قصہ چہار درویش --- نقل مبدل

عرضی فیصل عظیم فیصل لاہور والے کی جو محفل کے مختار کار صاحبوں کے حضور میں دی گئی



صاحبان والا شان نجیبوں کے قدر دنوں کو خدا خوش رکھے . عرصہ دراز بیت گیا اس دشت کی سیاحی میں اور بارہا کوشش کرنے کی کہ کچھ ایسا مضمون احاطہ تحریر میں لایا جاوے جو نہ صرف تفنن طبع کا سبب بن سکے بلکہ اس مضمون کی زبان کچھ اس طرح سے ہو جو زبان اردو معلّی کی بساطت و فصاحت پر دلیل عام بن سکے .

اردو زبان میں کبھی تحریر کر سکیں اک آرزو تھی ہم بھی کوئی با ادب سی بات

برادران و اخوات آپ قدردان ہیں . حاجت عرض کرنے کی نہیں . تارہ اقبال سے ہم آہنگ رہے اور احتیاط سے منازل عشق کی طے کرتا رہے خصوصاً سو میں سو کا لوڈ آنے کے بعد تو ویسے ہی کہا جا رہا ہے کہ اب سب کہ دو . گزارش ہے تمامی قارئین کرام سے کہ اگر اس قصّہ پر رائے زنی کا شوق چراتا ہے تو ایک دھاگہ الگ سے تبصرہ جاتی کھول کر موضوع سخن بنایا جا سکتا ہے اگر دھاگہ هذا میں گفتگو تکدر مزاج کا سبب بن کر ترک تحریر پر مجبور کر دے گی اور دھاگے سے نہ صرف تسلسل مفقود ہو جائے گا بلکہ ممکن ہے کہ خادم تحریر یہاں پر سب کی تفنن طبع کے لیے پیش کرنے سے توبہ کر لے​


اردو زبان کا ایک ایسا قصّہ جس کا نام آپ لوگ خود رکھیں گے- قصہ چہار درویش کی نقل مبدل کرنے کی کوشش ہے




خاکسار فیصل عظیم فیصل

لاہور مورخہ چودہ جون دو ہزار اٹھارہ

لاہور
 

بسم الله الرحمن الرحیم


سبحان الله کیا خالق حقیقی ہے کہ جس نے ایک مٹھی خاک سے کیا کیا صورتیں اور مٹی کی مورتیں بنائیں رنگ برنگے لوگ کوئی گورا کوئی کالا کوئی ایسا کہ گورا اسے گورا نہ مانے اور کالا اسکے کالے ہونے پر عالمی عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ نالش کرنے کو مستعد اور وہ خود اپنے آپ کو پاکستانی کہ کر دنیا کی سب سے بہترین انٹیلیجنس ایجنسی کا تمغہ اپنی پتلون کے عقبی حصے میں لگوا کر اپنے ہی زعم میں ریمبو ، راکی ، ٹرمینیٹر ، بایونک سولجرز اور تمامی فلمی پہلوانوں سے قوی خود کو جان کر دنیا بھر کی سیاست اور معاملات پر رائے زنی کرنا اپنا بنیادی حق اور فرض سمجھتے ہیں چاہے گھر میں چارپائی رکھنے پر بھی کوئی پوچھنے والا نہ ہو .

منشا اس تحریر کا یہ ہے کہ قصّہ چہار درویش کا ابتدا میں اس تقریب سے امر خسرو نے کہا تاکہ وہ اپنے مرشد کی مزاج پرسی کر سکیں جنکی درگاہ دلی میں قلعے سے تین کوس دور دروازے سے باہر لال بنگلے کے پاس ہے . ان کی طبیعت ماندی ہوئی تو تب مرشد کا جی بہلانے کو امر خسرو یہ قصّہ کہتے تھے . اور بیمارداری میں حاضر رہتے تھے . الله نے چند روز میں شفا عطا فرمائی تب انہوں نے غسل صحت کے موقع پر یہ دعا دی کہ جو بھی اس قصّہ کو سنے خدا کے فضل سے صحت مند و تندرست رہے گا . تب سے یہ قصّہ فارسی میں مروج ہوا . پھر یہی قصّہ اردو زبان میں میر امن دلی والے بزبان اردو تحریر فرماتے ہیں اور اس کی نقل مبدل خادم هذا فیصل عظیم فیصل بقلم الیکترونی خود سے تحریر کرنے کی سعی کرتا ہے البتّہ پہلے قصص کی سی اصلیت و ماخذ سے وابستگی نہ ہوگی بلکہ مبدّل ہونے کی وجہ سے اس کا تلذذ اپنی ہی چاشنی لیے ہے ہوگا

