امن وسیم

محفلین
آپ کی وضو والی مثال محض مفروضہ پر قائم ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہ صورتحال آج تک نہیں دیکھی کہ کوئی نماز کے لیے وضو کرے اور نماز نہ پڑھے۔
بھائی جان مثالیں ہوتی ہی فرضی ہیں۔ خود قرآن پاک میں جگہ جگہ ایسی مثالیں بیان کی گئی ہیں جو فرضی ہیں۔ اللّٰہ تعالی نےہماری نصیحت کیلیے طریقہ ہی یہی اختیار کیا ہے کہ گزرے ہوئے واقعات میں سے جو سبق ( عبرت ) حاصل ہو وہ بیان کیا جائے اور مثالوں کے ذریعے ہر نقطہ سمجھایا جائے۔ سورہ بقرہ (۲۶) میں ہے :
اللہ اِس بات سے نہیں شرماتا کہ (کسی حقیقت کی وضاحت کے لیے ) وہ مچھر یا اِس سے بھی حقیر کسی چیز ( مثلا مکھی ، مکڑی وغیرہ ) کی تمثیل بیان کرے۔ پھر جو ماننے والے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ اُن کے پروردگار کی طرف سے حق آیا ہے، اور جو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ اِس مثال سے اللہ نے کیا چاہا؟ (اِس طرح) اللہ بہتوں کو اِس سے گمراہ کرتا اور بہتوں کو راہ دکھاتا ہے ، اور (حقیقت یہ ہے کہ) وہ اِس سے گمراہ تو ایسے سرکشوں ہی کو کرتا ہے۔ ( بقرہ ۲۶)

جبکہ اس آیت سے دس آیتیں پیچھے اللّٰہ تعالی نے ایک مثال بیان کی ہے:

اِن کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے (اندھیری رات میں) کسی شخص نے الاؤ جلایا، پھر جب آگ نے اُس کے ماحول کو روشن کر دیا تو (جن کے لیے آگ جلائی گئی تھی )، اللہ نے اُن کی روشنی سَلْب کر لی اور اُنھیں اِس طرح اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے۔ ( بقرہ ۱۷ )
یہی مثال آیت ۲۰ تک جاتی ہے:
یا بالکل ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہو رہی ہے ۔ اُس میں اندھیری گھٹائیں بھی ہیں اور کڑک اور چمک بھی۔ وہ کڑک کے مارے اپنی موت کے ڈر سے انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے لے رہے ہیں، دراں حالیکہ اِس طرح کے منکروں کو اللہ ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے۔ ( بقرہ ۱۹ )
ان آیات میں اللّٰہ کی عطا کردہ ہدایت اور اس کے مقابلے میں کافروں کے رویے کا ذکر ہے۔ بظاہر تو ہدایت، اس کو قبول کرنے سے انکار، حقیقت سے انکار کا بجلی، کڑک، گرج، چمک سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اللّٰہ تعالی اسی طرح سے مثالیں بیان کرتا ہے جو روزمرہ کے عوامل ہوں جن کو سمجھنا آسان ہو۔

میں نے جو مثال بیان کی اس میں مماثلت یہی ہے کہ جس طرح وضو نماز کی ایک شرط ہے ویسے ہی تلاوت، تدبر کی شرط ہے کہ پڑھے بغیر سمجھیں گے کیسے؟
 

امن وسیم

محفلین
آپ کی بات اچھی ہے مگر قران پاک ایک زندہ کتاب ہے اس کے حروف روح رکھتے ہیں اب روحِ انسانی نیک کلام کی روح پالیتی ہے گوکہ سمجھنا دماغ کا کام ہے ..
علم الکلام سے میرا کوئی شغف نہیں۔ البتہ میرے نزدیک یہ کتاب زندہ کتاب اس لیے ہے کہ جو شخص اس کو سمجھ کر پڑھتا ہے یہ اس کو جھنجھوڑتی ہے، جیسے آپ سو رہے ہوں اور کوئی آپ کو جگانے کیلیے آپ کو جھنجھوڑے۔ تو کوئی زندہ انسان ہی آپ کو جھنجھوڑ سکتا ہے۔ یہ کتاب بھی انسان کو جگانے کا کام کرتی ہے۔ اسے نیکیوں پر اکساتی ہے۔ ۱۴۰۰ سال گزرنے کے باوجود اس کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہاں البتہ جس طرح مردے کو جھنجھوڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح بے سوچے سمجھے قرآن پڑھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ مثال کے طور پر ایک بال پین کسی ان پڑھ کو پکڑا دیا جائے تو وہ اس کیلیے کھلونے سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ اس کے ذریعے بیل بوٹے وغیرہ ہی بنائے گا بس۔ اس کی خصوصیات سے فائدہ ایک پڑھا لکھا ہی اٹھا سکتا ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
اس لیے ثواب تو مل جاتا ہے مگر مقصد فوت ہوجاتا ہے
جب مقصد ہی فوت ہو گیا تو پیچھے بچتا ہی کیا ہے بھلا؟ واشنگ مشین کپڑے دھونے کیلیے ہے۔ اگر آپ نے واشنگ مشین خرید کر اسے ان پیک کیے سٹور میں رکھ دیا تو کیا فائدہ پہنچائے گی آپ کو۔ اصل چیز مقصد ہی تو ہے۔ مقصد کیلیے کوشش کرنی ہے باقی اللہ تعالی کوشش کو اور نیت کو دیکھتا ہے۔ آپ منزل پر پہنچ سکے یا نہیں پہنچے یہ الگ مسئلہ ہے۔
 

