قائد اور اتاترک

حسان خان

لائبریرین
ویسے اسی 'یہودی' کے مداح ہمارے قائدِ اعظم تھے، اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی 'یہودی' اتاترک کے نقشِ قدم پر ہی چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ :)
اِس سے کم سے کم یہ تو ثابت ہوا کہ اصلی جناح اُس باریش مورتی سے کافی مختلف ہے جس کی اب ہم پوجا کرتے ہیںِ۔
 
ویسے اسی یہودی کے مداح ہمارے قائدِ اعظم تھے، اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی یہودی اتاترک کے نقشِ قدم پر ہی چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ :)
اِس سے کم سے کم یہ تو ثابت ہوا کہ اصلی جناح اُس باریش مورتی سے کافی مختلف ہے جس کی اب ہم پوجا کرتے ہیںِ۔
انکی کسی تحریر سے نوازیں گے۔ دھیان رکھیں کہ تحریر جملہ حقوق محفوظ والی ہو۔ وکی پیڈیا کا سہارہ مت لیجیے گا۔
 
ویسے اسی 'یہودی' کے مداح ہمارے قائدِ اعظم تھے، اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی 'یہودی' اتاترک کے نقشِ قدم پر ہی چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ :)
اِس سے کم سے کم یہ تو ثابت ہوا کہ اصلی جناح اُس باریش مورتی سے کافی مختلف ہے جس کی اب ہم پوجا کرتے ہیںِ۔

ویسے اسی "یہودی" کا مداح پورا عالم تھا ، جگہ جگہ اس کے قصیدے پڑھے گئے حتیٰ کہ ہندوستان میں اس پر کتابیں لکھی گئیں۔
پورا عالم تو جمال الدین افغانی کے بھی گن گاتا رہا ہے جبکہ اب دستاویزات سے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ ایک فری میسن تھے !!!
حسان خان بھائی حقیقت بعد میں ہی کھلا کرتی ہے، پہلے ہر شے پر پردہ پڑا ہوتا ہے۔
فرض کرلیا جائے کہ قائد اعظم اس کے مداح تھے ، تب بھی یہ کمال کی مدح و توصیف کی دلیل نہیں بن سکتی ۔ میرا اور آپ کا رشتہ پہلے اسلام کا رشتہ ہے جس کے آگے سب رشتے ہیچ ہیں ، ترکوں سے محبت کرنی چاہیے اسلام کے رشتے کی وجہ سے (ورنہ تو چنگیز و ہلاکو بھی ترک نسل سے تھے) نہ کہ اسلام دشمنوں سے !!!
کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
 

حسان خان

لائبریرین
فرض کرلیا جائے کہ قائد اعظم اس کے مداح تھے ، تب بھی یہ کمال کی مدح و توصیف کی دلیل نہیں بن سکتی ۔

بے شک۔
لیکن میں قائدِ اعظم کا محب ہوں، اس لیے میرا فرض بنتا ہے کہ ان کے وہ حقیقی نظریات اور اُن کا وہ حقیقی چہرہ پیش کروں، جو نظریاتی تحریفات کی نذر ہو چکا ہے۔ اب کوئی اُن کے نظریات سے بھلے اختلاف کرے۔ یہ الگ بحث ہے۔
 
اِس سے کم سے کم یہ تو ثابت ہوا کہ اصلی جناح اُس باریش مورتی سے کافی مختلف ہے جس کی اب ہم پوجا کرتے ہیںِ۔
مجھے آپ کے الفاظ سے بھی اختلاف ہے۔ ہم کسی مورتی کی پوجا نہیں کرتے ۔
آپ کی طرح میں بھی قائد کا محب ہوں لیکن ان کے "حقیقی نظریات " نظریہ پاکستان، مسلمانان ہند کیلئے علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام اور اس کا قرآن و سنت پر مبنی قانون ہے نہ کہ کمال کی مدح و توصیف !!
 

حسان خان

لائبریرین
ان کے "حقیقی نظریات " نظریہ پاکستان، مسلمانان ہند کیلئے علیحدہ اسلامی ریاست کا قیام اور اس کا قرآن و سنت پر مبنی قانون ہے نہ کہ کمال کی مدح و توصیف !!

