فیض احمد فیض(حقیقت اور رومان کا سنگم)

”فیض احمد فیض“




فیض احمدفیض بیسویں صدی کے اُن خوش قسمت شعرا ءمیں سے ہیں جنہیں زندگی ہی میں بے پنا ہ شہرت و مقبولیت اور عظمت و محبت ملی ۔ انہوں نے دار و رسن کا مزہ چکھا اور کوچہ یار کی رنگینیوں سے لطف اندوز ہوئے ۔ وہ علامہ اقبال کے استاد مولوی میر حسن ہی کے شاگرد تھے انہیں یوسف سلیم چشتی سے پڑھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ لیکن وہ اقبال نہ بن سکے اقبال نے اسلام کو انقلابی مذہب جانا اور اسلام بذریعہ اسلام کا نعرہ لگایا۔ جبکہ فیض نے کمیونزم کے راستے انقلاب کا خواب دیکھا۔ دونوں کی شاعر ی میں یہ فرق بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔
فیض نے جب شعور سنبھالا اور شعر کہنے شروع کئے تو اُس وقت رومانیت کی لہر آئی ہوئی تھی ۔ جوش اور احسان دانش جیسے شعراءرومانیت کے تحت تصوراتی جنتوں کی تعمیر میں مگن تھے۔ ادبی روایت کو جگر، اصغر ، حسرت اور داغ نے کندھا دے رکھا تھا۔ نظم نگاری کے بھیس میں اخترالایمان ، ن۔م۔راشد، اور میراجی اپنی انفرادیت کی مرلی بجا رہے تھے۔ فیض نے جب علمی زندگی کا آغاز کیا تو امرتسر میں صاحبزادہ محمود الظفر اور اُن کی اہلیہ رشیدہ جہاں کے زیر اثر مارکسزم کا مطالعہ کیا بعد ازاں جب ترقی پسند تحریک کا آغاز کیا تو فیض اُسکے بانی اراکین میں شامل تھے۔ فیض نے ہزاروں سختیوں کو سہنے اور دار و رسن کی منزلوں سے گزرنے کے باوجود نہ تو اپنے نظریات میں لچک پیدا کی اور نہ ہی روگردانی کی۔ اُس وقت جب ترقی پسندوں پر اُن کے گھروں کے دروازے بند اور جیلوں کے دروازے کھل گئے تھے، فیض اس تحریک سے وابستہ رہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ فیض وفاداری بشرط استواری کے قائل تھے۔ فیض معاشرے میں ایسا انقلاب برپا کرنے کے خواہشمند تھے جو موجودہ استحصالی نظام کو بالکل بدل کر رکھدے وہ غیر طبقاتی نظام کے قائل تھے۔
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر غزل کو بہت نقصان پہنچا لیکن فیض نے ترقی پسند نظریات کے اظہار کے لئے بھی غزل کا پیرایہ اختیار کیا۔ اور سیاسی مزاحمتی نظمیں لکھنے کے بجائے غزلیں تحریر کیں۔ کیوں کہ اُن کا خیال تھا کہ سیاسی اور مزاحمتی ادب کی عمر بہت تھوڑی ہوتی ہے۔

