درویش بلوچ
محفلین
لو اب راز دل کے عیاں ہورہے ہیں
ترے بزم میں سب بیاں ہورہے ہیں
مصیبت کے دن ختم ہونے لگے ہیں
ستم گر مرے مہرباں ہورہے ہیں
امیرِ شہر آج کل ہے پریشاں
غریبوں کے بچے جواں ہورہے ہیں
جنہیں ہم نے کل بولنا جو سکھایا
وہ اغیار کے نغمہ خواں ہورہے ہیں
اترنے لگے وہ جفاؤں پہ درویش
رقم پھر نئے داستاں ہورہے ہیں
ترے بزم میں سب بیاں ہورہے ہیں
مصیبت کے دن ختم ہونے لگے ہیں
ستم گر مرے مہرباں ہورہے ہیں
امیرِ شہر آج کل ہے پریشاں
غریبوں کے بچے جواں ہورہے ہیں
جنہیں ہم نے کل بولنا جو سکھایا
وہ اغیار کے نغمہ خواں ہورہے ہیں
اترنے لگے وہ جفاؤں پہ درویش
رقم پھر نئے داستاں ہورہے ہیں