امن وسیم

محفلین
قرآن فہمی بہت ضروری ہے۔ مگر اس کے لیے تلاوتِ قرآن کی فضیلت سے انکار درست نہیں۔
قرآن فہمی کے فضائل :

یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔ ( ص : ۲۹ )
قرآن کے نزول کا مقصد غور وفکر ہے ( اور کچھ نہیں ) اگر عقل والے اس پر غور و فکر کریں گے تو ہی نصیحت حاصل کر سکیں گے۔ ( اگر کسی انگریزی کتاب میں نصیحت کی باتیں ہوں تو اس کا ترجمہ پڑھے بغیر نصیحت کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ )

"ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے آسان بنایا ہے پھر ہے کوئی جو اس پر غور کرے" (القمر ۱۷)
اللہ تعالی ہمیں ہدایت دے رہے ہیں کہ قرآن کو سمجھو اور کہیں تم بہانے نہ بنانے شروع کر دو اس لیے اسے آسان بھی بنا دیا ( مگر افسوس مسلمان پھر بھی بہانے بنا رہے ہیں )۔ اللہ نے فوراا سوال کر دیا کہ کون ہے غور کرنے والا۔ اب ہر کوئی اپنے گریبان میں خود جھانکے کہ اس کا جواب ہاں میں ہے یا نہ میں۔

(یاد رکھو)، اہل ایمان تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ( یعنی قرآن، کیونکہ آگے آیات کا ذکر بھی آ رہا ہے ) کیا جائے تو اُن کے دل دہل جاتے ہیں اور جب اُس کی آیتیں اُنھیں سنائی جاتی ہیں تو اُن کا ایمان بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔ ( انفال ۲ )

جب اہل ایمان قرآن کو پڑھتے ہیں تو ان کے دل دہل جاتے ہیں۔ اب ہر کوئی خود اپنے دلوں کے حال پر غور کرے کہ قرآن پڑھتے ہوئے دلوں کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ کیا عذاب کی کسی آیت پر جھرجھری محسوس ہوتی ہے ( ہو بھی کیسے؟ جب سمجھ ہی کچھ نہ آئے )۔

ویسے تو قرآن میں بے شمار دلائل موجود ہیں، جو قرآن کا صرف اور صرف ایک ( میں پھر کہوں گا ) صرف اور صرف ایک مقصد بیان کرتے ہیں کہ قرآن تدبر کیلیے نازل کیا گیا۔ فی الحال میں انہی دو مثالوں پر اکتفا کرتا ہوں۔

اب آتے ہیں رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے اسوہ کی طرف۔ آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے ہر آیت کا مطلب سمجھا پھر آگے بیان کیا۔ حضرت جبرائیل علیہ سلام آ کر آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کو چند آیات سکھاتے جنہیں آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم آگے صحابہ کرام کو سکھاتے۔ اس طرح تھوڑا تھوڑا کر کے قرآن ۲۳ سال کے عرصے میں نازل ہوا۔ اس کا یہی مقصد تھا کہ جتنا نازل کیا جائے اسے لوگ سمجھ لیں۔ جس طرح استاد پوری کتاب کے مطالعے کا حکم دینے کی بجائے تھوڑا تھوڑا سبق لیکچر میں سمجھا دیتا ہے پھر کہتا ہے کہ اب گھر جا کر اس کا بار بار مطالعہ کریں۔ ( ایک طالب علم بھی اتنی بات جانتا ہے کہ سمجھے بغیر کتاب کے مطالعے سے کوئی فائدہ نہیں )۔ اگر قرآن تلاوت کیلیے نازل کرنا ہوتا تو ایک بار میں نازل کرنے میں کیا حرج تھا؟