رومان اور انقلاب کاسنگھم:۔

بقول ثاقب رزمی،
” ایک پختہ کا ر ترقی پسند شاعر ہونے کی حیثیت سے اپنی شاعری کو خطیبانہ اور انقلابی رائے زنی سے بچایا اور اُسے روحانی اور رعنائی تجمل کے پیرایہ میں پیش کیا اس لئے ان کی شاعری دوامی رنگ اختیار کر گئی انہوں نے سےاسی مضامین کو تغزل کے لبادے میں پیش کیا۔۔۔۔۔۔فیض بیسویں صدی کا ایسا ترقی پسند شاعر ہے جس کی ایک ہتھیلی پر رومانیت کاچراغ فروزاں ہے تو دوسری ہتھیلی پر سماجیت کی مشعل جل رہی ہے اُن کے غنائی لہجے میں اتنی تاثیر ہے کہ اُسے ہیتی تجربوں کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔
فیض کا اصل تخلیقی عمل یہ ہے کہ انہوں نے مواد اور ہیئت کی دوئی کو ختم کیا۔بقول ڈاکٹر عبدالغنی
”رومان اور انقلاب کی کشمکش کے معاملے میں فیض کا شعور تاملات اور ترددات کی آماجگاہ ہے۔ وہ ہنوز فیصلہ نہیں کر پائے کہ ان کی صحیح سمت کیا ہے جسم کے دلآ ویز خطوط یا زمانے کے دکھ۔۔۔ وہ بار بار جاناں کو چھوڑ کر دوراں کی طرف بڑھتے ہیں لیکن نہ صرف مڑ مڑ کر دیکھتے ہیں بلکہ پلٹ بھی پڑتے ہیں پھر بڑھتے ہیں پھر پلٹتے ہیں۔“

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

فیض کے ہاں غمِ جاناں اور غم دوراں ایک ہی پیکر میں یکجا ہیں انہوں نے محبت اور انقلاب کے ترانے بیک وقت گنگنائے ہیں فیض کا فنی کمال یہ ہے کہ انہو ں نے کلاسیکیت اور رومانیت کو قالبِ شعر میں ڈھال کر ایک منفرد اُسلوب اور لہجہ تخلیق کیا ہے۔درج ذیل اشعار پر غور کریں فیض کے تشبیہات و استعارات وطن کو اپنا محبوب قرار دے کر وطن سے اپنی محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے جیسے کوئی اپنے محبوب سے اظہار کر رہا ہو۔

تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیر ے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تارےک راہوں میں مارے گئے

یہ سوال فیض کی زبان پر اس لئے بھی شعر بن کر نمودار ہوا کہ کاشتکار کی محنت کا ثمر جاگیردار کی جھولی میں چلا جاتا ہے اور مزدور کے پسینے کے قطرے دولت کی شکل اختیار کرکے سرماےہ دار کی تجوری کی زینت بنتے ہیں۔
فیض اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ جب رومان و انقلاب ایک شاعر کے فن اور ذات میں ڈھل جاتے ہیں تو ترقی پسند شاعری پیدا ہوتی ہے۔ وہ سستی جذباتیت اور نعرہ بازی کے خلاف ہیں وہ صرف انقلاب کا نعرہ بلند کرکے کشت و خون کی دعوت دیتے نظر نہیں آتے بلکہ وہ نرم اور کومل الفاظ میں ہمیں انقلاب کے راستے سے روشناس کرواتے ہیں ۔ فیض اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعے ”میزان “ میں لکھتے ہیں،
” انقلابی شاعر پر حسن و عشق یا مے و جام حرام نہیں ، اور اُس پر یہ حکم نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ انقلابی مضامین کے علاوہ دوسرے تجربات اور دوسری وارداتوں کا ذکر نہ کرے۔“
فیض پر یہ حقیقت واضح تھی کہ روٹی ، کپڑا ، مکان وغیر ہ کے مطالبات انسان کے جسم سے متعلق ہیں اُسکی روح کی طلب روٹی کپڑے کے بجائے روحانی تسکین کی متلاشی نظر آتی ہے اور جس کی تسکین اُنہیں رومان ہی میں نظر آتی ہے۔ اُن کے ہاں اختر کی سی سطحی رومانیت نہیں ملتی بلکہ بڑی خوبصورت تشبیہات کے ذریعے اپنے محبوب کا ذکر کیا ہے۔

رات یوں دل میں تیری کھوئی ہوئی یا د آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

فیض کو سوشلزم سے وابستگی اور آزادانہ اظہار ِ خیال کی کڑی سزا بھگتنی پڑی اور اپنی زندگی کے بہترین ماہ و سال قیدمیں رہ کر گزارے لیکن فیض کی فکر پر پہرے نہ لگائے جا سکے اور نہ فیض کے نظریات پر پابندی لگائی جا سکی چنانچہ عین گرفتاری کے دوران بھی فیض نے انقلابی خیالات کا اظہار جاری رکھا۔

