لاہور میراتھون ریس

نعمان

محفلین
میراتھون ریس

لاہور میں آج میراتھون دوڑ ہورہی ہے۔ کوئی چھ مہینے پہلے جب عاصمہ جہانگیر اور دیگر لوگوں نے حقوق انسانی اور آزاد خیالی کے لئیے مخلوط دوڑ کرنا چاہی تھی تو اسی آزاد خیال حکومت نے انہیں حوالات میں ڈال دیا تھا۔ بقول حکومت مجلس کی وارننگ کی وجہ سے نقص امن کا ڈر تھا۔ اب اسی صوبے کی حکومت دوڑ کرارہی ہے اور آزاد خیالی کا شور مچارکھا ہے۔ آزاد خیالی یا غیر آزاد خیالی کا میراتھون سے کیا تعلق ہے؟ مجھے خواتین کی اس مخلوط ریس پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن جس طرح دوڑ کو آزاد خیالی سے منسوب کیا جارہا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔

مجھے جماعت اسلامی کی اس بات سے پورا اتفاق ہے کہ یہ نان ایشوز کو ہائی لائٹ کرنے کا پرانا حکومتی حربہ ہے۔ میں اس میں یہ اضافہ کرونگا کہ جماعت اسلامی ہمیشہ کی طرح آمروں کی ہر ایسے حربے کو بھرپور طریقے سے کامیاب کراتی ہے تاکہ عوام کی توجہ باجوڑ، بلوچستان، وزیرستان اور زلزلہ زدگان سے ہٹی رہے۔ جماعت اسلامی نے کبھی پیٹرول کی قیمتوں، بسنت، مہنگائی، جہالت کے لئیے اتنا زبردست احتجاج کیا ہوتا تو شاید ہمیں خود آزاد خیال ثابت کرنے کے لئیے دوڑیں نہ لگانا پڑتیں۔
 
کس پر اتفاق ہو رہا ہے بھائیوں ویسے اتنا اتفاق دیکھ کر بڑی خوشی ہو رہی ہے۔

میراتھن کس تاریخ پر ہے میں سوچ رہا ہوں اس دفعہ جا کر حصہ لے ہی لوں دیکھوں تو سہی کہ خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے :wink:
 

الف نظامی

لائبریرین
صبح بخیر از ڈاکٹر صفد محمود
پاکستان کا سافٹ امیج اور میرا تھن
آج کئی دنوں کے بعد لکھنے کیلئے قلم اٹھا کر بیٹھا ہوں تو ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آرہا کہ وزیرستان پر امریکی یلغار کا نوحہ لکھوں یا بلوچستان کی سلگتی چنگاریوں پر آنسو بہاوں۔ ادھر پنجاب میں حکومت بمقابل اپوزیشن میراتھن کے اکھاڑے میں اتر چکی ہے ، میدان گرم ہو رہا ہے اور چیلنجوں کے تبادلے کے بعد مقابلے کی تیاریاں جاری ہیں۔ بزعم خود طاقتور حکومتوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ خوامخواہ پنجہ آزمائی کا ماحول پیدا کرتی ہیں جس سے پر امن فضا مکدر ہوتی ہے۔ بالاخر حاصل تو کچھ نہیں ہوتا البتہ ماحول کی گرما گرمی لوگوں کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کر جاتی ہے اور چند دن کیلئے لوگوں کو تبصرے کیلئے موضوع مل جاتا ہے ۔
گزشتہ سال بھی پنجاب میں میراتھن ریس منعقد کی گئی تھی جس نے کسی حد تک جنگ و جدل کا ماحول پیدا کر دیا تھا۔ ہمارے وزیرِ اعلی کا فلسفہ یہ ہے کہ میراتھن ریس سے پاکستان کا سافٹ امیج ابھرے گا جبکہ میں خلوصِ نیت سے سمجھتا ہوں کہ صرف مراتھن ریسوں اور مردوں عورتوں کی مخلوق دوڑیں ملک کا سافٹ امیج نہیں ابھار سکتیں۔ سافٹ امیج کے تقاضے کچھ اور ہیں ، مخلوط دوڑوں کا مقصد اگر دنیا کو یہ بتانا ہے کہ پاکستان میں کھلی آزادی ہے، عورتیں گھروں میں قید نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں کھلی آزادی ہے، عورتیں گھروں میں قید نہیں ، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں شریک ہیں، تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں خواتین سیاست سے لیکر ملازمتوں تک ، سماجی خدمات کے شعبوں سے لیکر نجی معاشی میدان تک ہر طرف زندگی کے دھارے میں شامل ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان میں مخلوط تعلیم بھی ہے اور پاکستان کی بچیاں دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں زیرَ تعلیم ہیں، وہ ادب و صحافت سے لیکر فلم اور آرٹ تک ہر طرف اپنا مقام پیدا کر چکی ہیں۔ اس پسِ منظر یہ سمجھنا کہ میراتھن ریس پاکستان کا سافٹ امیج ابھارے گی محض سطحی سوچ ہے ۔ اصل بات غور طلب مسئلہ ہے کہ پاکستان کا سافٹ امیج کیوں نہیں ابھر سکا اور کیا میراتھن ریس اس امیج کو بدل دے گی۔
مجھے یاد آ رہا ہے کہ آج سے آٹھ برس قبل جب میں یونیسکو کے ایگزیکٹو بورڈ کی رکنیت کےلئے الیکشن لڑ رہا تھا تو انتخابی اکھاڑے میں بہت سے امیدواروں میں سعودی عرب کا بھی ایک امیدوار شامل تھا ۔یاد رہے کہ یونیسکو یو این او کا وہ ایک عالمی سطح کا سب سے زیادہ متحرک ادارہ ہے جس کے اراکین کی تعداد 186 ممالک پر مشتمل ہے اور اسے چلانے اور اس کی پالیسیاں بنانے کی ذمہ داری اس بورڈ پر ہوتی ہے جسے 186 ممالک منتخب کرتے ہیں ۔ مجھے ابھی تک یاد ہے کہ سعودی عرب کے امیداور کے خلاف جو یورپی ممالک مہم چلا رہے تھے وہ اکثر اوقات کہتے تھے کہ جس ملک میں خواتین کو کار چلانے کی اجازت نہیں جس ملک میں خواتین کو گھروں میں قید کردیا گیا ہے اس کے نمائندے کو اس انتخاب میں کامیاب نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان پر ایسا کوئی الزام نہیں تھا ۔ پاکستان کو ایک نیم خواندہ ، نیم ترقی یافتہ اور نیم جمہوری ملک سمجھا جاتا تھا جسے ابھی جمہوریت اور خواندگی کی راہ پر خاصا سفر طے کرنا تھا۔
لیکن جب اکتوبر 1999 میں سیاسی حکومت ختم کردی گئی تھی اور اسمبلیوں کا بوریا بستر لپیٹ دیاتو نہ صرف یونیسکواور یو این او بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو دھچکا لگا۔ اس کے بعد آج تک دنیا یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام پر وردی کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔ اس لئے اس جمہوری ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔اس لیے اگر ہمیں عالمی سطح پہ پاکستان کا سافٹ امیج ابھارنا ہے تو اس کہ پہلی شرط پوری کرنا پڑے گی اور وہ ہے صحیح جمہوریت کی بحالی ۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے تقاضے کیا ہیں۔
دوسرا ہم مسئلہ جو پاکستان کے سافٹ امیج کی راہ میں میں حائل ہے وہ ہے مذہبی تشدد پسندی یا دہشت کا تاثر۔۔۔
پاکستان میں عالمی سطح پر عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب، ماضی میں فرقہ وارانہ فسادات ، اندرونی طور پر مذہبی انتہا پسندوں کی سرگرمیوں، پاکستان میں القاعدہ کا اثرو رسوخ اور جڑیں ، پاکستان پر افغانستان کی صورتِ حال کے سائے اور کشمیر میں تحریک آزادی کے حوالے سے پاکستان کا کردار ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم لاہور میں مراتھن ریس منعقد کرکے ان مسائل کے اثرات زائل کرسکتے ہیں ۔ کیا ہماری میراتھن ریس ان چیلنجوں یا خطرات کا جواب ہے؟ کیا اس سے بہتر ملکی امیج ابھرے گا جبکہ ایک باثر حلقہ اس کا مخالف ہے اور حزبِ
مخالف کی بعض جماعتیں اسے بزورِ بازو روکنا چاہتی ہیں ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ اس تصادم سے ملکی امیج بہتر ہوگا یا مزید خراب۔۔۔۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے ملکی امیج مزید خراب ہوگا۔
اس ضمن میں بین الاقو امی سطح پر پاکستان پر ایک اہم اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی شرح خواندگی کم ہے اور خاص طور رورل علاقوں میں بلوچستان کے بعض حصوں میں خواتین کی شرح خواندگی افسوس ناک حد تک کم ہے ۔ اب جبکہ خواتین کو اسمبلیوں میں نمائندگی دے دی گئی ہے اور وہ مقابلے کے امتحانوں سے لیکر زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھ رہی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کی شرح خواندگی بڑھانے کیلئے اور خاص طور غیر ترقی یافتہ علاقوں میں خواتین کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کیلئے خصوصی اقدامات کئے جائیں اور ان اقدامات کا تاثر بین الاقوامی سطح پر پھیلایا جائے ۔ اس سے پاکستان کا سافٹ امیج بنانے اور ابھارنے میں مدد ملے گی۔
میں خلوصِ نیت سے سمجھتا ہوں کہ جب تک پاکستان میں قانون کی حاکمیت خاص حد تک نافذ نہیں ہوتی، جمہوری ڈھانچہ تشکیل نہیں دیا جاتا ، سیاست کو وردی کے سائے سے آزاد نہیں کیا جاتا ، مذہبی تشدد اور انتہا پسندی پر قابو نہیں پایا جاتا، شرح خواندگی نہیں بڑھائی جاتی ، پاکستان کا سافٹ امیج نہیں ابھرئے گا۔یہ ایک سنجیدہ موضوع ہے جو طویل بحث کا متقاضی ہے اوراس مسئلے کی کئی جہتیں ہیں جن کا مختصر کالم میں تجزیہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اتنی سی بات یاد رکھیں کہ آج کے آزاد میڈیا کے دور میں محض چہرے پر سرخی پاوڈر لگا کر بدنما داغوں کو چھپایا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک سطحی عمل ہے جس کا فائدہ نہیں ہوگا۔
 

رضوان

محفلین
آخر کب تک وقت کے پھیے کو الٹا گھمانے کی کوشش ھوتی رھے گی۔لاءمساءل کوآگے لاکرعوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی جارھی ھے۔
 
Top