حماد

محفلین
رابرٹسن سمتھ کے خیال میں قربانی کی رسم قدیم مذہب کی اساس تھی۔ وہ کہتا ہے کہ قربانی وہ نذرانہ یا تحفہ تھا جو قدیم زمانے کے لوگ ان دیوتاؤں اور دیویوں کو پیش کرتے تھے جو ان کے عقیدے کے مطابق ان کے مقدر پر تسلط رکھتے تھے۔ وہ قربانی دے کر ان کی خوشنودی حاصل کیا کرتے تھے۔ لہو کو حیات اور توانائ کی علامت مانتے تھے۔ چنانچہ نفس کا معنی حیات بھی ہےاور لہو بھی، جیسا کہ لفظ نفّاس سے ظاہر ہے۔ چنانچہ لہو کا کھانا ممنوع ٹھہرا اور ذبیحہ کا رواج ہوا۔ ذبیحہ کا خون بتوں پر چھڑکتے تھے تاکہ دیوتاؤں کی توانئ بحال رہے۔ جسمانی اور اخلاقی پاکیزگی کیلئے بھی خون بہاتے تھے۔ کوئ شخص سائ بیلی دیوی کے مت میں داخل ہونا چاہتا تو ایک گڑھے میں ننگا بٹھا دیتے تھے پھر گڑھے کے کنارے بیل ذبح کرتے جس کا خون اس شخص پر گرتا اور وہ پاک ہو جاتا۔ متھرامت والے بھی خون سے بپتسمہ لیتے تھے۔ قول و قرار اور عہد و پیمان کیلئے ایک دوسرے کے بازو پر چرکا لگا کر لہو پینے کا رواج عام تھا۔ جادوگر ٹونے ٹوٹکے خون سے لکھتے رہے ہیں۔ ایک دفعہ شاہ قسطنطین بیمار پڑگیا۔ مرض نے طول پکڑا تو ایک درباری نے مشورہ دیا کہ جہاں پناہ کسی کنواری لڑکی کے خون سے غسل کریں تو شفایاب ہو جائیں گے۔ ہنگری کی شہزادی باتھوری اپنے شباب کو بحال رکھنے کیلئے نوجوان لونڈیوں کے خون میں نہایا کرتی تھی۔
جنگ میں فتح حاصل کرنے، دافع بلیات، دھرتی کی بار آوری کو برقرار رکھنے۔ بارش برسانے، حصول اولاد کیلئے بھی خونی قربانی دی جاتی تھی۔ پہلے پہل نربلی (مرد کی قربانی) دینے کا رواج تھا، پھر گھوڑوں، بیلوں،بھیڑ، بکریوں کی قربانیاں دینے لگے۔ قدیم یونان و رومہ میں لڑائ چھڑنے سے پہلے کسی کنواری لڑکی یا گھوڑے کی قربانی دی جاتی تھی۔ ہندوستان میں دھرتی میں زرخیزی کے اضافہ کرنے کیلئے سیاہ یا سفید گھوڑا قربان کیا کرتے تھے۔ رامائن میں سیاہ اور مہا بھارت میں سفید گھوڑے کی قربانی کا ذکر آیا ہے۔رومہ میں ڈیانا دیوی کے معبد میں گھوڑا ذبح کیا جاتا تھا۔ ایران قدیم میں متھرا دیوتا کیلئے سانڈ کی قربانی دی جاتی تھی۔ رومی جرنیل اپنی فتح کے جلوس کے بعد دیوتا مریخ کے معبد میں مفتوح سپہ سالار کو ذبح کرتے تھے۔ قرطاجنہ مصیبت کے دفعیے کیلئے دیوتا مولک پر ننھے منے بچے آگ کے شعلوں میں پھینک کر قربان کیا کرتے تھے۔
دھرتی کی زرخیزی بڑھانے کیلئے جنوبی ہند کے گونڈ اور ماریا قبائل فصلیں بوتے وقت ایک جوان لڑکی کی قربانی دیتے تھے۔ اس لڑکی کو کھمبے سے باندھ دیتے اور قبیلے کے سردار باری باری اس پر خنجروں سے وار کرتے تھے۔ اس کا بہتا ہوا خون کھیتوں میں چھڑکتے تھے۔ بعض وحشی قبائل میں یہ رواج تھا کہ سالانہ قربانی کیلئے ایک نوجوان کو منتخب کر لیا جاتا۔ سال بھر خوب اسکی خاطر مدارات کرتے۔ حسین لڑکیاں اس کا دل بہلاتیں اور اسے اچھے اچھے کھانے کھلائے جاتے۔ سال کے خاتمے پر اسے ذبح کر دیتے تھے۔
میکسکو میں سورج دیوتا ہوئ پولو کتلی کی روشنی کو بحال رکھنے کیلئے ہر روز طلوع آفتاب کے وقت اس کی قربان گاہ پر جنگی قیدی ذبح کئے جاتے تھے۔ پروہت پتھر کے خنجر سے ذبیحہ کا سینہ چاک کر کے اس کا دھڑکتا ہوا دل سینے سے کھینچ لیتا اور ہاتھ بلند کر کے سورج دیوتا کو پیش کرتا تھا۔ ازتکوں کے دیوتا زائب ٹوٹک کے بت کے سامنے آدمیوں کی زندہ کھال کھینچ کر قربانی دیتے تھے۔ قدیم فلسطین میں عام طور سے کوئ چٹان مذبحہ ہوتی تھی، جس پر انسان ذبح کئے جاتے تھے بعد میں بکری کے بچوں کی قربانی دینے لگے۔ کنعان میں بچوں کی قربانی دے کر انہیں مرتبانوں میں بند کر کے دفن کر دیا کرتے تھے۔ ایسے کئ مرتبان کھنڈروں سے برآمد ہوئے ہیں۔
