اسکین دستیاب لائبریری ٹیگ کھیل

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یہ پیج میں ٹائپ کر رہی ہوں شگفتہ اپیا :)
آپ خرم لالہ کو اور دے دیں :battingeyelashes:

ناعمہ ، خرم بھائی کو دو اسکین صفحات ایک ساتھ ٹیگ کیے تھے ان میں سے ایک اسکین صفحہ آپ نے ٹائپ کر لیا ہے کیا دوسرا اسکین صفحہ بھی آپ ہی ٹائپ کر رہی ہیں ؟
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
196

خیال نہیں تھا کہ اس وقت آپ سڑک پر ملیں گے ۔ اگر آپ منظور کریں تو میرا گھوڑا حاضر ہے ۔
صاحب کلکٹر: میں پیادہ پا چلنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔​
ابن الوقت: آپ میری اس گستاخی کو معاف فرما دیں کہ آپ پیادہ پا ہیں اور میں سوار ہو ں ۔ یہ جانور جانور اس قدر تیز ہے کہ اگر میں اتر لوں تو یہ ضرور قابو سے باہر ہو جائے گا ۔ آپ نے شاید اس کا نام سنا ہو ۔ ایرو یہی ہے جس نے میرٹھ کی گھڑ دوڑ میں بڑا نام پایا تھا۔ میں نےا س کو سو گئی دے کر مول لیا ہے۔​
صاحب کلکٹر: میں جانتا ہوں ۔ ایسا قیمتی گھوڑا اسٹیشن میں شاید ہی کسی کے پاس نہ ہو گا۔​
ابن الوقت: میں بھی ایسا ہی خیال کرتا ہوں ۔ میں دریا پار کچھ دور تک چلا گیا تھا۔ شام کی ہوا خوری کے لئے اس سمت کو زیادہ پسند کرتا ہوں ۔ قرب دریا کی وجہ سے خوب خنکی ہوتی ہے اور سبزہ بھی اس طرف بہ کثرت ہے۔ میں یقین کرتا ہوںٕ کہ آپ نے بھی دریا کے پار دور دور سیر کی ہو گی۔​
صاحب کلکٹر: چلتے پھرنے کے لئے مجھ کو جس قدر وقت ملتا ہےاور بہت تھوڑا ہے، میں اُس کو اپنے ضلع میں صرف کرنا چاہتا ہوں۔ اس لئے میری آگہی اپنے علاقے سے بڑھتی ہے۔​
ابن الوقت: اگر بے موقع نہ ہو تو میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اب میرے پاس کچھ کام نہیں ہے۔​
ابن الوقت جواب کا منتظر رہا مگر کلکٹر صاحب نے کچھ جواب نا دیا اور پھر اس نے کہا کہ تما م مقدمات متدائرہ قریب تکمیل ہیں۔ میں سب کی کاروائی کر چکا ہوں اگر۔۔۔۔۔​
صاحب کلکٹر: آپ کیوں سوکھے پتوں اور کانٹوں کو یاد کرتے ہیں، جب کہ باغ کی ساری ہی بہار آپ ہی کے حصے میں تھی۔​
ابن الوقت نے اپنی طرف سے بہتیری کوشش کی مگر صاحب کلکٹر کسی طرح نہ کھلے ۔ تاہم دل کی کدورت بلکہ بدگمانی بھی ان کی باتوں سے مُترشح تھی۔ ابن الوقت تو​
 

