فوج عمران خان سے کیوں خوش ہے؟

جاسم محمد

محفلین
فوج عمران خان سے کیوں خوش ہے؟
19/02/2020 محمد کاشف میو

چوہدری شجاعت حسین انتہائی زیرک سیاستدان ہیں۔ چوہدری صاحب موقع محل کی مناسبت سے الفاظ کا چناؤ ایسے کرتے ہیں کہ گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہو۔

سعودی عرب میں عمرہ کی ادائیگی کے بعد ’اردو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری صاحب نے کہا کہ ان کی تو کوشش ہے کہ حکومت چلے مگر عمران خان کے ارد گرد لوگ حکومت کو چلنے نہیں دے رہے۔ مزید ان کا کہنا تھا کہ ’جس طرح ملک چل رہا ہے اور معاشی صورتحال خراب ہو رہی ہے، میں نے پہلے بھی کہا تھا، اب پھر کہہ رہا ہوں کہ دو چار مہینوں کے بعد کوئی بھی وزیر اعظم بننے کو تیار نہیں ہوگا۔ ہر کوئی کہے گا میں نے وزیر اعظم نہیں بننا۔ ‘

اس سوال پر کہ کیا ملک میں قبل از وقت الیکشن ہو سکتے ہیں؟ چوہدری شجاعت نے سوچتے ہوئے کہا کہ ’ویسے تو حکومت پانچ برس کے لیے منتخب ہوئی ہے لیکن اگر کوئی صورتحال پیدا ہو جائے تو ایسا ممکن ہے۔ ‘ موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اتحادی جماعت کے سربراہ کا یہ بیان سمجھنے والوں کے لئے بہت بڑا اشارہ ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق چند دن پہلے عمران خان کی مخصوص صحافیوں سے ہوئی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’فوج مجھ سے بہت خوش ہے کیونکہ میں چھٹی نہیں کرتا اور میں کرپٹ نہیں ہوں‘ ۔ یہ یک طرفہ دعویٰ صرف عمران خان کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ اٹھارہ ماہی حکومت کا جائزہ لیا جائے تو بظاھر خوشی کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی۔ گزری مدت میں عمرانی حکومت کا واحد طرہ امتیاز غیر سنجیدگی رہا ہے۔ اس تمام عرصۂ حکومت میں وزیراعظم کی ساری توجہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے صرف اپوزیشن کو ٹارگٹ کرنے پر رہی۔ عمران خان کے ساتھ کھڑے ساتھیوں پر نظر دوڑائیں تو اکثریت ان لوگوں کی ہے جن پر کرپشن کے الزامات ہیں یا ان پر نیب انکوائری چل رہی ہے۔

آج عمران خان حکومت کی مدت بے نظیر کی پہلی حکومتی مدت سے زیادہ ہو گئی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کی اپوزیشن پالیسی کو مدنظر رکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نہیں چاہتی تھیں کہ عمران خان کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ انھیں کام کرنے کے لئے وقت نہیں ملا۔ گمان ہے کہ فروری سے پہلے اپوزیشن جماعتیں کچھ ایسا کرنے کو تیار نہیں تھیں کہ جس سے حکومت کو خطرہ محسوس ہوتا۔ مزید براں گزشتہ دس سالوں میں ہم نے بارہا دیکھا ہے کہ حکومت کے بنتے ہی اس کے جانے کی تاریخیں دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس بار حکومت کا خاتمہ ہو سکے گا یا نہیں اور کیا اپوزیشن ایسی کوئی تحریک چلانے میں کامیاب ہو سکے گی جو حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکے۔ موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ لاوا پک چکا ہے اور اٹھنے والا طوفان شاید ہچکولے کھاتی حکومتی کشتی کو بہا لے جائے۔

عمران خان نے احتساب نما انتقام کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس سے ہر شعبہ رجعت قہقری کا شکار ہو چکا ہے۔ معیشت مکمل زوال پذیر ہے اور معیشت کی زبوں حالی کے نمایاں اسباب میں آئی ایم ایف سے معاملات میں غیر ضروری طوالت اور بڑھتے قرض کے ساتھ حکومتی لا ابالی پن نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ اگر دو سال پہلے ہماری معیشت کو درخشاں ستارہ کہا جاتا تھا تو موجودہ حکومت نے صرف اٹھارہ ماہ میں ہی اسے ایسا دیا بنا دیا ہے جس کی لو مہنگائی اور بدانتظامی کے تھپیڑوں سے ٹمٹما رہی ہے۔

