لاک ڈاؤن میں’ تصویر ‘ہندوستان کی :

فاخر

محفلین
لاک ڈاؤن میں’ تصویر ‘ہندوستان کی :

ہندوستان بھر میں جنتا کرفیو (عوامی کرفیو)کے بعد کرونا وائرس کے تحفظ کے نام پر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا ، جس کا راست اثر ان مزدوروں پر پڑاہے ، جو یومیہ مزدور ی کرتے تھے ، یہ تمام مزدور ملک کے مختلف علاقوں کے باشندے تھے ، جو دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے گھر بار چھوڑ کر دہلی ، ممبئی یا ان جیسے دوسرے شہروں میں مقیم تھے ۔جب ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ، تو ان مزدوروں کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑگئے ، اور ان کی یومیہ اجرت ختم ہوگئی۔ پھر ان کے ساتھ بدقسمتی یہ ہوئی ہے کہ وہ ، جس کرایے کے مکان میں رہتے تھے ،اسے مکان مالکان نے جبراً خالی کرالیا ، اب ان کے پاس نہ رہنے کیلئے چھت تھی اور نہ ہی کھانے کیلئے دووقت کی روٹی ۔ وہ کہا ں جاتے ؟ اور کس سے چھت اور دو وقت کی روٹی مانگتے ، بادلِ نخواستہ بھوکے پیاسے پیدل ہی 1000 - 1500یا پھر 700کیلومیٹر ہی چل کھڑے ہوئے ۔ کوئی دہلی سے پیدل اپنے بچوں کے ساتھ صوبہ بہا ر1100 کیلومیٹر دور جارہاہے ، تو کوئی 500کیلومیٹر پیدل چل کر مدھیہ پردیش اوراتر پردیش کی طرف کوچ کررہا ہے ، پوری دنیا میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے ؛ لیکن جیسی تصاویر ہندوستان کی آرہی ہیں ، اس سے انسانیت شرمسار ہی نہیں ؛بلکہ اِس انسانیت پر لرزہ بھی طاری ہے کہ آخر حکومت نے بغیر کسی منصوبہ اور منظم پلان کے ، لاک ڈاؤن کااعلان کردیا؛لیکن ان غریبوں اور یومیہ مزدوروں کا کوئی خیال کیوں نہیں کیا؟ جب کہ ہندوستان میں ۷۰؍فیصدی آبادی یومیہ مزدوروں کی ہے۔
دہلی حکومت نے ان کے قیام او ر طعام کا انتظام کیا ہے ، آخر ایک صوبائی حکومت کر ہی کیا سکتی ہے ؟ اس کا انتظام تو مرکزی حکومت کو کرنا چاہیے ۔سماجی فاصلہ کا ضابطہ بھی وضع کیا گیا ہے ، لیکن اس ضابطہ کی دھجیاں کس طرح اڑتی ہے ، اس کا اندازہ اُن مزدوروں کی بھیڑ سے ہوتا ہے ، جو اپنے اپنے وطن جانے کیلئے دہلی سے متصل ’آنند وہار ‘ نامی بس ٹرمینل پر جمع ہوئے تھے ، وہ اس امید میں جمع ہوگئے تھے کہ اپنے وطن جانے کیلئے کوئی سواری مل جائے ، لیکن بس اور ٹرین وغیرہ گزشتہ سنیچر کو ہی بند کردیئے گئے تھے،جب کہ ٹرین کی خدمات حالاتِ جنگ میں بھی کبھی بند نہیں کئے گئے ہیں ۔ خواہ ۱۹۴۷؁کی ہولناک تقسیم ہی کیوں نہ ہو۔

تصویریں اپنی کہانی خود بیان کررہی ہیں ، ذیل میں کچھ تصاویر ہیں ۔
100.jpg

زیر نظر تصویر میں یومیہ مزدور مع اہل و عیال دور اپنے وطن کو پیادہ پا جاتے ہوئے ۔
400.jpg

آنند وہار بس ٹرمینل پر یومیہ مزدوروں کی بھیڑ جو لاک ڈاؤن کے بعد اپنے وطن جانے کیلئے بس کے انتظار میں ہیں۔