زلفی شاہ

لائبریرین
صاحب کلکٹر کے اعتراض ان کی یا ان کے سر رشتہ دار کی نظر میں کچھ وقعت رکھتے ہوں گے ، ابن الوقت نے ایسے دندان شکن جواب دیے کہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اس نے لکھا کہ صاحب کلکٹر بہادر بہ حیثیت منصبی مستحق ادب ہیں، جس کے یہ معنی ہیں کہ حکام ماتحت ان کے احکام جائز کی تعمیل کریں اور جس ملاقات کے صاحب کلکٹربہادر شاکی ہیں ،حیثیت منصبی سے کچھ علاقہ نہیں رکھتی۔ مجھ کو صاحب بہادر غروب آفتاب کے بعدیکا یک دریا گنج کے نکڑ پر ملےاور میں نے جب تک برابر نہیں آ گیا، صاحب بہادر کو ہرگز نہیں پہچانا۔ پہچاننے کے بعد میں خلاف شیوہ اہلیت سمجھا کہ بدون صاحب سلامت کیے چلا جاوں اور صاحب سلامت کے بعد دفع خطنہ اجنبیت کے لیے ایک دو بات کا کرنا بھی ضرور تھا ۔میں اس بات قصور کا معترف، اس پر نادم اور اس کی معافی کا خواستگار ہوں۔
دفعہ ۲: میرٹھ کا ضلع شہر دہلی کی فصیل سے ملحق ہے۔ میں ہوا خوری کے لئے اکثر دریا پار گیا ہوں۔ کوئی حکم ممانعت میری نظر سے نہیں گزرا، اور نہ سرکار کا اس میں کوئی مفاد ہے، کہ عہدہ داروں کو نظر بند رکھے۔اگر فی الواقع کسی حکم میں اس طرح کی قید ہے تو وہ نا ممکن التعمیل اور بے فائدہ ہونے کی وجہ سے قابل منسوخی ہے۔
دفعہ ۳: شاید صاحب کلکٹر بہادر کو خیال نہیں رہا کہ فری فنڈ فوجداری سے متعلق ہے، ورنہ اجلاس کلکٹری سے کاروائی نہ فرماتے، علاوہ ازیں چونکہ گھاٹ مستاجری ہے، مطالبہ محصول حق مستاجر ہے۔
قاعدہ ہے غصے میں انسان کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔ اس جواب کو سن صاحب کلکٹر رپورٹ کرنے کو تیار ہوئے۔بارے سر رشتہ دار نے سمجھایا۔’’ حضور کیوں رپورٹ کریں،حضور کی اتنی نا رضا مندی کافی ہے۔ اب ڈپٹی صاحب کا حال کیا ہے کہ کچہری کا کوئی مذکوری تک تو ان کو سلام نہیں کرتا ۔ ان کی کچہری کی طرف کوئی جا کر نہیں پھٹکتا۔ جس شخص نے اس زلزلے کی حکومت کی ہو اس کے حق میں یہ بے عزتی کچھ کم نہیں۔ صبح شام خود ڈپٹی صاحب کی طرف سے استعفی یا رخصت کی درخواست آنے والی ہے۔ حضور ذرا تامل فرمائیں اور اگر رپورٹ ہی کرنی منظور ہے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
197

اس مزاج کا آدمی نا تھا کہ بات کو لٹکا رکھے مگر موقع ہی بونگا آ پڑا تھا کہ صاحب کلکٹر پیدل اور یہ سوار۔ اتر نہیں سکتا ، معذوری ہے۔ برابر نہیں چل سکتا بے ادبی ہے۔​
آگے نہیں بڑھ سکتا بدتمیزی ہے۔ پیچھے نہیں ہٹ سکتا بے عزتی ہے۔ " نہ پائے رفتن نہ روئے ماندن" ۔ آخر وہ یہ کہہ کر الگ ہو گیا کہ میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں ، قلعے میں ایک دوست اس وقت میرے منتظر ہوں گے۔​
رات میں اور پھر صبح سے کچہری کے وقت تک ابن الوقت کو کئی دفعہ صاحب کلکٹر کی باتوں کا خیال آیا ۔ آخر یہی رائے قرار پائی کہ جب تک صاحب کلکٹر کی طرف سے ضابطے کی چھیڑ چھاڑ نہ ہو ، ان کی بدگمانی یا رنجش کو منہ سے بھی نہ نکالو۔ ناحق کہنے کی گنجائش ہو جائے گی کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔ ادھر صاحب کلکٹر کے یہاں بھی مادی تیار تھا۔ اگلے دن جونہی کچہری پہنچا، میز پر صاحب کلکٹر کا روبکا رکھا ہوا تھا کہ شام کے وقت این جانب دریا گنج کی سڑک پر پیادہ پا چلے آتے تھے۔ ڈپٹی ابن الوقت گھوڑے پر سوار پیچھے سے این جانب کے برابر آ کر باتیں کرنے لگے، ڈپٹی صاحب سے اس بات کا جواب طلب ہو۔​
دفعہ 2: ڈپٹی صاحب بلا اجازت و اطلاع این جانب دریا پار ضلع میرٹھ میں گئے اور ا ن کے بیان سے معلوم ہوا کہ اکثر جاتے رہتے ہیں۔ اس فعل کے جواز کی سند ان سے پوچھی جائے۔​
دفعہ 3: جتنی بار ڈپٹی صاحب کا عبور پُل دریا جمن پر سے ہوا ہے حساب کر کے محصول بھیج دیں کیوں کہ ایں جانب یقین نہیں کرتے کہ ڈپٹی صاحب نے کبھی محصو ل دیا ہو۔​
آج عملوں میں بڑی کھچڑی پک رہی تھی کہ دیکھیں ڈپتی صاحب اس روبکا پر کیا کرتے ہیں۔ بعض کہتے تھے کہ بس اب نہیں ٹھہرتے، استعفا تو کیا دیں گے مگر رخصت لے کر گھر بیٹھ رہیں ، نوبل صاحب پاس ولایت چلے جائیں یا شاید دوڑ دھوپ کر کے کہیں بدلی کرا لیں۔ کوئی یہ سمجھتا تھا کہ بہت سے انگریزوں سے ملاقات ہے ۔ کسی کو بیچ میں ڈال کر صفائی کر لیں گے ۔ کوئی یہ رائے بھی دیتا تھا کہ بھلے سے ہوں تو اب بھول کر بھیا نگریزی وضع کانام نہ لیں۔ وہ کوٹ پتلون کم بخت کس کام آ رہا ہے۔ دین بھی​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 192 اور 193)

