" فوزیہ عظیم " ۔۔۔۔ نظم برائے اصلاح

صفی حیدر

محفلین
محترم سر الف عین اور دیگر اساتذہ و محفلین سے اصلاح و آراء کی درخواست ہے ۔۔۔۔۔
بحر ۔۔ متقارب مربع سالم

" فوزیہ عظیم "
بتا ئو مجھے تم
میں بازار کی جنس تھی کیا ؟
جو مجھ کو سرِ عام بیچا گیا تھا
مجھے کیوں ہوس کی نگاہوں سے دیکھا گیا تھا
میں غربت کے ہاتھوں میں بے بس کھلونا بنی تھی
مرے جسم سے روح سے آرزو سے بھی کھیلا گیا تھا
میں لا چار کب تھی
مگر مجھ کو مجبور تم نے بنایا
مرا راستہ گر غلط تھا تمھاری نظر میں
تو منزل تمھاری بھی آغوش میری بنی تھی
مرے ہر عمل کو بڑا جرم ثابت کیا تھا
میں مجرم ہوں گر پارسا تم بھی ہر گز نہیں ہو
مری ہر سیاہی میں تم بھی تو شامل رہے ہو
میں نے جو بھی کیا سامنے کیا
مرا ہر عمل آئینہ تھا
تمھاری طرح میں منافق نہیں تھی
تمھارے مگر دوغلے پن نے رسوا مجھے کر دیا ہے
میں رسموں کی سولی پہ مصلوب کر دی گئی ہوں
میں مذہب کی تفسیر کے نام پر بک گئی ہوں
میں غیرت کی تعبیر کے نام پر مر گئی
 

