ربیع م

محفلین
آلوؤں کا قحط
یورپی ممالک کوازمنہ وسطیٰ میں بہت سی سخت قحط سالیوں سے گزرنا پڑا، لیکن ان میں سب سے زیادہ سخت قحط سالی وہ تھی جو آئرلینڈ پر نازل ہوئی جو کہ" آئر لینڈ کی بڑی قحط سالی"( Great Famine (Ireland)) یا" آلوؤں کے قحط " (Irish Potato Famine)کے نام سے مشہور ہے ، یہ قحط 1845 سے 1852 کے درمیانی سالوں میں آیا ، جس کی وجہ اس بنیادی پیداوار کی خرابی تھی جس پر آئرش قوم کی معیشت کی اکثریت کا انحصار تھا ، یعنی آلوؤں کی پیداوار۔


اس کی بنیادی جڑیں برطانوی پابندیوں کی جانب لوٹتی ہیں جس نے آئرلینڈ پر 1801 میں قبضہ کر لیا تھا ،اور آئر لینڈ کے باشندوں کے خلاف نسلی اور دینی امتیاز کی پالیسی جاری رکھی ، انگریز وں نے آئرش کاشت کاروں کی اراضی پر قبضہ کر لیا ، اور ان سے مطالبہ کیا کہ ان پر کاشتکاری کے نتیجے میں بھاری کرایہ ادا کیا جائے ، یا ان کے قبضہ میں رہ کر دینی ظلم و پابندی تلے کام کیا جائے ، جس کو پروٹسنٹ اقلیت نے آئر لینڈ کی کیتھولک اکثریت پر سترہویں اور اٹھارویں صدی میں مسلط کیا تھا ، جہاں کیتھولک آئرش باشندوں پر زمینوں کی ملکیت ، تعلیم ، حق انتخاب اور اس وقت کی آئرش پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی تھی ۔

اس صورتحال نے آئرش قوم کی اکثریت کو فقیرانہ صورتحال میں مبتلا کر دیا ، جنہیں مجبور کیا گیا تھا کہ گندم ، مکئی ، جو ، کی پیداوار کا زیادہ تر حصہ برطانیہ کو ادا کریں اور بادشاہوں کے کھیتوں میں مزدوروں کی طرح کام کریں ، اور صرف آلو کی پیداوار چھوڑ دی جاتی جسے آئرش قوم اس رسوا کن فقیری میں اپنی غذا کا بنیادی جزو سمجھتی تھی ۔

1845 میں آلو کی پیداوار کو آفت (Phytophthora infestans)کا سامنا کرنا پڑا اورانگلستان حکومت نے اس آفت کے تدارک کیلئے کوئی خاص توجہ نہ دی جس کے نتیجے میں اس سال آلو کی پیداوار تباہ ہو کر رہ گئی اسی طرح آنے والے سالوں میں یہ قحط سالی کا سبب بنا؛ اس طرح سےکہ آنے والے سال کا زرعی ٹیکس بھی 1845 کی پیداوار سے لیا گیا ؛جس کی وجہ سے اس ٹیکس نے سٹور شدہ آلو کی پیداوار کا اکثر حصہ ضائع کر دیااور اسے مکمل طور پر ختم کر دیا۔

برطانیہ نے عمدا آئرش پہلے قحط سالی کے سالوں میں آئرش قوم کی مدد نہ کی ، کیونکہ اس قوم کی اکثریت جو کہ فقراء پر مشتمل تھی اسے اس کے بارے میں کوئی خاص تشویش نہ تھی ، اور نہ ہی اس نے مزارعوں پر عائد زمینوں کے گراں کرایوں کو ختم کرنے کی کوشش کی ، جس کی وجہ سے بہت سے آئرش کسان اپنی زمینوں سے ہجرت کرنے اور اور اپنی اولاد کیلئے خوراک کے لقمے تلاش کرنے کیلئے مارا مارا پھرنے پر مجبورہو گئے ۔

موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی حالات مزید بدتر ہو گئے ، کسانوں کیلئے متبادل غذا کی عدم موجودگی کی وجہ سے بہت سے بچے اور عمر رسیدہ افراد موت کے منہ میں چلے گئے ۔

ہر سال بحران کے بڑھنے کے ساتھ اس قحط سالی نے تقریبا ایک ملین آئرش عوام کا خاتمہ کر دیا ،اور لگ بھگ ایک ملین افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے ، جسے تھوڑا سابھی مال میسر آتا وہ ہجرت کرنے اور باہر جانے کی راہ پکڑتا ، جس کی وجہ سے تارکین وطن کے بہت سے قافلے ڈوب کر موت سے ہمکنا ر ہوئے ، اس قحط سالی کے نتیجے میں آئرلینڈ کی ڈیموگرافی میں بڑی تبدیلی آئی ، یہاں تک کہ 1850 کے آغاز میں نیویارک میں 26 فیصد باشندے آئرش تھے اور ان کی تعداد ڈبلن آئرلینڈ کے دارلحکومت میں موجود آبادی سے زیادہ تھی۔