زبردست کام کرنے والے ہیں۔ ان کا اہلمد کہتا تھا کہ ہمارے منشی جی مقدّمے فیصلہ نہیں کرتے ، پھانکتے ہیں۔ بغاوت کے مقدمات بہت ہوں گے ہزار ہوں گے ، منشی صاحب کی تو تین حد چار مہینہ کی چٹنی ہے۔
صاحب کلکٹر : اچھا ایک روبکار لکھ دو۔
سر رشتہ دار نے وہیں کھڑے کھڑے دو سطری روبکار لکھا ، دستخط کرا چپراسی کے ہاتھ سر رشتے میں بھیج دیا۔ صاحب کلکٹر نے روبکار پر دستخط کرتے وقت پھر فرمایا کہ تم محکمہ بغاوت کی خوب نگرانی رکھنا۔
سر رشتہ دار : "فدوی بہ خوبی نگرانی رکھے گا اور کار گذاری کا ہفت روزہ حضور کے ملاحظے میں گزران دیا کرے گا لیکن حضور عندالملاقات ڈپٹی صاحب کو ذرا سا ایما فرما دیں گے تو ان کو بھی خیال ہوجائے گا۔"
صاحب کلکٹر : سرکاری کام کے لیے ہم کو زبانی کہنا کیا ضروری ہے ، تحریری حکم دینا چاہیے۔

صاحب کلکٹر تو کہیں ایک بجے ڈیڑھ بجے کچہری آتے تھے۔ سر رشتہ دار رپورٹ خوانی کرکے کوئی گیارہ بجتے بجتے کچہری پہنچا۔ یا تو ایک دن لکھنؤ کے بیلی گارڈ میں جنرل اوٹرم کا استقبال ہوا تھا یا آج سر رشتہ دار کی بہلی دور سے آتی دیکھ کر کلکٹر فوج داری کا سارا عملہ باہر نکل پڑا۔ سر رشتہ دار جو اپنی لٹو دار پگڑی سنبھالتے ہوئے اترے ، دیکھا کہ ساری ذریّات موجود ہے ، بہت بگڑے کہ آجکل کے لونڈوں کو جو ذرا بدھ چھو گئی ہو ، کیا بندر بندریا کا ناچ ہے؟ نام بنام کیفیت پیش کرکے ایک ایک پر جرمانہ کراؤں تو سہی۔

ابن الوقت کی ہوا تو روبکار جائزہ ہی سے اکھڑ گئی تھی ، آج مقدمات متدائرہ کے چھن جانے سے لوگوں کی نظر میں اس کی بات اور بھی دو کوڑی کی ہوگئی۔ روبکار میں لکھا تھا کہ مقدمات متدائرہ بلا کاروائی مزید سپرد اجلاس ہذا کیے جائیں۔ ابن الوقت نے اس پر اتنا تو لکھوا دیا کہ صاحب کلکٹر بہادر کے حکم کی تعمیل کی جائے اور پھر اس سے اجلاس پر بیٹھا نہ گیا ، اپنے پرائیوٹ روم میں جاکر چاہا کہ اخبار سے جی بہلائے مگر طبیعت کو حاضر نہ پایا۔ نوبل صاحب کے وقت میں گھر کی حکومت تھی اس نے جانا ہی نہیں کہ نوکری کیا چیز ہے اور ماتحتی کس کو کہتے ہیں۔ اب جو خلاف مزاج باتیں آنی شروع ہوئیں تو اس کو حیرت تھی کہ کلکٹر صاحب برسر پرخاش ہیں یا عجلت کی غرض سے یا محکمہ بغاوت میں اپنی کار گزاری ثابت کرنے کے لیے مقدمات کو اپنے اجلاس میں منتقل کرا لیا ہے۔ جہاں تک خیال کرتا تھا ، صاحب کلکٹر کی خصومت کی کوئی وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی اور کیوں کر آتی! اس معاملے میں اس کی سمجھ بھی اوندھی تھی۔ ہر چند اس کی عہدہ ڈپٹی کلکٹری کا تھا مگر اس کے ابتدائے تقرّر سے محکمہ بغاوت میں نوبل صاحب کے نیچے کام کیا ، اس کو من حیث الخدمت حکام مال سے کسی طرح کا سروکار نہ تھا ان کا کام الگ ، اس کا الگ۔ غرض کچھ تو بے تعلقی اور کچھ پاس وضع وہ ان سب سے رہتا تھا بیگانہ وار اور یہ خبر نہ تھی کہ تقدیر یوں دفعتہََ پلٹا کھا جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ اس نے کلکٹر یا جنٹ یا اسسٹنٹ کسی سے رسم و راہ پیدا کرنے یا بڑھانے کا مُطلق اہتمام نہیں کیا کبھی اس کے ذہن میں گزرا کہ حکام وقت سے کسی صیغے کےکیوں نہ ہوں ، معرفت رکھنا معنی داخل فرائض منصبی ہے۔

