لعنۃ اللہ علی الامریکیۃ

مہوش علی

لائبریرین
یہ تو وہ بات ہوئی کہ صاحب سو روپیہ فی گھنٹہ لے لیجئے گا بس ہر گھڑی دو گھڑی میں آپ کے دو چماٹ ایسی لگاؤں گا کہ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔
بھاڑ میں گئی ایسی امداد جس کے ساتھ پابندیاں اور میزائل بھی اترتے ہوں۔
جس میں ہماری ماؤں بیٹیوں کی عصمت دری شامل ہو
ہمارے جوانوں کا لہو بہتا ہو
بھائی جی، مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اور امریکی امداد کو بھاڑ میں جھونکنے سے قبل ہمیں کچھ اور چیزوں کو بھاڑ میں جھونکنا پڑے گا۔
۱۔ ہمارے حکمران جنہوں نے قوم کو ترقی کی بجائے معاشی و تعلیمی میدانوں میں پستی کی طرف لے گئے ہیں [بلکہ اس حد تک پستیوں میں گرا دیا ہے کہ جہاں سے فی الوقت ہم اس قابل نہیں کہ امریکی امداد کو بھاڑ میں جھونک سکیں۔
۲۔ ہمارے ملا حضرات کے ایک بڑے طبقے کو بھی امریکہ سے پہلے بھاڑ میں جھونکنا پڑے گا اور اسکی کئی وجوہات ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ اہم ہے خاندانی منصوبہ بندی کی انکی طرف سے حمایت اور مدد کے انتہائی مخالفت اور اسکا اسلام کے خلاف ہونے کا فتوی۔ اسکا نتیجہ سولہ کڑوڑ عوام کی صورت میں سامنے ہے اور یہ وہ دیو ہے کہ جسے رام کرنا بہت مشکل ہے۔ اگر بحران سنگین تر ہوتا ہے تو پھر وقت آئے گا جب یہ سولہ کڑوڑ عوام زندہ رہنے کے لیے ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ رہے ہوں گے۔
اسی طرح ایک ملا طبقے کی طرف سے جہاد کے نام پر انتہا پسندی کا اتنا فروغ کہ پاکستان خانہ جنگی کی کیفیت میں ہے اور ہزاروں مسلمان ایک دوسرے کے ہاتھوں ہی مارے جا چکے ہیں۔

ایک بات کو جواب آپ سب لوگ صدق دل سے دیں:
"ملک میں آٹے کا بحران ہے۔ اور یہ کسی وقت بھی سنگین صورتحال اختیار کر سکتا ہے اور آٹے کے حصول کے متعلق تصاویر آپ دیکھ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کبھی اس نام نہاد جہادی ٹولے نے لمحے بھر کے لیے بھی سوچا ہے کہ مارنے اور ذبح کرنے کے علاوہ انکی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ عوام کو زندہ رہنے کے لیے آٹا مہیا کریں؟
 

جہانزیب

محفلین
سب سے زیادہ اہم ہے خاندانی منصوبہ بندی کی انکی طرف سے حمایت اور مدد کے انتہائی مخالفت اور اسکا اسلام کے خلاف ہونے کا فتوی۔ اسکا نتیجہ سولہ کڑوڑ عوام کی صورت میں سامنے ہے

ملا کے علاوہ اس میں اس طبقہ کو بھی شامل کریں جو ایک دن کے بچے کو بھی "فیڈر"‌ پر لگا دیتا ہے ۔ جب تک ماں‌ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے دوسرا بچہ آنے کے امکانات تقریبآ‌ نا پید ہوتے ہیں‌ ۔۔ اگر ماں‌ دو سال تک بچے کو دودھ پلائے تو دو بچوں‌ کی پیدائش میں‌ چار سال کا وقفہ ویسے ہی آ جاتا ہے اور ایک عورت بیس سال میں‌ چار بچے ہی پیدا کر سکتی ہے ۔ صرف ایک طرف ہی دھیان نہیں‌ ہونا چاہیے ۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ملا کے علاوہ اس میں اس طبقہ کو بھی شامل کریں جو ایک دن کے بچے کو بھی "فیڈر"‌ پر لگا دیتا ہے ۔ جب تک ماں‌ اپنے بچے کو دودھ پلاتی ہے دوسرا بچہ آنے کے امکانات تقریبآ‌ نا پید ہوتے ہیں‌ ۔۔ اگر ماں‌ دو سال تک بچے کو دودھ پلائے تو دو بچوں‌ کی پیدائش میں‌ چار سال کا وقفہ ویسے ہی آ جاتا ہے اور ایک عورت بیس سال میں‌ چار بچے ہی پیدا کر سکتی ہے ۔ صرف ایک طرف ہی دھیان نہیں‌ ہونا چاہیے ۔
جہانزیب،
ایک یہی نہیں بلکہ اور بہت سے زاویے ہوں گے جس پر شاید میری نظر نہ ہو اور اس لیے میں انہیں بیان نہ کر پاتی ہوں یا پھر کوئی اور وجہ ہو جن کی وجہ سے ان مسائل پر آراء کا تھوڑا اختلاف ہو وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ مگر من حیث المجموعی ان دوسرے مسائل کا ذکر کر کے ایک مسلمہ مسئلے کا انکار ممکن نہیں۔
شاید صرف میں اکیلی ہی نہیں، بلکہ یہ ایک عام تاثر ہے کہ پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ملا [بلکہ میرے نزدیک یہ بات ملا سے آگے بڑھ کر علماء تک پہنچتی ہے] حضرات کی طرف سے اسے خلاف اسلام قرار دینا اور اسکو مغربی سازش قرار دینا ہے۔
والسلام
پی ایس٫:
ویسے میرے خیال میں پہلے دن ہی فیڈر دینے والا طبقہ شاید پاکستان میں اتنی بڑی قابل ذکر تعداد میں نہیں ہے۔ بلکہ آجکل تو ادھر یورپ میں بھی ایسا طبقہ نہ ہونے کے برابر ہے اور اسکی بنیادی وجہ وہ تعلیم ہے کہ بچے اور ماں دونوں کی صحت کے لیے بہترین چیز یہ ہے کہ ماں ہی بچے کو فیڈ کرے۔
مزید یہ کہ پاکستان کا مکمل طور پر علم نہیں، مگر یورپ میں [بلکہ صرف جرمنی کی بات کروں گی] فیڈر کے استعمال کی بڑی وجہ یہاں ماووں کی اپنی خواہش نہیں ہے بلکہ یہ سوغات ہے عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی، اور ہمارے ماڈرن رہن سہن کی، اور ہماری نئی جین ٹیکنالوجی کی بنیاد پر پیدا ہونے والے گوشت اور سبزیوں اور پھلوں کی۔
رہن سہن کے اعتبار سے ہم لوگ فطرت سے اس ماڈرن زمانے میں اتنے دور ہو گئے ہیں کہ آجکل جرمنی میں ماووں کی اکثریت اپنے بچوں کے لیے اتنا دودھ نہیں پیدا کر پا رہی ہیں کہ جس سے بچے کا پیٹ بھرا جا سکے۔ جبکہ پرانے زمانے کہ مائیں اتنا دودھ پیدا کر پاتی تھیں کہ ایک کیا بلکہ تین تین بچوں تک کو پیٹ بھر کر فیڈ کر سکیں۔ یہ اصل وجہ ہے کہ آج جرمنی میں زیادہ بچے فیڈر پر کیوں پل رہے ہیں۔
پاکستان میں بھی صحت کا ماحول بہت اچھا نہیں اور یقینا پاکستان میں بھی مائیں اسی طرح کی کمزوریوں کا شکار ہوں گی۔ ہمیں پاکستان میں ماحول کی تباہی پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے۔
 