اس پاک پروردگار کے اذن سے جس کا اذن ہر مخلوق کے ہر ہر کام کے لیے بنیادی ضرورت ہے
 

شروع قصّے میں

اب آغاز قصّے کا کرتا ہوں . ذرا کان دھر کر سنو اور اور منصفی کرو . آج کے چار درویش میں یوں لکھا ہے اور کہنے والے نے یوں کہا ہے . کہ دور کسی عرب ملک میں ایک وافد رہا کرتا تھا . اصلا و نسلا کسی عرب خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن سفر کرنے کو جو وثیقہ ہوتا ہے جسے پاسپورٹ کہتے ہیں مملکت خداداد پاکستان کا تھا جس کی وجہ سے اسے کسی کی کفالت پر ملک هذا میں رہنا نصیب ہوا تھا . نام اسکا فیصل قریشی اور شہر جس میں بسیرا ہوا اسکا شہر دبئی کا تھا جو بادشاہ النہیان کے خانوادے کی حکومت میں ہے اس ملک کو جسے لوگ متحدہ عرب امارات کے نام سے جانتے ہیں . اس ملک میں بجلی پٹرول نامی ایندھن سے بنا کر پورے ملک کو فراہم کی جا رہی ہے . اگر شاہراہوں کو دیکھو تو اتنی اتنی چوڑی کہ آٹھ آٹھ فولادی گھوڑے ایک ہی وقت میں اکٹھے چلیں تو شاہراہ کا صرف ایک طرف جانے والا راستہ استعمال ہو . نہانے کا پانی اسقدر گرم کہ اپنے اپنے ملکوں سے آنے والے لوگ اگر اس ملک میں ایک سال رہایش پذیر رہ کر وطن واپس جانے پر گرمیوں میں تازہ پانی سے نہانے پر ھپ ھپ کی آوازیں نکلنے سے روک نہ سکیں . ایسی سلطنت میں رہتے ہے اسے بہت برس ہوئے کہ ایک ہی خواہش دل میں امڈتی اور ہلچل مچاتی تھی اور وہ خواہش نہ اولاد کی تھی کہ اولاد کی صورت اسکے پاس ایک عدد فرزند ارجمند مسمی طلحہ فیصل مولود ہو چکا تھا اور نہ ہی وہ خواہش مال کی تھی کہ مالیاتی منشیوں جنہیں آج کی زبان میں بنک کہا جاتا ہے کے بہی کھاتوں میں درہم کی ایک مناسب سی قطار اس کی ضرورتوں کے لیے کافی تھی . البتہ اپنے اندر کی شیطانیت کو جدیدیت کا پیرہن پہنانے کی کوشش میں ایک عدد زنانی دوست جسے گرل فرینڈ کی نام سی جانا جاتا ہے کی خواہش اس کی سوا ہاتھ کی سینی میں مچل مچل کر سر کے سارے بال لے جا چکی تھی. جب دس بیس جگہ سے نرم گرم نعل خوری کے نتائج ترسی ہوئی آنکھوں سے ظاہر ہونے لگی تو اس خواہش کو دوسری شادی کی تمنا کا نام دے کر جائز خواہش قرار دے کر دل میں پال لیا . اسی امید میں موصوف کی عمر چالیس برس کی ہوگئی . ایک دن عوامی مجرہ خانے جنہیں وہاں کلب کا نام دیا جاتا تھا میں کسی حسینہ نے انکل کہ کر پکارا تو بے ساختہ آنکھ نم ہوئی فورا وہاں سے اٹھے مجرہ خانہ کی بولگاہ جسے جدید زبان میں ٹوائلٹ یا واش روم کہا جاتا ہے کا رخ کیا . وہاں پر دیوار پر آدمی کے قد کے آیئنے مقام دست شوئی کے قریب آویزاں تھے جن میں خود کو دیکھ کر اپنی چمکدار چندیا اور فربہ توند ، پیلی آنکھوں کو دیکھ کر ایک طویل آہ بھری پھر دل میں اپنے سوچ کیا کہ افسوس تونے اتنی عمر اپنی ناحق برباد کردی

 
آخری تدوین:

