قوم ہے آج جن کے چنگل میں

فوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں
اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں
عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں
وردیوں میں چھپا کے خنجر یہ
شاخِ مالک پہ پر بکھیرے ہیں
ساری دنیا کا ظِل ہمیں دے کر
اپنی محفل میں کر سویرے ہیں
مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں​
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ طے کرنا ہے کہ یہ غزل ہے یا نظم؟ اکثر اشعار مسلسل محسوس ہوتے ہیں۔
پہلے دو شعر تو درست ہیں۔
تیسرے شعر میں۔۔۔ بٹیرے سے کیا مراد ’بٹیر‘ پرند ہے، تو یہ محض بٹیر ہوتا ہے، کہیں بٹیرے بولا جاتا ہو تو میں واقف نہیں۔
وردیوں میں چھپا کے خنجر یہ
شاخِ مالک پہ پر بکھیرے ہیں

شاخ مالک سے مراد؟

ساری دنیا کا ظِل ہمیں دے کر
اپنی محفل میں کر سویرے ہیں
الفاظ کی نشست و برخواست شعر کو مہمل بنا رہی ہے، مطلب سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ اس کے علاوہ ’ظل‘ عربی میں سائے کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ بول چال میں استعمال نہیں کیا جاتا جو تم شعر میں آسان اردو میں استعمال کر رہے ہو۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں
الفاظ کا استعمال اور تریب درست نہیں، کچھ بہتر کہنے کی کوشش کرو۔
اس کے علاوہ یہ آخر کے اشعار ہی اسے غزل بناتے ہیں جو یہاں لکھے ہیں۔
 
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
چور ڈاکو کیے بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں

اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں

عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں

وردیوں میں چھپا کے خنجر یہ
اپنے مالک کے پر بکھیرے ہیں

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں​

جی اُستاد محترم
اب دیکھیے تو
دعد گو
اظہر
 

دوست

محفلین
بٹیرے جمع ہے۔ پنجابی میں بٹیرے ہی کہا جاتا ہے۔ اردو میں بھی یہی بنے گا میرے خیال سے۔
 

الف عین

لائبریرین
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
چور ڈاکو کیے بسیرے ہیں

دوسرا مصرع یوں کر دو
ڈاکوؤں کے یہاں بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں
مری جان کیوں؟ ویسے چل سکتا ہے۔

کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں
بٹیرے وہاں تم لوگوں کو اٹپٹا نہیں لگتا ہو گا، میرے لئے تو یہ اجنبی لفظ ہے۔ بٹیریں جمع ہوتی ہے اس کی۔

وردیوں میں چھپا کے خنجر یہ
اپنے مالک کے پر بکھیرے ہیں
مالک کیا پرندہ تھا؟ خنکر سے گلا کاٹ دیا گیا ہوگا یا پر اکھاڑے گئے ہوں گے؟

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں
اس میں بھی دوسرے مصرع میں ترتیب بدلنی ہو گی۔
 

فاتح

لائبریرین
اظہر صاحب۔ محض مشق کی حد تک عمدہ ہے حتیٰ کہ اعجاز صاحب کی اصلاحات کے بعد بھی اسے عمدہ غزل نہیں کہا جا سکتا۔
 
اظہر صاحب۔ محض مشق کی حد تک عمدہ ہے حتیٰ کہ اعجاز صاحب کی اصلاحات کے بعد بھی اسے عمدہ غزل نہیں کہا جا سکتا۔

محترم فاتح صاحب،
تو آیئے اسے اچھا بنانے میں کچھ مدد کیجیے، میں ہمہ تن گوش ہوں جناب
دعا گو
اظہر
 
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
ڈاکوؤں کے یہاں بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں

اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں

عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں

وردیوں میں چھپے محافظ ہی
اپنےآجر کا خوں بکھیرے ہیں

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
گھرمیرے پر کئے بسیرے ہیں​

یوں کچھ بہتری آئی کیا؟
رمضان کی مبارک باد سب اھل محفل کو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
یہ دونوں اشعار اب بھی بدلنے لائق ہیں۔
وردیوں میں چھپے محافظ ہی
اپنےآجر کا خوں بکھیرے ہیں

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
گھرمیرے پر کئے بسیرے ہیں
آخری مصرع یوں کیا جا سکتا ہے
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں
تعجب ہے یہ ترتیب تمہاری سمجھ میں نہیں آئی۔
فاتح۔۔ ایسی تک بندیوں میں ہی مکمل اصلاح کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اسی لئے میرا طریقہ یہی ہے کہ شاعر کو ہی تبدیل کرنے کا کہتا ہوں، اور جو اغلاط ہوتی ہیں، ان کی نشان دہی کر دیتا ہوں۔
 
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
ڈاکوؤں کے یہاں بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں

اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں

عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں

اب محافظ کمال کے دیکھو
اپنےآجر کا خوں بکھیرے ہیں

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں​

جی بہت بہتر اُستاد جی
دعا گو
اظہر
 

الف عین

لائبریرین
اظہر اعتراض دوسرے مصرع پر تھا، پہلے پر نہیں۔ یعنی ’پر بکھیرے‘ پر۔ اس کی جگہ تم نے اس بار ‘خوں‘ کر دیا ہے۔ خون بہانا محاورہ ہوتا ہے، خون بکھیرنا نہیں۔ (پہلے سے نکلا ہوا پڑا ہو تو اس کو بکھیرا جا سکتا ہے!!)۔ لیلکن پہلا مصرع تو وہی جاندار تھا۔
اب محافظ کمال کے دیکھو
اپنےآجر کا خوں بکھیرے ہیں
اس شعر کو نکال ہی دو، خیال اچھا ہے، لیکن قافیہ ساتھ نہیں دے رہا۔
 
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
ڈاکوؤں کے یہاں بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں

اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں

عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں

اُجرتوں پر رکھے محافظ ہی
خوں کے چھینٹے یہاں بکھیرے ہیں


مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں

ذرا یوں دیکھ لیجیے از راہ کرم محترم اُستاد
 

الف عین

لائبریرین
سرخ شعر کو یوں کہو تو

اُجرتوں پر رکھے محافظ نے
خوں کے چھینٹے یہاں بکھیرے ہیں
تو کم از کم گرامر کی رو سے درست ہو جائے گا۔
 
ہر طرف یاس ہے اندھیرے ہیں
ڈاکوؤں کے یہاں بسیرے ہیں

قوم ہے آج جن کے چنگل میں
وہ مری جان سب لٹیرے ہیں

اَن کی ذنیا ہے نفس کی ذنیا
یہ نہ تیرے ہیں اور نہ میرے ہیں

عام تو ہیں شکار ان کے سب
کچھ تو تیتر ہیں کچھ بٹیرے ہیں

اُجرتوں پر رکھے محافظ نے
خوں کے چھینٹے یہاں بکھیرے ہیں

مجھکو گھر سے نکال کر اظہر
میرے گھر پر کئے بسیرے ہیں​
 
Top