ام اویس

محفلین
اسماء سورة

اس سورة کا مشہور نام “سورة النبا”ہے۔ یہ سورة مکہ میں نازل ہوئی۔ النباء کے علاوہ اسے “سورة التساول”، “عم”، “ عمّ یتساءلون” اور سورة المعصرات بھی کہتے ہیں۔

روابط

سورة النبا کا ماقبل سورة یعنی سورة المرسلات سے لفظی ربط بھی ہے اور معنوی بھی۔

لفظی ربط تو یہ ہے کہ اس سورة کے الفاظ پچھلی سورة سے ملتے جُلتے ہیں اور معنوی ربط یہ ہے کہ سورة المرسلات میں قیامت کے آنے کا امکان ظاہر کیا گیا اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی جزا و سزا کا بیان ہے۔ اب سورة النبا میں بھی انہی مضامین کی تفصیلات بیان کی گئیں ہیں۔

شانِ نزول

الله سبحانہ وتعالی نے انسانوں کو کفر وشرک کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو نبوت عطا فرمائی ۔ جب آپ نے مکہ والوں کو دنیا میں کیے گئے کاموں کی جزاء و سزا کے متعلق بتایا اور قیامت کے آنے کی خبر دی تو انہیں بہت حیرت ہوئی ۔ وہ حیران ہوکر آپس میں ایک دوسرے سے اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم و صحابہ کرام سے قیامت اور حساب کتاب کے متعلق پوچھنے لگے۔ کیونکہ وہ الله پر اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ کیسے زندہ ہوگا ؟

اس پر الله تعالی نے سورة النبا نازل فرمائی جس میں قیامت کی حقیقت اور اس کے واقع ہونے کے متعلق تفصیل بیان کی گئی ہے۔ کافروں کے انکار اور ہنسی مذاق کو مختلف طریقوں سے رد کرکے قیامت اور اس میں پیش آنے والے واقعات کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔

عَمَّ يَتَسَاۗءَلُوْنَ (1)

یہ (کافر) لوگ کس چیز کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں ؟

————-

سورة کی ابتدا ایک سوال کی شکل میں ہے۔ سوال کسی چیز کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ کیونکہ الله سبحانہ تعالی سے کائنات کی کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں اس لیے قرآن مجید میں کسی چیز کی عظمت ، اہمیت یا ہولناکی کو بیان کرنا ہو تو الله تعالی کی طرف سے سوال کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی سوال کا مقصد قیامت کی ہولناکی بیان کرنا ہے۔

جب نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے کفار و مشرکینِ مکہ کو قیامت کے متعلق آیات سنائیں تو وہ اپنی محفلوں میں بیٹھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے، ہر جگہ ، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے ، آپس میں یہی گفتگو کرتے ، کوئی اسے سچ کہتا اور کوئی اس کا انکار کرتا ، کوئی مذاق کرتا اور مختلف اندازے لگاتا ۔ چنانچہ اس سورة کی پہلی آیت میں ان کا یہ حال بیان کیا گیا ہے۔

سوال : سوال کرنے والے کون تھے اور کس سے سوال کرتے تھے؟

جواب : اس میں مفسرین کے تین قول ہیں ۔

اس سے مراد کافر و مشرکین ہیں جو حیران ہو کر ایک دوسرے سے سوال کرتے تھے۔۔

کفار مکہ اور مشرکین مسلمانوں سے سوال کرتے تھے کہ تمہارے نبی یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟

سوال کرنے والوں سے کافر اور مسلمان دونوں مراد ہیں ۔ دونوں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کرتے تھے۔ مسلمان تو اس لیے پوچھتے تھے کہ ان کا ایمان مضبوط ہو اور کافر انکار کرنے اور مذاق اڑانے کے لیے سوال کرتے تھے۔

پہلا قول راجح ہے۔

عَنِ النَّبَاِ الْعَظِيْمِ .(2)

اس زبردست واقعے کے بارے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی کفار ایک بہت بڑی خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ۔ ان کے دل کفر کے اندھیروں سے سیاہ ہو چکے ہیں۔ اگران میں ایمان کی روشنی موجود ہوتی تو اس خبر کی عظمت ان کے دلوں پر ایسا اثر کرتی کہ وہ بغیر کسی سوال و جواب کے اسے مان لیتے۔

سوال : نبا عظیم سے کیا مراد ہے؟

جواب : اس میں تین قول ہیں ۔

قیامت مراد ہے ۔

سیعلمون سے دھمکی دینے کا انداز ظاہر ہو رہا ہے کہ جب قیامت آئے گی وہ اسے دیکھ کر یقین کر لیں گے۔
اگلی آیات میں قدرت کاملہ کے دلائل دئیے گئے ہیں، جن سے الله تعالی کا قیامت برپا کرنے پر قادر ہونا ثابت ہوتا ہے۔
کیونکہ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر العظیم کا لفظ قیامت کے لیے آیا ہے۔

2۔قرآن مجید مراد ہے۔

کیونکہ قرآن مجید بھی ایک بڑی خبر ہے اور وہ قرآن مجید کے متعلق بھی سوال کرتے رہتے تھے کہ یہ قرآن جادو، یا شاعری یا پہلوں کے قصے کہانیاں ہے۔

.3 نبوت مراد ہے۔

کیونکہ نبوت بھی عظیم الشان چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور پرانے رسم و رواج ختم کر دئیے۔ حکومتیں مٹا دیں اور نئے قوانین جاری کردئیے۔

الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ مُخْ۔تَلِفُوْنَ (3)

جس میں خود ان کی باتیں مختلف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت کے واقع ہونے کے متعلق ہر فرقے کا مختلف عقیدہ تھا۔
عرب کے اکثر لوگ قیامت کے دن کو نہیں مانتے تھے اور حیران ہو کر کہتے تھے کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے تو دوبارہ کیسے زندہ ہوں گے۔
اسی طرح نصارٰی کے خیال میں جسم مٹ جائیں گے صرف روحیں لوٹائی جائیں گی ۔ اب بھی اکثر کا یہی عقیدہ ہے ۔
یہودیوں کے بعض فرقے بھی قیامت کے سخت منکر تھے ۔ بعض کہتے تھے دوبارہ جسم کے ساتھ زندہ ہونا ناممک ہے۔ مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔
غرض مر کر زندہ ہونے کے معاملے میں سب کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔

كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (4)

خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔

ثُمَّ كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ (5)

دوبارہ خبردار ! انہیں بہت جلد پتہ لگ جائے گا۔
———-

کلا جہاں بھی آئے اس سے دو معنی مراد ہوتے ہیں۔

  1. پچھلی بات کو رد کرنے یعنی انکار کے لیے
  2. اگلی بات کو ثابت کرنے کے لیے یعنی بمعنی حقاً اور یقیناً
اگر معنی انکار ہو یعنی “ہرگز نہیں “ تو اس سے مراد یہ ہے کہ کفار کا قیامت کے متعلق بحث و مباحثہ کرنا درست نہیں کیونکہ قیامت بحث کرنے سے سمجھ میں آنے والی چیز نہیں۔

اور اگر معنی “حقا” ہو یعنی “ یقینا “ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا واقع ہونا حق اور یقینی بات ہے۔ عنقریب کفار اس سچ کو جان لیں گے۔ جب قیامت واقع ہوجائے گی اور قیامت کی ہولناکیاں اور واقعات ان کے سامنے آئیں گے اس وقت ان کو اس بڑی خبر کی حقیقت سمجھ آ جائے گی۔

سوال : یہاں کلا سیعلمون اور ثم کلا سیعلمون ۔ کا تکرار کیوں ہے؟

جواب: یہ تکرار تاکید اورمضمون کی صداقت ثابت کرنے کے لیے ہے۔
  1. پہلے ”کلا سیعلمون“ کا مقصد ہے کفار پر جب موت آئے گی اس وقت جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق مرنے سے ہے۔
  2. دوسرے سیعلمون کا مقصد یہ ہے کہ کفار جب مرنے کے بعد زندہ ہوں گے اس وقت اپنا انجام جان لیں گے۔ یعنی اس کا تعلق قیامت سے ہے۔
  3. یا اس سے مراد کافر اور مؤمن دونوں ہیں کہ کافر اپنے انکار کا اور مؤمن اپنی تصدیق اور ایمان کا حال جان لیں گے اور سزا و جزا پائیں گے۔
ربط آیات : 6 تا 16

پچھلی آیات میں کفار مکہ کے سوال و جواب کا ذکر تھا۔ موت کے بعد زندہ ہونے اور انکارِ قیامت کا بیان تھا۔ اب اگلی آیات میں الله جل شانہ نے اپنی عظیم الشان نشانیوں کا ذکر فرمایا اور نو دلائل سے اپنی قدرت کے عجیب و غریب مناظر پیش کیے۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ الله سبحانہ و تعالی کے لیے قطعا مشکل نہیں کہ وہ اس سارے عالم کو فنا کرکے دوبارہ پیدا کر دیں۔ اس کے علاوہ الله تعالی نے انعامات کا ذکر فرما کر توجہ دلائی ہے کہ ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو اور اس کی توحید کا اقرار کرو۔

الله جل جلالہ کی حکمت و صنعت کے نو مناظر:

۱- اَ لَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِهٰدًا (6)

کیا ہم نے زمین کو ایک بچھونا نہیں بنایا ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

المھاد کا مطلب ہے ہموار اور درست کی ہوئی زمین۔ الله تعالی فرماتے ہیں: کہ ہم نے زمین کو تمہارے چلنے پھرنے ، اٹھنے ، بیٹھنے اور لیٹنے کے لیے بالکل مناسب اور درست بنایا ہے۔ جہاں چاہو بیٹھ جاؤ۔ جہاں چاہو لیٹ جاؤ۔ اگر زمین ہوا کی طرح ہلکی یا پانی کی طرح نرم یا آگ کی طرح گرم ہوتی تو تم اس پر کس طرح چل پھر سکتے؟
یہ الله تعالی کی عظیم نعمت ہے جس میں کافر و مسلمان سب برابر کے شریک ہیں۔ اس نعمت کا تقاضا ہے کہ تم اس کا شکر ادا کرو اس کی توحید کا اقرار کرو۔ جس ذات نے اتنی بڑی زمین کو قدموں کے نیچے ہموار اور درست بچھونے کی صورت میں بچھا دیا ہے اس کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا بالکل مشکل نہیں۔

۲-۔ وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا (7)

اور پہاڑوں کو (زمین میں گڑی ہوئی) میخیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب الله سبحانہ وتعالی نے زمین کو پیدا کیا تو وہ ہلنے اور ڈگمگانے لگی۔ الله تعالی نے اس پر بڑے بڑے پہاڑ رکھ دئیے گویا زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں جس سے وہ ساکن ہوگئی۔ یہ بھی الله تعالی کی نعمت ہے اور جو ذات اتنے بڑے بڑے پہاڑ پیدا کر سکتی ہے وہ انسان کو دوبارا پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ۔

۳-۔ وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا( 8 )

اور تمہیں (مرد و عورت کے) جوڑوں کی شکل میں ہم نے پید ا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی کا فرمان ہے کہ ہم نے زمین کو پیدا کرکے ایسے ہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ اس پر تمہیں جوڑا جوڑا بنا کر پیدا کیا تاکہ نسل انسانی بڑھ سکے۔ یہ بھی الله تعالی کی قدرت کا بیان ہے کہ ایک انسانی جوڑے سے کروڑوں، اربوں جوڑے پیدا کیے اور ہر ایک کی شکل دوسرے سے مختلف ہے ۔ جو الله ایک بار بنا سکتا ہے اس کے لیے دوبارہ زندہ کرنا بھی مشکل نہیں ۔

۴-۔ وَّجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا (9)

اور تمہاری نیند کو تھکن دور کرنے کا ذریعہ ہم نے بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔

سُبات سبت سے مشتق ہے جس کا مطلب موندنے یا کاٹ دینے کے ہیں، نیند کو اللہ تعالی نے ایسی راحت بنایا ہے کہ وہ انسان کے تمام غم ، رنج، فکر اور خیالات کو کاٹ کر اس کے دل و دماغ کو ایسی راحت دیتی ہے کہ دنیا کی کوئی نعمت اس کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے سبات کا ترجمہ راحت بھی کیا جاتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو نیند الله تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے۔ جو بادشاہ ، فقیر ، امیر و غریب سب کو مفت حاصل ہے بلکہ امیروں کی بجائے غریبوں کو یہ نعمت زیادہ میسر ہے۔ انسان کے اعضاء کاروبارِ زندگی میں مصروف رہنے سے تھک جاتے ہیں۔ اس تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے نیند کی نعمت عطا فرمائی جس سے انسان دوبارہ تروتازہ ہوجاتا ہے۔ مزید غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیند زبردستی طاری کی جاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص رات کو مسلسل کام کرنا بھی چاہے تو رحمت باری تعالی اس پر زبردستی نیند مسلط کر دیتی ہے اور انسان نیند کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ نیند کی یہ نعمت کافر ہو یا مسلمان سب کو حاصل ہے۔ اس کے علاوہ نیند موت سے مشابہ ہے گویا الله تعالی انسان کو اس عارضی موت سے زندہ کر دیتا ہے تو مرنے کے بعد زندہ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔

۵-۔ وَّجَعَلْنَا الَّيْلَ لِبَاسًا (10)

اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے نیند کو تمہاری راحت و آرام کا سبب بنایا، نیند کے لیے جن چیزوں کی ضرورت تھی یعنی اندھیرا اور خاموشی اس کا ماحول تیار کر دیا چنانچہ رات کی تاریکی تمہیں لباس کی طرح ہر طرف سے ڈھانپ لیتی ہے اور سب ایک ہی وقت میں تھک کر سو جاتے ہیں۔

۶- وَّجَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا (11)

اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔
۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہاری راحت کو مکمل کرنے کے لیے صرف رات اور اس کی تاریکی ہی نہیں بنائی بلکہ ایک روشن دن بھی دیا جس میں تم کاروبار کرکے اپنی معاشی ضروریات اور سامانِ زندگی حاصل کر سکو۔

۷-۔ وَّبَنَيْنَا فَوْقَكُمْ سَبْعًا شِدَادًا(12)

اور ہم نے ہی تمہارے اوپر سات مضبوط وجود (آسمان) تعمیر کیے۔
۔۔۔۔

اس کے بعد انسان کی اس راحت کا ذکر ہے جو آسمان سے متعلق ہے، الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہارے لیے سات مضبوط آسمان بنا دئیے۔ آسمان کی یہ چھت الله تعالی کی عظیم الشان نعمت ہے جو بغیر کسی ستون کے مدت سے قائم ہے۔ لاکھوں کروڑوں سال گزرنے کے باوجود نہ تو پرانی ہوئی ، نہ اس میں کہیں کوئی سوراخ ہوا ۔

سوال : آسمان سقف یعنی چھت ہے اس کے لیے بنینا کا لفظ کیوں استعمال کیا گیا؟

جواب : اگرچہ آسمان چھت ہے لیکن مضبوطی میں بنیاد کی طرح پائیدار ہے اسی لیے اسے بنیاد سے تشبیہ دی گئی ہے۔

۸- وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا (13)

اور ہم نے ہی ایک دہکتا ہوا چراغ (سورج) پیدا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله تعالی اپنی نعمت و قدرت کا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے جگمگاتا ہوا سورج بنا دیا تاکہ تم اس کی روشنی میں اپنی ضروریات کا انتظام کر سکو۔ اگر سورج نہ ہوتا تو اندھیرا ہی اندھیرا ہوتا ۔ پھر سورج میں روشنی کے ساتھ گرمی بھی موجود ہے۔ سورج کی روشنی اور حرارت زندگی کی علامت ہے۔ یہ الله تعالی کی قدرت کی نشانی ہے کہ تمام انسانوں کو خواہ وہ کافر ہوں یا مسلمان ہزاروں میل کی دوری سے دن کو سورج روشنی اور حرارت دیتا ہے اور رات کو چاند روشنی مہیا کرتا ہے۔

۹-۔ وَّاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْ۔۔صِرٰتِ مَاۗءً ثَجَّاجًا (14)

اور ہم نے ہی بھرے ہوئے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔

لِّنُخْرِجَ بِهٖ حَبًّا وَّنَبَاتًا (15)

تاکہ اس سے غلہ اور دوسری سبزیاں بھی اگائیں۔

وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا (16)

اور گھنے باغات بھی۔
۔۔۔۔

پھر آسمان کے نیچے جو چیزیں انسان کی راحت کے لیے پیدا فرمائیں ان میں سب سے اہم چیز پانی برسانے والے بادل ہیں۔ الله تعالی اپنی قدرت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہم نے تمہارے لیے رزق کا انتظام اس طرح کیا کہ بادلوں سے بارش برسائی ۔ اس بارش سے غلہ اگایا جو تمہارے کھانے کے لیے ہے، پھر گھاس اور جڑی بوٹیاں پیدا کیں جو تمہارے جانوروں کی خوراک ہے اور گھنے باغات پیدا کیے جن کے پھل تم کھاتے ہو ۔ یہ الله تعالی کا تم پر بہت بڑا انعام ہے ۔ دیکھو اس کی قدرت کتنی زبردست ہے کہ بارش عجیب طریقے سے نازل کی ، کبھی مسلسل چھوٹی چھوٹی بوندیں ، کبھی موسلا دھار بڑے بڑے قطرے۔ پھر اس ایک ہی پانی سے مختلف رنگ اور ذائقے کی چیزیں پیدا کیں۔ ایسی قدرت والی ذات تمہیں دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔

سوال : یہاں الله تعالی نے فرمایا ہم نے بادلوں سے پانی نازل کیا دوسری آیت میں ہے و انزلنا من السماء ماء ہم نے آسمان سے پانی نازل کیا ۔ بظاہر دونوں آیات میں تضاد ہے؟

جواب : کوئی تضاد نہیں ۔ سماء اوپر والی فضا کو کہتے ہیں ۔ بادل کو بھی سماء کہا گیا ہے بارش بادل سے ہی نازل ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں ممکن ہے کبھی آسمان سے بارش نازل ہوتی ہو کبھی بادل سے ۔ انکار کی کوئی وجہ نہیں۔

ایک خاص بات ؛ الله تعالی نے پہلے حبا کو بیان کیا پھر نباتا کو اور اس کے بعد جنات الفافا کو ۔ اس ترتیب کی وجہ یہ بیان کی گئی کہ غلے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔ ہر شخص کو اس کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو پہلے ذکر کیا۔ دوسرے نمبر پر نباتات یعنی جانوروں کی خوراک ضروری ہے اور پھل کو ذائقے کی وجہ سے کھایا جاتا بطورِ غذا نہیں اگرچہ اس میں بھی غذائیت ہوتی ہے ۔