ایک لونڈیا کی حرص میں اس قدر مال زیر و زبر کیا . روزانہ کے مجرے میں ہزاروں درہم ضایع کرنے کا کیا فایدہ ہوا..؟ اتنے دن کلب میں آ کر اس نازنیں کی انکل جی سننے سے پہلے تمہیں موت کیوں نہ آ گئی..؟ .آخر کب تلک ان بازارو حسیناؤں پر اپنی کمائی اڑاؤ گے..؟ انکل تو کہلا دئیے اب اس کلب میں خواری کاٹنے کا کیا فائدہ..؟ اس سے کہیں بہتر تھا کہ تم کسی گھریلو قسم کی عورت سے دوسری شادی کر لیتے..! . گرل فرینڈ یا زنان دوستی تمہاری قسمت میں نہیں ہے..! اسی دکھ میں اسکے لبوں پر ایک دکھ بھرا نغمہ رواں ہو گیا

ہزار نوٹ دکھا کر قریب کر لو تم
فریب انکی رگوں میں ہے اب لہو کی طرح
جو کل تلک تمہیں جانان جاں بلاتی تھی
اسی نے تم کو چچا کہ دیا بہو کی طرح

یہ بات اپنے دل میں ٹھہرا کر وہ اس مجرے کے استقبالیہ پر آکر آج کا سارا حساب برابر کرنے کے بعد وہاں سے جو نکلا تو اپنا مشرق بعید کا اصیل آہنی گھوڑا اس نے تعارفی رقعہ فراہم کر کے میخانہ کی جانب سے فراہم کردہ سائیس سے وصول کر لیا اسکی کلید اسکی کھوپڑی کے قریب لگا کر روانہ ہوا اور آندھی طوفان کی رفتار سے سیدھا شہر کے دوسرے کونے پر موجود ایک مے خانہ کا رخ کیا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں مجرا نہیں ہوتا بلکہ سنجیدہ پینے پلانے کا دہندہ ہوتا ہے… کبھو کبھار کوئی پینے پلانے کی خواہشمند اور عطش کی مری ہوئی حسینہ پینے کے چکّر میں آپ کو پندرہ بیس دقیقہ تک کا ساتھ فراہم کر سکتی ہے جواب آں غزل کے طور پر آپ اسے کچھ کھلا پلا کر رخصت کرتے ہیں . ..

 
یہاں آمد پر اپنے آہنی گھوڑے کو سائیس کے حوالے کردیا اور تعارفی رقعہ حاصل کر کے اندر کا رخ کیا اس مے خانے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین پنج تارا سرائے بھی موجود تھا اور اس سرائے کی ہی پہلی منزل پر اس خانہ ساقی کا مدخل وقوع پذیر تھا . جیسے ہی سرائے کی استقبالیہ سنگت کو دیکھا تو ماحول اچھا لگا . فضا میں بھینی بھینی خوشبو . شفاف بلوری مدخل سے اندر آمد پر ہوا میں خنکی اور تبرید کا احساس ہوا میں ہلکی ہلکی موسیقی سنتے ہوئے جب اسکے قدم نیچے بچھے ہوئے نرم و کثیف غلیچوں پر پڑے تو اس ماحول نے اسے اپنے سحر میں ایسا جکڑا کہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا کہ آیندہ یہی منزل کام و کشت و اکل و شرب ہوگی اب وہاں کی مست و موسیقی سے بھرپور دیوان سے گزر کر ایک آہنی دروازے سے ایک زنداں نما کمرے میں آیا جہاں ایک مرد خوشنما چہرے پر دیدہ زیب مسکراہٹ سجائے ملا آنکھوں میں شرارت لیے اس نے سوال کیا جی صاحب ہندی ، بنگالی یا ایرانی جواب ملا ہندی تو اس نے آگے ہو کر ایک چمکتی ہوئی نقرئی قرص جس پر ابھرے ہوئے حروف میں کچھ تحریر تھا کو اپنی ایک انگلی سے چھوا اس کے چھوتے ہی آہنی دروازہ بند ہوتا چلا گیا اور وہ کمرہ زنداں نما ہوا میں اٹھتا چلا گیا .​
 
