہرست منظور کی تھی مگر پرائیویٹائزیشن کے بارے میں کیبنیٹ کمیٹی (سی سی او پی) کے چیئرمین اسحاق ڈار نے جو ملک کے وزیر خزانہ بھی ہیں اس لسٹ میں ایک اور ادارے یعنی لاکھڑا پاور پلانٹ کا اضافہ کر دیا۔
حکومت نے پہلے مرحلے میں جن 31سرکاری اداروں کو پرائیویٹائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے ان میں اور اداروں کے علاوہ خاص طور پر پی آئی اے، پی ایس ایم، پاکستان اسٹیٹ آئل، اسلام آباد الیکٹرک سٹی سپلائی کمپنی شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تحت حکومت فی الحال ان اداروں کے26 فیصد حصص فروخت کرے گی۔ بہرحال ان اطلاعات کے مطابق حکومت کی طرف سے کئے گئے وعدے کے مطابق پی آئی اے کو بہرحال دسمبر 2014 تک پرائیویٹایز کرنا ہو گا۔ اب تک شائع ہونے والی خبروں کے مطابق فی الحال 30 یا 31 سرکاری ادارے پرائیویٹائز کئے جا رہے ہیں اور کئے گئے فیصلے کے مطابق عید کے بعد حکومت کو فی الحال تقریباً 20 ایسے اداروں کی فہرست بنانی تھی جن کو انتہائی تیز رفتاری سے پرائیویٹائز کیا جانا ہے۔ بات صرف اتنی ہوتی تو بھی شاید قابل برداشت ہوتی مگر جب پرائیوٹائزیشن کمیشن کی ویب سائٹ سے ان اداروں کی مکمل فہرست ڈائون لوڈ کی گئی جو پرائیویٹائز ہونے ہیں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ چند ادارے نہیں شاید سارا ملک پرائیوٹائز / نیلام کرنے کا پروگرام ہے۔ اس فہرست میں 65 سرکاری اداروں کے نام شامل ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:بینکنگ، فنانس اور انشورنس کمپنیاں:این آئی ٹی ایل، ایس ایم ای بنک، فرسٹ وومین بنک، یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ، حبیب بنک لمیٹڈ، نیشنل بنک آف پاکستان، نیشنل انشورنس کارپوریشن، پاکستان انشورنس کارپوریشن، اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن، آئل گیس اینڈ انرجی:آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن، پاک ارب ریفائنری لمیٹڈ، پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لمیٹڈ، سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز، سوئی سدرن گیس پائپ لائنز، نیشنل پاور کنسٹرکشن کمپنی، پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی، فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی، جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ، نیشنل فرٹیلائزر کارپوریشن۔ انجینئرنگ:اسٹیٹ انجینئرنگ کارپوریشن اور اس کے یونٹ، نیشنل کنسٹرکشن لمیٹڈ، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، پاکستان اسٹیل ملز کارپوریشن اور اس کے دیگر یونٹ، پاکستان اسٹیل فیبریکیٹنگ کمپنی لمیٹڈ۔ منرل اینڈ نیچرل ریسورسز:پاکستان منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن اور لاکھڑا کول مائنس۔ گھی کے کارخانے: گھی کارپوریشن آف پاکستان اور مورافکو انڈسٹریز۔ آٹو موبائلز: پاکستان آٹو موبائلز کارپوریشن، ریپبلک موٹرز لمیٹڈ۔ انفرااسٹرکچر: سول ایوی ایشن اتھارٹی، پورٹ قاسم اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ، ایئر لائنز کارپوریشن، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اور پاکستان ریلویز اور اس سے منسلک سہولتیں، فیکٹریاں اور ورکشاپ وغیرہ۔ ٹوررزم:پاکستان ٹوریزم ڈیولپمنٹ کارپوریشن، سروسز انٹرنیشنل ہوٹل لاہور اور پی ٹی ڈی سی کی موٹلس اور ریسٹورنٹس۔ دیگر ادارے: پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان اور ٹمیٹو پیسٹ پلانٹ۔ کارپوریشن وغیرہ:اسٹیٹ سیمنٹ کارپوریشن آف پاکستان، اسٹیٹ پٹرولیم ریفائننگ اینڈ پیٹرو کیمیکلز کارپوریشن، پاکستان انڈسٹریز ڈیولپمنٹ کارپوریشن، یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن اور اس کے دیگر یونٹ، ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان، کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان، رائس ایکسپورٹ کارپوریشن آف پاکستان، ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اتھارٹی، پاکستان انڈسٹریل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر، کنوینشن سینٹر، اسلام آباد اور پاکستان انجینئرنگ کمپنی۔