اے خاک نشینوں اُٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اُچھالے جائیں گے
اب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اب زندانوں کی خیر نہیں
جو دریا جھوم کے اُٹھے ہیں تنکوں سے نہ ٹالے جائیں گے

انقلاب کا یہ تصور کشت و خون سے ہو کر گزرتا ہے زنداں میں فیض کے دل و دماغ پر قیامت گزر گئی جب فیض کو ”غدار وطن“ کا نام دیا گیا اور وطن دشمنی کے الزامات لگائے گئے۔

اس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے وہ گزری
تنہا پس ِ زنداں ، کبھی رسوا سر ِ بازار
گرجے ہیں بہت شیخ، سر گوشہ منبر
کڑکے ہیں بہت اہل ِ حکم ، برسرِ دربار

فیض ایک طرف انقلاب کے نعرے بلند کرتے ہیں اور دوسری طرف محبت کے گیت الاپتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ان کی انقلابی روح انہیں انقلاب کا درس دینے پر مجبور کرتی تھی ان کے اشعار میں رومان اور انقلاب کی وجہ سے غنائیت اور شگفتگی کے علاوہ رنگینی کا احسا س ہے اور وہ زندگی کی سچی مسرتوں سے لطف اندوز ہونے کے خواہاں ہیں رنگینی حسن اور نزاکت ِ خیال ان کے اشعار میں ہمیں انوکھے اور منفرد انداز میں نظر آتے ہیں،

سلام لکھتا ہے شاعر تمہارے حسن کے نام
بکھر گیا جو کبھی رنگ ِ پیرہن سرِ بام
نکھر گئی ہے کبھی صبح ، دوپہر کبھی شام
کہیں جو قامت زیبا پہ سج گئی ہے قبا
چمن سرو،و صنوبر سنور گئے ہیں تمام
بنی بساطِ غز ل جب ڈبو لئے دل نے
تمہارے سایہ رخسار و لب میں ساغر وجام

دوسری طرف فیض اپنے دیس اور اس کے باشندوں کی خستہ حالی ، قوم کی عزت و ناموس کی آرزانی ، لوگوں کی ناداری، جہالت ، بھوک اور غم و اندوہ کو دیکھ کر تڑپتے ہیں مگر پھر بھی ان کی شاعری میں وطن سے محبت کا اظہار ہوتاہے۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

جہاں تک ”دست صبا“ کا تعلق ہے تو یہ ایک خاص عہد کی عکاسی کرتا ہے یہ فیض کے ایک خاص عہد کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ دست صبا کی نظموں میں فیض نے حقائق کو غم جاناں بنا کرپیش کیا ہے۔ فیض کے یہاں عشق ایک مسلسل رنگ ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے مقصد کو بھی اس سے ہم آہنگ کردیاہے۔ دوسرے شعراء، جوش ، اختر شیرانی ، حفیظ جالندھری ، مجاز ، ساحر کے ہاں ہمیں ایک طرف خالص عشقیہ شاعری نظر آتی ہے اور دوسر ی طرف خالص انقلابی شاعری ۔ یہ شعراءجب اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہیں تو دنیا و مافہیا سے بے خبر ہو جاتے ہیں ۔ اپنے گرد حسن و کیف و سرور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں ۔ اور جب اس ماحول سے نکل کر تلخ حقیتوں کی جانب رجوع کرتے ہیں تو پھر صاف بغاوت ، نقلاب اور رجز کے علاوہ کوئی دوسرا ذکر ان کے لبوں پر نہیں آتا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ ان شعراءکے ہاں عشق اور انقلاب دو متضاد عناصر ہیں ۔شاعر جب ایک کا دامن پکڑتا ہے تو دوسرے کو بھول جاتاہے۔ مگر فیض کے یہاں ایسا نہیں ہے۔ وہ دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر چلتے ہیں اور جب ایک پر نظر پڑتی ہے تو دوسرا خود بخود نظر آجاتا ہے۔ فیض کا یہی انداز ان کو اپنے ہم عصروں میں منفرد بناتا ہے۔

