شفیق خلش :::::لگائے وصل کی اُمید اور آس ، اور بھی ہیں:::::Shafiq Khalish

طارق شاہ

محفلین
1.jpg

غزل

لگائے وصل کی اُمید اور آس، اور بھی ہیں
ہم ایسے اُن کے کئی آس پاس اور بھی ہیں

پلٹ کے جانے کو یکتائے آشتی نہ رہے
اب اُن کے عِشق میں کُچھ دیوداس اور بھی ہیں

جو انحصار سا ، پہلے تھا گفتگو پہ کہاں!
حُصُولِ دِید پہ اب اِلتماس اور بھی ہیں

مُتاثر اِس سے کہاں ہم کہ خوش نَوا وہ نہیں
سُپردِ ذات میں مانع قیاس اور بھی ہیں

تمھارے ہجر کا رونا ہی کب مُقدّر اب
اِس ایک غم سے جُڑے آس پاس اور بھی ہیں

نتیجہ ایک کے کہنے پہ کُچھ اخذ نہ کریں
ہماری زیست کے کچھ اِقتباس اور بھی ہیں

بسنت میلہ میں تا دیر گھر نہیں جانا!
یُوں آئی یاد سے اُن کی اُداس اور بھی ہیں

بُرا ہو ہم پہ مُعاشی مُصیبَتوں کا خَلِشؔ !
بس ایک وہ ہی نہیں، ناشناس اور بھی ہیں

شفیق خلشؔ
October 7, 2021
 
Top