ہندوستانی کے لیے ڈپٹی کلکٹری اور صدر الصدوری دو ہی جلیل خدمتیں ہیں۔ ہم نے تو جتنے سربر آوردہ ڈپٹی کلکٹر یا صدر الصدور دیکھے ، سب کا یہی دستور دیکھا کہ کلکٹر کوکلکٹر پادری اور ڈاکٹر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور انسپکٹر مدارس اور پوسٹ ماسٹر اور مہتمم خزانہ غرض کوئی انگریز ہو ، بڑا یا چھوٹ متعہد یا غیر متعہد اور ملاقات ہو یا نہ ہو بالالتزام مہینے میں دوبار ، چار بار ، اس بنگلے پر حاضری کے لیے آنا ضروری ہے۔ ابن الوقت کو صاحب کلکٹر کی خصومت کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سو ایک بڑی وجہ تو اس کی بیگانگی ہی تھی ، نہ صرف کلکٹر صاحب سے ، بلکہ نوبل صاحب کے سوائے گویا تمام حکام ضلع سے ، یہاں تک کہ اس وقت حکام مال میں کوئی متنفس اس کا اتنا بھی رفیق نہ تھا کہ صاحب کلکٹر سے ذکر آجائے تو اس کے حق میں کلمتہ الخیر کہہ گزرے۔ جو شخص انگریزوں سے دل میں اکڑ رکھتا ہو ، ہندوستانیوں کو وہ کیا مال موجود سمجھ سکتا ہے۔ ابن الوقت نے ان کی استمالت کی ذرا بھی تو پروا نہ کی۔ ساری کلکٹری ، فوجداری ایک طرف تھی اور اکیلا ابن الوقت ایک طرف۔ کسی سے کچھ چھینا نہیں ، کسی کا کچھ
 