سید عمران

محفلین
پہلے فقیر ایک آواز لگایا کرتے تھے۔۔۔
کر بھلا سو ہو بھلا۔۔۔
انت بھلے کا بھلا۔۔۔
اس کا الٹ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا۔۔۔
انت برے کا برا۔۔۔
یعنی برے کام کا برا انجام۔۔۔
جو چلا گیا اس کے لیے دعائے مغفرت میں تو کنجوسی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
لیکن برائی کو اچھائی کا لبادہ بھی نہیں پہنانا چاہیے۔۔۔
آج معاشرے کا مزاج اتنا مسخ ہوگیا ہے کہ بے راہ روی اور عریانیت کو زبردستی پاکیزگی اور ہمدردی کا جامہ پہنایا جارہا ہے۔۔۔
برائی کرنے والے کے ساتھ ہرگز کوئی زبردستی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
کسی نے گن پوائنٹ پر اس سے نہیں کہا تھا کہ فحاشی کا پرچار کرو۔۔۔
جو کچھ کیا تھا اپنی پوری رضامندی اور مرضی سے کیا تھا۔۔۔
حالات چاہے جو کچھ بھی ہوں۔۔۔
ہمارے ملک میں ایک دو نہیں لاکھوں مرد اور عورت اس سے بھی زیادہ مصائب کا شکار ہیں۔۔۔
لیکن ہر کوئی عزت و عصمت کا سودا کرنے نہیں نکل کھڑا ہوتا۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
پہلے فقیر ایک آواز لگایا کرتے تھے۔۔۔
کر بھلا سو ہو بھلا۔۔۔
انت بھلے کا بھلا۔۔۔
اس کا الٹ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا۔۔۔
انت برے کا برا۔۔۔
یعنی برے کام کا برا انجام۔۔۔
جو چلا گیا اس کے لیے دعائے مغفرت میں تو کنجوسی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
لیکن برائی کو اچھائی کا لبادہ بھی نہیں پہنانا چاہیے۔۔۔
آج معاشرے کا مزاج اتنا مسخ ہوگیا ہے کہ بے راہ روی اور عریانیت کو زبردستی پاکیزگی اور ہمدردی کا جامہ پہنایا جارہا ہے۔۔۔
برائی کرنے والے کے ساتھ ہرگز کوئی زبردستی نہیں ہوئی تھی۔۔۔
کسی نے گن پوائنٹ پر اس سے نہیں کہا تھا کہ فحاشی کا پرچار کرو۔۔۔
جو کچھ کیا تھا اپنی پوری رضامندی اور مرضی سے کیا تھا۔۔۔
حالات چاہے جو کچھ بھی ہوں۔۔۔
ہمارے ملک میں ایک دو نہیں لاکھوں مرد اور عورت اس سے بھی زیادہ مصائب کا شکار ہیں۔۔۔
لیکن ہر کوئی عزت و عصمت کا سودا کرنے نہیں نکل کھڑا ہوتا۔۔۔
گناہ جرم فحاشی جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اس کے لیے فردِ واحد کو موردِ الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا ۔۔ سزا ملنی ہے تو ہر اس انسان کو ملنی چاہیے جو برابر کا شریکِ جرم ہو ۔۔ جسمانی فحاشی پر غیرت جاگتی ہے ۔۔۔ ذہنی و اخلاقی دیوالیہ پن اور عریانیت پر یہ غیرت گہری نیند سوئی رہتی ہے ۔۔ بات اس منافقت کی ہے جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ گئی ہے ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
گناہ جرم فحاشی جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اس کے لیے فردِ واحد کو موردِ الزام نہیں ٹھرایا جا سکتا ۔۔ سزا ملنی ہے تو ہر اس انسان کو ملنی چاہیے جو برابر کا شریکِ جرم ہو ۔۔ جسمانی فحاشی پر غیرت جاگتی ہے ۔۔۔ ذہنی و اخلاقی دیوالیہ پن اور عریانیت پر یہ غیرت گہری نیند سوئی رہتی ہے ۔۔ بات اس منافقت کی ہے جو دیمک کی طرح ہمارے معاشرے کو چاٹ گئی ہے ۔۔۔
بالکل درست ہے!!!
ہم بھی اپنے حلقہ احباب میں اسی بات کا پرچار کرتے ہیں کہ۔۔۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے گھرانوں کی مالی مدد کریں اور ان کا معاشی سہارا بنیں جہاں خواتین بے سہارا ہوں۔۔۔
کمانے والا کوئی مرد نہ ہو ۔۔۔
اور اگر ہو تو اس کی آمدنی سے گزارا نہیں ہوتا ہو۔۔۔
کیوں کہ آج ہماری بے رخی کل ان کے پاؤں میں گھنگرو پہنانے کا سبب بن سکتی ہے۔۔۔
اسی فیلڈ ورک کے دوران ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ بالا خانوں میں جتنی طوائفیں ہیں۔۔۔
ان میں سے نناوے تو کیا قریب قریب سو فیصد مجبوری کے عالم میں زندگی گزار رہی ہیں۔۔۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگ پانچ سو روپے دے کے بدن سے چادر تو اتارتے ہیں ۔۔۔
مگر پانچ سو روپے دے کر سر پر چادر اوڑھانے والا کوئی نہیں۔۔۔
یقیناً ہمیں ان کی مدد ہر ہر سطح اور ہر ہر لحاظ سے کرنی چاہیے۔۔۔
حکومت نہیں کرتی تو اپنی مدد آپ کے تحت خود ایسے نجی ادارے بنائیں جن کا ہدف ایسی مظلوم اور بے سہارا خواتین کو ایسا سہارا دینا ہو کہ وہ معاشرے میں منفی نہیں مثبت کردار ادا کریں۔۔۔
یہ ہے کرنے کا کام ۔۔۔
ہم چند لوگ تو اپنے محدود وسائل میں یہ کام کررہے ہیں۔۔۔
آپ لوگ بھی شروع کریں۔۔۔
ہمارے آس پاس ۔۔ محلے میں۔۔۔رشتے داروں میں ۔۔۔جان پہچان میں ایسے ۔کئی گھرانے ملیں گے۔۔۔
چاہے یہ کاوشیں سمندر میں قطرہ۔۔۔اور اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوں۔۔۔
مگر ضمیر مطمئن اور دل خوش رہے گا کہ ۔۔۔
ہم تو اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں!!!
باقی اگر گناہ کو گناہ۔۔۔اندھیرے کو اندھیرا اور اجالے کو اجالا نہیں کہیں گے تو نیکیاں اور بدیاں خلط ملط ہوجائیں گی۔۔۔
پھر برے اور بھلے کی پہچان کون کرائے گا؟؟؟
 

