لڑکی

najmi

محفلین
میرے سامنے ایک لڑکی اور میرے ہاتھ میں ایک سکہ ہے۔ اس سکے سے مجھے ایک باس آتی ہے سو یہ میری زندگی میں آج کل اس لڑکی کے بعد اہم ترین چیز ہے۔ فرصت کا وقت میں ان دونوں کے ساتھ گذارنا ہوں۔ لڑکی کسی پینٹنگ سے نکلی معلوم پڑتی ہے۔ شوخ زرد رنگ کا سوٹ اور ستواں باریک ناک۔ باریک نقوش۔ میں جب بھی اس تصویر پہ غور کروں لڑکی اپنے ارد گرد اور بیک گراؤنڈ پہ چھانے لگتی ہے۔ وہی مغل تمکنت شوخ تر رنگوں میں، اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں ہوس کا شکار ہو رہا ہوں تو شاید غلط ہیں۔ اگر اپ بھی اس لڑکی کو دیکھیں تو ایسے ہی کریں۔ میں جب بھی اس تصویر پہ غور کرتا ہوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی میرے کمرے کا دروازہ دھڑ سے کھلے گا اور شمشیر بردار محافظ مجھے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے۔

آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ یہ ایک تصویر ہے۔ یا ایک لڑکی ہے، یا ایک تصویر ہے، کہانی ذرا پرانی ہے۔۔۔اپنی دو دیواروں کے لیے تو میں اتوار بازار میں کھدائی کر کے پنٹنگز نکال لایا تھا مگر تیسری دیوار ننگی ہی رہی۔ اسی دیوار کی طرف میرا منہ ہوتا ہے سو میری خواہش تھی کہ کوئی آنکھوں کو تراوٹ بخشنے والی تصویر ہو۔ جس کے اندر کچھ زاویے پوشیدہ ہوں۔ مگر اس تیسری پینٹنگ کو نہ ملنا تھا اور نہ ملی۔ ایکدن میرا ایک فوٹو گرافر دوست مجھے ملنے آیا تو ننگئ دیوار کے لیے ایک تصویر لیتا آیا۔ اب میں دیواروں پہ ہینٹنگز کی جگہ تصویر کو دینے کے سخت خلاف ہوں۔۔آپ کسی یاد کو اپنے مہمانوں کے ملاحظے کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔ سو 10*12 کا پیکٹ میں نے بے دلی سے میز پہ پھیک دیا۔ میرا یہ دوست شوقیہ فوٹو گرافر ہے اور کافی رقم اجاڑ چکا ہے۔ مگر اس کی آنکھ میں ایک حسن ہے جو ہر حسین منظر کو فوراً تاڑ لیتا ہے۔۔۔۔۔

اگلے دن میری بہن ملنے آئی۔ اب بہنیں جب مائیں بن جاتی ہیں تو ان کی سرشت میں ایک عجیب سی حاکمیت در آتی ہے۔ سو میری یہ بہن میری کھولی میں گھستے ہی ماں کا کردار نبھانے لگتی ہے۔ میں دراوزہ بہن کے لیے کھولتا ہوں اور ماں کی فوٹو کاپی کو کھولی میں گھسا لیتا ہوں۔ اس دن اس کے ہاتھ یہ پیکٹ آ گیا۔ کیا ہے ،کیسا ہے جیسے لایعنی سوالوں گھبرا کر میں نے خود ہی پیکٹ کھول دیا اور یوں یہ تصویر میری دنیا میں آئی۔