ہماری قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس ساری فہرست میں دیئے گئے سارے اداروں کے نام بڑے غور سے پڑھیں۔ جب یہ فہرست میری نظر سے گزری تھی تو میرے ذہن میں فوری طور پر چند اہم سوال اٹھے تھے۔ ایک سوال یہ ہے کہ اگر واقعی ہمارے حکمران یہ سارے فروخت کر دیتے ہیں تو کیا اس کے بعد پاکستان کے پاس اپنا کوئی Asset ہو گا۔ کیا اس پروگرام پر عمل کرنے کے بعد پاکستان Asset-less نہیں بن جائے گا۔ کیا ایسا نہیں ہے یہ سب کرنے کے بعد ہمارے پاس اپنی کمائی کا کوئی اپنا ذریعہ ہو گا؟ کیا ایسے پروگرام کو پاکستان دوست پروگرام کہہ سکتے ہیں اور کیا ایسے پروگرام پر عمل کر کے پاکستان کو فقیر بنانے کی اجازت دینی چاہئے؟ یہ سب کچھ پڑھنے کے بعد ایک یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ کیا وزیراعظم نوازشریف کے وزراء اور مشیروں نے پاکستان کا آئین پڑھا ہے جبکہ حال ہی میں 18 ویں آئینی ترمیم کے authors میں اور تو اور وزیر خزانہ بھی شامل تھے۔ کیا 18 ویں آئینی ترمیم ان میں سے کسی بھی ادارے کو محض پرائیوٹائزیشن کمیشن اور کابینہ کمیٹی کے فیصلوں کی بنا پر پرائیویٹائز کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ آئین کی متعلقہ شقوں کے کچھ حصے یہاں جنگ کے قارئین کے لئے پیش کئے جائیں۔ اس سلسلے میں آئین کا آرٹیکل 154 جس کا تعلق سی سی آئی کے فرائض اور رولز آف پروسیجر کے ساتھ نیچے من و عن انگریزی میں پیش کر رہا ہوں:
"Article 154: The council shall formulate and regulate policies in relation to matters in part II of the Federal legislative list and shall exercise supervision and control over related institutions".​
اب ہم فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ پارٹ II کی کچھ متعلقہ شقیں من و عن انگریزی میں نیچے پیش کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کے عوام خود فیصلہ کر سکیں کہ ان کے حکمران یہ جو فیصلے کر رہے ہیں کیا وہ آئین کی سنگین خلاف ورزی نہیں ہیں۔ یہ شقیں مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) Railways (2) Mineral, Oil and natural gas (3) Development of industires where development under Federal control is declared by Federal law to be expedient in the public interest; institutions, establishments, bodies and corporations administered or managed by the federal government immediately before the commencing day, inculding the (Pakistan water and power develpment authority and the Pakistan Industrial development corporation, all undertakings projects and schemes of such institutions, establishments, bodies and corporations, industries, projects and undertakings owned wholey or partialy by the federation or by a corporation set up by the federation (4) Electricity and (5) All regulatory authorities established under a federal law.​
مذکورہ فہرستوں والے اداروں کے نام پڑھنے کے بعد ذہن میں ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے اس پروگرام کے Beneficiaries کون ہوں گے؟ بیرون ملکوں کارپوریٹ سیکٹر یا ملکی سرمایہ کار، طاقتور حلقے؟ اگر ان میں سے اکثر ادارے بڑے ملکوں کے کارپوریٹ سیکٹر اور سرمایہ کاروں کے طاقتور گروپ خریدنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ملک کو پہنچنے والے دیگر نقصانات کے علاوہ ایک بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ان اداروں سے کمائی جانے والی دولت بیرون ملک منتقل ہو جائے گی جس کے نتیجے میں پاکستان نہ صرف ان بڑے ملکوں بلکہ قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں مثلاً آئی ایم ایف اور دیگر ایسے اداروں کا تیزی سے مقروض ہوتا چلا جائے گا۔ مگر خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ادارے اپنے ملک کے سرمایہ داروں کے طاقتور گروپوں کو فروخت کئے جائیں تو ان گروپوں کا تعلق ہمارے حکمرانوں سے قریبی تعلق رکھنے والے جن میں سے اکثر کا تعلق پنجاب سے ہو سکتا ہے، ان کو فروخت کئے جائیں۔ اس اندیشے کے مدنظر سندھ کے اکثر لوگوں کو اندیشہ ہے کہ اب تک تو پنجابی بیوروکریسی کے فیصلوں کے نتیجے میں سوئی گیس پاکستان کے دیگر حصوں کو فراہم ہوتی رہی مگر بلوچستان اس سے کافی عرصے تک محروم رہا۔ اسی طرح سندھ کے لوگ شکایت کرتے ہیں کہ اسی بیوروکریسی کے ’’پالیسی ساز‘‘ فیصلوں کے نتیجے میں سندھ کے اکثر وسائل سندھ سے ملک کے بڑے صوبے کو منتقل ہوتے رہے۔ اس اندیشے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سندھ کے لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ اب سندھ اور دیگر چھوٹے صوبے اس پروگرام کے تحت ہمیشہ کے لئے پنجاب کے طاقتور سرمایہ داروں کے غلام بنائے جا رہے ہیں۔ جہاں تک پنجاب کے غریب طبقوں کا تعلق ہے تو اس پروگرام پر عمل ہونے کے نتیجے میں پنجاب کے غریب عوام کے ساتھ ہونے والے حشر سندھ اور دیگر چھوٹے صوبوں کے غریب عوام یعنی مزدوروں کے ساتھ ہونے والے حشر سے مختلف نہیں ہو گا۔ ساتھ ہی اس اندیشے کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ اگر اس پروگرام پر عمل ہوا تو پاکستان میں پہلے سے مہنگائی کا جو طوفان اٹھ چکا ہے وہ شاید چار گنا بڑھ جائے۔
ساجد شمشاد محمد امین ظفری محمود احمد غزنوی
 
