فیس بک کے معاشقے

فیضان قیصر

محفلین
چنو اپنا جگری ہے۔ آج کل بے حد پریشان ہے۔ رات چائے کے کیفے پر ملا تو کہنے لگا ۔

"یار یہ پنجاب کے لڑکے پتہ نہیں کونسا فیس بک استعمال کرتے ہیں۔ جب دیکھو ٹی وی پر خبر ہوتی ہے ۔ ایک چالیس سالہ دوشیزہ پنجاب کے ایک گبرو کی محبت میں امریکا سے کھنچی چلی آئی ۔ کبھی یورپ سے تو کبھی آسٹریلیا سے۔ قسمے یار ! اپنی تو سمجھ نہیں آتا۔ یہ کمینے ان چالیس سالہ دو شیزاوں کو ڈھونڈھتے کیسے ہیں ؟ مل جاتی ہیں تو محبت کے جال میں پھنساتے کیسے ہیں ؟ پھنس جائے تو وہ کونسی کمبخت رسی ہے جس سے کھیںچ کر اپنے گاؤں تک لے آتے ہیں "

یہ گورے تو ہمیں دھشت گرد سمجھتے ہیں نا؟ چنو نے سوالیہ لہجے میں مجھ سے کہا -

میں نے جواباً کہا - ہاں سمجھتے تو ہیں ۔ انکا تو یہاں آتے ہوئے دم نکلتا ہے ۔

چنو نے میرے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے پرجوش لہجے میں کہا ۔" یہ ہی تو بات ہے یار! پھر یہ پنجاب کے گبرو آخر ان دوشیزاں پر کون سا وظیفہ پڑھ کر پھونک دیتے ہیں کہ ان کے دل سے ہمارا خوف نکل جاتا ہے۔ "

میں نے بے دھیانی سے پوچھا ۔ چھوڑ یار تجھے کیا ؟

چنو یہ سن کر بھنا گیا ۔ منہ بسورتے ہوئے بولا ۔ "یار سب امریکا جا رہے ہیں اور ہم یہیں سڑیں گے کیا ؟ اس ملک میں رکھا کیا ہے۔ "؟

میں نے سگریٹ کا سٹا لگایا اور اسی بے دھیانی سے بولا ۔ "اچھا تو تو بھی پھنسا لے کوئی گوری ۔ جل کیو ں رہا ہے ۔ "

چنوں روہنسا ہوکر بولا۔ "پچھلے کئی ہفتوں سے یہ ہی تو کر رہا ہوں ۔مگر میری والی قسمت کی دیوی ہے کہ پتہ نہیں کہاں جا مری ہے۔ مہربان ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔"

میں نے ذرا دلچپی لیتے ہوئے پوچھا ۔ اچھا ایسا کیا ہوا ہے تیری قسمت کی دیوی کو ؟ْ

چنو نے بے چارگی سے خلا میں گھورتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھری ۔ پھر بولا "یار کیا بتاوں ۔ بڑی انویسٹمنٹ کرچکا ہوں ۔ انٹرنیٹ کا پیکج اور پھر ایزی لوڈ کے خرچے۔ "

میں نےقطع کلامی کرتے ہوئے پوچھا -" انٹرنیٹ کے پیکچ کی تو سمجھ آگئی ۔ یہ ایزی لوڈ کا کیا چکر ہے بھائی۔ "؟ْ

چنوں اب زراغصے میں آگیا۔ کہنے لگا ۔" یار ان گوریوں کو ڈھونڈھنے کے چکر میں مختلف فیس گروپ جوائن کر رکھیں ہیں۔ جہاں کوئی لڑکی کا نام نظر آتا ہے میں فوراً انباکس میں پہنچ جاتا ہوں ۔فی الحال کوئی گوری تو نہیں ٹکرائی ۔پریکٹس کے لیے سوچا چلو دیسی کڑیوں سے ہی بات کر لی جائے۔مگر یار ہم پاکستانی بڑے ہی دھوکے باز ہیں ۔ کمبخت فیس بک پروفائل پر ایسی حسین تصویریں لگاتے ہیں کہ بندہ اصل صورت دیکھنے کے لیے بے کل ہوجائے۔ میں جب ڈیمانڈ کرتا ہوں کے اپنی اصل صورت تو دیکھا دو ۔ صورت نہیں دکھاتیں تو آواز ہی سنوا دو۔ تو جواباً بدلے میں یہ ڈیماںڈ سامنے آجاتی ہے کہ پہلے ایزی لوڈ کروائو پھر تقریبِ رونمائی کر وائی جائے گی ۔ صورت دیکھنے کے چکر اب تک نہ جانےکتنوں کو ایزی لوڈ کروا چکا ہوں ۔مگر ایزی لوڈ ملتے ہی خوب صورت فیس بک کی تصویر کے پیچھے سے مونچھوں والے وحشی النسل آدمی نکل آتے ہیں ۔بندہ دل کی بھراس نکالنے کے لیے یا تو شکوہ سنجی کر سکتا ہے یا پھر گالیاں ہی داغ سکتا ہے نا ! مگر مجھ نامراد کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ۔ کمبخت اپنی حقیقت عیاں کرنے کے فورا بعد مجھے بلاک کر دیتے ہیں ۔ پھر نیا دن ہوتا ہے اور میری وہی حسرت آلودگی۔