معذرت چاہتا ہوں پر اُن کے یہ 'حقیقی نظریات' ان کی تقاریر کے کسی بھی مستند انگریزی مجموعے میں نظر نہیں آتے۔
یہی ۱۹۴۲ میں مسلم لیگ کی جانب سے چھپا تقریروں کا مجموعہ ۳۵۳ صفحات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں بھی اُن کے 'حقیقی نظریات' کی جھلک نظر نہیں آئی۔ (البتہ کمال اتاترک کی مدح و توصیف وہ تین چار جگہ کرتے نظر آئے۔)
 
معذرت چاہتا ہوں پر اُن کے یہ 'حقیقی نظریات' ان کی تقاریر کے کسی بھی مستند انگریزی مجموعے میں نظر نہیں آتے۔
یہی ۱۹۴۲ میں مسلم لیگ کی جانب سے چھپا تقریروں کا مجموعہ ۳۵۳ صفحات پر مشتمل ہے، لیکن اس میں بھی اُن کے 'حقیقی نظریات' کی جھلک نظر نہیں آئی۔ (البتہ کمال اتاترک کی مدح و توصیف وہ تین چار جگہ کرتے نظر آئے۔)

اچھا ! یعنی اِن چھ تقریروں میں ان کے حقیقی نظریات "پوشیدہ " ہیں !!!
جبکہ وہ 1942ء سے پہلے بھی ہندوستان کی سیاست میں اہم رول ادا کر رہے تھے ۔، قائد نے ہزاروں کی تعداد میں تقاریر اور بیانات دیے ہیں، تقسیم سے پہلے بھی اور بعد بھی ، ان تمام تقاریر و بیانات میں آپ کو کہیں ان کے "حقیقی نظریات“ نہیں ملے ؟؟ یا آپ نے خود آنکھیں بند کرلیں ؟
ان چھ تقریروں کو آپ ان کے حقیقی نظریات کا آئینہ دار سمجھتے ہیں ؟؟؟
 

حسان خان

لائبریرین
ٹوپی اور برقعہ پہننے پر پابندی لگائی

جناح ان سب باتوں سے بخوبی واقف تھی، اس کے باوجود وہ اتاترک کی وفات پر ہندوستان کے مسلمانوں کو کہہ رہے ہیں کہ اپنی موجودہ پسماندہ حالت سے نکلنے کے لیے اتاترک کو اپنا مشعلِ راہ بناؤ۔

ذرا غور کیجیے، یہ اصلی جناح ہمارے قرآن و سنت کی ہمہ وقت تلقین کرنے والے باریش جناح سے کتنا مختلف ہے۔
صف حیف کہ اصلی جناح اپنے ہی ملک میں پردیسی ہے!
 
حسان خان بھائی آپ نے فقیر کی گزارشات کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھا ؟؟
اور یہ اصلی جناح اور باریش جناح کی کیا تفریق کردی آپ نے ؟؟
جناح وہی ہیں جو مسلمانان ہند کے لیڈر ہیں ۔
کل کو کوئی "اصلی اقبال“ اور "باریش اقبال“ کی بحث چھیڑ دے گا، شکر ہے کہ اقبال اپنا وژن اپنے شعروں میں مبسوط انداز میں بیان کرگئے (اور وہ باریش بھی نہ تھے غفر اللہ لہ ) ورنہ ان کے افکار کے ساتھ نجانے کیسا کھلواڑ ہونا تھا !!
 

الف نظامی

لائبریرین
فرموداتِ قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ
Q001_thumb%5B15%5D.jpg
آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس منعقدہ 15 نومبر 1942 ء میں قائد اعظم نے وہ بصیرت افروز اور چشم کشا خطاب کیا جس کی ضیا باری سے آج بھی تاریخ پاکستان روشن ہے۔ قائد اعظم نے فرمایا :-​
" مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔ مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ الحمد للہ ، قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا "​
6دسمبر 1943 کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائد اعظم نے فرمایا:-
" وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں ، وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے ، وہ کون سا لنگر ہے جس پر امت کی کشتی محفوظ کر دی گئی ہے ؟ وہ رشتہ ، وہ چٹان ، وہ لنگر اللہ کی کتاب قرانِ کریم ہے۔ مجھے امید ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے ، قرآنِ مجید کی برکت سے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا ، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امت "

قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:-
" قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں "

10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :-
" ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی"

1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ :
" میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں "
تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا :
" وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی پاکستان کا نظام چلائیں گے"

2 جنوری 1948 ء کو کراچی میں اخبارات کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے قائد اعظم نے ارشاد فرمایا :-
" اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کا مرکز اللہ تعالی کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن کے احکام و اصول ہیں۔ اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدیں مقرر کر سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت قرآنی احکام و اصولوں کی حکومت ہے "