پاکسات کے کسی قصباتی بازار کی تصویر ہے، پوسٹ کارڈ جیسی، جیسے جولیا لوئس کبھی گھومتی پھرتی اچانک اس طرف جا نکلی ہو اور اس مکمل تصویر نے اس کے کیمرے تک کو حیران کر ڈالا ہو۔ شٹر بند ہونے میں تھوڑی تاخیر ہوئی اور تصویر معمہ بن گئی۔ تین لڑکیاں کسی بات پہ مسکرا رہی ہیں۔ ان میں کیمرے کی آخری حد پہ یہی لڑکی ہے، مگر سب سے نمایاں ہے۔ عجیب سی بے نیازی۔ خود اعتمای، مسکراہٹ اور بیزاری کا مجموعہ۔ پکچر پرفیکٹ تاثرات، مگر ایک ملغوبہ سا، جیسے کسی مصور نے چہرہ بنا کر اس پہ بہت ساری لکیریں کھینچ دیں ہوں۔ دوسری لڑکیوں کو دھکے دے کر منظر میں گھستا ہوا اس کا عورت پن۔، بے پروا عورت۔ عورت پنے کی ایک قسم میں عورت اپنے ہونے کا اعلان کرتی ہے۔ اور دوسری قسم میں کسی اور کو اسے دریافت کرنا پڑتا ہے، اس کی گرہیں کھولنی پڑتی ہیں۔ اور یہ شاید دوسری قسم کی عورت ہے۔

ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میری جنوبی دیوار پہ ایک لڑکی رہتی ہے۔ عجیب معمہ لڑکی ہے۔ ہر بار نیا رنگ۔ روز ملتی ہے لیکن آج تک مجھے نہیں ملی۔ میرے بارے میں سب کچھ جان گئی ہے مگر میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ ایک لڑکی ہے۔ پتلے نمکین نقوش۔ متناسب بدن۔ پتلے پتلے پتلیوں جیسے نازک سے ہاتھ پیر، اور سب سے بڑی بات چہرہ ہے، نسوانیت کی چھوٹی چھوٹی بے شمار نالیاں بہہ رہی ہیں۔ مگر آنکھیں ان تمام نالیوں کا رستہ روکے کھڑی ہیں۔ چلنے کا انداز ایسا ہے جیسے اپنی نسوانیت کی گٹھڑی کو چھپا کے نکل جانا چاہتی ہو۔ مگر اس کا وجود اس عمل سے انکاری ہے۔ تصویر میں بھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دو لڑکیوں نے اسے باندھ کے کھڑا کیا ہو۔ نکلنا بھی نہیں چاہتی ورنہ رسیاں تڑانی کونسی مشکل ہیں، اور منطر میں رہنا بھی تھوڑا مشکل لگ رہا ہے۔۔

ایسے لوگ اپنا منظر نامہ عموماً خود تخلیق کرتے ہیں۔ اسے ہیری پورٹر کے کرداروں کی طرح ایک تصویر میں رہنا پسند نہیں۔ تصویریں بدلتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی مجھے اس تصویر سے غٰیر حاضر ملتی ہے۔ میں سمجھ جاتا ہوں کہ کسی اور حرماں نصیب دیوار کی اشک شوئی کے لیے گئی ہے۔ مگر میں اسکا عادی ہو چکا ہوں۔ سو غیر حاضری کا یہ عرصہ میں منہ پھلا کر گذارتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اب آئے گی تو اسے بات نہیں کرنی۔ مگر ہر بار آتے ہی دونوں لڑکیوں کو گھسیٹ کے پیچھے کرتی ہے اور الف لیلوی مینا کی طرح شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی کبھی میرے سے بہت لڑتی ہے۔ تصویر بدلنے سے پہلے سفید جھنڈا لہرانا کبھی نہیں بھولی