بہرحال ہمارے رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم ہر ہر آیت کو سمجھ کر پڑھتے تھے یہاں تک کہ حروف مقطعات ( جن کے یقینی مطالب ہم بھی نہیں جان سکتے ) آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم ان کے مطالب بھی جانتے تھے۔

اب آتے ہیں آثار صحابہ کی طرف۔ تمام خلفہ راشدین اور باقی تمام صحابہ کرام، جو بھی آیات نازل ہوتیں ان کو پہلے سمجھتے تھے، پھر ان کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ اگر کسی آیت کو سمجھنے میں انہیں کوئی مشکل پیش آتی تو وہ پہلی فرصت میں رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم سے اس کی وضاحت طلب کرتے۔ اور آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم اس کی وضاحت فرما دیتے۔ اس بارے میں بخاری و مسلم میں اتنی احادیث موجود ہیں کہ مجھے حوالے دینے کی ضرورت ہی نہیں۔

اس کے بعد جب اسلام عرب کے باہر پھیلا تو ہمارے سلف صالحین قرآن پڑھنے کیلیے عربی سیکھتے تھے کیونکہ وہ تلاوت کے ثواب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

لہذا خلفہ راشدین کے دور میں اور اس سے پہلے رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے دور میں کسی نے بھی بغیر سمجھے قرآن نہیں پڑھا۔ اور جو کام رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم نے نہ کیا ہو اسے ثواب سمجھ کر کرنا تو بدعت کہلاتا ہے ناں ( معاف کیجیے گا، میں بدعت کا کوئی فتوی نہیں لگا رہا۔ بس دلائل اس طرف اشارہ کر رہے تھے تو برجستہ لکھ دیا۔ ورنہ میری کم علمی دیکھیے کہ بدعت کی صحیح تعریف بھی نہیں معلوم )۔

قرآن کو بے سمجھے تلاوت کے فضائل:

قرآن کی کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جو اس دعوے کی حمایت میں پیش کی جا سکے کہ قرآن ثواب کیلیے بے سمجھے بھی تلاوت کیا جا سکتا ہے۔

رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ بغیر سمجھے بھی قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔

آثار صحابہ میں بھی کوئی ثبوت اس دعوے کو ثابت نہیں کرتا
 

امن وسیم

محفلین
میری تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ میری اس بات پر ضرور غور کریں کہ قرآن کی کوئی آیت بھی بغیر سمجھے قرآن کی تلاوت پر اجر کا اشارہ نہیں کرتی جبکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا حکم قرآن میں کئی جگہ پر آیا ہے۔ ( وہ تمام آیات جن میں قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کا حکم ہے۔ ان پر مشتمل ایک آرٹیکل جو کہ اہل سنت کے ایک عالم کا لکھا ہوا ہے، جیسے ہی مجھے ملے گا، پوسٹ کر دوں گا )

اور رسول پاک صلی ٱللَّه علیہ وسلم کی سنت سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے۔ سنت تو دور کی بات کوئی حدیث بھی اس طرف اشارہ نہیں کرتی کہ بغیر سمجھے تلاوت پر بھی ثواب مرتب ہو گا۔ یعنی بغیر سمجھے قرآن پڑھنا نفل عبادت میں بھی شمار نہیں ہوتا کیونکہ نفل عبادت بھی رسول پاک صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہوتی ہے جبکہ بغیر سمجھے قرآن پڑھنا آپ صلی ٱللَّه علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں لہذا ثواب کی سرے سے کوئی گارنٹی ہی نہیں۔

البتہ سمجھ کر پڑھنے سے ضرور ثواب ملتا ہے کیونکہ قرآن و سنت سے یہ بات ثابت ہے اور ثواب بھی بہت اعلیٰ۔ کیونکہ قرآن کو سمجھنا تمام عبادات کی بنیاد بنتا ہے اور برائیوں سے رکنے کا ذریعہ۔ جتنی اچھی نصیحت و تبلیغ قرآن کرتا ہے دنیا کا کوئی انسان نہیں کر سکتا ( سوائے نبیوں کے )۔