میں یہ سن کر ذرا گومگو کا شکار ہوگیا۔ اگرچہ صدیوں سے پیش آنے والے روز مرہ کے الم ناک حادثوں پر تعزیت کرنے کا تو مجھے بھی معقول حد تک تجربہ ہے۔ مگر چنوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی ہمدی کرنا میرے لیے بھی ایک نیا تجربہ تھا ۔ خیر میں نے ہر ممکن سنجیدگی برتتے ہئے مذمتی لہجے میں کہا ۔ حد ہے یار! ۔" یعنی دنیا تو جیسے اب رہنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ میں تیرے غم میں برابر کا شریک ہوں ۔ حوصلہ کر بھائی ۔ میں دعا کرتا ہوں کہ پروردگار جلد تیری مراد بر لائے ۔ مگر یار بات سن ۔پاکستانی کی آبادی کا ایک معقول حد تک بڑا حصہ پاپا کی پریوں نامی مخلوق پر مشتمل ہے ۔ اور اتفاق سے یہ مخلوق فیس بک پر تو نہایت وافر مقدار میں دستیاب بھی ہے۔ یہ تو بڑا عجب معاملہ ہے تجھے کسی پاپا کی پری تک اب تک رسائی میسر نہیں ہوسکی۔

میری بات سن کر چنوں نے اثبات میں سر ہلایا اور ملول لہجے میں گویا ہوا۔ "نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے کہ تصویر کے پردے سے ہمیشہ اقبال کے شاہین ہی برآمد ہوئے ہوں ۔ کبھی بھاری ایزی لوڈ کے بدلے میں صنف نازک سے ملتی جلتی مخلوق بھی مل جاتی ہے۔ جسے دیکھنے کے بعد رات کو بھیانک ہول اٹھتے ہیں۔ خوف کا وہ عالم ہوتا ہے کہ باتھ روم کے دراوزے پر بھی چھوٹے بھائی کو کھڑا رکھتا ہوں۔

اس کی یہ بات سن کر میں نے زور دار قہقہ لگایا۔

چنو ذرا سنجیدہ تھا۔ "بےزاری سے کہنے لگا یار مزاق نہیں کر ۔ بہت خرچہ ہوگیا ہے ۔"

میں نے اسے تسلی دی کہ ٹینشن نہ لے یار اللہ بڑا ہے ۔ تیرا بھی بیڑا کبھی تو پار ہوگا۔

چنو نے یہ بات سن کر فوراً آمین کہا اور پھر پھر ذرا سرگوشی سے بولا ۔ "آج کل ایک پاکستانی لڑکی سے دوستی ذرا زور پکڑتی نظر آرہی ہے ۔ "

میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا واہ واہ۔ مگر ہے تو لڑکی نا ۔ کہیں ایسا نہ ہو پھر کوئی فریبی آدام زاد ہو۔

چنونے پر اعتماد لہجے میں کہا۔ "یار اتنی ٹھوکریں کھا چکا ہوں تجھے کیا لگتا ہے ۔ اب کیا خود کو میں ایک ہی سوارخ سے بار بار ڈسواؤں گا ۔میں نے اس دفعہ پکا کام کیا پہلے آواز سن کر اس کے لڑکی ہونے کا یقین کیا ہے اور تب جاکر بات بڑھائی ہے۔ "

میں نے تعریفی لہجے میں کہا ۔ یہ ہوئی نا بات ۔ اچھا دکھتی کیسی ہے ؟

چنو نے متانت سے جواب دیا۔ "یار دیکھا تو آج تک نہیں ہے ۔اصل میں وہ بیچاری ان دنوں پریشان ہے۔ میں نےاس لیے تصویر دیکھنا فی الحال موخر کر رکھا ہے۔ "

میں نے جلدی سے لقمہ دیا ۔ "ابے نام وغیرہ تو پوچھ لیا ہے نا یا وہ بھی نہیں پوچھا اور یہ کیسی پریشانی ہے جس میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ تیرے ساتھ فیس بک پر دوستی کی پینگے بڑھا رہی ہے ۔ "

چنوں کا اعتماد ساتویں آسمان پر تھا ۔ "کہنے لگا ہاں ہاں نام وغیرہ سب پتہ ہے یار ۔ اب میں اتنا بھی بے وقوف نہیں ہوں ۔ اس کا نام صبا ہے ۔ اور آج کل اسکا بھائی آئی سی یو میں داخل ہے۔ بیچاری اکثر اسپتال سے ہی بات کرتی ہے ۔ خرچہ بھی زیادہ نہیں کرواتی ۔ بس کبھی کبھی پچاس کا ایزی لوڈ مانگتی ہے ۔ مگر غیرت مند ہے ہمیشہ بولتی ہے کہ جلد پیسے لوٹا دوں گی۔

میں نے یہ سن کر زوردار قہقہ لگایا ۔

چنو بارہا پوچھتا رہا کہ ہوا کیا ؟؟ مگر میں ہنسا تو ہنستا چلا گیا ۔

چنو اپنے عشق کی تذلیل برداشت نہ کر سکا اور مجھے پیچھے ہنستا چھوڑ کر ناراض ہوکر وہاں سے چلا گیا ۔

یہ صبا ایزی لوڈ والی کون ہے آپ کو بھی بتانا پڑے گا کیا !!!!
 
Top