ربط آیات ۔ 17 تا30

گذشتہ آیات میں نو دلائل سے الله تعالی کی قدرت کو ثابت کیا گیا ۔ معلوم ہوا کہ الله تعالی کے لیے مُردوں کو دوبارہ زندہ کرنا اور میدانِ حشر میں حساب کتاب کے لیے جمع کرنا بالکل بھی مشکل نہیں۔ چنانچہ قیامت کے دن تم سب ضرور اس کے سامنے حاضر کیے جاؤ گے۔

اب اگلی آیات میں قیامت کے حالات بیان کیے جا رہے ہیں۔

اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيْقَاتًا (17)

یقین جانو فیصلے کا دن ایک متعین وقت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

کافر سوال کرتے تھے کہ اگر قیامت کا آنا یقینی ہے تو پھر تاخیر کیوں ہورہی ہے، ابھی کیوں نہیں آتی ۔ الله تعالی نے فرمایا قیامت ضرور آئے گی۔ کب آئے گی اس کا علم صرف الله تعالی کو ہے ۔ قیامت کا ایک وقت مقرر ہے جس میں نہ تقدیم ہو سکتی ہے نہ تاخیر اس لیے تمہارے کہنے سے ابھی نہیں آئے گی۔

قیامت واقع ہونے کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں ۔
  1. روح کا جسموں سے تعلق ختم ہوجائے ۔
  2. دنیا کا کارخانہ درہم برہم ہوجائے۔ اس فانی گھر کی چھت ، فرش اور سامان رزق جس سے تمام مخلوق فائدہ اٹھاتی ہے ختم کر دئیے جائیں۔
  3. تمام روحیں اس جہان سے فائدہ اٹھا لیں ۔
جب تک یہ تینوں کام مکمل نہ ہو جائیں قیامت نہیں آئے گی ۔

يَّوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا ( 18 )

وہ دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم سب فوج در فوج چلے آؤ گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں دوسری بارصور پھونکنے کا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام پہلی بار صور پھونکیں گے تو تمام عالم فنا ہوجائے گا دوسری بار صور پھونکیں گے تو لوگ زندہ ہوجائیں گے اور گروہوں کی شکل میں الله کے سامنے حاضر ہوں گے۔

حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: (اردو مفہوم) جب لوگ قبروں سے نکل کر دربارِ خداوندی میں جائیں گے تو ان کے تین گروہ ہوں گے۔
  1. بعض پیٹ بھرے، اچھے لباس پہنے سواریوں پر سوار ہوکر جائیں گے۔
  2. بعض پیدل چل کر جائیں گے۔
  3. بعض منہ کے بل گھسیٹ کر لائے جائیں گے۔
بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن بہت سے گروہ ہوں گے۔ ہر نبی علیہ السلام کی امت کے الگ الگ گروہ ہوں گے۔ مؤمنین کے الگ ، کفار کے الگ۔ پھر مؤمنین کے بھی رتبے کے لحاظ سے بے شمار گروہ ہوں گے۔

وَّفُتِحَتِ السَّمَاۗءُ فَكَانَتْ اَبْوَابًا (19)

اور آسمان کھول دیا جائے گا تو اس کے دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیة میں پہلی بار صور پھونکنے کا ذکر ہے۔ جب اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے تو آسمان کھول دیا جائے گا اور اس میں دروازے ہی دروازے بن جائیں گے۔

ابوابا کے متعلق دو قول ہیں۔
  1. صور پھونکنے سے آسمان میں دراڑیں پڑ جائیں گی۔ جس طرح کسی مضبوط چھت کے گرنے سے پڑجاتی ہیں۔ ان دراڑوں کو ابواب کہا گیا ہے۔
  2. جب صور پھونکا جائے گا تو آسمان میں بہت سے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ ان دروازوں سے فرشتوں کے گروہ نکلیں گے جو زمین کی ہر چیز کو فنا کر دیں گے۔
وَّسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا (20)

اور پہاڑوں کو چلایا جائے گا تو وہ ریت کے سراب کی شکل اختیار کرلیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سراب کے لفظی معنی ذھاب یعنی چلے جانے کے ہیں، صحرا کی وہ ریت جو دور سے چمکتا ہوا پانی نظر آتا ہے اسے سراب اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ قریب جاتے ہی وہ نظر سے غائب ہو جاتا ہے۔ جب صور پھونکا جائے گا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ریت کے ذرات کی طرح اڑتے پھریں گے۔ اور زمین ایک سیدھا صاف میدان بن جائے گی جس پر نہ کوئی درخت ہوگا ، نہ کوئی پہاڑ ۔ پہاڑوں کو پہلے ریزہ ریزہ کیا جائے گا، پھر روئی کی طرح نرم کر دیا جائے گا، پھر ان ذرات کو ہوا میں غبار کی طرح اُڑا دیا جائے گا، یعنی پہاڑ بالکل مٹ جائیں گے اور ان کی جگہ سراب جیسی ہو جائے گی۔
 

ام اویس

محفلین
اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا(21)

یقین جانو جہنم گھات لگائے بیٹھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں دوسری بار صور پھونکے جانے کے حالات کا بیان ہے جو الله سبحانہ وتعالی کے دربار میں پیش ہونے کے بعد ظاہر ہوں گے۔

مرصادا کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں بیٹھ کر کسی کی نگرانی یا انتظار کیا جائے۔ یہاں جہنم سے مراد پُل صراط ہے۔ جہاں ثواب اور عذاب دینے والے فرشتے انتظار کرتے ہوں گے۔ جہنم والوں کو جہنم کے فرشتے پکڑ لیں گے اور جنت والوں کو جنت کے فرشتے ان کے مقام پر لے جائیں گے۔

لِّلطَّاغِيْنَ مَاٰ بًا(22)

وہ سرکشوں کا ٹھکانا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ پچھلی آیت میں موجود کانت کی خبر ثانی ہے۔ دونوں جملوں کے معنی یہ ہوئے کہ پل صراط ہر نیک اور بد کے لیے انتظار گاہ ہے سب لوگ اس کے اوپر سے گزریں گے۔ اور جہنم طاغین یعنی سرکشوں کا ٹھکانہ ہے۔ طاغی کا معنی ہے سرکش یعنی حد سے بڑھ جانے والا؛ چنانچہ اس سے مراد کفار بھی ہو سکتے ہیں اورمسلمانوں کے بدعقیدہ اور گمراہ فرقے بھی ہو سکتے ہیں جو قرآن و سنت کی مقرر کردہ حد سے باہر نکل جاتے ہیں۔ جیسے روافض ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ

لّٰبِثِيْنَ فِيْهَآ اَحْقَابًا (23)

جس میں وہ مدتوں اس طرح رہیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی کافر لوگ جہنم میں بہت لمبے زمانے تک رہیں گے۔
حقب کا مطلب ہے بہت لمبی مدت۔ اس لمبی مدت کی مقدار کیا ہوگی اس میں مفسرین کے چند اقوال ہیں۔
  1. حقب کی مقدار اسی سال کی ہے جس کا ہر سال بارہ مہینے کا ہر مہینہ تیس دن کا اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہوگا۔ اس طرح ایک حقب کی مدت تقریبا دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سال بنتی ہے۔
  2. اسی حساب کے مطابق بعض نے حقب کی مقدار اسی کے بجائے ستر سال قرار دی ہے۔
دونوں قسم کی روایتوں میں یہ بات مشترک ہے کہ حقب حقبہ بہت طویل زمانے کا نام ہے۔ یعنی دُھُورٌ متتابعةٌ پے در پے بہت سے زمانے

سوال: کیا کفار جہنم میں حقبہ حقب مقدار گزارنے کے بعد نکل جائیں گے؟

جواب: اس آیت میں لفظ احقابا ً سے یہ سمجھنا کہ چند احقاب کے بعد کفار جہنم سے نکال دئیے جائیں گے تمام صحیح نصوص کے خلاف ہے۔ یہاں صرف اس بات کا ذکر ہےکہ مدت احقاب ان کو جہنم میں رہنا ہوگا لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ احقاب کے بعد کیا ہوگا۔ چنانچہ کہا گیا کہ الله تعالی نے جہنمیوں کے لیے کوئی مدت مقرر نہیں کی جس کے بعد وہ وہاں سے نکل آئیں۔ احقاب سے مراد وہ زمانہ ہے جس کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ ایک ختم ہونے پر دوسرا حقب شروع ہو جائے گا ، دوسرا ختم ہونے پر تیسرا شروع ہوگا اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔

قرآن مجید کی دوسری آیات ھم فیھا خالدون (وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) اور خلدین فیھا ابدا(ہمیشہ اس میں رہنے والے) سے اس بات کی تائید ہوتی ہے۔

لَا يَذُوْقُوْنَ فِيْهَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا (24)

کہ اس میں نہ وہ کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھیں گے، اور نہ کسی پینے کے قابل چیز کا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر اس جھنم میں انہیں نہ تو ٹھنڈک ملے گی، نہ پانی، نہ سایہ، نہ مکان ، نہ لباس اور نہ کھانا ، نہ ہوا، آرام اور سکون پہنچانے والی کوئی چیز میسر نہ ہوگی۔
بعض علماء فرماتے ہیں برداً کا مطلب نیند ہے۔ یعنی اس قدر مصیبتوں کی وجہ سے نیند بھی نہ آئے گی۔ شراباً سے مراد پانی ہے، یعنی دنیا کی ہلکی سے ہلکی چیز یعنی پانی جو بدترین قیدی کو بھی پلا دیا جاتا ہے وہاں انہیں وہ بھی نہیں ملے گا۔

اِلَّا حَمِيْمًا وَّغَسَّاقًا (25)

سوائے گرم پانی اور پیپ لہو کے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حمیم: بے حد گرم پانی جو لوہے کی چمٹیوں سے پکڑ کر دوزخیوں کے سامنے لایا جائے گا۔ جب ان کے منہ کے قریب آئے گا تو چہرے جھلس جائیں گے اور پیٹوں میں اترے گا تو آنتوں کو کاٹ ڈالے گا۔ (ترمذی)

غساق: بے حد ٹھنڈا ہوگا جسکی ٹھنڈک کی وجہ سے دوزخی اس کو پی نہ سکے گا، بعض کہتے ہیں کہ غساق جہنمیوں کا بہتا ہوا خون ہے یا پھر غساق جہنم کے ایک چشمے کا نام ہے جسمیں سانپ ، بچھو اور ہر زہریلے جانور کا زہر جمع ہوگا جب جہنمی کو اس میں غوطہ دیا جائے گا تو اس کی کھال ہڈیوں سے اتر کر ٹخنوں پرگر جائے گی جسے وہ گھسیٹتا پھرے گا۔

جَزَآءً وِّفَاقًا (26)

یہ ان کا پورا پورا بدلہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ظلم نہیں ہوگا بلکہ ان کے اعمال کا پورا بدلہ ہوگا۔ جہنم میں ان کو جو سزا دی جائے گی وہ ان کے باطل عقیدوں اور بد اعمالیوں کے عین مطابق ہو گی۔ عدل و انصاف کے حساب سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی اوریہ سزا ان کے بدترین جرم یعنی شرک و کفر کا بدلہ ہوگا۔

اِنَّهُمْ كَانُوْا لَا يَرْجُوْنَ حِسَابًا (27)

وہ (اپنے اعمال کے) حساب کا عقیدہ نہیں رکھتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

ان آیات میں جزا اور سزا کی وجہ کو بیان کیا گیا ہے۔ انہیں یہ سزا اس لیے دی جائے گی کیونکہ انہیں حساب و کتاب پر یقین ہی نہیں تھا اور نہ انہیں اس بات کا کوئی ڈر تھا کہ ان کے اعمال کا حساب بھی ہوگا۔ یہی وجہ ہے یہ کافر و مشرک دنیا میں بے دھڑک الله کی مقرر کردہ حدوں کو توڑتے رہے۔ نہ تو موت کے بعد زندہ ہونے پر یقین رکھتے تھے، نہ جزا و سزا پر۔ اسی لیے ان کی زندگیاں الله کی نافرمانیوں اور حکم عدولیوں سے بھر گئیں، اب انہیں اسی کی سزا مل رہی ہے۔

وَّكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا كِذَّابًا ( 28 )