لہذا ایک بہت بڑی غلط فہمی میں ہم پڑے ہوئے ہیں اور اسی غلط فہمی نے ہمیں قرآن کو سمجھنے سے دور رکھا، ہمیں کہا گیا قرآن بہت مشکل ہے، ہر کوئی نہیں سمجھ سکتا ( جبکہ ٱللَّه نے کہا ہے کہ قرآن آسان ہے )، لوگوں کا قرآن پر عمل کم ہوتا گیا، فرقے بنتے گئے، انتہا پسندی، شدت، دہشت گردی، یہ سب قرآن سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم سب ایک تحریک کی شکل میں قرآن کی اہمیت اجاگر کریں۔ جگہ جگہ ، گھر گھر قرآن کلاسز ہوں۔ میں بھی اپنی حد تک کوشش کر رہا ہوں۔ آپ لوگ بھی اپنی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کیجیے۔ شروع میں تو اکیلا پن محسوس ہو گا لیکن قافلہ بن ہی جائے گا۔ انشاءاللہ


والسلام
 

امن وسیم

محفلین
ہو سکتا ہے اپنی کم علمی کے باعث میں نے کوئی آیت یا حدیث نظر انداز کر دی ہو۔ اس طرح کی کوئی چیز کسی بھائی کے علم میں ہو تو مجھے ضرور اطلاع کریں تاکہ میں اپنے نقطہ نظر پر نظر ثانی کر کے اپنی اصلاح کر سکوں۔
 

سید عمران

محفلین
یہ حروف مقطعات کہلاتے ہیں۔ اور ان پر ان شاءاللہ کسی دن آرٹیکل پوسٹ کروں گا جس میں ساری وضاحت ہو گی

مختصر بتا دیتا ہوں۔ ا ل م سورہ بقرہ کا قرآنی نام ہے۔ ( باقی تفصیل آرٹیکل میں ، انشاءاللہ)
جس طرح سورہ یونس ، ن، سے شروع ہوتی ہے اور ن سے مراد مچھلی بھی ہے عربی میں۔ تو سورہ یونس کو سورہ ن کہ سکتے ہیں یعنی مچھلی والی سورہ۔
ہم نے شرح نہیں مطلب پوچھا ہے!!!
 

سید عمران

محفلین
رسول صلی الله علیہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بھی اس بات کی طرف اشارہ نہیں کرتی کہ بغیر سمجھے بھی قرآن پڑھا جا سکتا ہے۔
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے۔“ (مشكوٰة :۲۱۳۷)

یہ فتنہ کافی پرانا ہوچکا ہے کہ امت کے سامنے مطلب سمجھے بغیر قرآن کریم کی تلاوت کو بے سود بنا کر پیش کیا جائے تاکہ جو لوگ بغیر سمجھے تلاوت کررہے ہیں وہ یہ رہا سہا عمل بھی چھوڑ دیں۔۔۔
اور دنیا بھر کے سینکڑوں ممالک میں مختلف زبانوں، تہذیب و تمدن والے وہ لاکھوں حفاظ جو عربی نہیں جانتے وہ بھی اس فتنے سے دل برداشتہ ہوجائیں کہ ہمیں ترجمہ نہیں آتا لہٰذا ہمارا حفظ قرآن کا عمل معاذ اللہ بے سود ہے اور مزید لوگ حفظ قرآن کرنا چھوڑ دیں۔۔۔
اسی سے سوچیے کہ یہ فتنہ بظاہر کتنا پرکشش ہے کہ نیکی کی ترغیب دلا رہا ہے لیکن باطن میں کتنا ہلاکت آفریں کہ لوگ قرآن سے بالکل ہی دور ہوجائیں۔۔۔
کیوں کہ یہ امر ناممکنات میں سے ہے کہ دنیا کا ہر شخص عربی زبان سیکھے، وہ بھی اتنی بامحاورہ کہ قرآن کریم خود سے سمجھ سکے اور جہاں نہ سمجھ سکے وہاں احادیث میں بیان کردہ تفسیر سے مدد لینے کے لیے علم حدیث بھی سیکھے۔۔۔
ہر مسلمان کے لیے قرآن پاک سمجھ کرپڑھنا ترغیب کے لیے تو ہے وجوب کے لیے ہرگز نہیں۔۔۔
اس فتنے کی جڑ کاٹنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پاک کی تلاوت پر ثواب کی فضیلت بیان کرنے کے لیے ’’الم‘‘ کی آیت مثال کے لیے پیش کی۔۔۔
یعنی وہ آیت جس کا مطلب کوئی نہیں جانتا!!!
 
