سید شہزاد ناصر
محفلین

شیخ نوید اسلم
سرزمین پاکستان عظیم تاریخی ورثے کی امین وہ سرزمین ہے کہ جس میں آثار قدیمہ کے ایسے ایسے نادر و اعلیٰ مقامات موجود ہیں جو ہمارے لیے باعث فخر و افتخار ہیں۔ یہ مقامات اجداد کی تاریخی روایات ایک لحاظ سے سبق آموز بھی ہیں اور دوسرا ان کی روشنی میں ہم ایک بہتر مستقبل بھی متعین کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں تاریخی ورثے کی افادیت کو وہ اہمیت اور مقام نہیں دیا گیا جس کی اسے ضرورت تھی نہ تو تاریخی مقامات کی مناسب دیکھ بھال کی گئی اور نہ ہی نوجوان نسل کو اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرانے کی سنجیدہ حکمت عملی سے کام لیا گیا۔ صورت احوال یہ بنی کہ ہم اپنی مقامی تاریخ سے تقریباً نابلد ہو چکے ہیں۔ بیرونی حملہ آوروں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ پنجاب اور پوٹھوہار کی ایک اپنی مقامی تاریخ بھی ہے جو قربانیوں اور جنگ و جدل کے ایسے لاتعداد واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جس کے اثرات پورے برصغیر اور تخت دہلی تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ قوم گکھڑ (کیانی) نے خطہ پوٹھوہار پر 1002ء سے 1765ء تک حکومت کی۔ انتظامی و فوجی نظم و نسق کی تکمیل کے لیے انہوں نے پوٹھوہار کے طول و عرض میں مختلف قلعے قائم کئے۔ ان میں سے ایک قلعہ پھر والا ہے۔ یہ قلعہ ساڑھے سات سو سال تک خطہ پوٹھوہار کی گکھڑ سلطنت کا دارالحکومت اور عظیم مذہبی اور فوجی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ دارالحکومت اسلام آباد سے اگر کہوٹہ روڈ پر سفر کیا جائے تو ایک مقام آتا ہے علیوٹ یہاں سے شمال کی جانب 5 کلو میٹر کے فاصلے پر نیم پہاڑی سلسلے میں واقع قلعہ پھر والا ماضی کے جاہ وجلال اور عظمتوں کی داستان لیے کھڑا ہے۔ 175 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے اس قلعے کی تعمیر کا آغاز 1002ء میں پہلے فرمانروا لیگو ہرشا المعروف گکھڑ شاہ نے کیا۔ محل وقوع کا چنائو دفاعی نقطۂ نظر سے ایک موزوں اور دشوار گزار پہاڑی سلسلہ پر کیا گیا۔ قلعہ کے شمال کی جانب سربلند پہاڑی سلسلہ ہے۔ جنوبی اور مشرقی جانب خطرناک زمینی ڈھلوان ہے اور مغربی جانب دریائے سوان بہتا ہے۔ قلعہ چاروں جانب 25 فٹ اونچی اور 10 فٹ چوڑ دیوار سے محفوظ تھا کہ جس میں تیر اندازوں اور پہرہ داروں کے استعمال کے لیے درے بنے ہوئے تھے۔ قلعہ کے چھ داخلی دروازے ہیں۔ ہاتھی دروازہ، ہاتھیوں اور گھڑ سوار دستوں کی نقل و حرکت کے لیے لشکری دروازہ، لشکر اور حملہ آور دستوں کے استعمال کے لیے زیارت دروازہ، جس جانب آبائو اجداد کی قبریں واقع ہیں۔ بیگم دروازہ، خواتین کے استعمال کے لیے، باغ دروازہ، جس جانب کبھی انتہائی دلفریب و وسیع باغ مہکتا تھا اور قلعہ دروازہ کہ جو روز مرہ کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ ان دروازوں میں ہاتھی اور لشکری دروازے سائز میں بڑے ہیں اور ان کے ساتھ نگران اور حفاظت کے لیے مامور عملے کے لیے وسیع کمرے بھی مختص تھے۔ قلعہ میں موجود نقارخانہ کے آثار بھی نمایاں ہیں کہ جہاں کسی ناگہانی خطرے یا بیرونی حملہ آور کے اچانک حملے کی اطلاع کے لیے موثر انتظام موجود تھا۔ نقار خانے سے ملحقہ پانی کے ذخیرے کے نشانات بھی واضح نظر آتے ہیں اس کے علاوہ تاتار خان کے محل کے آثار بھی نمایاں ہیں۔ قلعہ میں رہائش پذیر حکمران گکھڑ خاندان کے علاوہ 50 ہاتھی،200 گھوڑے اور500 نفوس پر مشتمل تازہ دم پیادہ فوج ہر وقت موجود رہتی تھی۔ باقی آبادی ایک بڑے قصبے کی صورت میں تقریباً400 گھروں پر مشتمل تھی جو قلعے سے باہر رہائش پذیر تھی۔ دریائے سوان کے جنوبی جانب قدیمی مسجد کے ساتھ سلطان آدم خان و ممارا خان کی قبروں کے علاوہ خطہ پوٹھوہار کے آخری فرمانروا سلطان مقرب خان کا مقبرہ بھی واقع ہے اس کے علاوہ 5 سے 10 ایکڑ پر پھیلے بڑے قبرستان بھی تھے کہ جن کا ریکارڈ ابھی بھی ریونیو کے کاغذات میں موجود ہے۔ قلعہ پھر والا کے مکینوں اور اس کے درو دیوار کے ساڑھے سات سو سالہ دور حکومت میں زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے۔ خطہ میں جب بھی کوئی شورش برپا ہوتی تو گکھڑ فوج قلعہ پھروالا سے آندھی و طوفان کی طرح اٹھتی اور دشمن کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر روانہ رکھتی اور کبھی یوں بھی ہوتا کہ دشمن فوج قلعے پر چڑھ دوڑتی اور ملیاملیٹ کر ڈالتی۔ کبھی خوشیوں کے شادیانے بجتے اور کبھی قلعہ پھر والا کی دیواروں سے لہو ٹپکتا۔ اس طویل دور میں ہزاروں ایسے واقعات نے جنم لیا ان تمام واقعات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں اس لیے مختصراً چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ گکھڑ خطہ پوٹھوہار میں 1002ء میں بت شکن محمود غزنوی کے ہمرکاب ہو کر آئے اور مسلمان مذہب اختیار کیا قلعہ پھروالا اپنے قیام سے ہی اسلام کا گہوارہ بن گیا اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل رہے گا کہ یہ برصغیر میں پہلا اسلامی قلعہ ہے۔ 1012ء میں قلعہ پھروالا کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ ممتاز صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش اور حضرت قطب شاہ نے اپنے قیام سے اس جگہ کو منور کیا۔1018ء میں ممتاز حساب دان اور ماہر فلکیات ابو الفتح البیرونی نے قلعہ میں قیام کیا اور ملحقہ پہاڑیوں سے زمین کا قطر ناپا 1206ء میں شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کو شکست دینے کے بعد دہلی پر قبضہ کرلیا۔ دہلی سے واپسی پر جب وہ 400 اونٹ خزانے کے ساتھ گکھڑوں کے علاقے سے گزرا تو فدائی خان گکھڑ نے اپنے 20 کمانڈوز کے ساتھ شب خون مار کر شہاب الدین غوری کو شہید کر ڈالا۔ غوری کے داماد قطب الدین ایبک نے قلعہ پھروالا پر حملہ کرکے گکھڑوں سے خوب بدلہ لیا۔ 1524ء میں سلطان ظہیر الدین بابر نے قلعہ پھروالا پر حملہ کیا جس کا ذکر’’تزک بابری‘‘ میں تفصیلاً کیا گیا ہے۔ قلعے پر قبضے کے بعد بابر نے تاتار محل میں قیام کیا۔ بالآخر بابر اور گکھڑوں میں صلح ہوگئی اور یہاں سے مغلوں اور گکھڑوں میں ایسے لازوال اور برادرانہ تعلقات کا آغاز ہوا جو آخر دم تک قائم رہا۔ (پاکستان کے آثارِ قدیمہ)
ربط
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2014-10-31/11028#.VFOW1Fe2aho