300.jpg

اس تصویر میں پیدل چلتے ہوئے تھک کر چور ہوا بچہ ماں کے قدموں میں سر رکھ کر کہہ رہا ہے کہ :’ او ماں ! اب نہیں چل پاؤں گا‘‘۔
اس کے علاوہ اور بھی تصاویر ہیں جو منصوبہ بندی کئے بغیر اچانک اعلان شدہ لاک ڈاؤن کے’’ نتائج‘‘ ظاہر کرتے ہیں۔ کہیں پولیس عوام پر لاٹھیاں برساتی ہوئی نظر آتی ہے تو کہیں اور مناظر ہیں۔ یہ اس ہندوستان میں ہورہا ہے جہاں کے وزیراعظم نے ’’اچھے دن‘‘ کے خواب دکھائے تھے۔ اور یہ سب ہوتا رہے گا، اس میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ کما قال اللہ تعالیٰ:’’وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیہم‘‘۔
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
تصاویر اور بھی ہیں ایسی تصاویر جن سے یہ اخذ کرنا آسان ہے کہ ستر اسی سال میں اس ہندوستان نے ترقی کتنی ہے ۔ اسی موقعہ پر ایک ایسی بھی تصویر سامنے آئی ، جس سے تقسیم ہند کے ہولناک مناظر تازہ ہوجاتے ہیں۔ جب تقسیم ہوئی تھی تو اس وقت جان بچا کر پیدل ہی مسلمان سرحد کے اُس پار(پاکستان ) جارہے تھے ، جب ایک عورت پیدل چلنے سے معذور ہوگئی تو اس کے شوہر نے اپنی بیوی کو کندھوں پر بٹھالیا تھا۔
اسی طرح جب بھارت میں کرونا کے باعث21 دن کا لاک ڈاؤن ہوا اور یومیہ مزدورں کو لالے پڑے تو چارو ناچار یہ لوگ بھی پیدل ہی اپنے وطن نکل پڑے۔ جب پیدل چلتے چلتے بیوی کے پاؤں میں فریکچر آگیا ،تو شوہر نے اپنی بیوی کو کندھوں پر بٹھالیا، یہ تصویر بتاتی ہے کہ حالات وہی ہیں ، کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔
لیجئے یہ تصویر بھی دیکھ لیجئے !
077.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اس ہندوستان میں ہورہا ہے جہاں کے وزیراعظم نے ’’اچھے دن‘‘ کے خواب دکھائے تھے۔ اور یہ سب ہوتا رہے گا، اس میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔ کما قال اللہ تعالیٰ:’’وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیہم‘‘۔
جبکہ ادھر پاکستان میں اپوزیشن، لبرل، لفافے یک زبان ہو کر بھارت اور مودی کی تعریفوں میں زمین و آسمان ایک کر رہے ہیں۔
 

فاخر

محفلین
جو لوگ لاک ڈاؤن کی تعریف کررہے ہیں وہ احمق ہیں ۔ یہ لاک ڈاؤن نہیں ہے ؛بلکہ شخصی قید میں رکھا جانا ہے۔ لاک ڈاؤن کا اعلان تو کردیا گیا ؛لیکن اس کیلئے کوئی مثبت ،ٹھوس اور مضبوط لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا ۔ جس کے باعث لاک ڈاؤن کا مقصد ہی فوت ہوگیا ہے۔ جب دس لاکھ بیک وقت ایک جگہ جمع ہوں گے تو کیا اس سے بیماری نہیں بڑھے گی؟ لاک ڈاؤن سے یومیہ مزدور جو بے روزگار ہوئے ہیں ، ان کے لیے حکومت کے پاس کوئی پالیسی نہیں ہے۔ سب کو ایک ڈنڈے سے ہانک دیا گیا ۔
مجھے نہیں پتہ کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن ہے یا نہیں ؟لیکن اگرلاک ڈاؤن نہیں ہے تو عمران خان کو بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کرنا چاہیے ۔ مگر غریبوں اور محتاجوں کا خیال رکھ کے یہ قدم اٹھائے ۔ اس کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے ۔ یہ کہہ دینا کہ لاک ڈاؤن سے غریب پریشان ہوجائیں گے ، یہ بھی نادانی ہے ، کیا جب بیماری بڑھتی چلی جائے گی تو اس وقت پاکستان جیسے غریب ملک کا کیا ہوگا؟ مریض کوسنبھالنا مشکل ہوجائے گا ۔
 
Top