آخری تدوین:
اچانک کمرے کو جھٹکا سا لگا اور دروازہ کھلا کیا دیکھتا ہے کہ ایک راہداری سی ہے اور اس راہداری کی سامنے ایک صورت مہ جبیں کی جس پر خوبصورت تحریر میں نام لکھا ہے اور اس نام کے نیچے ایک تیر ایک طرف اشارہ کر رہا ہے .وافد سمجھدار تھا کہ اس تیر کی جانب چل پڑا جہاں ایک جوان کہ رنگ کالا بھجنگ آنکھوں میں مسکراہٹ اونٹ کی کھال کے رنگ کا لباس پہنے کھڑا ہے آگے بڑھ کر ایک ہاتھ اپنی ناف پر رکھتے ہے سر سے اشارہ خیر سگالی کا کرتے ہی دوسرے ہاتھ سے دروازہ وا کرتا ہے . اندر کا منظر خوبصورت لکڑی کے کام سے بھرپور ایک بہت بڑا سا کمرہ ہے . ایک طرف ایک بڑی سی طاق نما الماری لگی ہے جس میں دنیا بھر سے نہ جانے کس کس ملک کی بنی انگور کی بیٹی رنگ برنگی بوتلوں میں سجی ہوئی جھانک رہی تھی اور اس کے پاس ہی محرّر کے تخت کی مانند آبنوسی میز لگی ہے جس کے ایک طرف باوردی خدمتگار مے نوشوں کی خدمات کو مستعد کھڑا تھا جبکہ دوسری طرف چار پانچ افراد کی تشریف کا انتظام تھا . اس کے علاوہ اس بڑے سے کمرے میں مرکز کی جناب چالیس پچاس افراد کے چار چار کی جماعتیں بنا کر بیٹھنے کا انتظام تھا جبکہ اطراف میں رئیس زادوں کی تشریف آوری اور اپنے مہمانوں کے ساتھ مزین مخملی جلسہ گاہوں میں بیٹھنے کا انتظام ہے چھت میں جگہ جگہ مخفی مکبرات صوت سے ابھرتی ہوئی نغمگین آواز اور چار پانچ باوردی خدمتگاران مے خانہ میں ادھر ادھر مستعدی کے ساتھ مہمانوں کی خدمت میں مصروف تھے . وافد اس ماحول کو پسند کرتے ہوے ایک جانب بڑھتا ہے جہاں بہترین بیٹھک کا انتظام ہے اور کونے میں بیٹھ جاتا ہے . یہاں سے اسکے نظر سارے کمرے پر پڑتی ہے جبکہ کمرے والے اسے صاف اور واضح دیکھنے سے قاصر ہیں . بیٹھتے ہی ایک باادب خادم پیش اسکے خدمت میں ہوتا ہے اور ہاتھ میں دفتر اور قلم لیے سوال کرتا ہے. حضور کی خدمت میں کیا پیش کیا جائے . سوال کے جواب میں ایک اور سوال دغا جاتا ہے وافد کی طرف سے کہ آپ کے پاس کیا کیا ہے. نظر اٹھا کر مسکراتے ہوئے خادم جواب دیتا ہے .