ہندوستان میں کالی یا چنڈی دیوی کے بت کے سامنے نربلی (انسانی قربانی) دینے کا رواج تھا۔ آج کل کلکتہ میں اس کے معبد میں دو ڈھائ سو بکریاں روز قربان کی جاتی ہیں۔ وندھیا چل میں مرزا پور کے قریب کالی کا ایک مندر ہے جہاں ٹھگ آدمی کی قربانی دیا کرتے تھے۔
فراعنہء مصر کے دور حکومت میں ہر سال دریائے نیل میں بروقت طغیانی لانے کیلئے ایک حسین دوشیزہ کو دلہن بنا کر منجدھار میں ڈبویا کرتے تھے۔ آج کل ان دنوں میں مٹی کی مورتی بنا کرڈبوتے ہیں جسے عروسہ کہتے ہیں۔ کالدیہ اور اشوریا میں بعل مردوک کے مندروں کی قربان گاہیں انسانی خون سے سارا سال تر بتر رہتی تھیں۔ بعل کے بت کے سامنے پہلونٹی کے بچے ذبح کرتے تھے۔ یہودی اپنی فصلوں کے پہلے خوشے اور باغوں کا پہلا پھل معبد میں بھینٹ کرتے تھے۔ عرب اونٹ یا بکری کے پہلے بچے کو جس کو "فرع" کہتے تھے اپنے بتوں کے سامنے ذبح کرتے تھے۔
اموری مقدس کھمبے پر جو لنگ کی علامت تھا پہلے بچے کی قربانی دیتے تھے۔ آگا میمنون شاہ سپارٹا نے سمندر کے دیوتا کو خوش کرنے کیلئے اپنی بیٹی آئفی جینیا کی قربانی دی تھی۔ یہودی سپہ سالار جضنہ نے امونیوں پر فتح پائ تو اس خوشی میں اپنی بیٹی قربان کی تھی۔ یہودیوں کی خطا کی قربانی کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ خطا کی اجتماعی قربانی دینے کیلئے وہ سال میں ایک مرتبہ ایک بکرا لاتے جسے عورتیں، مرد اور بچے باری باری چومتے گویا اپنی خطائیں اس بکرے میں منتقل کر رہے ہیں۔ پھر اس بکرے (scapegoat) کو پہاڑ کی چوٹی سے دھکا دیکر کھڈ میں گرا دیتے تھے۔
فکرو نظر کی ارتقاء کے ساتھ انسان دوسروں کی قربانی دینے کے بجائے لذات دنیوی کی قربانی تجرد اور ریاضت کی صورت میں دینے لگا۔ راہب، جتی، سنیاسی وغیرہ عمر بھر مجرد رہنے کا عہد کر لیتے تھے۔ یہ اپنی ذات اور شباب کی قربانی تھی۔ یہ لوگ تیاگ اور تجرد کی آگ میں جل جل کر بھسم ہوتے رہتے تھے۔ اس غیر فطری زندگی نے نہ صرف جنسی بے راہ روی کا باب کھول دیا بلکہ کئ تارک الدنیا ذہنی اعتدال سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اپنے سلگتے ہوئے جنسی جذبے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے وہ بسا اوقات پیٹھ پر خار دار کوڑے برسایا کرتے اور اپنے آپ کو لہو لہان کر لیتے تھے۔مسیحی "اولیاء" کے سوانح اس پہلو سے نہایت المناک اور عبرت آموز ہیں۔
کلیسائے روم والوں کی سب سے بڑی قربانی کو عشائے ربانی کہتے ہیں۔ پال ولی نامہء کار نتھیاں میں کہتا ہے۔
"مجھے یہ روایت خداوند مسیح سے ملی جسے میں تم سے بیان کرتا ہوں کہ خداند یسوع نے اس رات کو جس میں مخبری کی گئ روٹی لے کر ادائے شکریہ کے بعد توڑی اور کہا "لو اسے کھاؤ، یہ میرا جسم ہے جو تمھارے واسطے توڑا گیا۔ بطور یادگار تم بھی ایسا کرنا" اسی طرح آپ نے پیالہ پیا اور اس میں تھوڑا پی کر فرمایا "یہ پیالہ میرے خون کا عہد جدید ہے جب کبھی تم پینا میری یاد میں ایسا ہی کرتے رہنا"
اس تقریب پر مسیحی روٹی کا ٹکڑا جناب مسیح کا بدن سمجھ کر کھاتے ہیں اور شراب ان کا لہو سمجھ کر پیتے ہیں۔اس رسم کی جڑیں قدیم ترین ٹوٹم مت تک جاتی ہیں جس میں لوگ اپنے ٹوٹم کو مل کر کھا جاتے تھے تاکہ اس کی مانا یا طلسماتی توانائ ان میں بھی سرایت کر جائے۔ لیکن بعض اہل تحقیق کے خیال میں یہ قربانی متھرا مت سے لی گئ ہے، جس میں روٹی کو متھرا کا بدن سمجھ کر کھاتے تھے اور پانی کو اس کا لہو سمجھ کر پیا کرتے تھے تاکہ اس کی برکت ان میں بھی نفوذ کر جائے۔ متھرا مت کی یہ رسم بھی ظاہراً ٹوٹم مت ہی سے ماخوذ ہے۔
(رسوم اقوام از علی عباس جلالپوری)
 
Top