چلے ہیں جان و ایماں آزمانے آج دل والے
وہ لائیں لشکر و اغیار و اعدا ہم بھی دیکھیں گے
وہ آئیں تو سر مقتل ، تماشا ہم بھی دیکھیں گے

نہ صرف ”دست صبا“ کی نظموں میں بلکہ فیض کی پوری شاعری میں عشق اور انقلاب دونوں آپس میں اس طرح گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اب ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لئے تفسیر اور تشریح بن گئی ہیں۔ بقول صفد رمیر
” حقیقت یہ ہے کہ اس کی شاعری میں محبت اور انقلاب کو باہم مربوط کر دیا گیا ہے اور یہ صفت موجودہ دور میں کسی اور شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی ۔“

فیض کے کلام کی فکری و فنی خوبیاں:۔

درج بالا خوبیاں زیادہ تر ان کے کلام کے مجموعی تاثر کے لحاظ سے لکھی گئیں ہیں اب مزید دیکھیں کہ ان کے کلام کے محاسن کیا کیا ہیں،سب سے پہلے تو فیض کے اپنے مقالے سے اقتباس دیکھتے ہیں جو انہوں نے ” شاعر کی قدریں “ کے عنوان کے تحت لکھا۔
” حسن کی تخلیق صرف جمالیاتی فعل ہی نہیں افادی فعل بھی ہے چنانچہ ہر وہ چیز جس سے ہماری زندگی میں حسن یا لطافت یا رنگینی پیدا ہو جس کا حسن ہماری انسانیت میں اضافہ کرے جس سے تذکیہ نفس ہو جو ہماری روح کو ترنم کرے جس کی لو سے ہمارے دماغ کو روشنی اور جلا حاصل ہو صرف حسین ہی نہیں مفید بھی ہے اس وجہ سے جملہ غنائیہ ادب بلکہ تمام اچھا آرٹ ہمارے لئے قابل ِ قدر ہے۔“
اس اقتباس سے ان کی طبعی اور ذہنی فکری صلاحیت کے علاوہ اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو حسین بنا نا چاہتے ہیں،

رومانیت:۔

فیض اپنے کلام سے اپنے خشک زاہد اور ناصح ہونے کا تصور نہیں دیتے بلکہ پھول اور تلوار کے ساتھ ساتھ چشم و لب کی کاٹ کی باتیں بھی کرتے ہیں ۔ ان کی اُفتاد ِ طبع رومانی ہے ان کے سینے میں پیار بھرا دل دھڑکتا ہے ان کے کلام میں لطافت اور نزاکت کی روحانی فضاءچھائی رہتی ہے وہ تصورِ جاناں پر سب کچھ نچھاور کرتے نظر آتے ہیں،

تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی و رخسار و ہونٹ
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے

اور دیکھیں کہ وہ محبوب کے جمال کو دیکھ کر کیا محسوس کرتے ہیں،

ترا جمال نگاہوں میں لے کے اُٹھاہوں
نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہین کی سی
نسیم تیرے شبستاں سے ہو کے آئی ہے
مری سحر میں مہک ہے تیرے بدن کی سی

نیم واآنکھوں میں کاجل کی لکیر فیض ایسے حسن پرست دل پر بڑا گہرا وار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

آج وہ حسن و دلدار کی وہی دھج ہوئی
وہی خوابیدہ سی آنکھیں وہی کاجل کی لکیر
رنگ رخسار پہ ہلکا سا وہ غازے کا اُبھار
صندلیں ہاتھ پہ دھندلی سی حنا کی تحریر

ان کی رومانیت حقیقت سے بالکل متجاوز نہیں ہوتی۔ وہ حسن پرست بھی خاص حد تک ہیں جس حد تک انہیں انقلابی کہا جا سکتا ہے۔