ہماری شرح ترقی خطے میں سب سے کم ہے۔ اگر یہی رفتار رہی تو ماہرین معاشیات کے مطابق اختتام سال تک ہماری شرح نمو 1.2 پر آ سکتی ہے۔ اس شرح نمو سے کیک کا سائز اتنا چھوٹا ہو جائے گا کہ اپنے اپنے حصہ کے لئے شاید چھینا جھپٹی شروع ہو جائے۔ یاد رہے مسلم لیگ ن کے دور میں یہ شرح نمو قریباً 6 فیصد تھی اور اب تقریباً 2 فیصد کے قریب ہے۔ اکنامک مینجمنٹ کی ایسی صورتحال میں جو پہلے آپ سے بہت خوش ہوتے ہیں وہ پھر پہچاننے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے بھی موجودہ حکومت کے اٹھارہ ماہ کی کارکردگی پر رپورٹ جاری کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ سال میں ملکی قرضوں میں 11 ہزار 114 ارب روپے کا اضافہ ہوا اور ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ 40 ہزار 993 ارب روپے ہوگیا۔ ملک پر قرضوں کا بوجھ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کے 94.1 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ اگر شرح نمو میں گراوٹ کا یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو ایسی خوفناک تباہی ہو گی کہ جس کا تصور بھی محال ہے۔

کارکردگی میں نا اہلیت کے ریکارڈ بنانے کے باوجود وزیراعظم دعویٰ کرتے ہیں کہ کسی کو اندازہ نہیں پاکستان کتنا عظیم ملک بننے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے وزیراعظم نے نہ صرف ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا دعویٰ کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ لوگ باہر سے پاکستان نوکری کرنے آئیں گے۔ آج ڈیڑھ سال بعد عوام وزیراعظم کے دعوے سننے کے بعد معاشی گراوٹ پر نظر ڈالتے ہیں تو ان کے پاس سر دھننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اس صورتحال میں اپوزیشن جماعتوں نے لیت و لعل سے کام لیا تو یاد رکھیں عوام خود احتجاج کے لئے پرتول رہے ہیں۔ اگر کسی جماعت نے موجودہ صورتحال سے پہلوتہی کی تو وہ پیچھے رہ جائے گی اور جس جماعت نے عوام کی نمائندگی کی وہی عوام کی نظروں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرے گی۔

دوسری جانب نواز شریف کی حکومت نے گورننس پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے عام آدمی کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ موجودہ حکومت کی نسبت مہنگائی بتدریج کم ہوئی تھی اور شرح نمو میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ عوام کو ملنے والا ریلیف نمایاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں اور لندن پلان جیسی سازشوں کے باوجود عوام حکومت کے خلاف احتجاج کے لئے نہیں نکلے تھے۔ بارہا عمران خان کو خالی کرسیوں سے خطاب کرتے دیکھا گیا، اس بار صورتحال قدرے مختلف ہے۔ مختلف بحرانوں نے عوام کی زندگی بے رنگ کر دی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی صورتحال میں فوج کیسے اس حکومت سے خوش ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔

بیان کیے گئے اعدادو شمار اور عوام کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے کوئی بھی اس حکومت سے خوش نہیں ہو سکتا، عمران خان نے اٹھارہ ماہ صرف ان کو خوش رکھنے میں لگائے جو انھیں لے کر آئے ہیں۔ کاش وہ 22 کروڑ عوام کو خوش کرنے کا بھی سوچ لیتے تو یہ حالات اتنے مشکل نہ ہوتے۔ عمران خان نے تواتر کے ساتھ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کی تعریف کی ہے اور انھیں میسر فوجی حمایت کا اعتراف کیا ہے، لیکن اتحادی جماعتوں کے بیانات اور موجودہ سیاسی صورتحال دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں عمران خان سب سے بڑا یوٹرن لیں گے اور یہ انہی کے خلاف ہو گا جن کی تعریف میں وہ آج زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔
 
مختلف بحرانوں نے عوام کی زندگی بے رنگ کر دی ہے اور عوام سراپا احتجاج ہیں۔ ایسی صورتحال میں فوج کیسے اس حکومت سے خوش ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
اب تک تو یہ ہوتا تھا کہ سیاستدان فوج سے وعدے کرکے حکومت حاصل کرتے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ حکومت ملتے ہی پر رزے نکالتے۔ فوج اس صورتحال سے تنگ آگئی اور اس مرتبہ انہوں نے نظام سقہ کو آزمایا۔ ایک پلے بوائے کو کٹھ پتلی بنایا گیا اور اسے کرپشن کا راگ دیا گیا۔