شاید آپ سمجھیں کہ میں اس کا اسیر ہو گیا ہوں۔ میری ہونے والی بیوی اگر یہ بات سن لے تو میں کنوارا ہی مروں۔ مگر میں اس کا اسیر ہوں۔ بس اسے کوئی نام نہیں دے سکا۔ اپنی زندگی میں آنے والی اہم ترین عورت کو کوئی نام دینا میرے بس سے باہر ہے۔ اسی لیے میں اسے گنگا جمنی کہتا ہوں۔ عجیب گنگا جمنی ہے۔ نرتکی بھی ہے اور دیو داسی بھی۔ کبھی کبھی دیوی کا روپ دھارن بھی کرتی ۔ اور ابھی تک کے اندازوں کے مطابق یہی اس کا سب سے غالب روپ ہے۔ توانا روپ، گیانیوں کے گرد ناچتی ہے اور جب گیانی آنکھیں کھولتا ہے تو ایکدم سرسوتی دیوی کا روپ دھار لیتی یے۔ پھر گیانیوں کی توجہ بٹنا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ بیک وقت کئی سمتوں کی راہی۔ ہنس ہنس کے بات کر رہی رہو گی کہ اچابک آپ پہ انکشاف ہو گا یہ تو کہیں اور ہے۔ ہمیشہ اس انکشاف کے بعد میں اپنے آپ آپ پہ قابو پانے میں ناکام رہتا ہوں۔ تصویر اتارنے کے لیے بڑھتا ہوں مگر اس کی کوئی حرکت پھر میرے قدم روک دیتی ہے۔ اور پھر آنکھیں گھماتی ہوئی ہوئی تصویر سے نکل بھاگتی ہے۔

یہ لڑکی رشتے شروع کرنے کی عادی ہے۔ بیک وقت کئی رشتے شروع کرتی ہے اور انہیں وہیں پہ چھوڑ کر کسی اور تصویر میں مزید رشتوں کی بنیاد رکھنے چل پڑتی ہے۔ رشتوں سے یہ آڑ کا کام لیتی ہے۔ کبھی تصویر کی باقی لڑکیوں کے پیچھے چھپی رہتی ہے اور پھر مجھے غافل ہوتا دیکھ کے ایک دم سے ان دونوں کو دھکیل کر آگے آ جاتی ہے۔ اور بٹر بٹر باتیں کرنے لگتی ہے۔ جب دیکھتی ہے کہ میں باتوں میں محو ہو رہا ہوں تو ایکدم سے اوئی اللہ کہتی ہوئی انہی لڑکیوں کی طرف بھاگتی ہے۔ وہ لڑکیاں اس کے مجھ سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ شاید اسی لیے میں ان دونوں سے جلتا ہوں۔ میرا ارادہ ہے کہ کسی دن اسکی غیر موجودگی میں ان دونوں کو کاٹ پھینکوں۔ مگر پھر اس کا ہاتھ آڑے آ جاتا ہے جو ان میں سے ایک لڑکی کے کندھے پہ ہے۔

۔
اگر میں جوگی ہوتا تو اجنتا جا بیٹھتا ، جنگلوں بیلوں میں اس کے ہیچھے پھرتا۔ مگر میں بیراگی نہیں ہوں۔ یہ جوگ بیراگ کے دھندے اسی کو سجتے ہیں جو کان میں بالے اور بدن پہ گلیمِ غم ڈال کر خاک چھان سکے۔ میں تو بس ایک تصویر کا اسیر ہوں۔ کہتے ہیں کہ پرانے مصر میں فراعنہ کا سورج جب نسف النہار پہ تھا تو اس وقت ایک جادو کا زور تھا۔ بڑا جادقگر کسی کو بھی تصویر میں قید کر کے امر کر دیتا۔ میں بھی کسی بڑے جادو گر کی تلاش میں ہوں جو مجھے اس کی تصویر میں قید کر ے امر کر دے۔ میں شی سے مل لوں ایک بار۔ شی کا فسوں خیز حسن دیکھ لوں، غسلِ آتش بھی قبول ہے۔ اسے محسوس کر سکوں، قریب سے اس راز کی پرتیں کھول سکوں جو صرف میرے لیے ہی راز ہے۔ اس کے بعد چاہے واپس آوں یا نہ آؤں۔ ایک ہی بات ہے مگر اس کا راز ضرور پانا ہے۔ دیوی ہے یا نرتکی؟ .
 