حسن ادا اور ندرت ِ بیان:۔

فیض ندرت بیان سے قاری کواپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں اور ان کے کلام کا جتنا زیادہ مطالعہ کیا جائے نئے نئے خیالات و تصورات و ا ہوتے جاتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں ندرت بیاں اور حسن ادا کی دلکش مثالیں پائی جاتی ہیں،

ادائے حسن کی معصومیت کو کم کر دے
گناہ گار نظر کو حجاب آتا ہے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے

وہ تو وہ ہے تمہیں ہو جائے گی الفت مجھ سے
اک نظر تم میرا محبوب ِ نظر تو دیکھو

جذبات کی ترجمانی:۔
شاعری میں جذبات کی ترجمانی کے لئے صدق و خلوص انتہائی ضروری ہوتے ہیں صرف احساسات ، محسوسات اور جذبات کے بیان کا نام شاعری نہیں ہوا کرتا ۔ فیض کے ہاں ہمیں پر خلوص جذبہ صداقت اور اُسلوب ِ اظہار پر کامل قدرت ہمیں بھر پور انداز میں ملتے ہیں صرف دو شعر دیکھیں کیا خوب ہیں،

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگے ہیں
ہر اجنبی ہمیں محرم دکھائی دیتا ہے
جواب بھی تیرے گلی سے گزرنے لگتے ہیں

عشقیہ شاعری:۔

فیض کی شاعری حقیقی جذبات کی عکاسی کرتی ہے ان کی شاعری میں عشق و مستی اور چاہت ومحبت کا بھی کثرت سے ذکر ملتا ہے ان کی شاعری محبت کا ایک دل آویز نمونہ ہے اس اظہار میں چاند کی چاندنی کی سی ٹھنڈک اور سکون ، باد نسیم سی نازک خرامی کے علاوہ محبت کا لوچ اور رس ہمیں دلکش پیرایے میں نظر آتا ہے۔

اس قدر پیا ر سے ، اے جان جہاں ، رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تری یاد نے ہات
یوں گماں ہوتا ہے ، گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن ، آبھی گئی وصل کی رات

وطن پرستی:۔

فیض کو اپنی مٹی سے پیا ر ہے ۔ اس مٹی کو وہ محبوبہ کی طرح چاہتے ہیں ۔ محبوبہ اور وطن میں وہ فرق نہیں کرتے ۔ بقول ڈاکٹر سلام سندیلوی،
” دراصل فیض کو اپنے وطن سے بے حد محبت ہے۔ وہ اپنے وطن سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح کوئی مرد کسی عورت سے کرتاہے۔
اپنی مشہور نظم ”دو عشق میں وہ اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں

تنہائی میں کیا کیا نہ تجھے یاد کیا ہے
کیا کیا نہ دل زار نے ڈھونڈی ہیں پناہیں
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دست صباکو
ڈالی ہیں کبھی گردن مہتاب میں باہیں

لیکن وہ ساتھ یہ کہتے ہیں

چاہا اسی رنگ میں لیلائے وطن کو
تڑپا ہے اسی طور سے دل اس کی لگن میں
ڈھونڈی ہیں یونہی شوق نے آسائش منزل
رخسار کے خم میں کبھی کاکل کی شکن میں

لیلائے وطن سے محبت فیض کی نظموں کا ایک مستقل موضوع ہے وہ جابجا اپنے محبوب دیس اور اس کے باسیوں کی خستہ حالی، قوم کی عزت و ناموس کی ارزانی لوگوں کی ناداری ، جہالت ، بھوک اور غم کو دیکھ دیکھ کر بے طرح تڑپ اُٹھتے ہیں

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے ، جسم و جاں بچا کے چلے
فیض کو اپنے وطن سے بے پناہ محبت ہے جیل کی زندگی نے اس محبت کو اور بھی جلا بخشی ، جیل ،جہاں انسان سے اس کی مرضی چھین لی جاتی ہے، فیض کے لئے سوہان روح تھی وہ جیل کی اندھیری کوٹھڑی میں وطن کاتصور کچھ اس طرح سے کرتے ہیں۔