امریکہ کے خلاف جذبات محض مسلم دنیا ہی میں تو نہیں، لاطینی امریکہ کے کئی ممالک بھی امریکہ دشمنی میں مسلم ممالک سے کہیں آگے ہیں۔
اصل میں یہ انسانی معاشرے کی نفسیات میں شامل ہے کہ مغلوب تہذیب کے کچھ کمزور اذہان غلبے کا کوئی اور راستہ نہ پا کر غلامی قبول کر لیتے ہیں اور اپنے موقف کو چھوڑ کر جارح اور غاصب تہذیب کو ہی کلی طور پر سچ سمجھنے لگتے ہیں۔
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ہم میں خامیاں موجود نہیں ہیں، لیکن یہ ضرور سوچا جانا چاہئے کہ اعلی سطح کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کس کی منظوری پر تعینات کی جاتی ہے۔ کیا آرمی چیف تک کے انتخاب پر یہ سوال سامنے نہین ہوتا کہ Would it be acceptable to Americans?
سو صاحبو، امریکہ کی تیسری دنیا کے بیشتر ممالک میں مسلسل مداخلت کوئی انوکھی اور ڈھکی چھپی بات نہیں۔
تیسری دنیا کی بیشتر سیاسی شخصیات کے قتل کا سرا امریکہ جا نکلے گا۔
چليئے مسلمان تو لعنتی مردود بے سمجھ انتہا پسند ظالم جاہل ہیں، لاطینی امریکہ دیکھ لیجئے۔
کیوبا دیکھ لیجئے۔

دیگر باتوں سے قطع نظر، محسن کی اس پوسٹ نےوسعت اللہ خان کے ایک کالم کی یاد تازہ کر دی وہ بھی لا طینی امریکہ کے بارے میں کچھ کہ رہے تھے

ابے مرغی کے بچے !
دس ستمبر کو براعظم جنوبی امریکہ کے غریب ترین ملک بولیویا کے صدر ایوو مورالیس نے امریکی سفیر فلپ گولڈ برگ کو یہ کہتے ہوئے ملک سے نکال دیا کہ وہ حزبِ اختلاف کو حکومت کے خلاف اکسا رہے ہیں۔امریکہ نے جوابیِ کارروائی کرتے ہوئے بولیویائی سفیر کو واشنگٹن چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
گیارہ ستمبر کو وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز نے اپنے ہزاروں حامیوں کے سامنے یہ کہتے ہوئے کہ ’جہنم میں جاؤ غلیظ یانکیو ہم خودار لوگ ہیں‘ امریکی سفیر پیٹرک ڈوڈی کو وینزویلا سے نکل جانے اور واشنگٹن سے اپنا سفیر واپس بلانے کا حکم جاری کردیا۔شاویز نے کہا کہ جب نئی امریکی انتظامیہ آئے گی تو ہم بھی اپنا سفیر واپس بھیج دیں گے۔واضح رہے کہ امریکہ وینزویلا کا سب سے بڑا تجارتی ساجھیدار ہے اور وینزویلا سے سالانہ چالیس بلین ڈالر کا تیل خریدتا ہے۔
بارہ ستمبر کو وسطی امریکہ کے ملک ہنڈوراس کے صدر مینوئیل زی لایا نے بولیویا اور وینزویلا سے اظہارِ یکجہتی دکھاتے ہوئے نئے امریکی سفیر سے اسنادِ سفارت وصول کرنے سے انکار کردیا۔
بولیویا، وینزویلا اور ہنڈوراس اس خطے میں ہیں جسے امریکہ ہمیشہ سے اپنے حلقہ اثر سمجھتا ہے۔تینوں میں سے کوئی بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے اور تینوں امریکہ کی ایک ہفتے کی فوجی مار بھی نہیں سہہ سکتے۔ تینوں ممالک نہ تو امریکہ کے قریب ترین اتحادی ہیں۔نہ ہی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے ہراول امریکی دستے میں شامل ہیں۔