حضرت جو شوق کیجئے دیسی شراب سے
کھل کر ملے گی بیس کی بوتل حساب سے

گر آپ کو پینا ہے ولایت کی ملے گی
قوقاز سے افرنگ سے ہر رنگ و ماپ سے

امریکیوں کے ملک کی بربن منگائی ہے
حاضر کریں گے ہم جو حکم ہو جناب سے
 
آخر یہ تجویز ٹھہری کہ پینے پلانے کا شغف چلانے کو بربن امریکی کو زحمت دی جائے . جیسے ہی خادم اس خواہش کو پوری کرنے کو نکلا . ایک خادم دوسرا حاضر ہوا اور اسکے سامنے ایک سینی بھری پنیر اور کچھ گوشت کے مخصوص قتلے رکھ کر چلا گیا . وافد مزاج بنا کر بیٹھا کمرے میں بیٹھے لوگوں کو دیکھنے لگا . کیا دیکھتا ہے کہ چار اشخاص بے نوا گلے میں ایک پور چوڑائی کی پٹیاں ڈالے کہ آخر جسکے میں ایک رقعہ نما کاغذی شناخت نام پیوست تھا سر نیہوڑاے ایک ہاتھ جام پر جبکہ دوسرا ہاتھ سینے والی جیب پر رکھے بیٹھے ہیں ہر تھوڑی تھوڑی دیر میں ان میں سے کبھو کوئی کھلکھلاتا ہے کبھو کوئی رونا شروع کر دیتا ہے اور پھر چاروں خاموشی سے جام سے مشغول ہو جاتے ہیں . منظر عجیب سا دیکھ کر وافد کی دل چسپی بنی تو اس نے خادم کو اشارہ کیا اور ان چاروں درویشوں کو اپنے قریب بلوا لیا جب ان لوگوں کو بتایا گیا کہ آپ کے واجبات کی ادائیگی وافد نے اپنے ذمے لے لی ہے تو وہ سب فورا اٹھ کر اسکے پاس چلے آے . وافد نے جیب سے چنگاری ساز نکال کر تمباکو کی اصلاب کے ساتھ پیش کیا تو سب نے ایک ایک صلب تمباکو کی پکڑی اور شکر گزار ہوئے . وافد نے بات شروع کی اور گویا ہوا . کے دیکھتا ہوں میں کہ تم سبھی گم گشتہ حال اور پردیسی معلوم ہوتے ہو . مزاج میرا مکدر ہوا اور مجھے یہاں آکر تم لوگوں کی صبحت میسّر ہونا تھی تو چلو آج کی رات میں تمہاری سیاہ کرتا ہوں اور تم میری رنگیں کرو جب تک یہاں مرے ساتھ ہو کھانے پینے کا تم کو فکر نہیں . آج اس مقام پر باہم ملاقات ہوئی اور کل کا احوال کچھ معلوم نہیں . ایک گمت رہیں یا جدا جدا ہو جاویں. رات بڑی پہاڑ ہوتی ہے اور اس سے بھی بڑا پہاڑ ہوگا یہاں کا حساب جبکہ من فدوی چکانے کی ذمّ داری لے چکا ہے تو اپنی جیوب اور شب کو کالا ہونے سے بچاؤ کچھ میری سنو کچھ اپنی سناؤ رات گزارو اور گھروں کو جاؤ بہترین طریقہ یہی ہوگا کہ اپنی اپنی سرگزشت جو اس دنیا میں جس پر بیتی ہو چاہے جھوٹ اس میں بوری بھر موجود ہو بیان کرے تو باتوں میں رات کٹ جائے گی جب تھوڑی شب باقی رہے گی تو من فدوی آپ لوگوں کو اپنے آہنی گھوڑے پر آپ کے مقام سکونت پر پہونچا کر اپنے گھر کی راہ لونگا. سبھوں نے کہا یا ہادی جو ارشاد ہوتا ہم نے قبول کیا حکم ہو کہاں سے شروع کیا جاوے کہ رات حضور کی رنگین ہو اور ہم فقیروں کی سنگین ہونے سے محفوظ رہے
 