ذیشان ابن حیدر

لائبریرین
Zeeshan Haider

IbW-0100.gif

(ص۔236)
تھا اس وقت دلی جانا نہیں ہوا۔ اب تو سیدھا دلی جاؤں گا اور غالب ہے کہ رخصت بھر وہیں رہنا ہو گا۔ ان شاء اللہ دسویں پندرھویں عریضہ خدمت میں بھیجتا رہوں گا۔​
صاحب کلکٹر: نہیں معلوم ان دنوں دلی میں حاکم کون ہے؟​
حجتہ الاسلام: شارپ صاحب نامی کوئی صاحب ہیں۔​
صاحب کلکٹر: ولیم تھیاڈور شارپ؟​
حجتہ الاسلام: ڈبلیو۔ ٹی۔ تو ان کے نام کے ساتھ لکھا جاتا ہے، وہی ہوں گے۔​
صاحب کلکٹر: وہ تو ڈیرہ اسماعیل خاں کی طرف تھے؟​
حجتہ الاسلام: کہیں اسی طرف سی بدل کر آئے بھی ہیں۔​
صاحب کلکٹر: اگر ولیم تھیاڈور صاحب ہیں تو میرے رشتے دار ہیں۔ میری خالہ ذاد بہن ان کو بیاہی ہوئی ہے مگر میم صاحب ان دنوں ولایت میں ہیں۔ اگر آپ صاحب سے ملنا چاہیں تو میں ان کے نام خط لکھ دوں؟​
حجتہ الاسلام: میں صاحب کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ اول تو ہمارے شہر کے حاکم، دوسرے آپ کے رشتے دار۔​
صاحب کلکٹر نے شارپ صاحب کے نام چٹھی اور اپنی تصویر حجتہ الاسلام کو دی کہ چٹھی کیساتھ یہ تصویر بھی صاحب کو دیجئے گا۔ چٹھی میں حجتہ الاسلام کے متعلق یہ مضمون تھا کہ میں اس علاقے کے تمام ڈپٹی کلکٹروں میں ان کو دل سے پسند کرتا ہوں۔ اس طرف تمام سرکاری محکموں میں چھڑا بنگالی بابو ہیں، گویا سرکاری خدمتوں کے ٹھیکہ دار ہیں۔ مجھ کو اس قوم سے دلی نفرت ہے۔ انگریزی پڑھ کر یہ لوگ ایسے زبان دراز اور گستاخ اور بے ادب اور شوخ ہو گئے ہیں کہ سرکاری انتظام پر بڑی سختی کے ساتھ نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔ اگر کہیں ان لوگوں میں ہندوستان کے بلند حصے کے باشندوں کی طرح دلی جرأت اور دلیری بھی ہوتی تو انہوں نے انگریزی حکومت کا جوا اپنی گردنوں پر سے کبھی کا اتار کر پھینک دیا ہوتا مگر شکر ہے کہ ان کی ساری بہادری زبانی ہے۔ تاہم ان کا بڑبڑانا سخت ناگوار ہوتا ہے اور میں ہمیشہ افسوس کیا کرتا ہوں کہ میں نے ایسے خودسر نا احسان مند اور بد دل علاقے کو کیوں اختیار کیا تھا۔​
(ص۔237)
حجتہ الاسلام کی وضع کے آدمی یہاں بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اپنی پرانی وضع کو بہت مضبوطی کے ساتھ پکڑے ہوئے ہیں اور اس کو دل سے پسند کرتے ہیں اور بندر کی طرح نقل کرنے کو ذلیل کام جانتے ہیں اور میں ان کو اس رائے کی وجہ سے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ غدر کے دنوں میں یہ عرب میں تھے نہایت بے باکی کے ساتھ جو ہر ایک سچے مسلمان میں ہوتی ہے، غدر کی نسبت اپنی یہ رائے ظاہر کیا کرتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی نے مسلمانوں کی بڑی دل شکنی کی۔ اس نے ہندو مسلمانوں کو ایک نگاہ سے دیکھا اور دونوں قوموں کی حالتوں کے اختلاف پر نظر نہ کی۔ وہ کیا عمدہ ایک مثال دیتے ہیں کہ حکومت یعنی سلطنت بمنزلہ ماں کے دودھ کے ہے، مسلمان بجائے اس بچے کے ہیں جس کا دودھ حال میں چھڑایا گیا۔ اس کو دودھ کا مزہ بہ خوبی یاد ہے اور وہ اس کے لیے پھڑکتا ہے۔ مسلمان کے مقابلے میں ہندو ایسے ہیں جیسے دو ڈھائی برس کے بچے کے آگے سو برس کا بڈھا۔ اس نے بھی کبھی قرن گزرے ماں کا دودھ پیا تھا مگر اب کی مدت ہائے دراز سے اس کو یہ خبر نہیں کہ پھیکا تھا یا میٹھا۔ کیا اگر ایک دودھ چھنا ہوا بچہ کھچڑی کھاتے میں منہ بناتا ہے تو اس پر سختی کی جائے گی کہ تو بڑے آدمیوں کی طرح چاؤ سے کیوں نہیں کھاتا؟​
سینکڑوں برس سے ہندوؤں کے پاس نہ لٹریچر ہے اور نہ علم ان کو انگریزی کا اختیار کر لینا کیا مشکل تھا، جیسے ایک برہنہ آدمی ایک لنگوٹی کی بھی بڑی قدر کرتا ہے لیکن مسلمان اپنی کلاسیکل لینگوئج (ام الالسنہ) عربی پر واجب فخر کرتے ہیں جس کے بدون اردو اور فارسی زبانیں بالکل پھیکی معلوم ہوتی ہیں۔ لاکھوں مسلمان قرآن کی بلاغت پر سر دھنتے اور اس کو زبانی یاد رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کا لٹریچر زندہ لٹریچر ہے، نہ سنسکرت اور لیٹن کی طرح کتابوں میں مدفون۔ ان کے علوم زمانے کے انقلاب کی وجہ سے مرجھا گئے ہیں مگر مرے نہیں۔ پس اگر مسلمان انگریزی سے کنارہ کشی کرتے رہے تو ان کے پاس کنارہ کشی کرنے کی وجہ تھی۔​
حجتہ الاسلام اس بات پر بڑا زور دیتے ہیں کہ ظاہر میں انصاف اسی کا متقاضی ہے کہ ہندو مسلمانوں کے جملہ حقوق برابر سمجھے جائیں لیکن نظر غور سے دیکھا جاتا ہے تو یہ انصاف اس راجا کے انصاف سے زیادہ تعریف کا مستحق نہیں جس نے اپنے علاقے​
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 216 اور 217)

کوئی بنگلہ ڈھب کا نہ ملا۔ ہار کر یہ بنگلہ لیا تو اس میں بھی دو کمرے میں نے اپنی تجویز سے زیادہ کیے ہیں۔ اس پر بھی مطلق گنجائش نہیں۔ اسباب برآمدے میں پڑا پڑا خراب ہورہا ہے۔ لو کیلٹی چنداں بری نہیں مگر خوف ہے کہ کہیں تنگی کی وجہ سے تن درستی میں خلل نہ آجائے۔

