قانون شکن قوم کے جگاڑ؛ مختصر مختصر

زیرک

محفلین
قانون شکن قوم کے جگاڑ
پاکستان میں قانون ساز اور حکومتی ادارے ہی سب سے بڑے قانون شکن ہوتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی میں عوام بھی ویسی کی ویسی بے حس ہوتی جا رہی ہے، کچھ عرصہ قبل ایک قانون بنا تھا کہ اگر موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہو گا تو اسے پٹرول پمپ سے پٹرول نہیں ملے گا۔ اب ہر ایک موٹر سائیکل سوار جس کے پاس ہیلمٹ نہیں ہوتا تھا پٹرول نہیں ڈلوا سکتا تھا، جب سیلز میں فرق آیا تو پمپ مالکان نے اس کا جگاڑ یوں نکالا کہ اپنے پاس ایک ہیلمٹ رکھ لیا تاکہ جس کے پاس نہ ہو اسے پہنا کر پٹرول بیچ سکیں، قانون کی ایسی کی تیسی آپ نے کسی اور معاشرے میں نہیں دیکھی ہو گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
قانون شکن قوم کے جگاڑ
پاکستان میں قانون ساز اور حکومتی ادارے ہی سب سے بڑے قانون شکن ہوتے ہیں، ان کی دیکھا دیکھی میں عوام بھی ویسی کی ویسی بے حس ہوتی جا رہی ہے، کچھ عرصہ قبل ایک قانون بنا تھا کہ اگر موٹر سائیکل سوار نے ہیلمٹ نہیں پہنا ہو گا تو اسے پٹرول پمپ سے پٹرول نہیں ملے گا۔ اب ہر ایک موٹر سائیکل سوار جس کے پاس ہیلمٹ نہیں ہوتا تھا پٹرول نہیں ڈلوا سکتا تھا، جب سیلز میں فرق آیا تو پمپ مالکان نے اس کا جگاڑ یوں نکالا کہ اپنے پاس ایک ہیلمٹ رکھ لیا تاکہ جس کے پاس نہ ہو اسے پہنا کر پٹرول بیچ سکیں، قانون کی ایسی کی تیسی آپ نے کسی اور معاشرے میں نہیں دیکھی ہو گی۔
جو قوم معمولی سے معمولی قانون پر عمل کرنا اپنی انا کی توہین سمجھتی ہے اسے سویلین بالادستی کے خواب ترک کر دینے چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مسائل تو سب کو معلوم ہیں اصل ضرورت مسائل کے حل کی ہے۔
مسائل کا حل بھی موجود ہے لیکن قوانین پر عمل در آمد نہ ہونے کے سبب مسائل ختم نہیں ہو رہے ۔
جیسے حکومت غلط جگہ پارکنگ پر چالان کرتی ہے تو چالان والا کہتا ہے اس سے آدھی سے بھی کم قیمت مجھے دے دو تو میں چالان نہیں کاٹوں گا۔ یوں یہ پیسا سرکاری خزانہ کی بجائے چالان والے کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ قانون توڑنے والے کی کوئی اصلاح نہیں ہوتی کیونکہ اس کو معلوم ہے وہ آئندہ رشوت دے کر بچ نکلے گا۔ جبکہ سرکاری خزانہ خالی کا خالی رہتا ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ جزا و سزا کا نظام ہر لیول پر نافذ کیا جائے۔ چالان کرنے والے کو کہا جائے کہ تم جتنے زیادہ چالان کرو گے تم کو اسی حساب سے بونس ملے گا جس حساب سے تم رشوت لیتے ہو۔ یوں وہ بونس کے لالچ میں رشوت کی بجائے چالان کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ دوسری طرف چالان بڑھنے پر قانون توڑنے والے گھبرا جائیں گے اور کوشش کریں گے کہ آئندہ سے پارکنگ قوانین کی پابندی کریں۔
پوری مغربی دنیا انہی اسلامی اصولوں پر چلتے ہوئے ترقی یافتہ ہوئی ہے۔ یہی کام پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتا؟
 

الف نظامی

لائبریرین
مسائل کا حل بھی موجود ہے لیکن قوانین پر عمل در آمد نہ ہونے کے سبب مسائل ختم نہیں ہو رہے ۔
جیسے حکومت غلط جگہ پارکنگ پر چالان کرتی ہے تو چالان والا کہتا ہے اس سے آدھی سے بھی کم قیمت مجھے دے دو تو میں چالان نہیں کاٹوں گا۔ یوں یہ پیسا سرکاری خزانہ کی بجائے چالان والے کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ قانون توڑنے والے کی کوئی اصلاح نہیں ہوتی کیونکہ اس کو معلوم ہے وہ آئندہ رشوت دے کر بچ نکلے گا۔ جبکہ سرکاری خزانہ خالی کا خالی رہتا ہے۔
جی نہیں ، ایسا نہیں ہے۔ آپ پرانے پاکستان کی معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
 

زیرک

محفلین
جو قوم معمولی سے معمولی قانون پر عمل کرنا اپنی انا کی توہین سمجھتی ہے اسے سویلین بالادستی کے خواب ترک کر دینے چاہیے۔
جو بات بیرون السطور تھی وہ یہ تھی کہ ادارے جن کا کام قانون پر پابندی کروانا ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
جو بات بیرون السطور تھی وہ یہ تھی کہ ادارے جن کا کام قانون پر پابندی کروانا ہے وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
اُس بھی زیادہ اُفسوس کی بات ہے ۔ہم ایگ قوم کی حیثیت کھو رہے ہیں ۔اور اُسکے نسبت ایک بے ہنگم ہجوم بن گئے ہیں۔
صبح ہو یا شام ہروقت اسی کیفیت میں ہوتےہیں۔ہر آدمی چاہتا ہے وہ اپنا کام نکال کر چلتا بنے۔سڑک ہو،ہسپتال ہو،بازار ہو ایک بے ہنگم اور بدتمیز ہجوم نظر آتا ہے۔
 
Top