آخری تدوین:

امن وسیم

محفلین
یہ فتنہ کافی پرانا ہوچکا ہے کہ امت کے سامنے مطلب سمجھے بغیر قرآن کریم کی تلاوت کو بے سود بنا کر پیش کیا جائے تاکہ جو لوگ بغیر سمجھے تلاوت کررہے ہیں وہ یہ رہا سہا عمل بھی چھوڑ دیں
یہ فتنے کا ذکر بیچ میں کہاں سے آگیا؟ اگر کسی پرانے نظریے کا ( جس کا آپ کو تجربہ ہوا ہو گا ) کا حوالہ دے رہے ہیں اور میرے آرٹیکل کو اس میں شامل نہیں سمجھ رہے تب تو برداشت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر میرے آرٹیکل کو آپ کسی فتنہ میں شمار کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ یہ اسلام کے بھی خلاف ہے کہ آپ کسی بات کو پرکھے بغیر ہی خود سے فتنہ قرار دے دیں۔ یہ منطق کے بھی خلاف ہے کہ جو آرٹیکل دلائل سے بھرپور ہو اسے آپ فتنہ قرار دے کر لوگوں کو متنفر کریں۔ علم و ادب کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔ آپ اگر اختلاف کرتے ہیں تو اپنی بات دلیل کے ساتھ بیان کریں۔ مسلمان کا رویہ الزام لگانے والا نہیں ہوتا۔ آپ نے اپنی دلیل میں ایک حدیث بیان کی۔ حالانکہ وہی حدیث میں نے اپنے آرٹیکل میں بیان کر کے ہی نتیجہ نکالا کہ تلاوت کا ثواب نہیں ہے۔ بہرحال بار بار آپ نے ا ل م کا ذکر کیا۔ اور ابھی میں نے آپ کی تنقید کا جواب دیا بھی نہیں تھا کہ آپ نے اسے فتنہ قرار دے دیا۔ آپ کو احساس ہے کہ یہ لفظ کتنا بڑا قاتل ہے۔ کوئی شخص جب اس آرٹیکل کو پڑھے گا، دلائل سے متاثر ہو گا، کچھ سیکھنے کی کوشش کر رہا ہو گا کہ آگے فتنے کا لفظ آجائے گا اور اس کی سوچ ایک دم بدل جائے گی۔ اب وہ دلائل کو بے وقعت سمجھ کر آرٹیکل کو نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائے گا

یہ رویہ بہت غلط ہے۔ اگر اسی طرح لوگ ایک دوسرے کی نیتوں پہ شک کرتے رہیں اور الزامات لگاتے رہیں تو قاری حضرات کو بھی دلائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہتی ( جب لکھاریوں کو نہیں ہو گی تو قاری سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے) اور وہ دلائل کی بجائے جزبات کی طرف دھیان دینے لگ جاتے ہیں۔ جس کی تقریر زیادہ جزباتی ہو گی۔ لوگ اسی کو سچا سمجھیں گے۔
 

امن وسیم

محفلین
کیوں کہ یہ امر ناممکنات میں سے ہے کہ دنیا کا ہر شخص عربی زبان سیکھے، وہ بھی اتنی بامحاورہ کہ قرآن کریم خود سے سمجھ سکے اور جہاں نہ سمجھ سکے وہاں احادیث میں بیان کردہ تفسیر سے مدد لینے کے لیے علم حدیث بھی سیکھے۔۔۔
اس کا مطلب وہ لوگ انسان نہیں بلکہ کوئی اور ہی مخلوق ہیں جو کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ( پوری دنیا میں ) دین کی تعلیم حاصل کرکے عالم کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے تو اس سب کو انسان کیلیے نا ممکن قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ میں نے صرف قرآن سمجھنے کی بات کی تھی جسے اللہ نے خود " آسان " قرار دیا ہے۔ ( سورہ قمر میں یہ آیت چار بار آئی ہے۔ جس کا مطلب قرآن سیکھنے کیلیے بہت ہی آسان ہے، انسان اسے چاہے کتنا ہی مشکل قرار دیں )۔ میں قرآن سمجھنے کی بات کرتا ہوں اور آپ عالم فاضل بننے کی۔ قرآن سمجھنے میں اور عالم بننے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ( تفصیل میں جانا میں ضروری نہیں سمجھتا )۔ میں اپنے آرٹیکل میں اور اپنے تبصروں میں ( تفصیل کے ساتھ ) وہ طریقہ کار بھی بتا دیا ہے کہ جس سے ایک مسلمان قرآن کو سمجھ سکے۔ دوبارہ عرض کیے دیتا ہوں۔