حجتہ الاسلام : سچ ہے انسان بھی عجیب قسم کا مخلوق ہے ، پھیلنا چاہے تو یہاں تک کہ "دو بادشاہ در اقلیمے نہ گنجند" اور سکڑنے پر آئے تو اتنا کہ "دو درویش در گلیمے بخسپند "۔ مجھے تو صرف ایک کمرہ کافی ہے اور میں اپنے گھر بھی اسی طرح مختصر طور پر رہتا ہوں۔ یوں تو مکان بہتیرا وسیع ہے مگر میرے ذاتی استعمال میں صرف ایک دالان اور ایک حجرہ ہے جس دونوں کا مجموعہ تمہارے اس بڑے کمرے کے شاید برابر ہو مگر میں تو سمجھتا ہوں کچھ چھوٹا ہی ہوگا۔ سو دالان اور حجرہ بھی میرے استعمال میں اس طرح پر ہے کہ جاڑے کے دنوں میں میں تو کبھی دالان میں پاؤں بھی رکھتا ، حجرے میں میری چارپائی بچھی رہتی ہے ، چارپائی کے آگے اتنی جگہ ہے کہ فراغت سے پانچ چھ اور ذرا تنگی سے سات آٹھ آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا ، لکھنا پڑھنا ، کھانا کھانا ، نماز پڑھنا ، غرض میں اکثر ضرورتوں کے لیے وہی ایک حجرہ کفایت کرتا ہوں۔ اور جب یہ خیال کرتا ہوں کہ اتنی بڑی زمین میں سے آخر کار مجھے چند روز کے لیے ایک قبر کی جگہ ملے گی ، نہیں معلوم کہاں اور اس کا بھی پورا یقین نہیں تو بے اختیار حضرت لقمان کا مقولہ یاد آتا ہے : ان ھنا لمن یموت کثیراََ ۔

ابن الوقت : مجھ کو حیرت ہے کہ اس طرح کی زندگی میں آپ کی تن درستی کیونکر باقی رہتی ہے۔
حجتہ الاسلام : اسی طرح باقی رہتی ہے جس طرح اور لاکھوں کروڑوں بندگانِ خدا کی باقی رہتی ہے اور جس طرح اب سے ڈھائی تین برس پہلے خود تمہاری رہتی تھی۔
ابن الوقت : کیا خاک باقی رہتی ہے۔ ابھی پورے دو مہینے بھی نہیں ہوئے کہ صدہا آدمی شہر میں ہیضہ کرکے مر چکے ہیں۔ لگا تو ہمارے یہاں بھی لگ چلا تھا شروع شروع میں کچھ آدمی بازار میں مرے ، پھر بعض صاحب لوگوں کے شاگر پیشوں میں ہیضہ تو کئی نے کیا مگر شاید صرف دو آدمی ہلاک ہوئے۔ خیر، ان لوگوں میں اگر ہیضہ پھیلا تو کچھ تعجب کی بات نہیں کیونکہ کتنی ہی تاکید کی جائے ، یہ لوگ صفائی کا اہتمام جیسا چاہیے نہیں رکھتے مگر بارک ماسٹر کے بنگلے میں تین صاحب لوگ اور ٹھہرے ہوئے تھے ، چار گھنٹے میں آگے پیچھے سب نے ہیضہ کیا ، ایک انجینئر تو مرا ، باقی بچ گئے۔ چھاؤنی میں اس کا بڑا غل ہوا اور کمانڈنگ آفیسر نے ڈاکٹر سے کیفیت طلب کی۔ ڈاکٹر صاحب نے بہتیری ہی تحقیقات کی ، کچھ پتا نہیں چلتا تھا کہ بارک ماسٹر کے بنگلے میں ہیضہ کہاں سے آکودا۔ بنگلہ بڑے اونچے ٹیلے پر واقع ، اطراف و جوانب میں بنگلے کے شاگرد پیشوں میں کہیں بیماری کا نام نہیں۔ بنگلے کے آس پاس کیا سو سو ڈیڑھ ڈیڑھ سو قدم کے فاصلے تک تالاب نہیں ، نالی نہیں ، خندق نہیں ، کھیتی نہیں ، جھاڑ جھنکاڑ نہیں ، قبرستان نہیں ، چاروں کف و دست میدان پڑا ہے ، صاف ستھرا۔ آخر سراغ لگاتے لگاتے کیا معلوم ہوا کہ چائے کے لیے جس گھوسی کے یہاں سے دودھ آتا ہے بھینسوں کو موضع دکھیاری کے تالاب میں لے جاکر پانی پلاتا ہے اور دکھیاری میں اس بیماری کا بڑا ہی زور تھا۔

حجتہ الاسلام یہ سن کر بے اختیار ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ واقع میں ڈاکٹر صاحب نے سبب تو خوب گھڑا۔ ہیضہ گاؤں سے تالاب میں آیا ، تالاب سے بھینس میں ، بھینس سے دودھ میں ، دودھ سے چائے میں ، چائے سے صاحب لوگوں میں۔ مگر انہی ڈاکٹر سے یہ بھی پوچھنا چاہیے تھا کہ دکھیاری میں کہاں سے آیا؟