بہت سے آئرش مؤرخین نے اپنی کتابوں میں برطانیہ کا غذا ئی کمی پیدا کرکے آئرش عوام کی نسل کشی میں کردار ذکر کیا ہے ، جس کے نتیجے میں بالآخر آئرش عوام کا خاتمہ کیا جاسکے ۔

بلکہ انگلستان نے قحط کو غفلت اور آئرش عوام کے ساتھ براسلوک کرنے کا ذریعہ اور سبب بنا لیا ، اس دعویٰ کے ساتھ کہ انھوں نے کیتھولک مذہب پر جمے رہنے کی وجہ سے خود اپنے لئے فقیری کی راہ ہموار کی ہے ۔

آئرش عوام نے اپنے وقت کی مالدار ترین ایمپائر حکومت برطانیہ کو قابل ملامت ٹھہرایا ، اس دور میں ان میں کے ہاں یہ ضرب المثل مشہور تھی :" اللہ نے زرعی آفت اتاری اور انگریزوں نے قحط سالی پیدا کی "

انگلستان کا اپنی رعایا آئرش قوم کو بے یارومددگار چھوڑنے کے دوران اس وقت مملکت عثمانیہ ( جو کہ اپنی کمزوری کی انتہاء پرانی شان وشوکت کے خاتمے اور عملی طور پر موت کے قریب تھی )نے آئرش قوم کے فقراء کی مدد کیلئے مداخلت کی ۔ مملکت عثمانیہ تک کسانوں کی بھوک کی وجہ سے بلبلانے ، راستوں میں بچوں اور عورتوں کی ہلاکت اور اس قحط سے ان کو نجات دلانے کیلئے کسی بھی عملی اقدام کی غیر موجودگی کی خبریں پہنچیں ۔

عثمانی سلطان عبدالمجید اول نے آئرش کسانوں کیلئے دس ہزار پاؤنڈ اسٹرلنگ مدد بھیجنے کا حکم دیا، مملکت عثمانیہ کی آئرلینڈ کیلئے یہ مدد اس کی ہمسایہ ایمپائر گریٹر برطانیہ کی مدد سے پانچ گنا زیادہ تھی ۔

جب ملکہ برطانیہ ملکہ وکٹوریا کو علم ہوا کہ مملکت عثمانیہ اتنی بڑی مقدار میں رقم عطیہ کرنا چاہتی ہے تو اس نے امدادی رقم کو کم کر کے ایک ہزار پاؤنڈ کرنے کا حکم دیا کیونکہ اس نے خود صرف 2 ہزار پاؤنڈ عطیہ کیا تھا !

لیکن عثمانی سلطان نے پاؤنڈ اور اس کے ہمراہ غذائی مواد سے بھرے 3 جہاز آئرلینڈ کیلئے بھیجے ، برطانیہ نے ان جہازوں کو بیلفاسٹ اور ڈبلن کی بندرگاہوں سے داخل ہونے سے روک دیا ، مگر بالآخر یہ غذائی مواد" ڈراہیڈا"کی بندرگا ہ سے عثمانی جہازوں کے ذریعے پہنچ گیا ، اور جہاں انھیں دوسری آنے والی امداد کے ساتھ آئرش عوام پر تقسیم کیا گیا۔

آئرلینڈ کے معززین اور قائدین نے اس قحط کے خاتمہ کے بعد مملکت عثمانیہ کے اس موقف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنے دستخطوں کے ساتھ شکریہ کا ایک خط بھیجا جس میں انھوں نے سلطان عبدالمجید اور مملکت عثمانیہ کا اس کی نیکی پر شکریہ ادا کیا تھا ، جس کا خیال ان کی حاکم مملکت بھی نہیں رکھ سکی ۔

یہ خط آج بھی ترکی میں عثمانی دستاویزات کے ریکارڈ میں محفوظ ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
قحط بنگال
’بنگال کے قحط کا ذمہ دار برطانیہ تھا‘

دنیار پٹیل تاریخ دان

  • 11 جون 2016
اس سال بھی انڈیا میں موسم گرما میں لوگوں کو شدید مشکات کا سامنا ہے اور کم از کم 33 کروڑ لوگ تپش اور خشک سالی کی وجہ سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔
تاہم یہ موسم گرما تاریخی اعتبار سے بھی ہے اہم ہے کیونکہ اس سال اوڑیسہ میں آنے والے اس قیامت خیز قحط کی 150ویں برسی بھی ہے جس میں مشرقی ہندوستان میں دس لاکھ سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ اس قحط کو ’بنگال کا قحط‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ اس وقت اوڑیسہ بنگال کا حصہ تھا۔
آج برطانوی راج کے دوران سنہ 1866 میں آنے والے اس قحط کے بارے بہت کم لوگ جانتے ہیں اور اس سال بھی شاید اس عظیم سانحے کی یاد میں زیادہ تقریبات منعقد نہ کی جائیں۔