لا جواب تحریر! :)

بہت داد وصول کریں۔ ویسے یہ آخری لفظ نرتنکی کیا ہے؟ ہندی میں ایک لفظ نرتکی ہوتا ہے جس کا مطلب رقاصہ ہے کیا یہ وہی تو نہیں اور املا کی غلطی سے ایسا لکھ دیا گیا ہے؟
 

najmi

محفلین
لا جواب تحریر! :)

بہت داد وصول کریں۔ ویسے یہ آخری لفظ نرتنکی کیا ہے؟ ہندی میں ایک لفظ نرتکی ہوتا ہے جس کا مطلب رقاصہ ہے کیا یہ وہی تو نہیں اور املا کی غلطی سے ایسا لکھ دیا گیا ہے؟

عزت افزائی کا شکریہ بھیا یہ لفظ نرتنکی ہی ہے یعنی رقاصہ۔۔میری یاداشت میں محفوظ رہ گیا۔ شاید دس سال پہلے کسی دیو مالائی داستان کا تعارف پڑھا تھا اس میں استمعال کیا گیا تھا
 
عزت افزائی کا شکریہ بھیا یہ لفظ نرتنکی ہی ہے یعنی رقاصہ۔۔میری یاداشت میں محفوظ رہ گیا۔ شاید دس سال پہلے کسی دیو مالائی داستان کا تعارف پڑھا تھا اس میں استمعال کیا گیا تھا

بیٹا اگر آپ کی مراد رقاصہ ہی ہے تو اسے نرتکی ہی کہا جاتا ہے۔ آپ کسی ڈکشنری سے رجوع کریں یا گوگل ٹرانسلیٹ پر بھروسا ہو تو اس ربط پر جائیں اور ہندی اسکرپٹ پڑھنے میں دشواری ہو تو ریکارڈنگ سننے کے لئے صفحے پر موجود بٹن سے استفادہ کریں۔ ویسے میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ یا تو اس داستان کی کتاب میں ٹائپو رہی ہوگی یا ممکن ہے پرانی اردو میں ایسا مستعمل ہو۔
 

najmi

محفلین
بیٹا اگر آپ کی مراد رقاصہ ہی ہے تو اسے نرتکی ہی کہا جاتا ہے۔ آپ کسی ڈکشنری سے رجوع کریں یا گوگل ٹرانسلیٹ پر بھروسا ہو تو اس ربط پر جائیں اور ہندی اسکرپٹ پڑھنے میں دشواری ہو تو ریکارڈنگ سننے کے لئے صفحے پر موجود بٹن سے استفادہ کریں۔ ویسے میں یہ سمجھ سکتا ہوں کہ یا تو اس داستان کی کتاب میں ٹائپو رہی ہوگی یا ممکن ہے پرانی اردو میں ایسا مستعمل ہو۔

دوبارہ شکریہ۔۔۔درست کر لیا ہے۔ ایک ہندوستانی دوستوں سے پوچھا تھا مگر وہ جنوبی ہند یا کسی ایسے ہی خطے کے نکلے کہ ان سے تصدیق کے بعد شک بڑھ رہا تھا:)، ان کے عطایا پہ چار حروف بھیج کے وہی لکھ دیا جو پڑھ رکھا تھا، تو اشتباہ بر گردنِ حضرت جواہر رقم ۔۔۔۔قیمتی وقت عنایت کرنے پہ مشکور ہوں۔ 
 
جنوبی ہند کے تھے تو ان کی ہندی قابل بھروسا تھی۔ :)

ویسے ہم بھی جنوبی ہند سے ہیں گو کہ ہماری ہندی قابل بھروسا نہیں ہے۔ :)
 

najmi

محفلین
جنوبی ہند کے تھے تو ان کی ہندی قابل بھروسا تھی۔ :)

ویسے ہم بھی جنوبی ہند سے ہیں گو کہ ہماری ہندی قابل بھروسا نہیں ہے۔ :)

