قمر کو جس پہ ناز تھا وہ آسماں نہیں رہا (برائے صلاح ومشورہ)

متلاشی

محفلین
قمر کو جس پہ ناز تھا وہ آسماں نہیں رہا​
جو رشکِ آفتاب تھا وہ ضو فشاں نہیں رہا​
چمن میں کیوں ہے خامشی ؟ اُداس کیوں ہے ہرکلی ؟​
تھیں جس کے دم سے رونقیں وہ باغباں نہیں رہا​
قدم قدم پہ شفقتیں ، نفس نفس عنایتیں​
ملیں جہاں سے الفتیں ، وہ آستاں نہیں رہا​
وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی​
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا​
غضب ہوا کہ وہ جواں، عزیمتوں کا کارواں​
صداقتوں کا پاسباں ، اب اس جہاں نہیں رہا​
کرم کا تھا جو سائباں ، وہ مہرباں ، وہ قدر داں​
جو سب کا تھا عزیزِ جاں ، انیسِ جاں نہیں رہا​
فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟​
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا​
مری متاع تو لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی​
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہیں رہا​
کہاں گئی وہ ربطگی ؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟​
نصرؔ ہے تجھ کو کیا ہوا ؟ یہ وہ بیاں نہیں رہا​
محمد ذیشان نصر​
(۳ فروری ۲۰۱۳)​
 

متلاشی

محفلین
مطلع میں ذو فشاں کو ضوفشاں کیجئے
اور
مقطع میں نصر بےوزن ہے۔ اگر نصَر ہے تو اس کا معنی بتا کر کرم فرمائیں۔
شکریہ فاتح بھائی ۔۔۔ مطلع میں غلطی سے ضو فشاں کی بجائ ذوفشاں لکھا گیا۔۔۔!
اور مقطع میں نصر ص بر فتح ہے ۔۔۔ یہ میرا تخلص بھی ہے اور میرا خاندانی نام بھی ۔۔۔!
 

الف عین

لائبریرین
یہ موضوعاتی مسلسل غزل لگ رہی ہے، ویسے درست ہے اوزان کے حساب سے۔ لیکن جس کے لئے کہی گئی ہے، اس کا نام بھی تو عنوان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔
وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی​
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا​
÷÷ یہاں نہ پاسباں ہی درست ہوتا ہے نہ راز داں، پہلے مصرع میں بہار کے تعلق سے کہا گیا ہے، دوسرا مصرع اسی مناسبت سے ہونا چاہئے تھا۔ یہاں ’باغباں‘ ہونا چاہئے تھا۔ جو اگرچہ استعمال ہو چکا ہے۔​
غضب ہوا کہ وہ جواں، عزیمتوں کا کارواں​
صداقتوں کا پاسباں ، اب اس جہاں نہیں رہا​
÷÷یہاں ’اس جہاں میں‘ مراد ہے نا؟ یہ بات محض ’اس جہاں‘ سے ظاہر نہیں ہوتی۔​
فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟​
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا​
یہاں بھی پاسباں قافیہ درست نہیں لگ رہا۔​
مری متاع تو لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہیں رہا
÷÷پہلے مصرع میں ’تو‘ زائد ہے، اس کے بغیر درست وزن میں آتا ہے۔
کہاں گئی وہ ربطگی ؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟
نصرؔ ہے تجھ کو کیا ہوا ؟ یہ وہ بیاں نہیں رہا​
ربطگی؟؟؟ میرے خیال میں یہ یوں ہو جائے تو بہتر ہے​
کہاں گئی وہ سر خوشی؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟​
نصرؔ یہ تجھ کو کیا ہوا کہ خوش بیاں نہیں رہا​
میرے خیال میں اسے غزل کی جگہ پابند نظم کی شکل دی جائے تو زیادہ بہتر ہو۔ تاکہ کم قوافی میں کام چل جائے۔ اور ایک ہی بات بار بار دہرانے سے بچا جا سکے۔​
 

متلاشی

محفلین
یہ موضوعاتی مسلسل غزل لگ رہی ہے، ویسے درست ہے اوزان کے حساب سے۔ لیکن جس کے لئے کہی گئی ہے، اس کا نام بھی تو عنوان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔
وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی​
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا​
÷÷ یہاں نہ پاسباں ہی درست ہوتا ہے نہ راز داں، پہلے مصرع میں بہار کے تعلق سے کہا گیا ہے، دوسرا مصرع اسی مناسبت سے ہونا چاہئے تھا۔ یہاں ’باغباں‘ ہونا چاہئے تھا۔ جو اگرچہ استعمال ہو چکا ہے۔​
غضب ہوا کہ وہ جواں، عزیمتوں کا کارواں​
صداقتوں کا پاسباں ، اب اس جہاں نہیں رہا​
÷÷یہاں ’اس جہاں میں‘ مراد ہے نا؟ یہ بات محض ’اس جہاں‘ سے ظاہر نہیں ہوتی۔​
فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟​
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا​
یہاں بھی پاسباں قافیہ درست نہیں لگ رہا۔​
مری متاع تو لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی​
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہیں رہا​
÷÷پہلے مصرع میں ’تو‘ زائد ہے، اس کے بغیر درست وزن میں آتا ہے۔​
کہاں گئی وہ ربطگی ؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟​
نصرؔ ہے تجھ کو کیا ہوا ؟ یہ وہ بیاں نہیں رہا​
ربطگی؟؟؟ میرے خیال میں یہ یوں ہو جائے تو بہتر ہے​
کہاں گئی وہ سر خوشی؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟​
نصرؔ یہ تجھ کو کیا ہوا کہ خوش بیاں نہیں رہا​
میرے خیال میں اسے غزل کی جگہ پابند نظم کی شکل دی جائے تو زیادہ بہتر ہو۔ تاکہ کم قوافی میں کام چل جائے۔ اور ایک ہی بات بار بار دہرانے سے بچا جا سکے۔​
بہت شکریہ استاذ گرامی
پابند نظم کا فارمیٹ کیا ہو گا ؟
 

