قوم، حکومت اور عدالت سب کے نام ایک التجا

زیرک

محفلین
قوم، حکومت اور عدالت سب کے نام ایک التجا
عشقِ نبیﷺ ہمارے لیے سب سے محترم ہے لیکن حبِ نبیﷺ کا تقاضہ یہ نہیں کہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے لوگوں کو مارا اور پیٹا جائے، ان کی املاک کو نقصان پہنچایا جائے اور راستے بند کر کے ٹریفک کا نظام درہم برہم کر دیا جائے۔ ڈنڈوں، لاٹھیوں اور چھوٹے ہتھیاروں سے لیس ہو کر ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بگاڑنا عشقِ نبیﷺ نہیں ہے بلکہ بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ آسیہ کیس فیصلے کے بعد علمائے دین کا فرض بنتا تھا کہ وہ اپنے خدشات کو لے کر حکومت سے رابطہ کرتے، اگر ان کی بات سنی جاتی اور اس کے نتیجے میں کوئی ایسا لائحۂ عمل طے کر لیا جاتا کہ جس سے اس معاملے کو بات چیت سے طے کر لیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اگر ان کی بات نہ سنی جاتی تو تب انہیں احتجاج کا حق حاصل تھا۔ علماء اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کر سکتے تھے اور اپنا کیس قانونی دائرے میں رہ کر بھی لڑ سکتے تھے۔ مگر کیا جائے کہ ہمارے علمائے دین کی ایک بڑی اکثریت ڈنڈے کو ہی قانون بنائے پھرتی ہے۔ قانون کی باریکیوں کو سمجھنے والے افراد یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ توہین رسالتﷺ کے قانون کو ذاتی مفادات کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی سے بدلا لینا ہو تو یہ سب سے آسان طریقہ ہے کہ اس پر توہین رسالتﷺ کا الزام لگا کر مقدمہ بنوا دیا جائے۔ اس لیے وقت آ گیا ہے کہ ایسے کیسز کے دائر کرنے سے پہلے اس کی پوری تحقیق کرنے کے لیے ایک انکوائری سسٹم ترتیب دینا ہو گا، وگرنہ توہین رسالتﷺ کے الزامات لگتے رہیں گے، گواہ منحرف ہوتے رہیں گے، ملزمان رہا ہوتے رہیں گے اور کچھ لوگ ملک میں انتشار پھیلاتے رہیں گے۔ آسیہ کیس کے بھی دو اہم گواہ منحرف ہو چکے ہیں تو ایسے میں عدالت کو چاہیے تھے فیصلے میں یہ بھی شامل کرتی کہ اس کیس کی دوبارہ انکوائری کی جائے کہ وہ کن وجوہات کی وجہ سے منحرف ہوئے۔ اس سے یہ ہوتا کہ تحقیقات کے نتیجے میں اصل حقائق عوام کے سامنے آ جاتے اور عوام کو اشتعال دلانے والے نام نہاد علماء کو ملک میں افراتفری پھیلانے کا موقع نہ ملتا۔ قوم، حکومت اور عدالت سب سے التجا ہے کہ یہ حبِ نبیﷺ نہیں اور نہ ہی یہ انﷺ کی تعلیمات ہیں کہ اندھا دھند اقدامات سے ملک کو آگ لگائی جائے، سب کا فرض بنتا ہے کہ ٹھنڈے دل سے بیٹھ کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔
 
Top