یہ القابات تو امریکہ نے سولہ ہزار کلومیٹر دور پاکستان کے لیے مختص کررکھے ہیں جس پر تین ستمبر کے بعد سے ہر دوسرے روز زمینی یا فضائی حملے ہورہے ہیں۔اور یہ حملے بھی صدر بش کے اس دوماہ پرانے خفیہ اجازت نامے کے تحت ہورہے ہیں جس کی بھنک صدر بش سے ملاقات کرنے والے وزیرِ اعظم گیلانی کو بھی لگنے نہیں دی گئی۔
یہ حملے اس وفادار ملک پر ہورہے ہیں جس نے بقول امریکہ القاعدہ کے سب سے زیادہ لوگ پکڑ کر اس کےحوالے کیے ہیں۔جس کے سینکڑوں فوجی طالبان اور القاعدہ کے تعاقب میں مارے جاچکے ہیں اور جتنے امریکی شہری گیارہ ستمبر دوہزار ایک کو نیویارک میں مرے تھے ان سے کہیں زیادہ پاکستانی شہری خودکش بمباروں کا شکار بن چکے ہیں۔
اس پس منظر میں پاکستانی فوج اور حکومت کیا کسی داخلی، خارجی اور عسکری حکمتِ عملی پر بیک زبان متفق ہیں۔یہ سوال ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔

بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی کہتے ہیں کہ ہم کسی بھی حملے کا ٹھوس جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔وزیرِ اعظم گیلانی کہتے ہیں ہم امریکہ اور برطانیہ کو پاکستان کی خوش نیتی پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔صدر آصف زرداری لندن جا کر بش کے ہمنوا وزیرِاعظم گورڈن براؤن سے تو مل رہے ہیں۔لیکن ان کا برسلز کے ناٹو ہیڈکوارٹرز جانے کا کوئی پروگرام نہیں جس نے یکطرفہ امریکی کاروائیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔
سب سے نفیس بیان وزیرِ دفاع چوہدری احمد مختار کی طرف سے آیا ہے۔بقول انکے پاکستان اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ دفاع تلوار سے ہی کیا جائے۔اگر عدم تشدد کے پیمبر گاندھی جی حیات ہوتے تو احمد مختار کا منہ چوم لیتے۔
ایک مرتبہ بھرے بازار میں ایک زوال گزیدہ نواب صاحب کو ان کے ایک قرض خواہ نے گریبان سے پکڑ لیا اور بے نقط سنانا شروع کردیا۔نواب صاحب نے کہا کہ دیکھئے صاحب آپ ہمیں ننگی ننگی گالیاں نہ دیں ورنہ ہم بھی آپ کو ایسی گالی دیں گے کہ آپ کی نسلیں یاد رکھیں گی۔قرض خواہ غنڈے نے کہا نواب کے بچے ہمت ہے تو گالی دے !
نواب صاحب اپنی آنکھوں میں خون اتارتے ہوئے چیخے ابے مرغی کے بچے ہمارا گریبان چھوڑ!

http://www.bbc.co.uk/urdu/miscellaneous/story/2008/09/080914_baat_say_baat_nj.shtml
 

طالوت

محفلین
جب تک ہم طفیلیئے بنے رہیں گے تب تک تو امریکہ یا اس کے حواریوں سے جان چھڑانا یا برابری کی سطح پر بات کرنا ممکن نظر نہیں آتا،،،
بلاشبہ ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیئے ان "بے ہودگیوں" سے اجتناب کرنا ہو گاجو ہماری عیاشی کے لیئے در آمد کی جاتیں ہیں ۔۔۔
آبادی کا صحیح استمعال (چین بطور مثال موجود ہے) ہم زیادہ بہتر انداز سے ترقی کر سکتے ہیں ، تکنیکی تعلیم ، وسائل کا بہتر انداز میں استمعال ، سے ہمیں آبادی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، جدید ماہرین معاشیات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں
پر کرے کون ؟؟؟ باتیں ہی باتیں اور مزید باتیں
وسلام
 

خرم

محفلین
آبادی تو ایک ریسورس ہے اب اگر ہم اسے اچھی طرح استعمال نہیں کرپائے تو پھر قصور کس کا؟ خاندانی منصوبہ بندی تو صرف ایک افیون ہے کہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی اولاد کو قتل کئے جاؤ۔ جب ایک روح کا دُنیا میں آنا ٹھہر گیا تو آپ کاہے کو ہلکان ہورہے ہیں؟ کیا آپ کسی روح کو دُنیا میں آنے سے روک سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر پیسہ انہیں دُنیا میں آنے سے روکنے کی بجائے ان کے لئے اچھی دُنیا پیدا کرنے میں لگاؤ۔ لیکن خیر اپنی عقل کا استعمال تو ہم پر بند ہے۔ :)
 