میں نے "یا" اسی خدشے کے پیشِ نظر استمعال کیا تھا جی۔۔ملیالم(؟) بولتے پائے جاتے ہیں یا پھر انگریزی۔ بہرحال جب بولتے ہیں تو کانوں میں رس گھولتے ہیں مگر نیم کا۔ کہ نہ ان کی اپنی بولی سمجھ آتی ہے نہ ان کے منہ سے کسی اور کی۔ اب وہ خطہ جہاں کے وہ ہیں، معلوم نہیں ہند کے جنوب میں پڑتا ہے یا کہیں اور؟۔ مگر ان کی تشریحات اکثر بالا بالا ہی نکل جاتی ہیں۔۔۔۔تفنن برطرف، دکن وغیرہ کے علاوہ کسی اور جنوبی خطے کی صوتیات باقی ماندہ برِصغیر کے باسیوں خصوصاً پاکستانیوں کے پلے پڑنا مشکل ہے۔

آپ تو شاید حیدرآباد کے ہوں گے
 
اف خدایا! ہم آپ کے لفظ جنوب کو شمال سمجھ کر اتنا کچھ لکھ گئے۔ لا حول ہے ہماری غائب دماغی پر۔ کئی چیزوں پر بیک وقت ارتکاز کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ بھئی ہم شمالی ہند کے ہیں اور واقعی جنوبی ہند میں حیدراباد وغیرہ کو چھوڑ کے باقی جگہوں پر ہندی عنقا ہے۔

خیر یہ ساری باتیں ایک طرف آپ کی تحریر لاجواب ہے اور ہم تو دو بار پڑھ چکے۔ :)
 

najmi

محفلین
اف خدایا! ہم آپ کے لفظ جنوب کو شمال سمجھ کر اتنا کچھ لکھ گئے۔ لا حول ہے ہماری غائب دماغی پر۔ کئی چیزوں پر بیک وقت ارتکاز کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ بھئی ہم شمالی ہند کے ہیں اور واقعی جنوبی ہند میں حیدراباد وغیرہ کو چھوڑ کے باقی جگہوں پر ہندی عنقا ہے۔

خیر یہ ساری باتیں ایک طرف آپ کی تحریر لاجواب ہے اور ہم تو دو بار پڑھ چکے۔ :)

یعنی ہم دونوں بیک وقت ہاتھی کو بیان کر رہے تھے:)، خیر صاحب آپ تو ہندی و ہندوی ہر دو کے شناور ہیں۔ شاید میں اکیلا ہی ہاتھی کو لکھتا رہا اور لکھتا ہی رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی ہمت ہے جی، میں خود ایک ہی بار میں سیر ہو گیا تھا(لکھ کے)، درستگی کی خاطر بھی پڑھنے کی تاب نہیں۔ اب نجانے اسے کیا کہا جاتا ہے۔ مضمون ہو گا شاید۔ ورنہ اعمال نامہ تو ہے ہی۔۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ 
 

علی فاروقی

محفلین
یعنی ہم دونوں بیک وقت ہاتھی کو بیان کر رہے تھے:)، خیر صاحب آپ تو ہندی و ہندوی ہر دو کے شناور ہیں۔ شاید میں اکیلا ہی ہاتھی کو لکھتا رہا اور لکھتا ہی رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بڑی ہمت ہے جی، میں خود ایک ہی بار میں سیر ہو گیا تھا(لکھ کے)، درستگی کی خاطر بھی پڑھنے کی تاب نہیں۔ اب نجانے اسے کیا کہا جاتا ہے۔ مضمون ہو گا شاید۔ ورنہ اعمال نامہ تو ہے ہی۔۔
حوصلہ افزائی کا شکریہ 