بجھا جو روزنِ زنداں تو دل نے سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی

آزادی سے پہلے فیض نے بھی آزادی کے خواب دیکھے تھے اور اپنے تصور میں وطن کی صورت میں ایک جنت آباد تھی مگر جب آزادی کی صبح طلوع ہوئی تو تمام حالات یکسر تبدیل نہیں ہوئے اور نہ فوراً ہو سکتے تھے ۔ فیض نے اسے ”شب گزےدہ سحر“ اور ”داغ داغ اجالا“ سے تعبیر کیاہے۔

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں

مگر اس کے باوجود فیض مایوس ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ ابنائے وطن کو جدوجہد جاری رکھنے اور آگے بڑھنے کا مشورہ دیا ۔
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

اسلوب:۔

دراصل فیض کا مخصوص لہجہ اور اسلوب ہی وہ جادو ہے جو قاری کو اپنا اسیر کر لیتا ہے اور ہر بار ایک نئے اندا ز میں نمودار ہوتا ہے۔ یہ فیض کے اسلوب کا ایک خاص وصف ہے کہ جدید ذہن اس کو جدید حوالے سے لیتے ہیں اور قدیم ذہن اس میں کلاسیکی رکھ رکھائو اور شیرینی تلاش کر لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض بیک وقت ، ماضی ، حالی اور مستقبل تینوں زمانوں پر محیط نظر آٹا ہے۔ یہ ان کے اسلوب کا خاصا ہے۔بقول فضیل جعفری،
”فیض کی شاعری کو عظیم اور اس درجہ مقبول بنانے میں ان کے منفرد اسلوب کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔“

ساد ہ زبان:۔

فیض کی زبان سادہ اور لفاظی و مبالغہ سے مبرا ہوتی ہے۔ یہ اہم خصوصیت ہے جو انھیں ہم عصر شعراءمیں ممتاز کرتی ہے۔ ن۔م۔ راشد بلا تکلف فارسی الفاظ کا سہارا لیتے ہیں ۔ جوش و مجاز بھی عربی فارسی کے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں ۔ لیکن فیض جو بات کہتا ہے سیدھے سادے الفاظ میں کہتا ہے۔ اور اس سادگی میں بلا کا درد ، تاثیر ، متوازن نشتریت اور سنجیدہ جذبات سمو دیتا ہے ۔ کہ وہ شان و شوکت جو فارسی الفاظ کا حصہ ہے اس کی شاعری میں پیدا ہو جاتی ہے۔

گر آج تجھ سے جد ا ہیں توکل باہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گرآج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

تغزل:۔

فیض کی شاعری کی اصل خوبی ان کا وہ پیرایہ اظہار ہے جس میں تغزل کا رنگ و آہنگ تہہ نشین ہوتا ہے۔ یہی طرز بیان ان کی شاعری کا امیتازی وصف ہے ۔ تعبیرات کی ندرت اور تشبیہوں کی جدت اس کے اہم اجزا ہیں ۔ ان کی نظموں میں ایسے ٹکڑے جن میں اجزاءسلیقے کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ واقعتا بے مثال ہیں ۔بیان کی شگفتگی ایسے اجزا ءمیں درجہ کمال پرنظر آتی ہے اور پڑھنے والا کچھ دیر کے لئے کچھ کھو سا جاتا ہے۔

اس قدر پیار سے اے جا نِ جہاں رکھا ہے
دل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یوں گماں ہوتا ہے گرچہ ہے ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دن آبھی گئی وصل کی رات