اور انہوں نے ہماری آیتوں کو بڑھ چڑھ کر جھٹلایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آیات سے مراد ہر قسم کی نشانیاں ہیں خواہ قرآن مجید کی آیات ہوں یا قدرت کی نشانیاں یا دلائل توحید و رسالت۔ کفار اور مشرکین ہر قسم کی نشانیوں کو جھوٹ سمجھ کر جھٹلاتے تھے اور خوب جھٹلاتے رہے۔ فساد میں حد سے بڑھ گئے۔ کھلم کھلا حق کا انکار کیا اور باطل پر اڑے رہے۔

وَكُلَّ شَيْءٍ اَحْصَيْنٰهُ كِتٰبًا۔ (29)

اور ہم نے ہر ہر چیز کو لکھ کر محفوظ کر رکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے ہر چیز کو لوحِ محفوظ یا اعمالنامے میں لکھ رکھا ہے۔ ہم سے کوئی بات چھپی ہوئی نہیں۔ ہمیں ان کے ہر عمل کی خبر ہے۔

فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِيْدَكُمْ اِلَّا عَذَابًا (30)

اب مزہ چکھو ! اس لئے کہ ہم تمہارے لیے سزا کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہیں کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لہذا ہم ان کو ان کے عملوں کی پوری پوری سزا دیں گے اور ہم ان سے کہیں گے اپنے برے اعمال کا مزہ چکھو۔ اے سرکشو! ہم تمہارا عذاب بڑھاتے ہی رہیں گے۔ اس میں کمی نہیں کریں گے۔ جہنمیوں کے حق میں یہ آیت قرآن مجید کی تمام آیات سے سخت ہے۔

ربط آیات: 31 تا 37

پچھلی آیات میں طاغین یعنی سرکش و نافرمان لوگوں کے انجام اور سزا کا ذکر تھا اب مؤمنین اور متقین کے لیے ثواب اور جنت کے انعامات کا ذکر ہے۔

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ مَفَازًا (31)

جن لوگوں نے تقوی اختیار کیا تھا، ان کی بیشک بڑی جیت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

متقین کے لیے وہاں جسمانی اور روحانی ہر طرح کی کامیابی ہوگی۔ ان کو عذاب سے نجات ملنے کے ساتھ ساتھ جنت کے بے بہا انعامات ملیں گے۔

حَدَاۗئِقَ وَاَعْنَابًا (32)

باغات اور انگور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لوگوں کی چند پسندیدہ چیزوں کا ذکر خصوصیت سے کیا گیا ہے۔ مثلا حدائق یعنی باغات جو کھانے اور سیر کے لیے ہر قسم کے پھلوں اور میووں سے لدے ہوں گے۔ اعناب یعنی انگوروں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ غذا کا کام بھی دیتے ہیں اور اس کی بیلوں کا سایہ گھنا اور پر لطف ہوتا ہے، جس سے باغات کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے۔

وَّكَوَاعِبَ اَتْرَابًا(33)

اور نو خیز ہم عمر لڑکیاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ہم عمر ہمنشینوں کا ساتھ بھی میسر ہوگا اور عمر کی مناسبت سے ان کی لذتیں کمال کو پہنچ رہی ہوں گی۔

وَّكَاْسًا دِهَاقًا (34)

اور چھلکتے ہوئے پیمانے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چھلکتے ہوئے جام ہوں گے جن سے لطف و سرور میں ہر وقت تازگی رہے گی۔

لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا (35)

وہاں پر وہ نہ کوئی بےہودہ بات سنیں گے، اور نہ کوئی جھوٹی بات۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ بھرے ہوئے پیالے دنیا کی خرابیوں سے پاک ہوں گے۔ نہ ان سے بے ہوشی طاری ہوگی ، نہ نیند ، نہ سردرد اور نہ مار پیٹ، جنت کا سرور دنیاوی شرور سے پاک ہو گا۔
جنتی جام کے جام چڑھا کر بھی نہ تو بے ہودہ باتیں کریں گے، نہ جھوٹ بولیں گے، نہ ہی ان کی عقل میں کوئی فتور آئے گا۔

جنت کی نعمتوں کو دنیا کی چیزوں جیسا سمجھنا اور ناموں کا ملتا جلتا ہونے کی وجہ سے ان کا مذاق بنانا کم عقلی اور بد دماغی ہے۔ یہ مثالیں صرف سمجھانے اور رغبت دلانے کے لیے بیان کی جاتی ہیں ورنہ جنت کی کسی معمولی سی چیز کا دنیا کی اعلی ترین چیز سے بھی کوئی مقابلہ نہیں۔

جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا ﴿36)

یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے صلہ ہوگا۔ (اللہ کی) ایسی دین ہوگی جو لوگوں کے اعمال کے حساب سے دی جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنت کی یہ نعمتیں مؤمنین ، متقین کے لیے ان کے رب کی طرف سے ان کے اعمال کا بدلہ اور بے بہا انعام ہوگا ۔ جنت میں ان کو جو کچھ ملے گا وہ بظاہر ان کے اعمال کا بدلہ ہوگا لیکن حقیقت میں عطائے الٰہی ہوگی؛ چنانچہ اس کے بعد بندوں کی کوئی تمنا و آرزو باقی نہ رہے گی۔

حسابا کے دومعنی ہو سکتے ہیں۔

حسابا کافیا: یعنی ایسے انعامات جو ان کی تمام ضرورتوں اور خواہشوں کے لیے کافی ہو جائیں۔

حساب کا دوسرا معنی مقابلہ کا بھی ہے۔ یعنی جیسا ان کا اخلاص تھا بدلے میں اتنا ہی بڑا انعام دیا جائے گا۔ جیسا کہ صحابہ کے اعمال اور سابقون الاولون کے ایمان کے برابر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔

سوال : ان نعمتوں کو پہلے اعمال کی جزاء کہا گیا پھر عطائے ربانی ۔ بظاہر یہ دونوں باتیں مختلف ہیں کیونکہ جزا کا مطلب بدلہ ہے اور عطاء وہ ہے جو انعام میں دی جائے؟

جواب:
الله تعالی نے ان دونوں لفظوں کو اکٹھا بیان کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بخشش اورجنت کی نعمتیں بظاہر اہل جنت کے اعمال کا بدلہ ہیں لیکن اصل میں الله تعالی کا انعام و اکرام ہیں؛ کیونکہ انسان کو جو نعمتیں دنیا میں دی گئی وہ ان کا شکرانہ ہی ادا نہیں کر سکتے۔ جنت کے انعامات تو محض الله کا فضل و انعام اور خاص عطا ہے۔