اسے کسی بھی نام سے پکار لیا جائے نجمی صاحب، یہ طئے ہے کہ لاجواب،
بہت مزہ آیا پڑھ کے، امید ہے ایسی تحریریں آتی رہیں گی۔
 

najmi

محفلین
اسے کسی بھی نام سے پکار لیا جائے نجمی صاحب، یہ طئے ہے کہ لاجواب،
بہت مزہ آیا پڑھ کے، امید ہے ایسی تحریریں آتی رہیں گی۔

شکریہ بھائی یہ آپ کا حسنِ نظر ہے جو اسے حسین بنا گیا۔۔

اپنی کہنے اور کہے چلے جانے کا لپکا بدہضمی کی ماند ہے۔ کسی کروٹ چین نصیب نہیں ہوتا۔ امید ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھتا ہی رہوں گا۔
 

زیف سید

محفلین
جناب نجمی صاحب:

سب سے پہلے تو دل کو موہ لینے والی تحریر کے لیے شکریہ اور داد قبول فرمائیے۔راجستھان میں صدیوں سے ایک قسم کی خیالی تصویر بنانے کی روایت ہے جسے ’بنی ٹھنی‘ کہا جاتا ہے اور جو رادھا کی نمائندگی کرتی ہے۔ جیسا کہ تصویر کے نام سے ظاہر ہے، اس میں خاتون کو سولہ سنگھار کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ تصویر کے ساتھ مذہبی اور روحانی جذبات وابستہ ہوتے ہیں، اور بعض اوقات اس کے دیکھنے والوں پر وارفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، اور وہ اس کے سامنے استغراق کی حالت میں آ کر اپنا آپ بھلا بیٹھتے ہیں۔ (جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں ایسی ہی ایک تصویر اور اس کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ کیا ہے)۔ آپ کی تحریر پڑھتے وقت مجھے بار بار بنی ٹھنی کا خیال آتا رہا۔

ایک بار پھر مبارک باد قبول فرمائیے۔

زیف
 

najmi

محفلین
جناب نجمی صاحب:

سب سے پہلے تو دل کو موہ لینے والی تحریر کے لیے شکریہ اور داد قبول فرمائیے۔راجستھان میں صدیوں سے ایک قسم کی خیالی تصویر بنانے کی روایت ہے جسے ’بنی ٹھنی‘ کہا جاتا ہے اور جو رادھا کی نمائندگی کرتی ہے۔ جیسا کہ تصویر کے نام سے ظاہر ہے، اس میں خاتون کو سولہ سنگھار کے ساتھ دکھایا جاتا ہے۔ تصویر کے ساتھ مذہبی اور روحانی جذبات وابستہ ہوتے ہیں، اور بعض اوقات اس کے دیکھنے والوں پر وارفتگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے، اور وہ اس کے سامنے استغراق کی حالت میں آ کر اپنا آپ بھلا بیٹھتے ہیں۔ (جناب شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ میں ایسی ہی ایک تصویر اور اس کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کا تذکرہ کیا ہے)۔ آپ کی تحریر پڑھتے وقت مجھے بار بار بنی ٹھنی کا خیال آتا رہا۔

ایک بار پھر مبارک باد قبول فرمائیے۔

زیف

پسندیدگی کے لیے شکریہ۔۔۔

ویسے اتفاق کی بات ہے اگر یہ تحریر طویل ہوتی تو میں بھی ایسی ہی کسی صورتحال سے رجوع کرتا، مگر میرے ذہن میں بنیادی خاکہ اساطیری شی کا تھا۔۔
 

زیف سید

محفلین
ویسے اتفاق کی بات ہے اگر یہ تحریر طویل ہوتی تو میں بھی ایسی ہی کسی صورتحال سے رجوع کرتا، مگر میرے ذہن میں بنیادی خاکہ اساطیری شی کا تھا۔۔

میں ایک شی سے واقف ہوں، جو رائڈر ہیگرڈ کے 1886 کے ناول ’شی‘ کا مرکزی کردار ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ اساطیری کردار ہے۔

زیف
 
Top