ایک عالم ایک ایکسپرٹ کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح کسی نے انگلش میں ماسٹرز کیا ہو اور کوئی دوسرا شخص جسے انگلش نہیں آتی وہ کہے کہ مجھے " ہیملٹ " کو سمجھنا ہے تو وہ اسے ٹرانسلیٹ کر کے اور کچھ وضاحت کر کے سمجھا دے گا۔

اسی طرح عالم کا کام ہے دوسروں کو سمجھانا، عام لوگ قرآن سمجھنے کیلیے کسی عالم ہی سے رجوع کریں گے۔ ویسے تو عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہے، پھر بھی ذرا تفصیل سے بتا دیتا ہوں۔

سب سے پہلے تو کسی عالم کی تفسیر کلاس میں شامل ہو جائیں ورنہ انٹرنیٹ پر بہت سے طریقے ہیں تفسیر سمجھنے کے۔ میں نے خود واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جس میں اہل سنت کے عالم مفتی اکمل صاحب سادہ اور مختصر تفسیر بیان کرتے ہیں۔ اور یہ ویڈیو بیس پچیس منٹ کی ہوتی ہے۔ روزانہ کے حساب سے یہ تفسیر ۹ ماہ میں ختم ہو جائے گی۔

تو اس طرح قرآن کو سمجھنے میں تقریبا ایک سال لگتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی پڑھا لکھا ہے تو عربی بنیادی گرائمر اور قرآنی الفاظ کے معنی سیکھے اس میں بھی ایک سال لگے گا تقریبا۔ اور اس کے بعد وہ بڑے آرام سے تلاوت کر سکتا ہے۔ اور اب وہ تلاوت کو سمجھ کے کر رہا ہو گا۔

بچوں کیلیے ہم مہنگی مہنگی ٹیوشن رکھتے ہیں، اگر ایک ٹیوشن عربی سیکھنے کی بھی رکھ لی جائے تو بچہ بہت آسانی سے چند سالوں میں بنیادی عربی سیکھ لے گا۔

اللہ تعالی کوشش کو دیکھتا ہے۔ آپ ارادہ تو کیجیے راستے بہت نکل آئیں گے۔ لیکن ان مشکلات کی وجہ سے دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنا، اس کو غیر اہم سمجھنا، تنقید کرنا، یہ درست نہیں۔ ہر حال میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔

نماز کی اہمیت ہر کوئی سمجھتا ہے ، کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جس طرح رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم پڑھتے تھے ( خشوع و خضوع ) کے ساتھ، ویسے پڑھنا نا ممکن ہے، پھر بھی ہر کوئی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس کی نماز میں زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع ہو۔ اور اس کے بعد وہ ٱللَّه سے دعا کرتا ہے کہ اے ٱللَّه میری ٹوٹی پھوٹی عبادت کو قبول فرما۔ میری اس حقیر سی کوشش کو قبول فرما۔ کم از کم پہلے ہم قرآن کو سمجھنے کی اہمیت کو تو مانیں۔ ( حوصلہ شرط ہے )۔ اس کے بعد کے مراحل بھی ٱللَّه کی توفیق سے طے ہو جائیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
اس کا مطلب وہ لوگ انسان نہیں بلکہ کوئی اور ہی مخلوق ہیں جو کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ( پوری دنیا میں ) دین کی تعلیم حاصل کرکے عالم کا درجہ حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے تو اس سب کو انسان کیلیے نا ممکن قرار دے دیا ہے۔ حالانکہ میں نے صرف قرآن سمجھنے کی بات کی تھی جسے اللہ نے خود " آسان " قرار دیا ہے۔ ( سورہ قمر میں یہ آیت چار بار آئی ہے۔ جس کا مطلب قرآن سیکھنے کیلیے بہت ہی آسان ہے، انسان اسے چاہے کتنا ہی مشکل قرار دیں )۔ میں قرآن سمجھنے کی بات کرتا ہوں اور آپ عالم فاضل بننے کی۔ قرآن سمجھنے میں اور عالم بننے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ( تفصیل میں جانا میں ضروری نہیں سمجھتا )۔ میں اپنے آرٹیکل میں اور اپنے تبصروں میں ( تفصیل کے ساتھ ) وہ طریقہ کار بھی بتا دیا ہے کہ جس سے ایک مسلمان قرآن کو سمجھ سکے۔ دوبارہ عرض کیے دیتا ہوں۔

