قائداعظم کے نظریات اور اندازِ سیاست کی تفہیم از:۔خاورچودھری

خاورچودھری

محفلین
]قائداعظم کے نظریات اور اندازِ سیاست کی تفہیم از:۔خاورچودھری
آج مجھے قائداعظم محمدعلی جناح شدت سے یادآرہے ہیں۔اُن کے فرمودات،اندازِ سیاست اورنظریات کے کئی ایک گوشے دماغ کے نہاں خانوں سے نکل کرآنکھوں کے سامنے لہرا نے لگے ہیں۔اُن کی اس یادآوری کاسبب امریکی صدرباراک حسین اوباما کا تازہ بیان بنا ہے۔اپنے اس بیان میں امریکی صدر نے اپنے انتخابی نعرے کو دُہراتے ہوئے کہا ہے کہ ” اسامہ بن لادن کوآزاد نہیں چھوڑ سکتے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہ ہیں،ان کو ختم کرنا ضروری ہے۔ آصف علی زرداری دہشت گردی کوختم کرنے میں پُر عزم ہیں۔“ آپ کویاد ہوگا سابق امریکی صدر بھی ہمارے سابق آمرجنرل پرویز مشرف کے حوالے سے کچھ ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا کرتا تھا۔
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد قائدسے جو بیان منسوب کیا جاتا ہے اُس کا لب لباب یہ ہے۔”پاکستان ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست ہے۔ ہمارے لیے دین اسلام کی تعلیمات موجود ہیں۔اس لیے ہم دنیا کی کسی طاقت اورنظریے کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ اسلامی نظامِ حیات کا عملی مظاہرہ کریں گے۔ ہم کسی دھڑے بندی کا شکار نہیں ہوں گے اور اپنے ہمسایوں سے خوش سلیقگی کے ساتھ رہنا پسند کریں گے۔“ قائد کایہ فرمان ہزاروں بار دُہرایا گیا ہے اورآج بھی دُہرایا جاتا ہے لیکن بدقسمتی دیکھیے کہ ابھی تک اس فرمان کو اس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی۔دوجملوں میں اس کی تشریح یہ ہو سکتی ہے۔پاکستان اسلامی ملک ہوگا ۔یہ کسی بھی دوسرے ملک کا دست نگر نہیں بنے گا۔اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ قائد مرحوم پاکستان کوکسی بھی عالمی طاقت کے رحم وکرم پرچھوڑنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے بلکہ کسی بھی ایسے ملک کی مداخلت کے خلاف تھے۔آج کا منظرنامہ دیکھیے اور پھرامریکی صدور کے بیانات اورہمارے حکمرانوں کاحال جانیے تومعلوم ہوتا ہے کہ قائد نے جوکچھ فرمایا تھاہم اُس کے یک سر خلاف چل رہے ہیں۔وہ اُصول اور ضوابط جو قائد نے اس ملک کودینا چاہے ہم کلُی طور پراُن سے انحراف کرتے چلے جارہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کوقائد کی 12 ستمبر 1929 ءکو ہندوستان کی مرکزی قانون ساز اسمبلی میں کی گئی وہ تقریر یاد ہو گی جس میں انھوں نے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا دفاع کیا تھا ۔تب پورے ہندوستان کے تمام حریت پسند سیاستدانوں نے اس معاملے پر مصلحتاًخاموشی اور چشم پوشی اختیار کررکھی تھی اور ان میں نامی گرامی حریت پسندوں کے ساتھ گاندھی جی بھی شامل تھے۔ قائد نے برطانوی سامراج کے دُہرے معیار پرسخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھاکہ ”سیاسی قیدیوں کو دہشت گرد قرار دے کر انتہائی غیر انسانی حالات میں رکھا جا رہا ہے۔“دل پرہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کیاامریکا کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ پرقائد کی اُس تقریرکایہ جملہ بے ساختہ تبصرہ نہیں ہے۔قائد اگر غیر مسلم حریت پسندوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تھے تو کیا وہ اپنوں پر یہ مظالم ہونے دیتے؟وہ کیوں کر امریکا کی مداخت اورحملوں کو پاکستان پر برداشت کرتے؟وہ کیسے امریکی صدور کی دھمکیوں اور بدمعاشیوں کے سامنے ہتھیار پھینکتے؟ہمارے آج کے حکمرانوں کے لیے قائد کایہ اندازِ سیاست اورنظریہ مشعل راہ ہیں۔دیکھنے والوں کے لیے یہی حوالے کافی ہیں۔ لیکن یہاں تو المیہ یہ ہے کہ ہر ایک قائداعظم ثانی بننے کی خواہش رکھتا ہے اور ہر ایک خود کواس قوم کا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔
ہمارے یہاں طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سیاست دانوںنے قائد کے وضع کردہ اُصولوں پرچلنے کی بجائے قائد کی شخصیت کو متنازعہ بنانے کی کوششیں شروع کردیں مگر بالغ نظر دانش مندوں کی جدوجہد سے ان کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی رہیں۔کسی نے اپنے مقاصد کے لیے قائد کو اپناطرف داربنایا توکسی نے اپنا۔اقتدار کے حصول کے لیے ان لوگوں نے ہر وہ کام کیا جس کے قائد خلاف رہے ہیں۔ایک اورحوالہ بھی سنتے جائیے۔
کچھ عرصہ پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے راہ نما ایل کے اڈوانی نے دورہ پاکستان کے دوران بانی پاکستان محمد علی جناح کے بارے میں اُن کے مزار پر مہمانوں کی کتاب میں کچھ اس طرح لکھا تھا:
” کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ پر نہ مٹنے والی مہر لگا جاتے ہیں لیکن چند ہی ایسے ہوتے ہیں جو درحقیقت تاریخ رقم کرتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایسے ہی ایک انوکھے شخص تھے۔ اپنے شروع کے سالوں میں، سروجنی نائیڈو نے، جو کہ انڈیا کی جد و جہد آزادی میں اہم شخصیت تھیں، مسٹر جناح کو ”ہند و مسلم اتحاد کا سفیر“ قرار دیا تھا۔ گیارہ اگست انیس سو سینتالیس کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی سے ان کا خطاب ایک ایسے سیکولر ریاست کا کلاسیکی اور بھر پور تصور تھا، جس میں ہر شہری اپنے مذہب کی پیروی کرنے کے لیے آزاد ہوگا لیکن ریاست مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے درمیان تفریق نہیں کرے گی۔ اس عظیم شخص کو میرا مودبانہ خراج عقیدت۔“
اڈوانی کی اس ”حرکت“ پر انڈیا میں تو بہت شور اُٹھا یہاںتک کہ اُسے اپنے عہدوں سے بھی الگ ہونا پڑا مگرہمارے یہاں کسی نے بھی اس بیان کوپرِ کاہ جتنی بھی اہمیت نہیں دی تھی۔ چند ایک لوگوں نے اس حوالے سے تشنہ سی بات کی۔ یہاں اڈوانی سے یہ بھول ہوئی کہ اُس کے سامنے اسلامی تعلیمات نہیں تھیں ورنہ وہ قائد کی اس تقریر کوسیکولرانہ تناظر میں نہ دیکھتا۔ حق تو یہ ہے کہ اسلام تمام انسانوں کو بنیادی حقوق یک ساں فراہم کرنے کا حکم دیتا ہے۔قائد نے اسی حکم کی تعمیل کا اعلان کیا تھا۔اس کے باوجود اڈوانی کا بیان ایک لحاظ سے قابل توجہ تھا کہ اُس نے کم ازکم بانیِ پاکستان کی قائدانہ صلاحیتوں کا تو اعتراف کیا تھا۔اس حوالے سے بھی اگر ہم دیکھیں توقائدکی گفتگو کا وہ تاثر جو اڈوانی نے اپنے انداز سے لیا،ہم کہاں تک اُسے پا سکے ہیں۔کیا یوں ہوا ہے کہ قائد کے بعدآنے والوں نے اس سرزمین پر رہنے والے تمام لوگوں کو یک ساں مواقعے فراہم کرنے کے لیے ایمان داری سے جد وجہد کی ہو۔ کیا کبھی ایسا ہوا کہ اقتدار کی گردشوں میں رہنے والے سیاست دانوں کے سامنے قائدکے وہ فرمودات رہے ہوں جن سے اڈوانی نے اثر لیا؟ یقینا ایسا نہیںہوا ہے۔اگرہوتا تو ہم اس کا عملی ظہور بھی دیکھتے۔ جب تمام طبقات کے ساتھ مساویانہ سلوک ہورہا ہوتا تو نائن الیون کو ہونے والی خود کردہ تباہی کے بعدکسی کی نظرپاکستان کی طرف نہ اُٹھتی اور نہ ہی کسی میں یہ جرات ہوتی کہ وہ ہمیں غار کے زمانے میں دھکیلنے کی دھمکی دیتا۔ جب قوم کا ہر ایک فرد قائد کے کہے ہوئے کے مطابق اس ریاست میں اپنا فرض ادا کررہا ہوتا توبلاشبہ وہ اس کی سرحدوں کے تحفظ سے غافل نہ ہوتا۔قوم کا ایک ایک فرد امریکا کے ظالمانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا۔بچہ بچہ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوتا۔لیکن بات وہی ہے کہ ہمیںکچھ بھی تویاد نہ رہا۔ نہ قائد کی جرات مندی ،نہ اُن کے اُصول۔ نہ اس خطے کے لیے قربانیاں دینے والوں کا خون یاد رہا اور نہ اس کے وقار کے لیے عصمتیں لٹانے والوں کا خراج۔
اس بے حسی اور بے بسی کے عالم میں اگرآج بھی ہم قائد کے اندازِ سیاست اورنظریات پرعمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تویقین سے کہاجاسکتا ہے کہ پھرکسی امریکی صدر کو ہمارے خلاف جارحیت کے عزائم ظاہرکرنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔اے کاش ہم سمجھ سکتے!
 
Top