صفی حیدر

محفلین
بالکل درست ہے!!!
ہم بھی اپنے حلقہ احباب میں اسی بات کا پرچار کرتے ہیں کہ۔۔۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے گھرانوں کی مالی مدد کریں اور ان کا معاشی سہارا بنیں جہاں خواتین بے سہارا ہوں۔۔۔
کمانے والا کوئی مرد نہ ہو ۔۔۔
اور اگر ہو تو اس کی آمدنی سے گزارا نہیں ہوتا ہو۔۔۔
کیوں کہ آج ہماری بے رخی کل ان کے پاؤں میں گھنگرو پہنانے کا سبب بن سکتی ہے۔۔۔
اسی فیلڈ ورک کے دوران ہمارے علم میں یہ بات آئی کہ بالا خانوں میں جتنی طوائفیں ہیں۔۔۔
ان میں سے نناوے تو کیا قریب قریب سو فیصد مجبوری کے عالم میں زندگی گزار رہی ہیں۔۔۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگ پانچ سو روپے دے کے بدن سے چادر تو اتارتے ہیں ۔۔۔
مگر پانچ سو روپے دے کر سر پر چادر اوڑھانے والا کوئی نہیں۔۔۔
یقیناً ہمیں ان کی مدد ہر ہر سطح اور ہر ہر لحاظ سے کرنی چاہیے۔۔۔
حکومت نہیں کرتی تو اپنی مدد آپ کے تحت خود ایسے نجی ادارے بنائیں جن کا ہدف ایسی مظلوم اور بے سہارا خواتین کو ایسا سہارا دینا ہو کہ وہ معاشرے میں منفی نہیں مثبت کردار ادا کریں۔۔۔
یہ ہے کرنے کا کام ۔۔۔
ہم چند لوگ تو اپنے محدود وسائل میں یہ کام کررہے ہیں۔۔۔
آپ لوگ بھی شروع کریں۔۔۔
ہمارے آس پاس ۔۔ محلے میں۔۔۔رشتے داروں میں ۔۔۔جان پہچان میں ایسے ۔کئی گھرانے ملیں گے۔۔۔
چاہے یہ کاوشیں سمندر میں قطرہ۔۔۔اور اونٹ کے منہ میں زیرہ ثابت ہوں۔۔۔
مگر ضمیر مطمئن اور دل خوش رہے گا کہ ۔۔۔
ہم تو اپنے حصے کی شمع جلا رہے ہیں!!!
باقی اگر گناہ کو گناہ۔۔۔اندھیرے کو اندھیرا اور اجالے کو اجالا نہیں کہیں گے تو نیکیاں اور بدیاں خلط ملط ہوجائیں گی۔۔۔
پھر برے اور بھلے کی پہچان کون کرائے گا؟؟؟
درست کہا آپ نے اندھیرے میں اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے ۔۔۔ لفاظی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ یہاں بات اس معاشرتی تضاد کی ہو رہی ہے جس میں آدھا سچ بولا جاتا ہے ۔۔ گناہ اور برائی کو ہمہ جہت انداز میں بیان کرتے وقت منافقت سے کام نہیں لینا چاہیے ۔۔۔ کسی ایک فرد کو قتل کر دینے سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی ۔۔ جب تک پسِ پردہ محرکات کا جائزہ نہ لیا جائے اور ان کے عملی تدارک کی کوشش نہ کی جائے ۔۔۔ غیرت کو انفرادی کے بجائے اجتماعی فعل نہ بنایا جائے ۔۔ جسمانی بے راہ روی کے ساتھ ذہنی اور فکری پستی کو دور نہ کیا جائے ۔۔ معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
درست کہا آپ نے اندھیرے میں اپنے حصے کی شمع جلانی چاہیے ۔۔۔ لفاظی سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔۔ یہاں بات اس معاشرتی تضاد کی ہو رہی ہے جس میں آدھا سچ بولا جاتا ہے ۔۔ گناہ اور برائی کو ہمہ جہت انداز میں بیان کرتے وقت منافقت سے کام نہیں لینا چاہیے ۔۔۔ کسی ایک فرد کو قتل کر دینے سے معاشرے کی اصلاح نہیں ہوتی ۔۔ جب تک پسِ پردہ محرکات کا جائزہ نہ لیا جائے اور ان کے عملی تدارک کی کوشش نہ کی جائے ۔۔۔ غیرت کو انفرادی کے بجائے اجتماعی فعل نہ بنایا جائے ۔۔ جسمانی بے راہ روی کے ساتھ ذہنی اور فکری پستی کو دور نہ کیا جائے ۔۔ معاشرتی اصلاح کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ۔۔۔
آپ کی یہ بات بھی بالکل درست ہے جس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں۔۔۔
اول تو یہ کہ موصوفہ یقیناً اس جرم میں ملوث نہیں تھیں جس کی شریعت یا قانون پاکستان میں قتل کی سزا ہو۔۔۔
دوسرے یہ کہ اگر کوئی ایسا جرم بھی کرے جس کی سزا قتل ہو تو بھی عوام کو اسے ہاتھ میں لینے کی ہرگز اجازت نہیں ہے۔۔۔
ان کا قتل تو ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔۔۔
اور قاتل کسی رحم کا مستحق نہیں!!!
 

صفی حیدر

محفلین
اچھی نظم ہے اگرچہ مین تلمیح سے واقف نہیں ہوں۔
بہت نوازش سر ۔۔آپ نے میری اس کاوش کو سراہا ۔۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے ۔۔ یہ آپ کی راہنمائی کا فیض ہے جس کے لیے آپ کا بہت زیادہ ممنون ہوں ۔۔ سر فوزیہ عظیم ایک متنازعہ ماڈل تھیں جو قندیل بلوچ کے نام سے پہچانی جاتی تھیں ۔۔۔ چند دن پہلے اپنے بھائی کا ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل کر دی گئیں ۔۔ اس واقعہ پر اپنے تاثرات کو نظم کی صورت قلم بند کیا ۔۔۔
 

صفی حیدر

محفلین
قبدیل کا تو نام سنا تھا، لیکن یہ نہیں معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا
جی سر ان کا اصل نام فوزیہ عظیم تھا ۔۔ ان کے قتل سے پہلے ان کے اصل نام اور پسِ منظر کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ تھا ۔۔۔۔۔۔
 
Top