ایاز صدیقی قصہء شقِّ قمر یاد آیا

مہ جبین

محفلین
قصہء شقِّ قمر یاد آیا
حسنِ اعجازِ بشر یاد آیا
آہِ سوزاں کا اثر یاد آیا
اُن کا فیضانِ نظر یاد آیا
اُن کے دیوانے کو اُن کے در پر
دشت یاد آیا نہ گھر یاد آیا
دیکھ کر شامِ مدینہ کا کمال
مطلعِ نورِ سحر یاد آیا
کب نہ تھی مجھ پہ عنایت کی نظر
یاد کب عالمِ فریاد آیا
پھر مدینے کو چلے اہلِ نیاز
پھر کوئی خاک بسر یاد آیا
منزلِ قدس پہ پہنچے تو ایاز
سجدہء راہ گزر یاد آیا
ایاز صدیقی​
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اُن کے دیوانے کو اُن کے در پر
دشت یاد آیا نہ گھر یاد آیا
بہت ہی خوب۔ عمدہ ارفع اور اعلیٰ
 
Top