اقتباسات قدرت اللہ شہاب کی کتاب " ماں جی " سے اقتباس

سید زبیر

محفلین
قدرت اللہ شہاب کی کتاب " ماں جی " سے اقتباس
" اڑتے اڑتے یہ خبر سر سید کے کانوں میں پڑ گئی جو اس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے انہوں نے اپنا خاص منشی گاؤں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلالیا یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب رنگ نکالا اور بی اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی 'عربی'فلسفہ اور حساب کے لیکچرر مقرر ہوگئے ۔ سر سید کو اس بات کی دھن تھی کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں میں جائیں چنانچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ انگلستان جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں ۔پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کرکے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے ۔عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کردیا عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور انہوں نے وظیفہ واپس کردیا ۔ اس حرکت پر سر سید کو بے حد غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا انہوں نے لاکھ سمجھایا بجھایا ،ڈرایا دھمکایا لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے " کیا تم بوڑھی ماں کو اپنی قوم پر ترجیح دیتے ہو ؟" سر سید نے کڑک کر پوچھا ۔ ' جی ہاں ' عبداللہ صاحب نے جواب دیا ۔ یہ ٹکا سا جواب سن کر سر سید آپے سے باہر ہوگئے کمرے کا دروازہ بند کر کے پہلے انہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں 'مکوں ' تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا ، پھر کالج کی نوکری سے یہ کہہ کر برخواست کردیا ' اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے میں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں ' ۔ عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے ۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتاد اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چنانچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔​
جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہورہی تھی انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاؤں آئے ہوئے تھے قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا ان کی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جائیں "​
 

فرحت کیانی

لائبریرین
"عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے ۔ نقشے پر انہیں سب سے دور افتاد اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا چنانچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کی گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے ۔"​
زبردست :)
جزاک اللہ زبیر انکل۔ آپ کی پوسٹس کا انتظار رہتا ہے۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
ماں کی دعا جنت کی ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ماں کی بات بے چون و چرا ماننے والا کہاں کس مقام پر پہنچا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہترین شراکت
 

سید زبیر

محفلین
"کراچی" : قدرت اللہ شہاب کی کتاب 'ماں جی " سے ایک اقتباس :
" یہ مضمون ایک برٹش فوجی افسر کی ڈائری کے چند اقتباسات کا ترجمہ ہے ۔یہ افسر ۱۸۳۹ میں کراچی آیا تھا اور ۱۸۵۱ میں اس کی ڈائری لندن کے اشاعتی ادارے جیمس میڈن نے شائع کی مصنف نے اپنا نام صیغٔہ راز میں رکھا تھا​
ا۳ فروری کی صبح جنگی جہاز 'ویلزلی' اور باربرداری کے جہاز 'حنا' نے قلعہ منوڑا کے مقابل لنگر ڈال دیے ۔ہمارے کمانڈر نے قلعہ کے حاکم کو للکارا کہ فوراً ہتھیار ڈال دو ۔​
'میں بلوچی بچہ ہوں ' قلعہ ے حاکم نے جواب دیا ' ہم قلعہ خالی کرنے سے پہلے مر جانے کو ترجیح دیں گے '​
چلو اچھا ہوا موت کے آرزومندوں کو موت ضرور ملنی چاہئیے۔یوں بھی ان مغرور بلوچوں کو تمیز اور تہذیب سکھانا ہمارا فرض ہے ۔یہی تو وہ فرض ہے جس کو ادا کرنے کے لیے ہم نے وطن عزیز چھوڑا اور اب ان کالے پانیوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ہمارے فوجی دستے جہاز سے اترے اور منوڑا کی چٹان کی طرف بڑھے ۔چٹان کے دامن میں کچھ دیر سستا کر ہم نے اپنی رائفلیں بھر لیں اور ان پر تیز دھار خون کی پیاسی کرپنوں کو چڑھا لیا ۔منوڑا کی چٹان پر موت کا سایہ واضح طور پر منڈلا رہا تھا لیکن موت کے فرشتے کس کا انتظار کر رہے تھے ؟ ہماری رجمنٹ کے دل کچھ بیٹھ سے دئے لیکن کمانڈر نے کڑک کر للکارا ' برطانیہ عظیم کے بہادر سپوتو ! تاج اور ملک کے نام پر ۔۔۔'​
تاج اور ملک کے نام پر ہم نے بے دریغ حملہ کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے منوڑا کا قلعہ سرد ہوگیا قلعہ میں ایک ضعیف العمر سردار تھا ایک جوان عورت تھی اور ایک ننھا سا بچہ تھا لا حول ولا قوۃ ۔ گورنر جنرل نے کلکتہ سے ایک پیغام میں ہماری بہادری کو سراہا اور ہمارے کمانڈر کی عالی ہمتی ' ہوشمندی کی بہت تعریف کی ۔۔۔۔۔۔۔۔"​
 