سیر پہلے درویش کی


اشارہ مست ہو کر کیا جو اک درویش کو تو چشم مست اٹھا کر درویش یوں گویا ہوا

بیان کرتا ہوں اب قصّہ میں سن لو تم حماقت ہے

میری اس عمر میں ہر رنگ کی اپنی صداقت ہے

اے یاران میری پیدائش ملک پاکستان کی ہے . بزرگوں اور بڑوں کا اصل وطن راجپوتانہ کی ریاست تھی جہاں سے دو صد برس پہلے مہاجرت کرکے سندھ کی دھرتی پر ہمارے بڑے تشریف لائے تھے . بادشاہ اورنگزیب کے زمانے میں ہمارا پہلا بزرگ مسلمان ہوا جس کا نام شیتو تھا اور اس کے اسلام لانے کی وجہ اورنگزیب کی طرف سے لگان و محصولات سے مسلمانوں کی واسطے معافی تھا جبکہ غیر مسلمانوں کو جزیہ اور محصولات میں تشدید کا سامنا تھا . مسلمان ہونے پر شیتو بابا کو خان کا خطاب ملا اور وہ شیتو خان کے نام سے جانے گئے . سندھ کی دھرتی پر شیتو خان کا قیام رتوڈیرو نامی قصبے میں ہوا جو آج کے شہر لاڑکانہ سے چند میل کے فاصلے پر موجود ہے . ہمارے ایک بزرگ جو شیتو خان کی اولاد تھے ان کا نام نامی شاہنواز تھا اور وہ ریاست جوناگڑھ کے دیوان تھے انگریزی راج کے زمانے میں جب بٹوارہ ہوا ملک ہندوستان کا تو جونا گڑھ کی ریاست کا حکمران مسلمان تھا جس نے پاکستان کے ساتھ الحاق کردیا تھا مگر کیونکہ عوام اس ریاست کی ہندو تھی اور جوناگڑھ کے الحاق پاکستان کے خلاف تھی ہندوستان نے اس الحاق کو نامنظور کرتے ہے جوناگڑھ پر حملہ کرکے قبضہ کر لیا اور اسے اپنے ساتھ ملا لیا ایسے میں شاہنواز کا خاندان بھاگ کر پاکستان آ گیا اور سندھ میں لاڑکانہ نامی شہر میں قیام پذیر ہوا . یہاں شاہنواز کے بابا شیتو خان کی بہت زمین تھی اور ان زمینوں کی وجہ سے علاقے میں اثر و رسوخ بھی بہت تھا شاہنواز کا تیسرا بیٹا ذوالفقار علی تھا جو میرا نانا تھا وہ شہر کراچی میں ایک موج مستی والے کھلنڈرے نوجوان کی صورت مشہور تھا جبکہ اسے کتب بینی کا شوق بھی تھا . یہ شوق اسے حاکم وقت کے محل میں موجود کتب خانہ میں لے گیا جہاں سے اسکا سیاسی سفر شروع ہوا اور وزارت خارجہ سے ہوتا ہوا میرا نانا ایک سیاسی جماعت کا سربراہ پھر صدر مملکت پھر وزیراعظم کی کرسی پر متمکن ہوا کچھ سیاسی غلطیوں اور کچھ حالات نے پلٹا کھایا اور مرے نانا کہ جنکے اہل و عیال میں میری نانی جو ایرانی کرد تھی اور ایران میں رقاصہ تھی انکے چار بچے میری ماں میری خالہ مرے دو ماموں شامل تھے کو اس وقت کے سپہ سالار نے تختہ الٹ کر ایک قتل کی سزا میں قتل کیا پھانسی دے کر مرے ماموں کہ جنکا نام انکے دادا کے نام پر شاہ نواز تھا کو سم قاتل سے قتل کیا گیا جبکہ مرے دوسرے ماموں کی جان جان آفریں کے سپرد بعد میں اس وقت ہوئی جب میری والدہ سپاہ سالار کی موت کے بعد وزیراعظم تھی . سازشی لوگ اسکا الزام مرے والد پر لگاتے ہیں جبکہ اس بات کی حقیقت مشکوک ہے . مرے والد کے متعلق کچھ ذکر سناتا ہوں اور پھر اپنی کہانی پر آتا ہوں . مرے والد ایک سندھ میں بسنے والے ایسے بلوچ ہیں جنہیں اگر جاٹ بلوچ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا . مشہور ہے کہ مرے دادا کا ایک مرکز تھا تفریح تفنن کا جس کے داخلے کی مد میں اچھی رقم محصول تھی اس کے علاوہ کچھ زمینیں تھیں جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور ہزاروں دونم زمین کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ روایتی زمینداری کے اچھے برے سب اصول ازبر تھے انکی شادی میری والدہ سے ہوئی تو حاسدوں نے بہت اچھی بری خبریں چلائیں کہ شاید یہ شادی کسی فضیحت کے خوف سے ہوئی ہو حالانکہ ان خبروں کی صداقت بھی مشکوک ہے . بہرحال میں پیدا ہوا اور جس زمن میں میری ولادت ہوئی کوئی مہاجن کوئی زمیندار کوئی بپاری مرے والد کی مانند نہ تھا کہ شوہر تھے وزیر اعظم اور حاکم وقت کے ہر نیا کاروبار دسواں حصہ اپنے کاروبار کی منظوری کا مرے والد کو بطور ہدیہ پیش کرتا تھا (حالانکہ یہ شدنی بھی شاید مخالفوں نے اڑا کر اپنے سینوں کا غبار نکالا ہوگا) مرے والدین کی اولاد میں ہم تین بہن بھائی ہیں جن میں سے دو بہنیں کہ بختاور اورآصیفے نام کی اور من کہ درویش بلاول جو لباس عامیانہ وگلے میں یہ تعویذ شناختی لٹکا کر مرشدوں کی حضوری میں بولتا ہے. غرض کہ جس کے گھر میں اتنی دولت اور ایک لڑکا ہو اسکے لاڈ پیار کا کیا ٹھکانہ ہے . مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے کارندوں اور خادماؤں کے سایہ میں پرورش پائی . اور پڑھنا لکھنا پینا پلانا اور ہر وہ فن سیکھا کہ جسے فن لطیف کہتے ہیں . رقص مجھ جیسا کہ کوئی پورے ولایت میں نہ کرتا تھا کہ زیور تعلیم کا مرے واسطے ملک ولایت میں ہی مجھے فراہم تھا اور کیونکہ مرے والدین کی مخفی کمائی کے کچھ محلات ملک انگلستان میں بھی تھے اور مری تعلیم کے واسطے اپنے ملک کہ جس سے ہمارا تعلّق زمینوں کی کمائی یا حکمرانی و عیش و عشرت سے زیادہ کچھ نہ تھا میں کوئی ادارہ ایسا نہ تھا جہاں مرے مخفی معاملات کا راز فاش ہو کر مرے والدین کی فضیحت اور ہماری سیاسی زندگی پر مضر اثرات نہ چھوڑتا . اب زندگی ولایت کی جو دیکھئے کہ والدین کی جانب سے نہ کوئی روک ٹوک تھی اور انکے خوشامدی بھکڑ بھانکڑی مفت پر کھانے والے آکر میرے مصاحب بنے . ان سے آٹھ پہر صحبت رہنے لگی . ہر کہیں کی باتیں اور زٹلیں واہی تباہی ادھر ادھر کی کرتے اور کہتے اس جوانی کے عالم میں ووڈکا نامی روسی یا ولایتی کسی بھی قسم کی شراب پیجئیے نازنیں معشوقوں کو بلواکر داد عیش کی دیجیے کہ یہی زیب دیتا ہے خاندانی زمینداروں اور ملک و ملّت کے آیندہ کے حقداروں کو .
 