آج ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود وہ کچھ نہ کرپایا بلکہ صورتحال دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔

جو فوج کے اپنے لفافے تھے انہوں نے میڈیا پر پلے بوائے کا خوب ساتھ دیا لیکن ڈیڑھ سال کی کارکردگی دیکھ کر ڈاکٹر شاہد اور دیگر لفافے بھی موجودہ حکومت کی مس مینجمنٹ پر پریشان ہیں۔

یہ تجربہ مکمل ناکام ہوچکا۔ سیاست دانوں کو جیل میں ڈال کر، میڈیا کو ڈرا دھمکاکر بھی کچھ نہ بن پایا تو اب عدالت کو ٹیم کرنے کی کوشش جاری ہے جو اب تک تو ناکام ہے۔ اس مایوس کن صورتحال میں کیا چوائسیں باقی رہ جاتی ہیں ان کا تجزیہ کرنے کے لیے کسی آئن اسٹائن کی ضرورت نہیں۔ ان کا جانا ٹھہر گیا ہے، آج گئے یا ابھی گئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس مایوس کن صورتحال میں کیا چوائسیں باقی رہ جاتی ہیں ان کا تجزیہ کرنے کے لیے کسی آئن اسٹائن کی ضرورت نہیں۔
اگر یہ تجربہ واقعی ناکام ہوا تو فوج خود سامنے آکر کھیلے گی۔ اپنے مہروں کو سامنے نہیں لائے گی۔ البتہ یہ سب کرنے کیلئے بطور جواز عمران خان کو غدار، ملک دشمن، کرپٹ ثابت کرنا ہوگا جو اپوزیشن تو کیا ساری ریاستی مشینری مل کر بھی نہیں کر سکتی ۔ اس کو زیادہ سے زیادہ پلے بوائے ڈکلیئر کر سکتی ہے ۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
آج ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود وہ کچھ نہ کرپایا بلکہ صورتحال دگر گوں ہوتی جارہی ہے۔
معلوم نہیں عمران خان سے عوام کی کیا توقعات تھی۔ شاید یہ کہ حلف لیتے ساتھ ہی نواز شریف کا چھوڑا ہوا 100 ارب ڈالر کا قرضہ یکدم ادا ہو جائے گا۔ ڈالر 100 روپے سے گر کر 50 روپے کا ہو جائے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ ایسا افسانوں اور فلموں میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔
 
معلوم نہیں عمران خان سے عوام کی کیا توقعات تھی۔ شاید یہ کہ حلف لیتے ساتھ ہی نواز شریف کا چھوڑا ہوا 100 ارب ڈالر کا قرضہ یکدم ادا ہو جائے گا۔ ڈالر 100 روپے سے گر کر 50 روپے کا ہو جائے گا۔ دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی۔ ایسا افسانوں اور فلموں میں تو ہو سکتا ہے، حقیقت میں نہیں۔
اب دفاع کرنے کے لیے یہ دلیل نکالی ہے یاروں نے ورنہ

جب آئے گا عمران

گارہے تھے۔ جب اس نے آکر مرغی، انڈے، کٹے جیسے شیخ چلی کے نظریات پیش کیے تب احساس ہوا کہ یہ کیا ہوگیا۔ اب یہ کہ عمران یکایک تو تبدیلی نہیں لاسکتا۔
 
غدار، ملک دشمن، کرپٹ ثابت کرنا ہوگا

وقت آنے پر وہ بھی پلک جھپکتے ہوجائے گا۔ ابھی تو "القاعدہ کو پاکستان کی فوج نے بناکر ٹریننگ دی" اور "ایران میں دہشت گردی میں پاکستان کا ہاتھ ہے" جیسے غدار بیانات سے صرفِ نظر کیا ہوا ہے۔ کرشن کے کیسز میں تمام عدالتوں سے اسٹے آرڈر دلوایا ہوا ہے۔ وقت آنے پر جنرل صاحب نے تو جونیجو میں بھی کرپشن نکال لی تھی، یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ آٹا، چینی دوائیوں کے اسکینڈل تو ابھی کی بات ہے۔
 
