قاضی نذر الاسلام (1898-1976)

الف نظامی

لائبریرین
قاضی نذرالاسلام بنگلہ دیش کے قومی شاعر ہیں۔عموماً وہ باغی اور انقلابی شاعر کے طور پر مشہور ہیں۔اس کے علاوہ وہ ایک عظیم موسیقاراورفلسفی بھی ہیں۔بنگلہ دیش میں ان کی وہی حیثیت ہے جو پاکستان میں علامہ اقبال کی ہے۔نذرل اور اقبال کی نظموں اور تحریروں نے مسلمانانِ ہند میں ایک نئی روح پھونک دی۔وہ اپنے بھولے ہوئے ماضی کو یاد کرتے ہوئے تابناک مستقبل کا سوچنے لگے۔آزادی کی جدوجہد ، خصوصاً مسلمانوں کی بیداری کے سلسلے میں نذر الاسلام کے نغموں نے جو کام کیا، وہ یاد گار ہے۔ اس لحاظ سے وہ اقبال سے بہت قریب ہیں اور قومی رہنماؤں کی صف میں نظر آتے ہیں ۔​
نذرل کی شاعری اتنی وسیع و کثیر ہے اور بیک وقت اتنے روپ رکھتی ہے کہ نہ اسے لفظوں میں سراہا جا سکتا ہے نہ انہیں کسی ایک نام یا لقب سے یاد کرنا کافی ہے۔ وہ 1898میں قاضیوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔خوش الحان تھے اور سیر و سیاحت کے شوقین۔لہٰذا اوائل عمر میں گانے والوں کی ایک ٹولی میں شامل ہو کر گاؤں گاؤں گھومے۔والد سے فارسی کا سبق پڑھا اور سکول سے سنسکرت پڑھی۔میٹرک میں تھے کہ اپنی لااُبالی طبیعت اور مالی پریشانی کی وجہ سے تعلیم چھوڑ کر نانبائی کی دکان پر نوکری کر لی اور اس کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے۔شاعری کا مشغلہ اور موسیقی کی مشق جاری رکھی اور ان کی نظمیں کلکتے میں چھپنے لگیں۔​
ان کی شہرت کا آغاز 1920میں اس وقت ہوا جب انگریزوں کے خلاف ان کی نظم شائع ہوئی۔ وہ بنگلہ کے باغی شاعر مشہور ہوئے ۔ انہوں نے ایک طرف ظلم و نارواداری کے خلاف آواز اٹھائی، تو دوسری طرف بنگلہ شاعری کے روایتی اسلوب سے بھی بغاوت کی ، اور دونوں حیثیتوں سے ان کی آواز انقلاب آفریں ثابت ہوئی۔ان کے جوشِ حریت میں ڈوبے ہوئے عوام کے دلوں تک پہنچنے والے نغمے ، ملک کی ایک کثیر آبادی کے لئے سامانِ بیداری بنے ۔​
نذرل کا مشغلہ بیشتر شاعری اور موسیقی رہا اور یہی ان کا ذریعہٴ معاش بھی تھا۔انہوں نے نظم و نثر کی 30 کتابیں لکھیں جن میں سے چھ ضبط ہو گئیں۔انہوں نے گراموفون کمپنیوں کے تین ہزار کے قریب ریکارڈ بھروائے۔انہوں نے ہر گیت اور نظم کی طرز خود باندھی تھی۔​
نذرالاسلام 29اگست 1976کو ڈھاکہ کے مقام پر فوت ہوئے۔”نذرل انسٹیٹیوٹ“ ڈھاکہ نے ان کے کام،کلام اور مقام کو ملکی و عالمی سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔1999میں”بنگلہ اکیڈمی“ نے نذرل کے تمام قسم کے کام کو اکٹھا کر کے ایک ہی کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔​
شعری تصانیف:
  • اگنی بینا ( جلتا ہوا ستار)
  • دولن چایا ( زرد پھول )
  • بشر نبی (زہریلی بانسری )
  • بھنگر گن ( تباہی کا گیت )
  • پرانے شیکھا (تباہی کا شعلہ )
  • چنیانات ( انڈین نغمہ )
  • پبرہاؤا (مشرقی ہوا )
  • شامیا بادی (مساوات کا حامی )
  • چٹا نامہ برسی ۔ آر ۔ داس
  • سربا ہارا ( غربا کا طبقہ )
  • پھنی ناشا ( ناگ پھنی)
  • سندھو ہنڈول ( سمندر پر )
  • تھنگے پھل ( نظمیں)
  • شات بھاکی چامپا ( سات بھائی )
  • زنبزیر ( زنجیر)
  • سن چیتا ( ملی جلی نظمیں )
  • چاکر ہ بک ( دی فلینگو)
  • نائن چاند ( نیا چاند )
  • ماروھا شکر ( صحرا میں سورج )
  • (رسول کی زندگی )
  • سانچیاں ( مجموعہ )
  • شیش سوغات ( آخری پیشکش )
  • پرایا لانکر ( انقلاب عظیم )
  • نمشکار ( سلامی پولیس نے تباہ کی )
  • نرجھار، بہار ( چھپی مگر تقسیم نہیں ہوئی )
اس کے علاوہ گیت،تراجم،کہانی،ناول،ڈرامہ،مضامین،اورفلم سکرپٹ پر مشتمل کئی کتابیں شائع ہوئیں۔​
 

الف نظامی

لائبریرین
قاضی نذر الاسلام کی لکھائی کا ایک نمونہ
5893_123807421605_3144735_n.jpg
اے ستار اے غفار کر دے بیڑا پار
دریا پہاڑ جنگل ، کرتے ہیں روز منگل
زمین و آسماں کے ذرے ذرے کا عقیدہ ہے
تو ہے پالنہار ، تو ہے کھیون ہار ۔ تو ہی ہے کرتار ، اے ستار
روزی دینا کام ہے تیرا ۔سب سے اعلی نام ہے تیرا
تو رحمن ہے، ذی شان ہے ، سلطان ہے ، اے ستار
درد دل تیرے سوا آہ سنائیں کس کو
میرا مالک مرا خالق مرا معبود ہے تو
اے ستار اے غفار
 
Top