غرض آدمی کا شیطان آدمی ہے ہردم کے کہنے سننے سے اپنا مزاج بھی بہک گیا . شراب ناچ اور جوئے کا چرچا شروع ہوا پھر تو نوبت یہ پوھنچی کہ تعلیم بھول کر تماش بینی اور لینے دینے کا سودا ہوا اپنے نوکر اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی تو جو جس کے ہاتھ پیرا الگ کیا گویا لوٹ مچا دی . کچھ خبر نہ تھی کہ کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے کہاں سے آتا ہے اور کیدھر جاتا ہے ..؟ مال مفت دل بے رحم اس درخرچی کے آگے گنج قارون کا بھی ہوتا تو وفا نہ کرتا مگر ہم کہ آج کے قارون ، فرعون اور ہامان کی نسلوں سے ہیں ہمیں کیا فرق پڑتا . اسی دوران ایک افتاد ایسی پڑی کہ ایک روز کہ میں چند مہ جبینوں سبک انداموں کے ساتھ داد عیش دے رہا تھا کہ خادم حاضر ہوا ہاتھ اوسکے میں ہاتف تھا اور آنکھیں سرخ میرے کلیجے کو ہاتھ پڑا محسوس ہوا کچھ بہت بڑا ہوگیا ہے جس کی خبر دینے کو خادم حاضر ہوا ہے فورن سے پیشتر حسینوں کو دفع کیا اور ہاتف اسکے ہاتھ سے پکڑ کر کان کو لگایا کیا سنتا ہوں کہ ایک دکھ بھری خبر منتظر تھی میری کہ والدہ کا انتقال پرملال ہوگیا ہے اور ملک پاکستان میں دارالحکومت کے قریب ایک خودکش دھماکے میں والدہ کی وفات ہو گئی ہے میرا تو یہ خبر سنتے ہی دماغ شل ہو گیا کچھ سمجھ نہ ای کہ کیا کروں کیا کہوں. قیامت سی ٹوٹ پڑی کہ والدہ تو حکومت اور سیاست کے تقاضے سے ملک گئی تھیں . اور ہمیں نہیں لگ رہا تھا کہ ہم اس بار حکومت بنا پائیں گے لیکن یہ تو ہماری دنیا ہی اندھیر ہو گئی تھی والد نے فورا جہاز خصوصی بھیجا کہ مجھے واپس ملک لے جایا جا سکے میں سکتے کے عالم میں نہیں جانتا کب تیار ہوا اور کب راکب سفینہ ہوائی میں ہوا .​
 
ملک برطانیہ کے دارالخلافہ لندن سے روانگی ہوئی راستے میں دوبئی رکے اور سیدھے ملک پاکستان کہ وہی پچھلے پچاس برس سے ہمارے خنوادے کی بادشاہی کا موضوع تھی . پاکستان پوھنچتے ہی مجھے شہزادوں کی مانند ہوائی بندرگاہ سے ہمارے ملازمین اور حکومت وقت کے اہلکاروں نے ہمارے محل میں پوھنچایا . والدہ کی میت فی الحال ہمارے حوالے نہ کی گئی تھی اور گھر بھر میں کہرام مچا ہوا تھا . جیسے تیسے کرکے والدہ کی میت لیکر انہیں نانا کے پہلو میں دفنایا اور کچھ دنوں بعد والد نے رات کے پچھلے پہر ہم تینوں کو اپنے کمرے میں اکٹھا کیا اور یوں گویا ہوئے .