خرم

محفلین
خرم ہوں یا فواد ۔۔ انہیں’’ تنخواہ‘‘ ہی اس بات کی دی جاتی ہے
کہ یہ پاکستانی معاشرے میں امریکہ مخالف رائے کو اپنی چرب زبانی
سے دبائے رکھیں ۔۔ سو اس مد میں شاہ سے زیادہ شاہ کے خیر خواہ
مرغی کی ایک ٹانگ کی مثل ۔۔ ’’ میں نہ مانوں ‘‘ یا ’’ تم ہی مانو ‘‘
کی گردان لگائے رکھتے ہیں۔۔ لاکھ دلائل دے لیجئے ۔۔ ’’ یہ نہ مانیں گے ‘‘
مغل بھیا تھوڑی سی زیادتی کرگئے آپ اس ناچیز پر۔ نہ تو میں امریکہ کا ملازم ہوں اور نہ مجھے امریکی یا پاکستانی سرکار نے کسی فرض کی انجام دہی کے لئے مقرر کیا ہوا ہے۔ ہاں اگر کچھ ہے تو وہ اپنا علم اور تجربہ اور مشاہدہ ہے۔ احباب کی توجہ اس بات کی طرف دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اوروں کو کوسنے دینے کی بجائے اپنے حالات سُدھارو۔ اس کوشش میں ہماری عزت افزائی :beating: بھی خوب ہوتی ہیں لیکن اپنا
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
والا ہی معاملہ ہے۔ سو
ایک طرز تغافل ہے سو "تم" کو مبارک
ایک عرض تمنا ہے سو کرتے رہیں گے۔:hatoff:
 

محسن حجازی

محفلین
دودھ کے ڈبے، خاندانی منصوبہ بندی اور امریکی چیرہ دستیوں کو باہم کچھ ربط نہیں۔

1۔ سیاستدان امریکہ کی جیب میں ہیں۔ تازہ ترین مثال اسفند یار ولی کی ہے جو امریکہ کے ایک 'نجی دورے' کے بعد بے غیرتی اور مصلحت میں فرق فراموش کر چکے ہیں۔
2۔ مذہبی قیادت 1980 کی دہائی میں امریکہ کے ہاتھوں کمیونزم کے خلاف اعلانیہ استعمال ہوئی اور کسی کو اس بات کا ادراک تک نہ ہوا۔ حال میں مولانا فضل الرحمن کی ضمیر فروشی کے واقعات ابھی تازہ ہیں۔
 

سعود الحسن

محفلین
اور يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ امريکہ سے نفرت کرنے سے پہلے آپ کو وہ تمام مالی امداد نظرانداز کرنا ہو گی جو امريکہ نے پچھلے 60 برسوں کے دوران تعمير وترقی کے ضمن ميں پاکستان کو دی ہے۔ اسی طرح سال 2005 کے زلزلے کے بعد امريکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد، فوجی سازوسامان اور سکالرشپس بھی نظر انداز کرنا ہوگی۔ يقينی طور پر اگر آپ ان تاريخی حقائق کو نظرانداز کر ديں تو پھر امريکہ سے نفرت کرنے ميں حق بجانب ہيں۔


http://usinfo.state.gov

فواد صاحب، بڑے شکر گزار ہونگے اگر آپ یہ بھی بتادیں کہ یہ "امداد" امریکہ کن شرائط پر دیتا رہا ہے ، مثلا ً شرح سود، پاکستان کے انتظامی معاملات میں مداخلت وغیرہ، جناب جسے آپ امداد کہتے ہیں اصل میں سودی قرضہ ہوتا ہے اور وہ بھی تقریبا مارکیٹ ریٹ پر۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

خرم ہوں یا فواد ۔۔ انہیں’’ تنخواہ‘‘ ہی اس بات کی دی جاتی ہے
کہ یہ پاکستانی معاشرے میں امریکہ مخالف رائے کو اپنی چرب زبانی
سے دبائے رکھیں ۔۔

آپ کی اطلاع کے ليے عرض ہے کہ يو- ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے ليے جو تنخواہ مجھے ملتی ہے وہ اس سے کہيں کم ہے جو مجھے امريکہ ميں کسی نجی کمپنی ميں کام کرنے کے عوض ملتی اور ميرے پاس اس کے مواقع موجود تھے ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم ميں کام کر کے مجھے اس بات کا موقع مل رہا ہے کہ ميں دوسرے فريق یعنی امريکہ کا نقطہ نظر بھی جان سکوں اور اپنے ہم وطنوں کو اس سے آگاہ کر سکوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

خرم

محفلین
فواد کی بات بڑھاتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ میرا ذاتی قیاس ہے کہ جو کچھ فواد اس فورم پر پڑھتے ہیں ان سے امریکیوں کو آگاہ بھی کرتے ہوں گے۔ سو ان کی ذات شائد امریکی پالیسی ساز طبقات میں اپنی بات پہنچانے کے لئے کارآمد بھی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ امریکیوں کی پہلی اور آخری ترجیح ان کا ملکی مفاد ہی ہوتا ہے۔
ویسے کیا کوئی یہ بتائے گا ہمیں کہ من حیث القوم ہم بیرونی دُنیا سے بشمول امریکہ کیا مطالبہ کرنا چاہتے ہیں؟ میرا سوال "نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر" نما جواب کا نہیں صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے معاملات سے متعلق جواب کا ملتجی ہے۔ تو ہے کوئی جو ہماری تشنگی دور کرے؟
 

محسن حجازی

محفلین
امریکیوں کی ناک کان گلا سب بند ہو چکے ہیں یہ کسی کی نہیں سنتے۔ اس کے لیے پنجابی میں ایک ہی محاورہ ہے کہ ان کی مت ماری گئی ہے۔
اس بارے میں تفصیلی تجزیہ پیش کرتا ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس ملک کی عوام کی اکثریت امریکا سے جو نفرت کرتی ہے تو اس کی کچھ وجوہات اور ہیں ہیں اب دیکھیئے حال ہی میں فارغ کیے جانے والے مشرف کیا امریکا نواز نہیں تھے کیا کبھی انہوں نےاس ملک کے عوام کو امریکا کی مخالفت پر اکسایا کوئی نعرہ دیا اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار امریکا کو ٹھرایا کیا مشرف کے دور میں ق لیگ نے کبھی ایسا کیا ،کیا ان کے ادوار میں آنے والے تین وزرائے اعظم نے کبھی ایسا کیا لیکن قیادت کے مکمل طور سے امریکی نواز ہونا کا عوام پر کیا اثر پڑا؟ وہ تو امریکیوں کے خلاف سے خلاف تر ہوتے گئے۔ "

پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کے حوالے سے ميرا نقطہ يہ تھا کہ بعض سياسی جماعتوں اور قائدين کی سياسی قوت کا پيمانہ انکی پاليسياں اور ملک کی تعمير وترقی اور بہتر مستقبل کے ضمن ميں انکے منصوبے نہيں ہوتے بلکہ محض فقرے بازی اور جذباتی نعرے ہوتے ہيں۔

آپ نے صدر مشرف کی مثال دی ہے۔ کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد قائد تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟

حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟ سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔

جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔

سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔

عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔

پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔

سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔

اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔

بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔

دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔

دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔

دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔

دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔

اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔

آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔ اگر صدر مشرف ملک کے ليے "نقصان دہ" تھے تو ان کو طاقت کے اس مرتبے پرپہنچانے کا قصوروار کون تھا؟ کيا آپ کے خيال ميں جو حقائق ميں نے پيش کيے ہيں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ميں مشرف کے حوالے سے پائے جانے والے امريکہ مخالف جذبات جائز ہیں؟

دلچسپ امر يہ ہے کہ موجودہ حکومت پر بھی بعض سياسی قوتوں کی جانب سے جو تنقيد کی جا رہی ہے اس کا محور بھی وہی پرانا اور استعمال شدہ نعرہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہے اور موجودہ حکمران امريکی اشاروں کے غلام ہيں۔

کيا موجودہ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کا ذمہ دار امريکہ ہے يا پاکستان کے عوام جنھوں نے انھيں ووٹ ديے۔ اگر امريکہ اس کا ذمہ دار نہيں تو کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں کہ پاکستان ميں امريکہ مخالفت جذبات کی وجہ حقائق نہيں بلکہ وہ جذباتی نعرے ہيں جنھيں سياست دان اپنی سياسی کمزوريوں پر پردہ ڈالنے کے ليے دانستہ استعمال کرتے ہيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

فواد کی بات بڑھاتے ہوئے صرف یہ کہوں گا کہ میرا ذاتی قیاس ہے کہ جو کچھ فواد اس فورم پر پڑھتے ہیں ان سے امریکیوں کو آگاہ بھی کرتے ہوں گے۔ سو ان کی ذات شائد امریکی پالیسی ساز طبقات میں اپنی بات پہنچانے کے لئے کارآمد بھی ہے۔

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کے ممبران ميں صرف اردو ہی نہيں بلکہ عربی اور فارسی زبان کے ماہرين بھی شامل ہيں۔ حال ہی ميں سی – اين – اين نے ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم پر ايک فيچر بھی دکھايا تھا جو آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.cnn.com/video/#/video/in.../ime.dec.b.us.image.arab.cnn?iref=videosearch


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

خرم

محفلین
فواد پاکستانیوں کا ایک خاص طبقہ تو قائد اعظم کو بھی برطانوی ایجنٹ قرار دیتا تھا اور دیتا ہے۔ ایسے میں امریکہ نوازی کا طعنہ ہر پاکستانی رہنما کو دیا جانا کوئی عجب نہیں۔ اگر ہم پاکستانی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی کرسکتے اور خوئے غلامی سے نجات پاسکتے تو اس سب کچھ کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن ہم تو کیکر اُگائیں گے اور انگور کا پھل اُتاریں گے۔ سو امریکہ مردہ باد۔ اگر امریکہ نہ رہا تو کوئی اور مردہ باد کہ ہم نے تو زندہ باد ہونا ہی نہیں۔ بس زندگی گزار کر مٹی کا ایندھن بن جانا ہے بنا کچھ کئے۔
 

محسن حجازی

محفلین
خرم بھائی آپ ہمیں تو بیچ سے نکال باہر کیجئے، کیا ویت نام میں امریکہ خود نہیں گھسا تھا؟ عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے نہیں ہے؟ افغانستان آپ کے سامنے پامال نہیں ہوا؟ آپ یہ تو مت کہئے کہ امریکہ بالکل بے قصور ہے، یہ قطعی طور پر قرین انصاف نہیں۔
 

محسن حجازی

محفلین
پاکستان ميں امريکہ مخالف جذبات کے حوالے سے ميرا نقطہ يہ تھا کہ بعض سياسی جماعتوں اور قائدين کی سياسی قوت کا پيمانہ انکی پاليسياں اور ملک کی تعمير وترقی اور بہتر مستقبل کے ضمن ميں انکے منصوبے نہيں ہوتے بلکہ محض فقرے بازی اور جذباتی نعرے ہوتے ہيں۔

آپ نے صدر مشرف کی مثال دی ہے۔ کيا صدر مشرف پاکستان کی تاريخ کے واحد قائد تھے جنھيں "امريکی غلام" قرار دے کر امريکہ مخالف جذبات کو استعمال کيا گيا؟

