ایک دن فوجیوں سے بھری ہوئی دو گاڑیاں آئیں اور وہ بغیر اجازت کے مکان میں داخل ہوئے اور مجھے اور بستر پر پڑے میرے بڑے بھائی کو ساتھ لے گئے۔ فوجیوں نے کچھ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور نہ ہم نے وجہ پوچھنے کی کوشش کی‘۔
یہ کہانی ہے وادی سوات کے بائیس سالہ قمر خان کی۔ وہ خود تو خوش قسمت تھے اسی دن شام تک رہا کر دیے گئے لیکن ان کے پینتیس سالہ بھائی عبدالرحیم کو سکیورٹی اہلکاروں نے مزید بیس روز تک حراست میں رکھا۔
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے قمر خان نے بتایا کہ ’پھر ایک دن اطلاع ملی کہ سڑک پر آ کر لاش لے جاؤں۔ وہاں گیا تو فوجی ایک چارپائی پر میت حوالے کر کے چلے گئے۔ کچھ نہیں بتایا گیا کہ موت کیسے ہوئی، نہ کوئی کاغذ نہ رپورٹ دی گئی‘۔
عبدالرحیم کے بارے میں ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ پاؤں میں تکلیف کی بنا پر گھر سے چھ سات سال سے نکلے ہی نہیں تھے اور اسی بیماری کی وجہ سے بےروزگار بھی تھے۔
فوجی صرف انہی دو بھائیوں کو لینے آئے تھے اور انہوں نے محلے میں کسی اور کو کچھ نہ کہا۔ انہیں گاڑی میں ڈال کر چپڑیال لے جایا گیا۔ قمر کہتے ہیں کہ ان سے فوجیوں نے بات تک نہیں کی۔ بعد میں اہل خانہ نے عبدالرحیم سے ملنے کی کئی بار کوشش کی لیکن بقول قمر ’بات بنی نہیں۔ ہم جہاں بھی جاتے وہ کہتے بھائی وہاں نہیں ہے‘۔
قمر سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے بھائی کی لاش کا ہسپتال میں پوسٹ مارٹم کروانے کی کوشش کی کہ معلوم ہو سکے کہ موت کیسے واقع ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم میں ایسا ہوشیار کون تھا۔ نہ ہم نے پوچھا اور نہ انہوں نے کچھ بتایا ہے۔ نہ عدالت گئے نہ ہسپتال‘۔
عبدالرحیم کی والدہ ان کے طالبان سے کسی قسم کے روابط سے انکار کرتی ہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے تمام مقامی ناظمین سے بیٹے کی بازیابی کے لیے رابطے کیے تھے لیکن پھر انہیں میں سے ایک نے انہیں اس کی لاش لا کر دے دی۔
عبدالرحیم نے سوگواران میں ایک بیوی، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا چھوڑے ہیں۔ وہ سب اب اس امید پر زندہ ہیں کہ شاید انہیں عبدالرحیم کی ہلاکت کی کوئی وجہ تو معلوم ہو سکے۔
یہ کہانی صرف عبدالرحیم کی نہیں۔ سوات کے ایک اورگاؤں کے چھبیس سالہ خان زادہ نامی ایک نوجوان کے والد محمد خان نے بھی بی بی سی اردو سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ ان کے بیٹے کو فوجیوں نے حراست میں لے کر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
محمد خان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ’آپ اس علاقے میں کسی سے بھی پوچھ لیں کہ کیا میرا بیٹا طالبان کا حصہ تھا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا کشمیر میں مزدوری کرتا تھا کہ فوجیوں نے اسے سوات واپس طلب کیا اور حراست میں لے لیا۔ یہ واقعہ سال دو ہزار گیارہ کے رمضان کا ہے۔ ’ان کا کہنا تھا کہ عید سے قبل اسے رہا کر دیں گے۔ پھر وہ سولہ ماہ تک ان کی حراست میں رہا۔ ہم کبھی کبھی ملتے رہے اس سے‘۔
لیکن محمد خان کا الزام ہے کہ خان زادہ کو وینہ پل کے علاقے میں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ’ہمیں فون پر اس ہلاکت کی اطلاع دی گئی۔ پھر ان سے کسی کی مجال ہے کہ پوچھیں کہ کیسے ہلاک ہوا۔ ہم نے جن فوجیوں کے حوالے کیا تھا وہ اس وقت تک تبدیل ہوچکے تھے‘۔
خان زادہ آٹھ جماعتیں پاس تھا اور اس کی ایک بیوی اور ایک بیٹا تھا۔ وہ محنت مزدوری کرتا رہتا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہ فوجیوں کو ان پر شک کیوں ہوا، محمد خان کا کہنا تھا کہ ’یہ تو اللہ اور فوجیوں کو ہی معلوم ہوگا‘۔
ایک سوال کے جواب میں کہ ان کا کیا مطالبہ ہے حکومت یا فوج سے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کسی سے کیا مانگیں۔ہمارا مطالبہ تو اللہ سے ہے۔ وہی دینے والا ہے۔ فوج سے کون پوچھ سکتا ہے‘۔
تقریباً اسی قسم کے حالات میں خان اعظم بھی سوات میں ہلاک ہوئے۔ ان کی والدہ بی بی گل اس ہلاکت کی ذمہ داری ان مقامی لوگوں پر ڈالتی ہیں جن کے ساتھ ان کا زمین کا جھگڑا چل رہا تھا۔ ’یہ ان لوگوں کی شرارت تھی جنہوں نے میرے بیٹے کا نام فوج کو دے دیا تھا۔ وہ کسی چکر میں نہیں تھا۔ اس علاقے میں پوچھ لیں اگر اس نے آج تک کسی کا نقصان کیا ہو۔ اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا بس کسی نے شیطانی کی تھی‘۔
خان اعظم کا ابھی شناختی کارڈ بھی نہیں بنا تھا۔ وہ باغات میں پھل اتارنے جیسی مزدوری کرتا تھا۔ اس کے دو بچے اور بیوہ آج بھی اسے یاد کر کے روتے ہیں۔
اس سلسلے میں جب سوات میں پاکستانی فوج کے ترجمان کرنل عارف سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ فوج کی تحویل میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا تاثر درست نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ طبی وجوہات کی بنا پر بعض افراد فوج کی تحویل میں ہلاک ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی تعداد بیس یا تیس سے زیادہ نہیں ہے۔ ’دورانِ حراست کچھ افراد کی ہلاکت کے واقعات پیش تو آئے ہیں لیکن یہ اکا دکا واقعات ہیں اور اس قسم کا کوئی رجحان پایا نہیں جاتا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ہارٹ اٹیک یا بعض دیگر بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وہ فوج کی تحویل میں دوران تفتیش تشدد سے ہلاک ہوئے‘۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بہت سے لوگ ایسے مرے ہیں یا ہماری حراست میں مرنے والے افراد کی تعداد تشویشناک ہے‘۔
(حفاظتی نقطۂ نظر سے اس رپورٹ میں شامل افراد اور جگہوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں)
بی بی سی کی رپورٹ ہے یہ