بلاول . بختاور اور آسیفے تم تینوں اپنی ماں کے قریب تھے جبکہ مجھ سے ہر محبّت اور قربت کے باوجود تم لوگوں کی والدہ مجھے اتنا اہمیت نہ دیتی تھی . اب تم تینوں سے بیان کرتا ہوں کہ اگر وہ سیاسی جماعت جو تمھارے نانا نے تشکیل دی تھی اور جس پر تمہاری والدہ اور نانی اماں نے راج کیا تھا بوجوہ میری کہ تعلّق میرا نہ اس قبیلے سے ہے نہ تمھارے نانا کے خاندان سے ہے کے توسط سے حکومت اور زمین جائداد سے عمل دخل ہمارا خطرے میں ہے اور اسے بچانے کا ایک واحد طریقہ جو مرے ذہن میں آتا ہے سوائے اس کے کچھ نہی ہے کہ ایک وصیت تمہاری ماں کے نام کی تیار کی جائے کہ اس سیاسی جماعت کے کہ جمہوریت جسکا دستور ہے . اسلام جسکا دین ہے اور سوشلزم جسکا نظام ہے کی بادشاہی ہمارے ہاتھ سے نکلنے نہ پاوے کیونکہ طاقت گئی تو سمجھو یہ سب شہزادگی وڈیراداری اور سلطت ہاتھ سے جاوے گی . یہ بھی سوچ رکھنا کہ آنے والے کچھ دنوں میں دستور مملکت کے مطابق جمہور کو حق انتخاب دیا جا چکا ہے کہ وہ اپنے آیندہ پانچ برس کے حکمران کا انتخاب کریں . اب تم کم سنی کے عالم میں قانوناً حکمرانی کے اہل نہیں ہو نہ ہی تمہاری بہنوں میں سے کوئی اس بات کی اہل ہے کہ تمہاری ماں کا خلا ملکی سیاست سے پورا کر سکے اور عوام الناس اس وقت تمہاری ماں کی ناگہانی موت کے سبب ہمارے ساتھ ہے اور کافی امکان ہے کہ آنے والے پانچ برس کی حکومت ہمیں ملے گی . میری بہن کی آنکھیں تر ہو گیئں اور وہ تڑپ کر گویا ہوئی .

آپ ہمارے والد ہیں . ہماری والدہ کی نگوانی موت کا صدمہ ہمارے لیے تازہ ہے . آپ جو مناسب سمجھیں کریں بلی (مجھے محبّت سے بلی بلایا جاتا تھا) کی پڑھائی کا معامله ہے جبکہ ہم دونوں بھی نادان ہیں لہذا ہم فوری طور پر کچھ نہ کرسکیں گے . دوسرے دن پتہ چلا کہ پورا ملک ہماری والدہ کی وصیت کو تسلیم کرکے ہمارے والد کے نعرے پاکستان کھپے کو سند پذیرائی دے رہا تھا . انتخابات ہوئے اور ہماری جماعت کو عوام الناس نے حق حکمرانی دے دیا والد نے میری تعلیم اور کم سنی کو بہانہ بناتے ہوے زمام کار اپنے ہاتھ رکھی تھی جس کے نتیجے میں انہیں مملکت پاکستان کا دستوری سربراہ منتخب کر لیا گیا . اب دنیا کی رنگینیاں تھیں اور ہم تھے . کبھی کسی خاتون وزیر سے میری فضیحتیں زبان زد عام ہوتیں تو کبھی کسی اداکارہ کے ساتھ والد کے قصص زبان زدعام ہوتے . ہمارے گھوڑے گلاب جامن کھاتے اور عوام الناس نام کی مخلوق چنگ چی نامی آہنی خچروں پر بغیر بجلی اور بنیادی ضروریات زندگی کے رینگ رینگ کر اپنا وقت گزارا کئے . پتہ ہی نہ چلا اور پانچ برس گزر گئے . جب دوبارہ انتخابات کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ عوام کو ہوش آچکا ہے اور وہ اب ہماری حکمرانی پر چنداں راضی نہ ہیں
 
ورژن ٹو قصہ چہار درویش ۔ اسے متروک کر دیا گیا تھا ۔ سبب سیاسی خانوادوں کی زندگیاں جس قدر رنگین ہیں حتی خیالات بھی اس تک پہنچنے سے قاصر ہیں مزید یہ کہ دل نہیں چاہتا کہ ہر شے کو سیاست کا رخ ہی دیا جائے۔
 
Top