خود اپنے پارٹی مینی فیسٹو سے غداری کا یہ عالم ہے کہ نعیم الحق کے انتقال کے بعد اب شاید ہی کوئی تحریکی ساتھی ساتھ ہو۔ ایک بیچارہ اسد عمر سائڈ لائن ہوکر کیا بھاڑ جھونک لے گا۔ اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان، جاوید ہاشمی سب باہر اور لوٹے سارے اردگرد ہیں۔ اس بھان متی کے کنبے کے کیا کہنے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب دفاع کرنے کے لیے یہ دلیل نکالی ہے یاروں نے ورنہ

جب آئے گا عمران

گارہے تھے۔ جب اس نے آکر مرغی، انڈے، کٹے جیسے شیخ چلی کے نظریات پیش کیے تب احساس ہوا کہ یہ کیا ہوگیا۔ اب یہ کہ عمران یکایک تو تبدیلی نہیں لاسکتا۔
سیاسی نعرے ہمیشہ سے الیکشن جیتنے کے لئے لگائے جاتے رہے ہیں تاکہ عوام متوجہ ہو کر ووٹ دے۔ اقتدار میں آکر پارٹی کتنے وعدے پورے کر پاتی ہے وہ نیت اور قومی خزانہ پر منحصر ہے۔ آپ اگر فرشتوں کو بھی 100 ارب ڈالر مقروض معیشت والا ملک چلانے کیلئے ہائر کریں گے جس کا آدھا بجٹ پچھلی حکومت کے لئے گئے قرضوں اور خساروں کی مد میں جا رہا ہو تو وہ بھی دم دبا کر بھاگ جائیں گے۔ یہ تو پھر پلے بوائے عمران خان کی ہمت ہے جو ابھی تک ڈٹا ہوا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
وقت آنے پر وہ بھی پلک جھپکتے ہوجائے گا۔ ابھی تو "القاعدہ کو پاکستان کی فوج نے بناکر ٹریننگ دی" اور "ایران میں دہشت گردی میں پاکستان کا ہاتھ ہے" جیسے غدار بیانات سے صرفِ نظر کیا ہوا ہے۔ کرشن کے کیسز میں تمام عدالتوں سے اسٹے آرڈر دلوایا ہوا ہے۔ وقت آنے پر جنرل صاحب نے تو جونیجو میں بھی کرپشن نکال لی تھی، یہ کس کھیت کی مولی ہیں۔ آٹا، چینی دوائیوں کے اسکینڈل تو ابھی کی بات ہے۔
جونیجو کے پیچھے سوشل میڈیا کے یوتھیوں کی فوج نہیں تھی۔ نہ ہی اس کے ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانی کھڑے تھے جو ہر سال پاکستان کی کل ایکسپورٹس سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھجواتے ہیں۔ وہ عمران خان سے اتنی محبت نہیں کرتے جتنا ان دو قومی چور شریف اور زرداری خاندانوں سے نفرت۔ اگر اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو کسی بھی وجہ سے ہٹا کر ان دونوں خاندانوں کو مہرا بنا کر واپس اقتدار میں لانے کی کوشش کی تو ہر طرف سے ایسا شدید رد عمل آئے گا کہ اپوزیشن تو کیا خود طاقتور مقتدرہ کے ہوش اڑ جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
خود اپنے پارٹی مینی فیسٹو سے غداری کا یہ عالم ہے کہ نعیم الحق کے انتقال کے بعد اب شاید ہی کوئی تحریکی ساتھی ساتھ ہو۔ ایک بیچارہ اسد عمر سائڈ لائن ہوکر کیا بھاڑ جھونک لے گا۔ اکبر ایس بابر، جسٹس وجیہہ الدین، حامد خان، جاوید ہاشمی سب باہر اور لوٹے سارے اردگرد ہیں۔ اس بھان متی کے کنبے کے کیا کہنے ہیں۔
عمران خان کو اب درباریوں کی ضرورت نہیں رہی۔ خان کے بعد پارٹی کو چلانے کیلئے نوجوان قیادت جیسے مراد سعید، فیصل جاوید خان، حماد اظہر ہی کافی ہیں۔ پارٹی کے سینئرز اور بابو حضرات جائیں جا کر پنشن اور مراعات والی ریٹائرمنٹ انجوائے کریں۔ ملک کے جوانوں کو اب کام کرنے دیں۔
 
عمران خان کو اب درباریوں کی ضرورت نہیں رہی۔ خان کے بعد پارٹی کو چلانے کیلئے نوجوان قیادت جیسے مراد سعید، فیصل جاوید خان، حماد اظہر ہی کافی ہیں۔ پارٹی کے سینئرز اور بابو حضرات جائیں جا کر پنشن اور مراعات والی ریٹائرمنٹ انجوائے کریں۔ ملک کے جوانوں کو اب کام کرنے دیں۔
درباری؟ ایک ایسے ہی درباری کی دردناک کہانی منصور آفاق کی زبانی سنئے!