اگرچہ ہندوستان میں خشک سالی اور قحط کوئی نئی بات نہیں تھی، لیکن یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ برطانوی نوآبادیاتی دور میں نہ صرف قحط میں اضافہ ہوا بلکہ اموات کی تعداد بھی بہت زیادہ ہو گئی تھی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہندوستان کی قدیم اور پھلتی پھولتی کپڑا سازی کی صنعتوں کو تباہ کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہزاروں لوگوں کو اپنا پیٹ پالنے کے لیے زراعت اختیار کرنا پڑی اور یوں ہندوستان کی معیشت کا بڑا انحصار مون سون کی بارشوں پر ہو گیا۔
150 برس پہلے کی طرح آج بھی مون سون میں کم بارشوں کو خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سنہ 1865 میں اس وقت کلکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ’انگلش مین‘ نے خبردار کر دیا تھا کہ ’ اب یہ بات چھپانا آسان نہیں رہے گا کہ ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں اناج کی کمی ہونے جا رہی ہے۔‘

لیکن ہندوستانی اخبارات میں شائع ہونے والی اس قسم کے خبروں کے باوجود نوآبادیاتی انتظامیہ نے قحط کے سد باب کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ کہا یہ جاتا تھا کہ اس معاملے میں حکومتی دخل اندازی کا کوئی فائدہ نہیں اور اجناس کی منڈیاں اس مسئلے کا حل تلاش کر لے گی اور معیشت خود کو سنبھال لے گی۔ اس وقت مشہور ماہر معاشیات میلتھس کے اس نظریے کو تسلیم کیا جاتا تھا کہ بڑے پیمانے پر انسانی اموت دراصل قدرت کا نظام ہے جس کے تحت جب بھی آبادی بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو لوگوں کی اجتماعی اموات واقع ہوتی ہیں۔

اڑیسہ کے قحط سے دو عشرے پہلے جب آئرلینڈ میں قحط آیا تھا تو تب بھی میلتھس کے نظرے پر عمل کیا گیا تھا جس کے تباہ کن اثرات سامنے آئے تھے۔ تب بھی برطانوی حکومت نے قحط سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے تھے اور اسی منطق پر عمل کیا تھا کہ قحط سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ کوئی امدادی کارروائی نہ کی جائے۔
فروری سنہ 1866 میں اوڑیسہ کے ہنگامی دورے کے دوران بنگال کے برطانوی گورنر سیسل بیڈن کا موقف بھی یہی تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ ’ قدرت کے ان کاموں کو روکنے اور ان کا مداوا کرنے کے لیے کوئی بھی حکومت کچھ بھی نہیں کر سکتی۔‘

مئی 1866 میں برطانوی حکام کے لیے بنگال میں تیزی سے آتے ہوئے خوراک کے بحران اور تباہی کو نظر انداز کرنا مشکل ہوگیا۔ کلکتہ میں مقیم انتظامیہ کو نظر آنا شروع ہو گیا تھا کہ کپمنی کے فوجی اور پولیس اہلکار بھوک سے مر رہے ہیں اور پُوری میں فوجی اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو جلانے اور دفن کرنے کے لیے مورچے اور گڑھے کھود رہے ہیں۔ ایک مبصر نے لکھا کہ اس وقت ’آپ کے ارد گرد کئی میل کے فاصلے تک لوگ کی ایک ہی پکار تھی کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔‘
لیکن کولکتہ اور لندن میں برطانوی انتظامیہ کو ہوش اس وقت آیا جب دونوں شہروں میں آئے دن یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ ہندوستان کے دیہاتوں میں ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ اس وقت مسٹر بیڈن نے اوڑیسہ میں چاول بھیجنے کا اعلان کیا لیکن نہ صرف انھوں نے یہ فیصلہ بہت دیر سے کیا بلکہ اس پر عمل درآمد کرنے میں بھی مجرمانہ سستی کا مظاہرہ کیا گیا۔ مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے اوڑیسہ میں خوراک پہنچانے میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور افسر شاہی کے بروقت عمل نہ کرنے کی قیمت اوڑیسہ کے رہائشیوں کو اپنی اجتماعی موت کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔
بعد کے کئی برسوں میں اس قحط میں برطانوی انتظامیہ کے کردار کے حوالے سے مغرب سے تعلیم یافتہ ہندوستانیوں نے بہت کچھ لکھا جس میں ان کا الزام رہا ہے کہ ہندوستان کو قحط اور غربت کا شکار کرنے میں نوآبادیاتی انتظامیہ کا ہاتھ تھا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اوڑیسہ کا قحط برطانوی راج کے اس رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

ماخذ
 

محمد وارث

لائبریرین
کبھی اس بارے میں بھی کچھ شئیر کیجئے گا محترم!
اس پر خود لکھنے کا تو شاید میں وقت نہ نکال پاؤں، افسوس کہ اردو میں زیادہ مواد نہیں ہے۔ ویسے گوگل کرنے سے کافی مواد مل جاتا ہے۔ کچھ سال قبل ایک انڈین مصنف کی ایسٹ انڈیا کمپنی پر ایک کتاب میرے زیر مطالعہ تھی، اس میں اس کے مالی معاملات بھی زیر بحث تھے۔
 
Top