ایک عالم ایک ایکسپرٹ کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح کسی نے انگلش میں ماسٹرز کیا ہو اور کوئی دوسرا شخص جسے انگلش نہیں آتی وہ کہے کہ مجھے " ہیملٹ " کو سمجھنا ہے تو وہ اسے ٹرانسلیٹ کر کے اور کچھ وضاحت کر کے سمجھا دے گا۔

اسی طرح عالم کا کام ہے دوسروں کو سمجھانا، عام لوگ قرآن سمجھنے کیلیے کسی عالم ہی سے رجوع کریں گے۔ ویسے تو عقل مند کو اشارہ ہی کافی ہے، پھر بھی ذرا تفصیل سے بتا دیتا ہوں۔

سب سے پہلے تو کسی عالم کی تفسیر کلاس میں شامل ہو جائیں ورنہ انٹرنیٹ پر بہت سے طریقے ہیں تفسیر سمجھنے کے۔ میں نے خود واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جس میں اہل سنت کے عالم مفتی اکمل صاحب سادہ اور مختصر تفسیر بیان کرتے ہیں۔ اور یہ ویڈیو بیس پچیس منٹ کی ہوتی ہے۔ روزانہ کے حساب سے یہ تفسیر ۹ ماہ میں ختم ہو جائے گی۔

تو اس طرح قرآن کو سمجھنے میں تقریبا ایک سال لگتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی پڑھا لکھا ہے تو عربی بنیادی گرائمر اور قرآنی الفاظ کے معنی سیکھے اس میں بھی ایک سال لگے گا تقریبا۔ اور اس کے بعد وہ بڑے آرام سے تلاوت کر سکتا ہے۔ اور اب وہ تلاوت کو سمجھ کے کر رہا ہو گا۔

بچوں کیلیے ہم مہنگی مہنگی ٹیوشن رکھتے ہیں، اگر ایک ٹیوشن عربی سیکھنے کی بھی رکھ لی جائے تو بچہ بہت آسانی سے چند سالوں میں بنیادی عربی سیکھ لے گا۔

اللہ تعالی کوشش کو دیکھتا ہے۔ آپ ارادہ تو کیجیے راستے بہت نکل آئیں گے۔ لیکن ان مشکلات کی وجہ سے دوسروں کی حوصلہ شکنی کرنا، اس کو غیر اہم سمجھنا، تنقید کرنا، یہ درست نہیں۔ ہر حال میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی ہے۔

نماز کی اہمیت ہر کوئی سمجھتا ہے ، کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن جس طرح رسول صلی ٱللَّه علیہ وسلم پڑھتے تھے ( خشوع و خضوع ) کے ساتھ، ویسے پڑھنا نا ممکن ہے، پھر بھی ہر کوئی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس کی نماز میں زیادہ سے زیادہ خشوع و خضوع ہو۔ اور اس کے بعد وہ ٱللَّه سے دعا کرتا ہے کہ اے ٱللَّه میری ٹوٹی پھوٹی عبادت کو قبول فرما۔ میری اس حقیر سی کوشش کو قبول فرما۔ کم از کم پہلے ہم قرآن کو سمجھنے کی اہمیت کو تو مانیں۔ ( حوصلہ شرط ہے )۔ اس کے بعد کے مراحل بھی ٱللَّه کی توفیق سے طے ہو جائیں گے۔
ناحق اتنا لمبا مراسلہ لکھنے کی زحمت اٹھائی!!!
 

امن وسیم

محفلین
ہم نے شرح نہیں مطلب پوچھا ہے!!!
حروف مقطعات کے مصداق و معانی

ا ل م

عربی حرف ۔۔۔۔۔ ا
قدیم عبرانی حرف ۔۔۔۔۔ الف
شکل اور مصداق کا بیان ۔۔۔ بیل
معانی ۔۔۔۔۔ طاقت، طاقت ور، قوی

عربی حرف ۔۔۔۔۔ ل
قدیم عبرانی حرف ۔۔۔۔۔ لامد
شکل اور مصداق کا بیان ۔۔۔۔ چرواہے کی لاٹھی
معانی ۔۔۔۔۔ چرواہا، سکھانا، ہدایت دینا

عربی حرف ۔۔۔۔۔ م
قدیم عبرانی حرف ۔۔۔۔۔ میم
شکل اور مصداق کا بیان ۔۔۔۔ پانی کی لہریں
معانی ۔۔۔۔۔ اللہ کا نازل کردہ پانی۔ یعنی قرآن