جیسا کہ حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک الله تعالی کا فضل نہ ہو۔

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمٰنِ لَا يَمْلِكُوْنَ مِنْهُ خِطَابًا (37)

اسی پروردگار کی طرف سے جو سارے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان ہر چیز کا مالک، بہت مہربان ہے۔ کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے سامنے بول سکے۔
۔۔۔۔۔۔

جنت کے تمام انعامات اس کی طرف سے ہیں جو زمین اور آسمان کا رب ہے اور جو کچھ بھی ان دونوں کے درمیان ہے۔

رب جو ہر چیز کی پرورش کرکے اسے ترقی دے کر درجۂ کمال تک پہنچا دیتا ہے اور دوسری صفت رحمان جس کی رحمت کا کوئی حساب اور کوئی شمار نہیں۔ کسی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ کہہ سکے مجھے یہ نعمت کیوں نہیں ملی اور کسی دوسرے کو کوئی نعمت کیوں دی گئی۔

الله تعالی جس کو جو درجہ عطا کریں گے اس میں کسی کو بات کرنے یا اعتراض کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا اور نہ کسی قسم کی گفتگو کرنے کی مجال ہوگی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ حشر کے دن کسی کو بغیر الله جل جلالہ کی اجازت کے بات کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ البتہ یہ اجازت محشر کے بعض مقامات میں ہوگی اور بعض میں نہیں ہوگی۔

ربط آیات: 38. تا 40

پچھلی آیات میں فرمایا کہ لوگ الله سبحانہ وتعالی سے گفتگو کرنے کی ہمت و مجال نہیں رکھیں گے۔ اگلی آیات میں اسی کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔

يَوْمَ يَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰۗئِكَةُ صَفًّا وَّ لَّا يَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا ( 38 )

جس دن ساری روحیں اور فرشتے قطاریں بنا کر کھڑے ہوں گے، اس دن سوائے اس کے کوئی نہیں بول سکے گا۔ جسے خدائے رحمن نے اجازت دی ہو، اور وہ بات بھی ٹھیک کہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ وہ دن ہوگا جب روح اور فرشتے صفیں باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ الله جل جلالہ کی ہیبت اور جلال کی وجہ سے ان کے دل لرز رہے ہوں گے، کوئی بھی بول نہ سکے گا اور نہ کسی کی سفارش کرسکے گا خواہ وہ روح و ملائکہ ہوں یا انبیاء علیھم السلام یا ان کے علاوہ کوئی اور، جب تک الله جل جلالہ اجازت نہ دے دیں۔ پھر جس کو سفارش کی اجازت ملے گی وہ بھی قاعدے کے مطابق ہی سفارش کر سکے گا اور با ادب ہوکر بامقصد بات کرے گا ادھر ادھر کی باتیں کرنے کی نہ تو اجازت ہوگی نہ ہمت ہوگی۔

سوال: روح کیا ہے؟

جواب : روح کے متعلق علماء کے چند اقوال ہیں ۔
  1. روح سے مراد جبرائیل امین ہیں، عام فرشتوں سے پہلے ان کا ذکر ان کی عظمت اور شان کے اظہار کے لیے ہے۔
  2. روح الله سبحانہ وتعالی کا ایک ایسا عظیم الشان لشکر ہے جو فرشتے نہیں ہیں بلکہ انسانوں کی طرح ان کے سراور ہاتھ پاؤں بھی ہیں ۔ اس دن ایک صف ان کی ہوگی اور ایک فرشتوں کی۔
  3. روح کو الله تعالی نے اولادِ آدم کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ جو فرشتہ آسمان سے اترتا ہے اس کے ساتھ روح کا ایک شخص ضرور ہوتا ہے۔ والله اعلم
ذٰلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ ۚ فَمَنْ شَاۗءَ اتَّخَذَ اِلٰى رَبِّهٖ مَاٰبًا (39)

وہ دن ہے جو برحق ہے۔ اب جو چاہے وہ اپنے پروردگار کے پاس ٹھکانا بنا رکھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس آیت میں الله تعالی نے اس سے پہلی آیات کا خلاصہ بیان کر دیا ہے کہ ہماری ان تمام نشانیوں اور ہمارے قدرت و اختیار سے ثابت ہوگیا کہ انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور قیامت ضرور بالضرور واقع ہوگی۔ توجس شخص کو قیامت کا یقین ہوجائے وہ تقوی اختیار کرے اور نیک اعمال کرکے اپنا ٹھکانا الله تعالی کے پاس بنا لے۔

اِنَّآ اَنْذَرْنٰكُمْ عَذَابًا قَرِيْبًا ڄ يَّوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدٰهُ وَيَقُوْلُ الْكٰفِرُ يٰلَيْتَ۔۔نِيْ كُنْتُ تُرٰبًا (40)

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسے عذاب سے خبردار کردیا ہے جو قریب آنے والا ہے جس دن ہر شخص وہ اعمال آنکھوں سے دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھے ہیں، اور کافر یہ کہے گا کہ کاش ! میں مٹی ہوجاتا۔

۔۔۔۔۔۔۔

الله تعالی فرماتے ہیں ہم نے تمہیں قیامت کے اس عذاب سے خبردار کر دیا ہے۔ قیامت بظاہر تمہیں دور دکھائی دیتی ہے لیکن حقیقت میں یہ اتنی قریب ہے جتنی انسان سے اس کی موت قریب ہے۔ اور موت تو بہت ہی قریب ہے۔

قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔ وہ اس طرح کہ اس کا اعمال نامہ اس کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا یا پھر اس کے اعمال مختلف شکلوں میں اس کے سامنے آ جائیں گے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ زکوة نہ دینے والے کا مال سانپ کی شکل میں آئے گا اور قربانی کا جانور پُل صراط پر سواری بنے گا۔

یوم سے مراد قیامت کا دن بھی ہو سکتا ہے اور قبر و برزخ بھی ، جس میں انسان اپنے اعمال کو دیکھ لے گا۔

اعمال کی نسبت ہاتھوں کی طرف اس لیے کی گئی ہے کہ اکثر کام ہاتھوں سے انجام پاتے ہیں یا پھر یہ محاورے کے طور پر بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے مراد اعمال کی دو قوتیں یعنی نیک عمل اور برے عمل ہوں۔

حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن ساری زمین برابر اور ہموار کر دی جائے گی۔ پھر وہاں تمام جن و انسان ، وحشی اور پالتو ہر قسم کے جانور جمع کیے جائیں گے۔ اگر دنیا میں کسی جانور نے دوسرے جانور پر ظلم کیا ہوگا مثلا کسی سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہو گا تو اس سے بدلا دلایا جائے گا۔ اس کے بعد الله تعالی تمام جانوروں کو حکم دیں گے کہ تم سب مٹی ہو جاؤ تو اس وقت کافر تمنا کریں گے اور کہیں گے کاش ہم بھی مٹی ہو جاتے۔

بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہاں کافر سے مراد شیطان ہے جب وہ قیامت کے دن اولادِ آدم کی عزت دیکھے گا تو وہ کہے گا کاش میں بھی مٹی سے پیدا ہوا ہوتا۔

مختصر تفسیرِ عتیق، سورة النباء

سورة النباء چالیس آیات پر مشتمل ہے۔ مشرکین مکہ استہزاء و تمسخر کے طور پر مرنے کے بعد زندہ ہونے کو اور قرآن کریم کو ’’النبأ العظیم‘‘ یعنی ’’بڑی خبر‘‘ کہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعی بڑی اور عظیم الشان خبر ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ کی بات لیکر فرمایا کہ اس ’’بڑی خبر‘‘ پر تعجب یا انکار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں عنقریب اس کی حقیقت کا علم ہو جائے گا۔ پھر اس پر کائناتی شواہد پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین اور ان میں موجود چیزیں جن کی تخلیق انسانی نقطۂ نظر سے زیادہ مشکل اور عجیب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کی تخلیق فرمائی ہے اور ایسی طاقت و قدرت رکھنے والے اللہ کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کون سا مشکل کام ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا کہ اگر یہ بات برحق ہے تو آج مردے زندہ کیوں نہیں ہوتے؟ ہر چیز کے ظہور پذیر ہونے کے لئے وقت مقرر ہوتا ہے۔ وہ چیز اپنے موسم اور متعین وقت میں آ موجود ہوتی ہے۔ مرنے کے بعد زندہ ہونے کا ’’موسم‘‘ اور وقت مقرر یوم الفصل (فیصلہ کا دن) ہے لہٰذا یہ کام بھی اس وقت ظاہر ہو جائے گا۔ پھر جہنم کی عبرتناک سزاؤں اور جنت کی دل آویز نعمتوں کے تذکرہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے جاہ و جلال اور فرشتوں جیسی مقرب شخصیات کی قطار اندر قطار حاضری اور بغیر اجازت کسی قسم کی بات کرنے سے گریز کو بیان کر کے بتایا کہ آخرت کے عذاب کی ہولناکی اور خوف کافروں کو یہ تمنا کرنے پر مجبور کر دے گا کہ کاش ہم دوبارہ پیدا ہی نہ کئے جاتے اور جانوروں کی طرح مٹی میں مل کر عذاب آخرت سے نجات پا جاتے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم!
اگر تھوڑی تھوڑی کر کے تفسیر پیش کی جائے تو استفادہ اور غوروخوض میں آسانی ہوگی ۔اور یوں شاید سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی چل نکلے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّلَا كِذّٰبًا (35)
اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ لغو اور جھوٹی باتوں کا نہ سننا بھی ایک نعمت عظمی ہے کہ جنت کی اور نعمتوں کے ساتھ اس کا تذکرہ آیا ہے۔چنانچہ جنتی مزاج بزرگوں کے واقعات پڑھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ لغو باتوں سے بہت اجتناب کرتے تھے ایک بزرگ نے تو متعلقین سے کہہ رکھا تھا کہ میرے ہاں عربی میں بات کی جائے ۔ایک متعلق نے وجہ دریافت کی تو فرمایا ایک عمر تو گنوا دی ہم نے اب جو باقی وقت کی پونجی ہے اسے یاد خدا میں خرچ کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ عربی میں بات کریں۔یوں صرف کام کی بات ہوگی اور باقی وقت چپکے بیٹھ کر خدا کو یاد کریں گے۔

اور ہمارا یہ حال ہے کہ جب تک ایک ہزار فضول باتیں نہ کریں ڈپریشن ہو جائے گا اور چاہتے جنت الفردوس سے کم نہیں۔
 

ام اویس

محفلین
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/آئیں-تیسواں-پارہ-یاد-کریں،-سمجھیں-اور-سمجھائیں۔.117258/
السلام علیکم!
اگر تھوڑی تھوڑی کر کے تفسیر پیش کی جائے تو استفادہ اور غوروخوض میں آسانی ہوگی ۔اور یوں شاید سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی چل نکلے۔
وعلیکم السلام ! لیجیے سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ الله کریم سے دعا ہے نافع بنائے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
جزاک اللہ خیر میں ان شاء اللہ باقاعدگی سے بمع غور و خوض حاضر رہوں گا ۔جہاں اشکال ہوا پیش کروں گا اور بزرگوں سے سیکھے نکات بھی شامل کروں گا۔

تیسواں انتیسواں اور آدھا اٹھائیسواں پارہ مجھے یاد تھا۔اب کچھ کچا ہو گیا ہے۔اس بہانے وہ بھی یاد ہو جائے گا۔آپ کے لیے دعائیں۔:)
 
https://www.urduweb.org/mehfil/threads/آئیں-تیسواں-پارہ-یاد-کریں،-سمجھیں-اور-سمجھائیں۔.117258/

وعلیکم السلام ! لیجیے سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ الله کریم سے دعا ہے نافع بنائے۔
آمین۔۔۔۔ فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کی جائیگی۔ان شاء اللہ تعالیٰ العزیز۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا
 
بہت خوبصورت شروعات۔۔۔۔۔۔۔ یہ سورۃ تو ظہر اور عصر کی نماز کے بعد ضرور پڑھنی چاہیئے۔بہت سے فوائد ہیں،نظر کی کمزوری کیلیئے ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
دو.دو آیات کے مراسلے بنائیں، اسی لمحے اگلا پوسٹ کردیں جو.مواد ہو مگر اک مراسلے میں تھوڑا تاکہ مجھ جیسے لوگ بآسانی پڑھ سکیں
 
Top