ابن الوقت : عموماََ ہندوستانیوں کا اور خصوصاََ دیہاتیوں کا اور غرباء کا طرز تمدن اس طرح واقع ہوا ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں ہر جگہ ہیضے کا بیج موجود ہے ، گرمی پڑی اور بیج پھوٹا۔ دکھیاری میرا دیکھا ہوا ہے ، ہوا خواری کی تقریب سے میں کئی بار اس گاؤں میں ہوکر نکلا ہوں۔ کوئی دو پونے دو سو گھر کی بستی ہے اور ابھی حال میں دس برس کے اندر اندر آباد ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ جس کسی کو گھر بنانا منظور ہوتاہے ، ایک جگہ مقرر کرکے وہیں سے مٹی کھود کھود ، دیواریں کھڑی کرلیتا ہے اور یہی سبب ہے کہ کوئی گھر نہیں جس کے پاس گھڑا نہیں۔ گھر کا کوڑا کرکٹ ، گوبر ، الابلا ، انھی گڑھوں میں ڈالتے رہتے ہیں۔ ہر گھڑا کھاد کا کھستا ہے۔ برسات کے دنوں میں پانی بھر کر سارے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
(ص 218 اور 219)

برس پڑا سڑتا ہے۔ یہ تو بستی کی کیفیت ہے۔ گاؤں کے قریب ایک تالاب ہے ، اسی میں عورت مرد نہاتے اور مویشی پانی پیتے ہیں ، بیچ میں سنگھاڑے بوئے ہیں۔ ایک طرف کو بہت دور تک سن کر انبار پڑے ہیں اور وہیں دھوبی کپڑے دھو رہے ہیں۔
حجتہ الاسلام : کیا اسی تالاب نے انجینئر صاحب کو مارا ہے؟
ابن الوقت : نہیں جناب ! وہ تو سوانے پر کا دوسرا تالاب ہے اور گاؤں کے تالاب سے کسی قدر صاف بھی ہے۔

حجتہ الاسلام : جو کیفیت تم نے دکھیاری کی بیان کی ، حقیقت نفس الامری ہے اور دکھیاری پر کیا موقوف ہے ، تمام دیہات کا یہی بلکہ صفائی کے اعتبار سے اس سے بدتر حال ہے۔ مگر یہ تو کہو اسی حالت میں بعض جو مبتلائے ہیضہ ہوئے ان میں سے بھی بعض مرے اور بعض جیتے رہے بلکہ یوں کہوں کہ کم مبتلائے ہیضہ ہوئے اور ان میں سے بھی کم مرے ، تو اگر بارک ماسٹر اور کون اور کون چار انگریزوں کے ہیضہ کرنے کا اور اگر ان میں سے ایک انجینئر کے مرنے کا ، موضع دکھیاری بہ وسائط چند در چند ، باعث ہوا ہے تو جو لوگ بالکل ہیضے سے محفوظ رہے ان کے محفوظ رہنے کا اور جو مبتلائے ہیضہ ہوکر جان بر ہوئے ان کے جان بر ہونے کا بھی کچھ نہ کچھ سبب تو ضرور ہوگا۔یعنی اگر مرض اور موت کے لیے سبب درکار ہے تن درستی اور زندگی کے لیے بدرجہ اولٰی کیونکہ مرض اور موت کے واقعات کم ہیں اور تن درستی اور زندگی کے کہیں زیادہ۔

ابن الوقت : میں ایسا سمجھتا ہوں کہ لوگوں کے مزاج ہیں متفاوت ؛ بعض طبائع میں متاثر اور مغلوب مرض ہونے کی استعداد قوی ہوتی ہوگی ، بعض میں ضعیف۔