حقائق ثابت کرتے ہيں کہ پاکستان کی تاريخ کی قريب تمام حکومتوں کو "امريکی کٹھ پتلی" قرار دے کر ان کی سياسی مخالفت کی گئ۔ سياسی مخالفين کی جانب سے اپنی حکومتوں کو امريکہ نواز قرار دے کر سياست کرنے کی حکمت عملی سادہ اور ثابت شدہ ہے۔ کيا آپ نے ان سياسی مخالفين کو تعليم، صحت اور دفاع کے ضمن ميں اپنی پاليسيوں کی تشہير کرتے ديکھا ہے؟ سياسی مخالفت کا تو بنيادی اصول ہی يہ ہے کہ اگر آپ حکومت کی پاليسيوں سے اختلاف رکھتے ہيں تو انھيں اعداد وشمار اور دلائل سے غلط ثابت کريں اور ايسے متبادل منصوبے عوام کے سامنے پيش کريں جو آپ کے نزديک زيادہ بہتر مقاصد حاصل کر سکتے ہيں، بجائے اس کے کہ آپ محض جذباتی نعرہ بازی کو اپنی سياست کا محور بنا ليں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے گئے فيصلے کسی بھی حکومت کے مستقبل يا اسکی تاريخ پر اثر انداز ہوتے ہيں ليکن بعض سياسی قوتيں ان تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر محض "امريکہ نواز" يا "امريکہ کے کٹھ پتلی" جيسے نعروں تک ہی محدود رہتی ہيں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دوررس، جديد اور موثر اقتصادی اور تعليمی منصوبوں کے بارے ميں تفصيلی گفتگو کرنے کے مقابلے ميں يہ طريقہ زيادہ آسان ہے جو کچھ سياست دان استعمال کرتے ہيں۔

جہاں تک صدر مشرف کا تعلق ہے تو پاکستان ميں اکثر سياسی ليڈروں کی جانب سے متفقہ طور پر يہ تاثر ديا جاتا رہا کہ امريکہ پاکستان ميں 16 کروڑ عوام کی خواہشات کے برعکس ايک آمر کی پشت پناہی کرتا رہا ہے اور دہشت گردی سميت ملک ميں تمام تر مسائل کا ذمہ دار صرف امريکہ ہے۔ اگر امريکہ اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليےملک کے جمہوری اداروں اور سياسی قوتوں کی بجائے ايک آمر کو سپورٹ نہيں کرتا تو ملک آج ان بے شمار مسائل ميں گھرا ہوا نہيں ہوتا۔

سياسی جماعتوں کا يہ موقف پچھلے کئ سالوں سے ميڈيا کے ذريعے عوام تک پہنچتا رہا ہے۔

عوام کے سامنے بہتر منصوبوں اور پاليسيوں کے ذريعے حکومت پر تنقيد کرنے کی بجائے تمام تر زور اس بات پر ديا جاتا رہا کہ امريکہ مشرف اور اس کے "حواريوں" کی حمايت کر کے پاکستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ يہ بات بھی بڑے زور و شور سے کی جاتی رہی کہ پاکستان کے تمام تر مسائل کی وجہ امريکہ ہے جس کی پشت پناہی کے سبب ايک آمر ايسے قوانين بنا رہا ہے جس سے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ گيا ہے۔

پاکستان ميں يہ تاثر اتنا مقبول ہو گيا کہ ميڈيا يا اخبارات ميں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کسی دليل يا توجيہ کی ضرورت بھی محسوس نہيں کی گئ گويا کہ يہ مفروضہ بحث ومب۔احثے کے مراحل سے گزر کر ايک تصديق شدہ حقيقت بن چکا تھا کہ صدر مشرف کا دور اقتدار (اس بات سے قطعہ نظر کہ وہ پاکستان کے ليے فائدہ مند ہے يا نقصان دہ) صرف اور صرف امريکہ کی مرہون منت ہے۔

آپ کے ليے يہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ امريکی حکومتی حلقوں ميں اس تاثر پر انتہاہی حيرت کا اظہار کيا جاتا ہے۔ اس کی وجہ يہ ہے کہ نہ ہی پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر ترقی ميں امريکہ کا کوئ کردار تھا، نہ ہی انھيں ملک کا صدر امريکہ نے بنايا اور نہ ہی ان کے دور اقتدار ميں توسيع امريکہ نے کروائ۔

اس حوالے سے کچھ تاريخی حقائق پيش خدمت ہيں۔

سات (7) اکتوبر 1998کو اس وقت کے وزيراعظم نوازشريف نے آرمی چيف جرنل جہانگير کرامت کے استعفے کے بعد پرويز مشرف کو دو سينير جرنيلز کی موجودگی ميں ترقی دے کر آرمی چيف کے عہدے پر ترقی دی۔

اپنے ايک حاليہ انٹرويو ميں نواز شريف نے پرويز مشرف کو آرمی چيف کے عہدے پر تقرری کو اپنے سياسی کيرئير کی ايک "بڑی غلطی" تسليم کيا۔

بارہ اکتوبر 1999 کو جب نواز شريف کو اقتدار سے ہٹايا گيا تو ملک کی تمام بڑی سياسی جماعتوں نے اس کا خيرمقدم کيا۔ اگر آپ انٹرنيٹ پر اس دور کے اخبارات نکال کر ان کی سرخيوں پر نظر ڈاليں تو آپ ديکھيں گے کہ پاکستان پيپلزپارٹی اور تحريک انصاف سميت تمام سياسی جماعتوں نے پرويز مشرف کو ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لينے کے قدم کو ملک کے مفاد ميں قرار ديا۔

دو ہزار دو (2002) ميں تحريک انصاف کے قائد عمران خان نے پرويز مشرف کی حمايت کو ايک "بڑی غلطی"قرار ديا۔

دو ہزارچار (2004) ميں ايم – ايم –اے کے توسط سےقومی اسمبلی ميں 17ويں ترميم پاس کی گئ جس کے ذريعے پرويز مشرف کے اقتدار کو مضبوط کر کے اس ميں مزيد توثيق کر دی گئ۔

دو ہزار پانچ (2005) ميں قاضی حسين احمد نے ايم – ايم – اے کے اس قدم کو "بڑی غلطی" قرار ديا۔