ہاؤس نمبر 15، منسٹر کالونی، اسلام آباد

ہم اپنے آپ میں اتنی ہمت نہیں پاتے کہ اس کالم کو کاپی پیسٹ کرسکیں!
 
اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو کسی بھی وجہ سے ہٹا کر ان دونوں خاندانوں کو مہرا بنا کر واپس اقتدار میں لانے کی کوشش کی تو ہر طرف سے ایسا شدید رد عمل آئے گا کہ اپوزیشن تو کیا خود طاقتور مقتدرہ کے ہوش اڑ جائیں گے۔
ہٹلر بھی بہت پاپولر تھا۔ آج شکاری کتے اس کے ایک ایک کھلاڑی کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
درباری؟ ایک ایسے ہی درباری کی دردناک کہانی منصور آفاق کی زبانی سنئے!

ہاؤس نمبر 15، منسٹر کالونی، اسلام آباد

ہم اپنے آپ میں اتنی ہمت نہیں پاتے کہ اس کالم کو کاپی پیسٹ کرسکیں!
ایک اہم سیاسی شخصیت کی وفات کے بعد اس قسم کی کہانیاں گھڑنا جنگ اور جیو گروپ کا خاصا ہے۔ نعیم الحق کوئی دودھ پیتا بچہ نہیں تھا جسے اپنی کینسر جیسی مہلک بیماری کی سنگینی کا علم نہ ہو۔ نہ ہی وہ اتنا غریب تھا کہ اپنا علاج سرکاری خزانہ سے کروانا اس کی مجبوری ہو۔ باقی نعیم الحق کے کینسر کا علاج ملک سے باہر اور ملک کے اندر عمران خان کے اپنے ہسپتال شوکت خانم میں بھی ہو سکتا تھا۔
اس لیے جیو اور جنگ کو بغض عمران میں اس قسم کی کہانیاں گھڑنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی ماں اور قریبی دوست دونوں کینسر میں کھو دیے ہیں۔ ان کے غم میں شامل ہونے کی بجائے یہ لوگ اپنا ڈرامہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ہٹلر بھی بہت پاپولر تھا۔ آج شکاری کتے اس کے ایک ایک کھلاڑی کی بو سونگھتے پھرتے ہیں۔
ہٹلر نے اپنی مقبولیت بے سروپا جنگ شروع کرکے اور پھر اس میں شکست فاش اٹھا کر ختم کر دی تھی۔ اگر وہ دوسری جنگ عظیم جیت جاتا تو آج بھی جرمن قوم کا ہیرو ہوتا۔
جیسا کہ ماؤ زتنگ کٹر کمیونسٹ فاشسٹ لیڈر ہونے کے باوجود آج بھی چینیوں کا اہم ترین تاریخی رہنما ہے۔ کیونکہ وہ چینی قوم پرست جمہوریت پسندوں سے جنگ جیت گیا تھا۔ جبکہ ڈینگ شاؤپنگ جس نے ماؤ زتنگ کی وفات کے بعد سخت معاشی ریفارمز کرکے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بنایا تھا۔ وہ آج تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا ہے۔
 
ہٹلر نے اپنی مقبولیت بے سروپا جنگ شروع کرکے اور پھر اس میں شکست فاش اٹھا کر ختم کر دی تھی۔ اگر وہ دوسری جنگ عظیم جیت جاتا تو آج بھی جرمن قوم کا ہیرو ہوتا۔
جیسا کہ ماؤ زتنگ کٹر کمیونسٹ فاشسٹ لیڈر ہونے کے باوجود آج بھی چینیوں کا اہم ترین تاریخی رہنما ہے۔ کیونکہ وہ چینی قوم پرست جمہوریت پسندوں سے جنگ جیت گیا تھا۔ جبکہ ڈینگ شاؤپنگ جس نے ماؤ زتنگ کی وفات کے بعد سخت معاشی ریفارمز کرکے چین کو دنیا کی دوسری بڑی معاشی قوت بنایا تھا۔ وہ آج تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکا ہے۔
ہار اور جیت تو عارضی ہیں۔ بات فاشسٹ نظریات کے باطل ہونے کی ہورہی ہے۔
 
Top