الف عین

لائبریرین
بند کے تین یا چار مصرعے، اور ایک ٹیپ کا شعر، جس میں ایک مصرع ہر بار نیا ہو۔ یہ عام طور پر فارمیٹ ہوتا ہے، لیکن کوئی تبدیلی بھی کی جا سکتی ہے۔
مثلآ
وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی
مری متاع لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی
کہاں گئی وہ سر خوشی؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟
نصرؔ یہ تجھ کو کیا ہوا کہ خوش بیاں نہیں رہا
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہں رہا
یہ محض مثال کے طور پر ہے، ٹیپ کا مصرع چاہو تو یہی رکھو۔
ہاں پہلے بند میں پورے پانچ چھ مصرعے ہم قافیہ ہونے چاہئیں، مثلاً
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا
جو سب کا تھا عزیزِ جاں ، انیسِ جاں نہیں رہا
کہ جس کے دم سے تھا جہاں، وہ مہرباں نہیں رہا
 
جناب الف عین سے کلی اتفاق ہے۔ مزید یہ کہ لفظیات کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مصرع دیکھئے:
فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟
زبان کیوں ہے گنگ سی، کیوں ہے گنگ سی زباں ۔۔ محاورہ میں چپ تو بندے کو لگتی ہے، زبان کو نہیں۔

فارمیٹ کیا ہو گا؟ دیکھئے فارمیٹ آپ کوئی بھی اختیار کر سکتے ہیں، یہ تو آپ کے ذوق اور اپج پر ہے۔ مرزا غالب کا وہ حزنیہ آپ کو بھی یاد ہو گا۔ ’’ ۔۔ کوئی دن اور‘‘ وہ غزل کے فارمیٹ میں ہے۔ اقبال کی ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مثنوی ہے۔ انیس اور دبیر کے مراثی مسدس میں ہیں۔ نظیر کے ہاں مخمس کی بہت عمدہ صورتیں ملتی ہیں۔

بہت شکریہ۔
 

متلاشی

محفلین
جناب الف عین سے کلی اتفاق ہے۔ مزید یہ کہ لفظیات کو بہتر کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ مصرع دیکھئے:

زبان کیوں ہے گنگ سی، کیوں ہے گنگ سی زباں ۔۔ محاورہ میں چپ تو بندے کو لگتی ہے، زبان کو نہیں۔

فارمیٹ کیا ہو گا؟ دیکھئے فارمیٹ آپ کوئی بھی اختیار کر سکتے ہیں، یہ تو آپ کے ذوق اور اپج پر ہے۔ مرزا غالب کا وہ حزنیہ آپ کو بھی یاد ہو گا۔ ’’ ۔۔ کوئی دن اور‘‘ وہ غزل کے فارمیٹ میں ہے۔ اقبال کی ’’والدہ مرحومہ کی یاد میں‘‘ مثنوی ہے۔ انیس اور دبیر کے مراثی مسدس میں ہیں۔ نظیر کے ہاں مخمس کی بہت عمدہ صورتیں ملتی ہیں۔

بہت شکریہ۔
بہت شکریہ استاذ گرامی ۔۔۔! کچھ تبدیلیوں کے بعد دوبارہ حاضر ہوں گا۔۔۔!
 

نور وجدان

لائبریرین
قمر کو جس پہ ناز تھا وہ آسماں نہیں رہا
جو رشکِ آفتاب تھا وہ ضو فشاں نہیں رہا

چمن میں کیوں ہے خامشی ؟ اُداس کیوں ہے ہرکلی ؟
تھیں جس کے دم سے رونقیں وہ باغباں نہیں رہا

قدم قدم پہ شفقتیں ، نفس نفس عنایتیں
ملیں جہاں سے الفتیں ، وہ آستاں نہیں رہا

وہ جس کے دم سے ھر طرف بہار ہی بہارتھی
وہ پاسباں بچھڑ گیا ، وہ رازداں نہیں رہا

غضب ہوا کہ وہ جواں، عزیمتوں کا کارواں
صداقتوں کا پاسباں ، اب اس جہاں نہیں رہا

کرم کا تھا جو سائباں ، وہ مہرباں ، وہ قدر داں
جو سب کا تھا عزیزِ جاں ، انیسِ جاں نہیں رہا

فضا میں کیوں ہے سوگ سا ؟ زباں کوکیوں ہے چپ لگی؟
جو انجمن تھا ذات میں وہ پاسباں نہیں رہا

مری متاع تو لٹ گئی ، یہ زندگی اجڑ گئی
کہ جس کے دم سے تھا جہاں ، وہ مہرباں نہیں رہا

کہاں گئی وہ ربطگی ؟ کہاں ہے گم وہ چاشنی ؟
نصرؔ ہے تجھ کو کیا ہوا ؟ یہ وہ بیاں نہیں رہا

محمد ذیشان نصر
(۳ فروری ۲۰۱۳)

ماشاء اللہ ! بہت خوب کہا آپ نے ۔۔۔ اللہ کریں زورِ قلم زیادہ ۔۔اس کی اصلاح نہیں ملی
 
Top