دو ہزار سات (2007) ميں پاکستان کی چاروں صوبائ اسمبليوں اور قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب نمايندوں نے پرويز مشرف کو57 فيصد ووٹوں کے ذريعے اگلے پانچ سالوں کے ليے ملک کا صدر منتخب کر ليا۔

اليکشن کے بعد پيپلز پارٹی کی قيادت نے قومی اسمبلی سے مستعفی نہ ہونے کے فيصلے کو بڑی "سياسی غلطی" قرار ديا۔

آپ خود جائزہ لے سکتے ہيں کہ پرويز مشرف کو آرمی چيف مقرر کرنے سے لے کر صدر بنانے تک اور صدر کی حيثيت سے ان کے اختيارات کی توثيق تک پاکستان کی تمام سياسی پارٹيوں اور ان کی قيادت نے اپنا بھرپور کردار ادا کيا ہے۔ اسکے باوجود تمام سياسی جماعتوں کا يہ الزام کہ پرويزمشرف امريکہ کی پشت پناہی کی وجہ سے برسراقتدار رہے، ايک جذباتی بحث کا موجب تو بن سکتا ہے ليکن يہ حقيقت کے منافی ہے۔ اگر صدر مشرف ملک کے ليے "نقصان دہ" تھے تو ان کو طاقت کے اس مرتبے پرپہنچانے کا قصوروار کون تھا؟ کيا آپ کے خيال ميں جو حقائق ميں نے پيش کيے ہيں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان ميں مشرف کے حوالے سے پائے جانے والے امريکہ مخالف جذبات جائز ہیں؟

دلچسپ امر يہ ہے کہ موجودہ حکومت پر بھی بعض سياسی قوتوں کی جانب سے جو تنقيد کی جا رہی ہے اس کا محور بھی وہی پرانا اور استعمال شدہ نعرہ ہے کہ موجودہ حکومت پچھلی حکومت کا تسلسل ہے اور موجودہ حکمران امريکی اشاروں کے غلام ہيں۔

کيا موجودہ حکمرانوں کو برسراقتدار لانے کا ذمہ دار امريکہ ہے يا پاکستان کے عوام جنھوں نے انھيں ووٹ ديے۔ اگر امريکہ اس کا ذمہ دار نہيں تو کيا ميں يہ کہنے ميں حق بجانب نہيں کہ پاکستان ميں امريکہ مخالفت جذبات کی وجہ حقائق نہيں بلکہ وہ جذباتی نعرے ہيں جنھيں سياست دان اپنی سياسی کمزوريوں پر پردہ ڈالنے کے ليے دانستہ استعمال کرتے ہيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov


آپ کا تمام تر استدلال یہ ہے کہ ہونے والے واقعات میں امریکہ کا کوئی قصور نہیں۔ تسلیم!
اس سارے حقائق نامے کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ امریکہ صورتحال تخلیق نہیں کرتا ، پیدا شدہ صورتحال سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
 

خرم

محفلین
خرم بھائی آپ ہمیں تو بیچ سے نکال باہر کیجئے، کیا ویت نام میں امریکہ خود نہیں گھسا تھا؟ عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے نہیں ہے؟ افغانستان آپ کے سامنے پامال نہیں ہوا؟ آپ یہ تو مت کہئے کہ امریکہ بالکل بے قصور ہے، یہ قطعی طور پر قرین انصاف نہیں۔
محسن بھیا آپ بالکل بجا فرماتے ہیں لیکن میرا مسئلہ امریکہ نہیں پاکستان ہے اور یہی میری دلچسپی کا مرکز ہے۔ اس بات سے تو آپ بھی اتفاق فرماتے ہوں گے کہ ہم من حیث القوم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ امریکہ صورتحال پیدا نہیں‌کرتا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تو بھیا صورتحال پیدا کرنے اور اس سے کسی کو فائدہ اٹھانے دینے کے گناہ تو ہم ہی سے سرزد ہوتے ہیں نا۔ یہ تو ہمارا اپنا قومی فریضہ ہے نا کہ اول تو ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے اور اگر ہوجائے تو کسی غیر کو اس سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔ اوروں سے توقع کیوں کہ وہ ہمارے مفادات کا یا ہمارا خیال رکھیں گے؟
 

محسن حجازی

محفلین
محسن بھیا آپ بالکل بجا فرماتے ہیں لیکن میرا مسئلہ امریکہ نہیں پاکستان ہے اور یہی میری دلچسپی کا مرکز ہے۔ اس بات سے تو آپ بھی اتفاق فرماتے ہوں گے کہ ہم من حیث القوم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرا کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ امریکہ صورتحال پیدا نہیں‌کرتا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ تو بھیا صورتحال پیدا کرنے اور اس سے کسی کو فائدہ اٹھانے دینے کے گناہ تو ہم ہی سے سرزد ہوتے ہیں نا۔ یہ تو ہمارا اپنا قومی فریضہ ہے نا کہ اول تو ایسی صورتحال پیدا ہی نہ ہونے دی جائے اور اگر ہوجائے تو کسی غیر کو اس سے فائدہ نہ اٹھانے دیا جائے۔ اوروں سے توقع کیوں کہ وہ ہمارے مفادات کا یا ہمارا خیال رکھیں گے؟