سید زبیر

محفلین
گذشتہ سے پیوستہ
"۔۔۔آج ' مگر پیر ' کا میلہ ہے یہ جگہ کراچی سے کوئی نو میل کے فاصلے پر ہے یہ میلہ' حاجی مگر' کی یاد میں منایا جاتا ہے کسی وقت حاجی مگر اور اس کے تین بھائی یہاں آکر رہے تھے آتے ہی انہوں نے کرامات کے انبار لگا دیے ایک بھائی نے ایک انگلی سے گرم پانی کا چشمہ کھود ڈالا ۔اس پانی کا درجہ حرارت ۹۰ درجے ہوتا ہے دوسرے بھائی نے غالباً دوسری انگلی سے ایک اور چشمہ نکالا جس کا پانی ۱۲۰ درجے گرم ہے ۔ تیسرے بھائی نے چند پھولوں کو مگر مچھ میں تبدیل کر دیا چوتھے بھائی نے اپنی مسواک کو زمین میں گاڑھ کر کھجور کا درخت پیدا کردیا ۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب سب سے بڑا بھائی مر گیا تو تو اس کے مزار پر 'حاجی پیر کا ' مقبرہ تعمیر ہوا ایک چھوٹے سے تالاب میں اسی نوے کے قریب مگر مچھ ہر وقت موجود رہتے اگرچہ یہ مگر مچھ پھولوں کی اولاد ہیں لیکن ان کے جسم بے حد غلیظ اور بد بو دار ہیں سب سے بڑے مگر مچھ کا نام مور صاحب ہے درگاہ کا متولی ایک ننگ دھڑنگ لمبا سا فقیر ہے ' آؤ آؤ ' کا نعرہ لگا کر مگر مچھوں کو اکٹھا کرتا ہے اور عقیدت مند بکری اور دنبے ذبح کر کے چڑھاوا چڑھاتے ہیں کچھ گوشت اور چھیچھڑے مگر مچھ کھا لیتے ہیں اچھا اچھا مال فقیر لے جاتا ہے​
'واہ واہ سبحان اللہ ' مگر مچھوں کو گوشت کھاتا دیکھ کر عقیدت مند تحسین و آفرین کے نعرے لگاتے ہیں ۔ ' مبارک باد مبارک باد ' فقیر گوشت سنبھال کر جواب دیتا ہے 'تمہاری نذر قبول ہوئی اب دنیا اور آخرت میں تم سرخرو رہوگے '​
میلے میں کراچی سے ناچنے والی لڑکیوں کا ایک گروہ بھی آیا ہوا ہے ان کی آنکھیں کالی اور بال لمبے ہیں ۔عقیدت مندوں کے دل روحانیت میں رچے ہوئے ہیں لیکن ان کے جسم ان لڑکیوں کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں '​
' مگر تالاب ' کا کیچڑ تبرک کے طور پر فروخت بھی ہوتا ہے جوان عورتیں ایک طرف بیٹھ کر اس کیچڑ کو اپنے بدن پر برکت کے طور پر ملتی ہیں اس عمل میں زائرین کو چند خوبصورت اجسام کی زیارت بھی نصیب ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔"
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! بہت خوب انتخاب ہے۔ شکریہ سید زبیر صاحب۔ لیکن اگر یہ افسانہ آپ خود ٹائپ کر رہے ہیں تو اسے ٹائپ نہ کیجیے۔ یہ مکمل افسانہ "اردو کے شاہکار افسانوں" کی ای بک میں پہلے سے موجود ہے۔ آپ یہ ای بک اعجاز صاحب کی برقی کتب کی لائبریری سے ڈاؤنلوڈ کر سکتے ہیں۔
 
Top