14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضع قانون پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔"

13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:-
" ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں"

یکم جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا :-
" میں اشتیاق اور دل چسپی سے معلوم کرتا رہوں گا کہ آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن بینکاری کے ایسے طریقے کس خوبی سے وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات کے مطابق ہوں۔ مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لیے بے شمار مسائل پیدا کر دیے ہیں اکثر لوگوں کی یہ رائے ہے کہ مغرب کو اس تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے۔ یہ تباہی مغرب کی وجہ سے ہی دنیا کے سر منڈلا رہی ہے۔ مغربی نظام انسانوں کے مابین انصاف اور بین الاقوامی میدان میں آویزش اور چپقلش دور کرنے میں ناکام رہا ہے "


مغرب کے اقتصادی نظام پر تنقید کرتے ہوئے اسی خطاب میں آپ نے فرمایا:-
" اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام ہی اپنا لیا تو عوام کی خوشحالی حاصل کرنے کے لیے ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی۔ اپنی تقدیر ہمیں اپنے منفرد انداز میں بنانا پڑے گی۔ ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو۔ ایسا نطام پیش کر کے ہم بحیثیت مسلمان اپنا مشن پورا کریں گے۔ انسانیت کو حقیقی امن کا پیغام دیں گے۔ صرف ایسا امن ہی انسانیت کو جنگ سے بچا سکتا ہے۔ صرف ایسا امن ہی بنی نوع انسان کی خوشی اور خوشحالی کا امین و محافظ ہے"

25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :-
" آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی"

آخر میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کا وہ خطاب آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں جو ان کے کردار کی سچائی کی سچی اور کھری شہادت کے طور پر تاریخ کے سینے پر چمک رہا ہے۔ یہ خطاب آپ نے 30 جولائی 1948 ء کو لاہور میں اسکاوٹ ریلی سے کیا تھا۔ آپ نے فرمایا :-
" میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقار و سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا "

یہ متن کتاب بعنوان "پاکستان بنانے کا مقصد ( افکار اقبال و قائد اعظم کی روشنی میں)" از حکیم سید محمود احمد سرو سہارنپوری سے لیا گیا
 

حسان خان

لائبریرین
الف نظامی صاحب، آپ کی وہی پرانے پیش کردہ اقوال کے مقابلے میں میں مسلم لیگ کی مطبوعہ کتاب میں چھپا جناح کا اپنا قول زیاد مستند تر مانتا ہوں۔ آپ کے پیش کردہ اقوال کی فی الحال کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔

اتنا تو کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو شخص اتاترک کو اپنا مشعلِ راہ مانتا ہو، وہ یوں ہمہ وقت قرآن و سنت یا اسلامی نظام کا راگ نہیں الاپ سکتا۔
 

arifkarim

معطل
ویسے اسی 'یہودی' کے مداح ہمارے قائدِ اعظم تھے، اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھی 'یہودی' اتاترک کے نقشِ قدم پر ہی چلنے کو کہہ رہے ہیں۔ :)
اِس سے کم سے کم یہ تو ثابت ہوا کہ اصلی جناح اُس باریش مورتی سے کافی مختلف ہے جس کی اب ہم پوجا کرتے ہیںِ۔
ہاہاہاہا! اتا ترک اور یہودی؟ کیا ہوگیا ہے یار؟!
Atatürk's general view regarding theocracy was not positive. In his speeches and publications he criticized religious ideology.[19] He viewed religion as an unnecessary and avoidable institution within public life.​
Atatürk stated that a religion should be in conformity with reason, science and logic. He viewed Islam as in complete harmony with the reasoning, science and logic.[22] The problem was not religion, but how believers understood and applied religion. True religion could not be understood as long as false prophets isolated and religious knowledge is enlightened. The only way to deal with false prophets was to deal with the Turkish people's illiteracy and prejudice.[23]
 

الف نظامی

لائبریرین
الف نظامی صاحب، آپ کی وہی پرانے پیش کردہ اقوال کے مقابلے میں میں مسلم لیگ کی مطبوعہ کتاب میں چھپا جناح کا اپنا قول زیاد مستند تر مانتا ہوں۔ آپ کے پیش کردہ اقوال کی فی الحال کوئی تاریخی حیثیت نہیں۔
پرانے سے کیا مطلب؟
یہ تمام اقوال سپیجز اینڈ رائٹنگ آف مسٹر جناح میں دیکھ لیں۔
 
Top