بالکل درست! متفق!
اس کے لیے 'پنجابیت' سے نکلنا ہوگا۔
'پنجابیت' کیا ہے؟
سانوں کی جی تسی بس اپنی نبیڑو (ہمیں کیا صاحب بس آپ اپنا دیکھئے)
یہ وہ رویہ ہے جس پر ہم قومی معاملات میں خود تماشائی بن کر دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ وبا اب پوری قوم میں سرایت کر چکی ہے۔ حتی کہ اے این پی جیسی جماعت بھی اب اسی فلسفے کی زد میں ہے۔ ماسوائے بلوچ اور پختون بھائیوں کے، باقی سارا پاکستان سر جھکا کر ظلم سہنے کی روش پر ہے اور حد تو یہ ہے کہ کہیں سے یہ مطالبہ بھی نہیں آتا کہ صاحب جوتے مارنے والوں کی تعداد ہی بڑھا دیجئے۔
مثلا پیٹرول کو لے لیجئے۔ دنیا بھر میں قیمتیں نیچے آ رہی ہیں، یہ چڑھا رہے ہیں۔ صرف دس دن کے لیے پوری قوم اپنی کاریں، موٹرسائکلیں رکشے ویگنیں وغیرہ لاکر پمپوں پر کھڑے کر دیں کہ ہم چلاتے ہی نہیں پھر دیکھئے کہ حکومت کیسے گڑگڑاتی اور معافیاں مانگتی تمام سرچارج اٹھاتی ہے۔ لیکن ایسا ممکن ہی نہیں اس قدر قومی شعور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تاہم میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ امریکہ حق پر نہیں۔اگر میں معذور ہوں، تو صحت مند مجھے مارنے پیٹنے میں محض اس لیے تو حق بجانب نہیں ہو سکتا کہ میں جوابی کاروائي کی سکت نہیں رکھتا۔
پنجابی دوستوں سے معذرت، میں خود بھی پنجاب سے ہوں اور پنجابی ہوں تاہم مزاج باغیانہ رکھتا ہوں۔
 

arifkarim

معطل
بالکل درست! متفق!
اس کے لیے 'پنجابیت' سے نکلنا ہوگا۔
'پنجابیت' کیا ہے؟
سانوں کی جی تسی بس اپنی نبیڑو (ہمیں کیا صاحب بس آپ اپنا دیکھئے)
یہ وہ رویہ ہے جس پر ہم قومی معاملات میں خود تماشائی بن کر دیکھتے رہتے ہیں۔ یہ وبا اب پوری قوم میں سرایت کر چکی ہے۔ حتی کہ اے این پی جیسی جماعت بھی اب اسی فلسفے کی زد میں ہے۔ ماسوائے بلوچ اور پختون بھائیوں کے، باقی سارا پاکستان سر جھکا کر ظلم سہنے کی روش پر ہے اور حد تو یہ ہے کہ کہیں سے یہ مطالبہ بھی نہیں آتا کہ صاحب جوتے مارنے والوں کی تعداد ہی بڑھا دیجئے۔
مثلا پیٹرول کو لے لیجئے۔ دنیا بھر میں قیمتیں نیچے آ رہی ہیں، یہ چڑھا رہے ہیں۔ صرف دس دن کے لیے پوری قوم اپنی کاریں، موٹرسائکلیں رکشے ویگنیں وغیرہ لاکر پمپوں پر کھڑے کر دیں کہ ہم چلاتے ہی نہیں پھر دیکھئے کہ حکومت کیسے گڑگڑاتی اور معافیاں مانگتی تمام سرچارج اٹھاتی ہے۔ لیکن ایسا ممکن ہی نہیں اس قدر قومی شعور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
تاہم میں اپنے موقف پر قائم ہوں کہ امریکہ حق پر نہیں۔اگر میں معذور ہوں، تو صحت مند مجھے مارنے پیٹنے میں محض اس لیے تو حق بجانب نہیں ہو سکتا کہ میں جوابی کاروائي کی سکت نہیں رکھتا۔
پنجابی دوستوں سے معذرت، میں خود بھی پنجاب سے ہوں اور پنجابی ہوں تاہم مزاج باغیانہ رکھتا ہوں۔

درست! سارا قصہ ہی قومی شعور کا ہے۔ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہوں گے کہ آج ہم جس امریکہ کو لعنت کر رہے ہیں۔ وہ بھی آج سے کوئی 150سال قبل ایک قوم نہ تھے۔ اس وقت امریکہ محض چند اسٹیٹس پر محیط تھا۔ برطانوی انڈسٹریل انقلاب کے بعد شمالی اسٹیٹس میں انڈسٹری تیزی سے پھیلنے لگی، جبکہ جنوبی اسٹیٹس پرانی کھیتی باڑی پر مرکوز رہیں۔ ان دو مختلف نظاموں کی وجہ سے حبشی غلاموں کا تنازعہ پیدا ہوا جو کہ جنوبی ریاستیں اپنی کاشت کیلئے استعمال کرتی تھی۔

نتیجہ ایک خانہ جنگی شروع ہو گئی جس میں تقریبا ساڑے 6 لاکھ امریکی ہلاک ہوئے۔ اس جنگ کے اختتام پر امریکہ کے اندر غلامی کا تو خاتمہ ہو گیا مگر حبشیوں سے امتیاذی سلوک مزید 100 سال تک جاری رہا۔ اس جنگ کا فائدہ یہ ہوا کہ امریکی ریاستیں تاریخ میں پہلی بار عملی طور پر متحد ہوئیں۔

موجودہ پاکستانی حالات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ قومی شعور کو بیدار کرنے کیلئے ایک قسم کی خانہ جنگ کی ضرورت ہے۔ یقینا اسکے لئے عوام کے ہر فرد کو اٹھنا ہوگا۔ اور ضروری نہیں کہ جنگ گولیوں اور تلواروں سے کی جائے۔ جیسا کہ محسن بھائی نے کہا کہ اگر عوام ملکر اقدام کرے تو 1 دن میں حکومت گھٹنے ٹیک دے گی۔ انقلاب ایسے ہی آیا کرتے ہیں!
 
Top