بیان

الف: الف عبرانی میں بیل (Ox)کو کہتے ہیں۔ قدیم عبرانی حرف لکھا بھی بیل کے سر کی طرح جاتا تھا۔ بیل چونکہ عظیم طاقت و ہیبت کی علامت ہوتا ہے، اس لیے اس سے طاقت مراد لینا بالکل واضح ہے ۔ ۱۱؂ یہاں یہ طاقت ور کے مفہوم میں آیا ہے۔
لام: ’’ل‘‘ کا پورا نام عبرانی میں ’’لامد‘‘ ہے، جس کے معنی چرواہے کی لاٹھی (Shephard’s Staff/Ox goad) کے ہیں۔ لغات کے استقصا سے پتا چلتا ہے کہ یہ عربی کے ’’ل‘‘ کی طرح ہمیشہ اپنی ساخت سے چرواہے کی لاٹھی کی ہی طرح لکھا بھی جاتا رہا ہے۔ چنانچہ اس سے یہاں مراد چرواہا ہے۔ زمانۂ قدیم کی دیہاتی زندگی سے واقف لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ چرواہے کی ذات مراد لینے کے لیے یہ کس قدر مناسب اور بین اشارہ ہے۔
الف لام: حروف مقطعات میں الف اور لام جہاں کہیں بھی آئے ہیں، اکٹھے ہی آئے ہیں۔ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے۔ مگر میری راے میں یہ اتفاق نہیں۔ میرے نزدیک الف لام کا ہر جگہ اکٹھا استعمال اس لیے کیا گیا ہے، کیونکہ یہ مل کر ایک ہی شخصیت کی طرف اشارے کے لیے آئے ہیں۔ طاقت ور چرواہے سے دراصل مراد اللہ ہے۔ بائیبل سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اس میں چرواہے کی تعبیر جا بجا اللہ کے لیے استعمال ہوئی ہے۔۱۲؂ بلکہ ’’ال‘‘ بائیبل میں اور یہودیوں کے ہاں آج تک اللہ کی طرف اشارے کے لیے مختلف ناموں میں مضاف الیہ کی حیثیت سے لاحقے (suffix) کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جیسے اسرائیل، جبرائیل، سموئل وغیرہ۔ عبرانی میں یہ نام دراصل اسرَاِل، جبرَاِل، سمواِل ہیں، یعنی ان کا اختتام ’’ئیل‘‘ پر نہیں ’’اِل‘‘ پر ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’ال‘‘ حروف مقطعات میں جہاں کہیں بھی آئے ہیں، طاقت ور چرواہا، یعنی اللہ مراد لینے کے لیے ہی آئے ہیں۔
میم: ’’م‘‘ کا پورا نام عبرانی میں بھی میم ہی ہے اور اس کا مطلب پانی ہے اور یہی اس کا مادی مصداق بھی ہے۔ حروف مقطعات میں سے سب سے زیادہ مرکب اسی حرف پر اختتام پذیر ہوئے ہیں۔ لغات میں درج اس کی مختلف رسم الخط میں ساخت ہمیشہ پانی کی لہر جیسی ہی رہی ہے۔ بلکہ اگر غور کریں تو آج بھی عربی میں ’’م‘‘ کسی قدر لہر کے مشابہ ہے۔ چنانچہ اس سے مراد پانی کی ایک لہر بھی ہو سکتا ہے اور تھوڑا یا زیادہ پانی بھی۔ چنانچہ یہ یہاں پانی ہی کے لیے آیا ہے، پاک کرنے والی چیز کے لیے استعارے کے طور پر۔ پاکیزہ کرنے والی چیز کے طور سے ابراہیمی ادیان میں پانی کی حیثیت مسلم ہے۔
الف لام میم: ان سب حروف کا ملا کر تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان سے مراد اللہ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام ہے جو لوگوں کی ہدایت و پاکیزگی کے لیے اتارا جا رہا ہے۔ چنانچہ یہ قرآن کا صفاتی نام ہوا۔ اس پر قرائن کی شہادت بھی دال ہے۔ جن سورتوں کے شروع میں یہ وارد ہوئے ہیں، ان میں سے متعدد میں متصلاً بعد ’’یہ کتاب‘‘ ۱۳؂ کہہ کر اور ساتھ ہی ’’ہدایت‘‘ ۱۴؂ کا باعث بتا کر اس کی طرف جلی اشارہ بھی کر دیا گیا ہے۔کہیں ’’م‘‘ سے پوری کتاب مراد لے لی گئی ہے،۱۵؂ اور کہیں ’’م‘‘ سے آیات مراد لے لی گئی ہے
 
Top