خود کلامی:۔

فیض کی اکثر نظمیں خود کلامی کی مثالیں ہیں ۔ اس صنف میں شاعر خود سے باتیں کرتا ہے۔ طرح طرح کے تصورات و خیالات اس کے ذہن میں آتے ہیں ۔ بیچ میں کوئی دوسرا شخص مداخلت نہیں کرتا ۔ اس کا واحد حاضر یا جمع حاضر کوئی نہ کوئی مخاطب ضرورہوتا ہے۔ یہ صنف ِ شاعری انگریزی میں بہت مقبول ہے اور اردو ادب میں نیا اضافہ ۔ فیض کی چند نظمیں اس سلسلہ میں قابل توجہ ہیں ۔ کچھ اور جدید شعراءنے بھی اس میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن فیض زیادہ کامیاب اور قابل تحسین نظر آتاہے۔

رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آکر
چاند نے مجھ سے کہا ”جاگ سحرآئی ہے
جاگ اس شب جو مئے خواب تراحصہ تھی
جام کے لب سے تہ جام اتر آئی ہے“

تشبیہات و استعارات:۔

فیض کے طرز کلام کا دھیما پن ان کے اسلوب کی نمایاں خصوصیت ہے خیال اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لئے استعاروں کی جدت اور تشبیہوں کی ندرت کا سہارا لیتا ہے۔ انھوں نے ہاتھ کو بطور استعارہ بہت ہی خوبصور ت طریقے سے استعمال کیا ہے۔ مثلاً

یہ ہاتھ سلامت ہیں جب تک اس خوں میں حرارت ہے جب تک
اس دل میں صداقت ہے جب تک اس نطق میں طاقت ہے جب تک

تیرے دستِ ستم کا عجز نہیں
دل ہی کا تھا جس نے آہ نہ کی

فیض تشبیہ کا استعمال بہت عمدہ طریقے سے کرتے ہیں،

رات یوں دل میں تیر ی کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

اُن کے اسلوب کے متعلق فضیل جعفری فرماتے ہیں،
” فیض کے اسلوب کا کمال یہ ہے کہ وہ بڑی سے بڑی بات اور گہرے سے گہر ے تجربہ کو اس سیدھے سادے لیکن لطیف انداز میں قاری کو منتقل کرتے ہیں کہ نہ فنی نفاست میں کوئی کمی آنے پاتی ہے نہ تاثر میں۔“

مجموعی جائزہ:۔

ہر دور میں ایک نہ ایک آواز ایسی ضرور ابھرتی ہے جسے کوئی بھی صاحب دل اور اہل شعور نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ جس کا تاثر وسیع بھی ہوتا ہے اور دور رس بھی۔ آ ج کے دور میں یہ آواز فیض کی آواز ہے۔ جہاں جہاں مظلوم انسانیت کے دکھوں کا شعور موجود ہے ۔ یہ آواز اپنے گہرے تاثر کی وجہ سے پہنچانی جاتی ہے۔ بلاشبہ اردو شاعری کا عہد نو فیض کا عہد ہے او ر فیض سے شناسائی کے بعد رہائی کی کوئی صورت نہیں۔ بقول پروفیسر جمیل احمد
” طبقاتی کشمکش کے خلاف ، انقلاب اور جدوجہد تیسری دنیا کے استحصال ذد ہ عوام ، مزدوروں اور کسانوں کے حقوق چند ایسے موضوعات ہیں جن پر فیض نے بہت لکھا ہے اور اس انداز سے لکھا ہے کہ ان کی شاعری کھوکھلی نعر ے بازی بننے کی بجائے با معنی اور جامعیت کی تمام تر وسعتیں اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔“
احمد ندیم قاسمی ان کے متعلق لکھتے ہیں،
” دراصل فیض ان شاعروں میں سے نہیں جو خلاءمیں شاعری کرتے ہیں اپنے ماحول سے کٹ کر مراقبہ کرتے ہیں اور اپنی روحوں پر اشعار ناز ل ہونے کا انتظار کرتے ہیں ۔ فیض نے تو آج کی دنیا کے جملہ سیاسی ، سماجی اور اقتصادی محرکات کے شعور میں شعر کہے ہیں۔“


خوشبو تیرے اشعار کی دست ِ صبا میں بس گئی
تاریخ بن کے رہ گیا ”لطف غزل حسنِ سخن“(مغیث الدین فریدی)
 
Top