حجتہ الاسلام : تفاوت امزجہ سے تمہاری مراد صفراوی ، بلغمی ، وموی ، سوداوی کا اختلاف ہے کیا؟
ابن الوقت : نہیں نہیں ، ان تمام مزاجوں کے آدمیوں کے یکساں طور پر مبتلا ہوتے بھی دیکھا اور مرتے بھی دیکھا بلکہ وہ کسی خاص قسم کی کیفیت ہوگی جو طبیعت کو قبول مرض کے لیے پہلے سے آمادہ کر رکھتی ہوگی۔
حجتہ الاسالم : تو جس کو تم سبب سمجھتے تھے سبب نہ رہا کیوں کہ بدون استعداد کےاس کا عمل معطل ہے۔ اس کےعلاوہ بعض اوقات یورپ کے ایسے مقامات بھی مبتلائے ہیضہ ہوئے ہیں جن میں صفائی کے بڑے اہتمام ہیں۔ پس تمہارے اصول کے مطابق ان مقامات میں ہیضے کے پیدا ہونے کاکوئی محل ہو نہیں سکتا۔ مدتوں تک ڈاکٹر اس مرض کو متعدی مانتے رہے ، بہ ایں شدت کہ جو شخص بدقسمتی سے اس مرض کی لپیٹ میں آجاتا ، کوئی اس کی تیمارداری تک تو کھڑا نہ ہوتا ، مرے پیچھے اس کی کپڑے لتے سب جلا ڈالتے ، مکان میں دھونیاں سلگاتے ، قلعی پھرواتے ، مٹی تک کھود کر پھنکوا دیتے اور ابھی تک اکثر بندرگاہوں میں کوارنٹائن (قرنطینہ) کے قواعد کی پابندی بڑی سختی کے ساتھ مرعی ہے۔ بہرکیف مرض کے متعدی ہونے کی صورت میں ممکن ہےکہ ہیضے کا وطن اصلی اور اس کی پیدائش کی جگہ ہمارا ہی ملک ہو اور لوگوں کے اختلاط کی وجہ سے یورپ میں جا نکلتا ہے مگر اب تو بڑے بڑے ڈاکٹروں کا اجماع اس پر ہے کہ تعدیہ کی کچھ اصل نہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر چند فی زماننا ھذا جہاں بہت سے جدید علوم ایجاد ہوئے ہیں فن طبابت میں بھی بڑی نمایاں ترقی ہوئی ہے مگر تاہم ظنی ہے۔ جب لوگ ہیضے کے متعدی ہونے کے معتقد تھے وہ بھی ایک امر مظنون تھا ، اب اگر عدم تعدیہ کے قائل ہیں تو یہ بھی امر مظنون ہے۔ ڈاکٹر اپنی طرف سے بہتیرے ٹامک ٹوئیے مارتے پھرے ہیں مگر اس وقت تک کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا کہ ہیضہ ہے کی چیز ، کیوں کر پیدا ہوتا اور ترقی کرتا اور کیوں کر معدوم ہوجاتا ہے؟ اور جس طرح سانپ کے کاٹے کا کوئی تریاق محقّق نہیں ، اسی طرح ہیضے کا کوئی حکمی علاج معلوم نہیں۔ پس بھائی ! ہم تو اپنے ایمان کو ڈانوا ڈول نہیں ہونے دیتے۔ دل میں یہ بات ٹھن گئی ہے کہ اپنی خوشی دینا میں آ ہیں گئے ، خدا نے پیدا کیا ہے ، اسی نے ہر فرد بشر کی حیات کی ایک مدت مقرر کردی ہے اور اس کی مدت کی خبر بھی اپنے ہی تک رکھی ہے ، کسی کو اس سے آگہی نہیں۔ وقت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ، پھر کیوں گھبرائیں اور وعدہ پورا ہوئے پیچھے کوئی رک نہیں سکتا تو کس برتے پر اترائیں؟" اِذا جَاء اجلھم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون۔"
ابن الوقت : آہا ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ دنیا کو عالم اسباب نہیں جانتے بلکہ شاید عقل و تدبیر کوبھی نہیں مانتے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
صفحہ 210​
پوچھا، نہ گھچا، ایک دم سے پتھر سا کھینچ مارا کہ ہم تمہارے پاس ٹھہریں گے۔ جس وقت سے خط آیا ہے میں حیران ہوں، کیا کروں کیا نہ کروں۔​
جان نثار : آپ کیوں اتنا تردد فرماتے ہیں۔ ان کو آنے دیجئے اور انہی کی رائے پر رکھیے۔ یوں تو صاحب کا بنگلہ خالی ہے مگر یہاں سے ذرا دور ہے۔​
صفحہ 211​
فصل بست و دوم
حجتہ الاسلام آئے اور ابن الوقت کی کوٹھی میں انہوں نے اپنا گزر نہ دیکھا​
مہینہ اور تاریخ تو یاد نہیں، پر اتنی بات کا خیال بے شک ہے کہ پانی کے برسنے کی دیر ہوئی، مسلمانوں نے صلاح کی کہ جمعہ کے دن عید گاہ میں پہلے نماز استسقاء پڑھیں اور وہیں جمعے کی نماز ہو۔ جمعرات کو عید گاہ میں صفائی ہوئی، شامیانے تنے، جا نمازیں بچھیں۔ یکایک رات کو اچھا زور کا پانی برسا، وہ سارا منصوبہ ملتوی رہا اور بدستور جمعے کی نماز جامع مسجد میں ہوئی۔ نماز کے بعد لوگ حجتہ الاسلام سے ملے اور پوچھا آپ کب تشریف لائے؟​
حجتہ الاسلام : "کل بین العصر و المغرب"۔ یہ سن کر سب نے کہا : " آہا! یہ آپ ہی کے قدموں کی برکت ہے کہ خدا نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا"۔​
ڈاک گاڑی ابن الوقت کے احاطے میں داخل ہوئی تو یہ ہوا خوری کو سوار ہو گئے تھے مگر نوکروں کو معلوم تھا، گاڑی آتی دیکھ سب نے نکل کر سلام کیا۔ داروغہ نے قریب جا کر اطلاع دی کہ سرکار سوار ہو گئے ہیں، کئی دن سے دریا کی طرف تشریف لے جاتے تھے، آج کسی اور طرف کو نکل گئے ہوں گے۔ حجتہ الاسلام نے پہلے اتر کر بالتفصیل اندر باہر، کوٹھی کو دیکھا۔ خدمت گار وضو کا آفتابہ لیے ساتھ ساتھ تھا۔ آخر​
 
Top