آخری تدوین:

سعادت

تکنیکی معاون
نجکاری کے بارے میں پچھلے اتوار کے دی نیوز میں ڈاکٹر فرخ سلیم کا ایک کالم شائع ہوا تھا۔ اس کے اقتباسات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں:

ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے لگ بھگ دو سو کاروبار سالانہ 500 بلین روپے کا خسارہ بھرتے ہیں۔ اور وہ بھی اس وقت جب ریاست کا خزانہ بالکل خالی ہے۔ یہ خسارہ یومیہ تقریباً 1.5 بلین روپے تک بنتا ہے۔ اور وہ بھی اس وقت جب ریاست کا خزانہ بالکل خالی ہے۔ سال کے 8,760 گھنٹوں میں فی گھنٹہ 57 ملین روپوں کا خسارہ۔ اور وہ بھی اس وقت جب ریاست کا خزانہ بالکل خالی ہے۔

ریاست کے سامنے دو راستے ہیں: ترتیبِ نو یا نجکاری۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو ریاست ترتیبِ نو کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ نجکاری ہے۔

کیا نجکاری کمیشن تیار ہے؟ نجکاری کمیشن ان چار چیزوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکے گا: نجکاری کے عمل کی سیاسی ملکیت؛ اہل افراد؛ رابطے کی حکمتِ عملی؛ اور فزیکل انفراسٹرکچر۔

نجکاری کمیشن کے پاس صرف فزیکل انفراسٹرکچر ہے — ایک عمارت، میزیں، کرسیاں، کمپیوٹرز، وغیرہ۔ باقی تین چیزیں غائب ہیں۔ [...] در حقیقت، نجکاری کمیشن ابھی بھی تیار نہیں ہے۔

[...] پچھلے آٹھ سالوں میں نجکاری کا کوئی عمل پیش نہیں آیا اور نجکاری کمیشن کے عملے کو اس بات کا کوئی تجربہ نہیں کہ نجکاری کی کاروائیوں کو کس طرح وضع کرتے ہیں یا مالیاتی مشیروں کی نگرانی کیسے کی جاتی ہے۔

[...] عوام کا اس بات کا یقین دلانا ہو گا کہ یہ نجکاری "عوامی اثاثوں کی قدر و قیمت بڑھانے" کے لیے ہے، نہ کہ "خاندانی دولت" کے لیے۔ باقی حصے داروں کو بھی مطمئن کرنا ہو گا۔ نجکاری کمیشن کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ عوام کو مکمل طور پر آگاہ رکھنے کے لیے ایک پروگرام ترتیب کرے اور اس پر عمل بھی کرے۔

یہ بات تو طے ہے کہ نجکاری کا کوئی بھی عمل تین چیزوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو گا: شفافیت، ملازمین کے لیے معاشرتی تحفظ، اور ٹھوس قانونی ضوابط۔ نجکاری کمیشن کو نجکاری کے تمام عمل کو عوام کی جانچ پڑتال کے لیے قابلِ رسائی رکھنا ہو گا۔ [...]

