قومی یکجہتی میں صحافیوں کا کردار

صحافت کا موضوع تھا سو میں نے اپنی پرانی ڈائری کے اوراق کھولے اور ایک تحریر ڈھونڈی جو آپ لوگوں کےلئے حاضر خدمت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
شہر اقبال سے سید انجم شاہ کی تحریر
شعبہ صحافت قومی زندگی کا ایسا آئنیہ دار ہے جس میں ملک کے‌خدوخال اپنی تمام تر رنگینیوں ،دلچسپی اور‌کامیوں کے ساتھ روشن نظر آتے ہیں صحافی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے وہ ہر اچھی یا بری بات سے اسی طرح متاثر ہوتے ہیں جس طرح کے باقی افراد متاثر ہوتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ عام آدمی متاثر ہوتا ہے اور صحافی اپنے تاثرات کو ایک تصویر کی‌صورت پیش کرتا ہے دراصل صحافی باقی افراد کی نسبت زیادہ حساس ہوتا ہےاس لئے اسکے اظہار میں اسکا تاثرنکھر کر سامنے آتا ہے معاشرے میں جو کچھ شب وروز ہوتا ہے صحافی وہ نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس سے نتائج بھی اخذ کرتا ہے اور اسکے اسباب پر بھی غور کرتا ہے یہی غود وفکر اسک رپورٹنگ یا اسکے کالم کی جان ہوتا ہے ورنہ مخص یہ بتا دینا کہ کیا واقعہ ظہور پذیر ہوا خبر نگاری تو ہو سکتی ہے صحافت نہیں
میرے نزدیک صحافت اس چیز کا نام ہے کہ معاشرے کے ایک ذمہ دارکی حثیت سے صحافی صرف خبر ہی نہ پہنچائے بلکہ اپنی ذہانت اور تربیت سے کام لے کر یہ فرض بھی ادا کرے کہ بحثیت قوم افراد ملت کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیئے صحافی غیر محسوس طریقے پر بڑی خو بی کے ساتھ قوم کی فکر ،سوچ اور عمل کی راہ کا تعین کر سکتا ہے اگر وہ صحافی قومنی صحافت کے قومی تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تو وہ ہر گز قومی صحافی کہلوانے کا مستحق نہیں ہے
یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسیصحافی کی دلچسپی کسی مخصوص‌گروہ،مخصوص جماعت یا مخصوص نکتہ نظر کے ساتھ ہو لیکن سچا ط وہ ہے ذاتی دلچسپی اور گروہ دلچسپیوں پر قومی اور ملکی مداف کو فوقیت دے اور ذاتی مفادات کو ملی ملی مفادات پر قربان کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کرے یہی وہ خصوصیت ہے جس سے قومی صحافت وجود میں آتی ہے ورنہ مخص گروہی خبر نامے وجود میں آتے ہیں یا اخبار نہیں
صحافت کا اولین فرض ہے کہ وہ ملی یکجہتی کو کسی طور پر نقصان نہ پہچنے دے ایک روشن ضمیر صحافی کا مقصد حیات ،اتحاد ملک و ملت ہوتا ہے وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے مضامین اداریوں اور کالم کے ذریعے افراد اور قوم میں ملکی مفاد پر ایک مرکز پر جمع کونے کی صلاحیت پیدا کرے
وہ صحافی جنکے اخبارات چھوٹی سے آبادی سے لے کر مرکزی شہروں تک یکساں دلچسپی کے ساتھ پڑے جاتے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علاقائیت کی فضا رکھتے ہوئے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں وہ علاقائیت اخبارات کہلاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پورے ملک میں پڑھے جانے والے اخبارات کی نسبت علاقائی اخبارات اپنے علاقے کی عوام کے قلب و ذہن پر زیادہ مضبوط گرفت رکھتے ہیں اس لئے وہ چھوٹے علاقے کے تمام مسائل سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں وہ یہ جانتے ہیں کہ کسی معاملے میں عوامی سوچ کیا رخ اختیار کر سکتی ہے اور کون سی بات انہیں کس انداز میں متاثر کر سکتی ہے گویا وہ اپنے حلقی اثر کی نفسیات سے پوری طرح آگاہن ہوتے ہیں اسلئے ان کے اوپر یہ نازک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے علاقے کی حد تک اپنے اداریوں ،خبروں اور کالمز کے‌ذریعے اپنے حلقہ اثر کو ایسی ذہنی تربیر دیں کہ انکی سوچ قومی رخ اختیار کرے اور وہ اس بات پر آمادہ ہوں کہ اگر قومی اور ملکی مفاد کےلئے اپنا سب کچھ نقصان بھی کرنا پڑے تو ایک جذبے اور خوش دلی کے ساتھ یہ کام کر گزریں یہ تربیت علاقائی صحافت بڑی سہولت کے ساتھ فراہم کر سکتی ہے اور اس طرح پورے ملک میں ملی یکجہتی کے چراغ روشن ہو سکتے ہیں اختلافی مسائل پر اختلافات کو مزید ہوا دینا ہو تو ایک شخص ہوا دینے کا کام کر سکتا ہے لیکن قابل تعظیم وہی صحافی ہے جو اس مرحلہ میں لوگوں کو نفرت تعصب اور برائی کی دلدل سے نکال کر ایسی شاہراہ پر لانے کا کارنامہ سرانجام دے جو قومی یکجہتی کی روشن راہ ہے وہی صحافی کہلانے کی مستحق ہیں جو کسی خبر میں مخص سنسنی پیھلا کر اخبار بیچنے کی بجائے ایسا انداز اختیار کریں کہ دیانت دار اور صداقت کے ساتھ خبر بھی لوگوں تک پہنچے اور انکی فکر کا رخ بھی مثبت ہو ایسا صحافی خواہ قومی صحافی ہو یا علاقائی صحافی کی انجمنیں ایسے لوگوں کا احتساب کریں جو درحقیقت صحافینہیں ہیں
مخص خیز خبریں گھڑ کے پیسے کمانے کےلئے صحافت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں اور شریف شہریوں کی پگڑیاں اچھالنا شروع کر دیتے ہیں اور ان صحافیوں کو خبر بھی لکھنا نہیں آتی کسی دوست وکیل وغیرہ کا سہارہ لیتے ہیں ایسے لوگوں سے صحافت کو پاک کیا جانا ہے ورنہ ہم جانتے ہیں کہ اچھائی کی تبلیغ دیر میں رنگ لاتی ہے لیکن برائی اور سنسنی خیزی فوری اثر کرتی ہے اور اسقسم کی زرد صحافت وہ گل کھلاتی ہے جو قوم کےلئے باعث شرم ہوتا ہے
علاقائی صحافی کا کام بہت نازک ہوتا ہے اس لئے کہ اسے حقائق کا اظہار بھی کرنا ہوتا ہے اور برائی کو برائی اور اچھائی کو اچھا کہنا ہوتا ہے اس کا ایک محدود حلقہ ہوتا ہے جہاں تمام لوگوں سے اس کے ذاتی رابطے اور تعلقات ہوتے ہیں انتظامیہ سے برارست اسکا رابطہ ہوتا ہے اسلئے خامیوں اور کوتاہیوں اور برائیوں کی نشاندہی اسکےلئے بہت مشکل کام ہوتا ہے اسکی حق گوئی و بے باکی کو خریدنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اسکی تذلیل کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے اور خوفزدہ کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہےت لیکن ان سب طوفانوں سے علاقائی صحافی جرات ہمت کے ساتھ نبرد آزما ہوتا ہے اسلئے اسے محفلوں اجلاسوں اور سرکاری تقریبات میں یا تو باوقار مقام نہیں دیا جاتا یا پھر اس سے تیسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا ہے بعض اوقات اسکی حق گوئی و بے باکی کی سزا کا بھی بندوبست کیا جاتا ہے اسکے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے جاتے ہیں خریدے ہوئے گواہ پیش کئے جاتے ہیں بعض اوقات صحافی اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ایسے ہی کسی صحافی کے بارے میں قتیل شفائی لکھتے ہیں
ہو نہ ہو یہ کوئی سچھ بولنے والا ہے قتیل
جس کے ہاتھ میں قلم اور پائوں میں زنجیریں ہیں
حالانکہ سرکاری سطح پر ایسے حق گو اور بے باک صحافی کو باوقار مقام بھی ملنا چاہئے اور اس کا ہر طرح کا تحفظ بھی کیا جانا چاہیئے جو اپنے تمام فائدوں کو چھوڑ کر معاشرے سے رشوت ،کرپشن ،بے ایمانی،۔جعل سازی فریب ،مکاری ،چور بازی ،ذخیرہ اندوزی ،اقربا پروری اور اس قسم کی بے شمار برائیوں کے خلاف بند قائم کرنے میں‌مصروف رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔د وستوں اور بھائیوں مذکورہ تحریر تین اخبارات میں شائی ہو چکی ہے جن میں سے ایک مقامی اخبار تھا
(ایک درخواست : کہ کچھ عرصہ قبل ایک صحافی موسی خان صحافتی امور نبھاتے ہوئے اپنی جان قربان کر چکے ہیں ان کےلئے سب سے التماس ہے کہ انکی مغفرت کےلئے خدائے بزرگ و برتر سے دعا کریں اور دعا کریں کہ اللہ تعالی انکے بیوی بچوں کو غیب سے رزق عطا فرمائے آ مین ثم آ مین سید انجم شاہ
 
Top