ملازمین کے لیے معاشرتی تحفظ۔ ایک مختصر عرصے کے لیے نجکاری کے نتیجے میں بے روزگاری پیدا ہو گی۔ [...] نجکاری کمیشن کو ملازمین کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ملازمت سے سبکدوشی کے معاوضے، آمدنی سپّورٹ، ملازمین کے لیے حصص، اور کیرئیر کی تعمیر جیسے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر نہیں، تو ریاستی کاروبار کے ملازمین اور ان کی یونیئنز، نجکاری کمیشن کے سخت ترین حریف ثابت ہوں گے۔

ٹھوس قانونی ضوابط۔ نجکاری کے نتیجے میں مالیاتی اجارہ داری پیدا ہونے کا بہت زیادہ خطرہ ہو سکتا ہے۔ [...] ہمارے موجودہ قانونی ضابطے ریٹائرڈ بیوروکریٹس کا گڑھ ہیں۔ اس کو تبدیل ہونے کی ضرورت ہے۔

تو پھر کیا ہو گا؟ پاکستان کی معاشی تباہی یا شفاف، استعداد افزا نجکاری؟ گیند نجکاری کمیشن کے کورٹ میں ہے۔ کیا نجکاری کمیشن کھیل کھیلنے کے لیے تیار ہے — ایک انتہائی سنجیدہ کھیل؟

مجموعی طور پر ڈاکٹر فرخ سلیم نجکاری کے حامی ہی نظر آتے ہیں، لیکن نجکاری کے چیلنجز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اس موضوع پر اپنے خیالات شائع کر چکے ہیں: نجکاری اور دیگر آپشنز کے تقابل کے متعلق انہوں نے تفصیل سے نومبر میں لکھا تھا، جبکہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار اور اداروں کے بارے میں ستمبر میں لکھا گیا یہ کالم کافی معلوماتی ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
نجکاری کے بارے میں پچھلے اتوار کے دی نیوز میں ڈاکٹر فرخ سلیم کا ایک کالم شائع ہوا تھا۔ اس کے اقتباسات کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں:

ریاست کے سامنے دو راستے ہیں: ترتیبِ نو یا نجکاری۔ ایمانداری سے دیکھا جائے تو ریاست ترتیبِ نو کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی۔ صورتحال سے نکلنے کا واحد راستہ نجکاری ہے۔

مجموعی طور پر ڈاکٹر فرخ سلیم نجکاری کے حامی ہی نظر آتے ہیں، لیکن نجکاری کے چیلنجز سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اس موضوع پر اپنے خیالات شائع کر چکے ہیں: نجکاری اور دیگر آپشنز کے تقابل کے متعلق انہوں نے تفصیل سے نومبر میں لکھا تھا، جبکہ ریاستی سرپرستی میں چلنے والے کاروبار اور اداروں کے بارے میں ستمبر میں لکھا گیا یہ کالم کافی معلوماتی ہے۔
کرپٹ سیاسی نظام سے نا اہل حکمران ہی سامنے آتے ہیں جن میں نہ بصیرت ہوتی ہے نہ اہلیت!

پاکستان کی معیشت تو عملاً70فیصد انفارمل اکانومی پر چل رہی ہے۔ وہ اسے فارمل سیکٹر میں لانے کیلئے کچھ کریں تو سب مسائل حل ہوجائیں گے، اس کیلئے اداروں کی نج کاری سے کام نہیں چلے گا بلکہ اداروں کی مینجمنٹ بہتر بنانے اور بلا امتیاز سب کو ایک ہی لاٹھی یا اصول کے تحت ٹیکس نیٹ میں لانے سے کام چلے گا۔
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
میں ایک اہم اعلان کر رہا ہوں، حکمرانوں کے لیے بھی اور جو خرید رہے ہیں اُن کے لیے بھی، کہ ہم نجکاری کے نام پر دھوکہ نہیں ہونے دیں گے یہ ادارے قوم کا اثاثہ ہیں، ہم اندھیر نگری نہیں ہونے دیں گے۔
اگر نجکاری کے پراسس میں شفافیت کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا گیا تو
انقلاب آنے پر ہم تمام اداروں کو دوبارہ قومی تحویل میں لے لیں گے۔

لہٰذا بیچنے والے اور خریدنے والے اس بات سے آگاہ رہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملک کے سارے اثاثے بک رہے ہیں۔ قوم کے اثاثے رات کے اندھیرے میں کیوں بیچے جارہے ہیں؟ قوم کی بتایا جائے!!!
قوم کب تک سوتی رہے گی؟ قوم کب انقلاب کے لیے باہر نکلےگی؟ جب چڑیاں چُک گئیں کھیت؟

 
Top