فلسفہ بعثت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم

اللہ تعالی نے انسان کو کمال کی خاطر خلق کیا ہے اور عقل جیسی عظیم نعمت سےبھی نوازا ہے لیکن انسان کی دنیوی اور اخروی دونوں ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف عقل کافی نہیں۔ لہٰذا ان احکام کے ادراک کے لئے اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا ہے۔ علاوہ ازیں ہر انسان پر احکام الٰہی اور وحی الٰہی نازل نہیں ہوتی، بلکہ صرف انبیاء پر ہی نازل ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالی نے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا تاکہ وہ عقل انسانی سے بالاتر ان امور کو وحی کے ذریعے بندوں تک پہنچا دے۔ تمام پیغمبروں میں سے حضرت محمدﷺ آخری پیغمبر اور آپ کے دین کو آخری دین قرار دیا گیا ہے کیونکہ آپ کا دین کامل دین تھا۔ لہذٰا اس میں قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ بنابریں مزید کسی پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ 5 اولوالعزم پیغمبروں کو دوسرے تمام انبیاء پر برتری حاصل ہے اور ان پانچوں میں سے بھی پیغمبر اکرمﷺ کو باقی چار اولوالعزم انبیاء پر فوقیت و برتری حاصل ہے کیونکہ ان انبیاء کی رسالت کا دورانیہ ایک مخصوص وقت تک اور مخصوص جگہوں تک محدود تھا جبکہ حضورﷺ کی رسالت اور آپ کا لایا ہوا دین دونوں عالمی اور ابدی ہیں۔ جس طرح حضورﷺ کو باقی تمام پیغمبروں پر برتری حاصل ہے اسی طرح قرآن مجید کو بھی تمام آسمانی کتابوں پر نمایاں برتری حاصل ہے کیونکہ باقی تمام آسمانی کتابیں پیغمبروں کی رحلت کے ساتھ ساتھ تحریف کا شکار ہو گئیں جبکہ قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود اپنے ذمہ لے لی۔
حقیقی اسلام کو دنیا تک اس وقت پہنچایا جا سکتا ہے کہ جب مسلمانان عالم خود اس کی کماحقہ معرفت حاصل کریں اور اس کے بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہوں کیونکہ جب حق کے متلاشی ان کا مشاہدہ کرے گا تو خود بخود وہ اسلام کا گرویدہ ہوتا چلا جائے گا اور جو طاقتیں اسلام کو بدنام کرنے کے درپے ہیں ان کے ناپاک عزائم بھی خاک میں مل جائیں گے۔(1) تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ جب پیغمبر اکرمﷺ کی عمر چالیس سال کی ہوگئی تب آپ رسالت کے عظیم منصب پر فائز ہوگئے۔ آپ غار حرا میں مشغول عبادت تھے اتنے میں جبرئیل امین خدا کی طرف سے وحی لے کر نازل ہوئے تاکہ آپ لوگوں کو بت پرستی کے چنگال سے نکال کر خدا پرستی کی راہ پر گامزن کرے۔ (2) اکثر شیعہ علما کے نزدیک پیغمبر اکرمﷺ کی بعثت کا آغاز کعبے کی تعمیر نو کے پانچ سال بعد 27رجب المرجب ہوا۔ آپﷺ حسب دستور غار حرا میں مشغول عبادت تھے کہ یکایک جبرئیل امین نازل ہوئے اور آپ ﷺ کے بازوئے مبارک کو تھام کر کہنے لگے کہ اے محمدﷺ! پڑھ! آپ نے فرمایا میں کیا پڑھوں؟ پھر جبرئیل امین نے اللہ کی جانب سے سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں آپ پر نازل کیں۔ اس وقت بہت سارے واقعات رونما ہوئے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حضورﷺ پر وحی کے نازل ہوتے ہی میں نے شیطان کی فریاد کی آواز سنی۔ میں نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ فریاد کس چیز کی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ شیطان ہے کہ جو اپنی اطاعت سے ناامید ہونے پر فریاد کرنے لگا ہے۔ بعد ازاں آپ نے فرمایا: (اے علی!) میں جو سنتا ہوں وہ آپ بھی سن لیتے ہو اور میں جو دیکھتا ہوں وہ آپ بھی دیکھ لیتے ہو۔ البتہ آپ نبی نہیں لیکن میرے وزیر اور معاون ہو اور صراط مستقیم پر گامزن ہو۔ بنابریں حضرت علی علیہ السلام مختلف مواقع پر آپ کے ساتھ موجود تھے اور ان میں سے ایک موقع یہی وحی کے نزول کا وقت تھا۔ پیغمبر اکرمﷺ کی اس مشکل گھڑی میں بھی آپ نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ ظاہر حال سے معلوم یہ ہوتا ہےکہ غار حرا میں آپ نے نزول وحی کے ان تمام مناظر کو قریب سے دیکھا ہے لہٰذا مرد و زن میں سے سب سے پہلے پیغمبر اکرمﷺ پر ایمان لانے کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل ہوا ہے۔ (3)
اسلامی روایات اور تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ امتوں میں بھی اہل کتاب کے نزدیک پیغمبر اکرمﷺ کی رسالت اور اس کی نشانیاں مطرح تھیں۔ اسی طرح بعض مشرکین بھی اس سے آگاہ تھے۔ یہاں تک کہ تورات اور انجیل میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ تورات کی خبر دیکھ کر حضرت عیسیؑ نے کھلم کھلا اس کی بشارت دی۔(4) جسے قرآن مجید میں یوں ذکر کیا گیا ہے: “اور جب عیسٰی ابن مریم نے کہا: اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اور اپنے سے پہلے کی (کتاب) توریت کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اپنے بعد آنے والے رسول کی بشارت دینے والا ہوں جن کا نام احمد ہے، پس جب وہ ان کے پاس واضح دلائل لے کر آئے تو کہنے لگے: یہ تو کھلا جادو ہے۔”(الصف/6)۔ بنابریں پیغمبر اکرم ﷺ کی بعثت کا معاملہ کوئی عام معاملہ نہیں تھا بلکہ بشریت کا تقدیر ساز واقعہ تھا۔ لہٰذا اللہ تعالی نے بھی ان کی خصوصی تربیت کا بندوبست کیا۔ اسی وجہ سے رسالت کے منصب پر فائز ہونے سے چند سال پہلے بھی آپﷺ روحانی طاقت کے ذریعے غیر معمولی چیزوں کا مشاہدہ کرتے رہتے تھے۔ آپ نے اس پورے دورانیے کو پاکیزگی اور طہارت باطنی کے ساتھ گزار دیئے۔ آپ اپنی طہارت باطنی کے باعث مکہ مکرمہ جیسے معاشرے میں لوگوں کی بدترین صورتحال، ان پر حاکم جہالت و فساد کو دیکھ کر بہت پریشان رہتے تھے ۔ اسی لئے آپ سال میں ایک خاص وقت معین کرکے تفکر کی خاطر اور تنہائی میں عبادت الٰہی بجا لانے کے لئے ہرسال غار حرا کا رخ کرتے تھے۔ یہ خاص مدت ختم ہونے پر آپ مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ آتے اور گھر تشریف لے جانے سے پہلے خانہ کعبہ کا طواف بجا لاتے تھے۔(5)
اسلامی روایات کی رو سے جب آپﷺ کی عمر چالیس سال ہوگئی تو اللہ تعالی نے آپ کے قلب مبارک کی طرف دیکھا تو اسے بہت ہی فرمانبردار، خاشع اور باعظمت پایا۔ اتنے میں آسمان کے دوازوں کو آپ پر وا کر دیا۔ آپﷺ دیکھ رہے تھے کہ آسمان سے فرشتے اتر رہے ہیں۔ اتنے میں ان سب نے آپ کے سر مبارک کو ڈھانپ لیا اور جبرئیل امین کی طرف دیکھنے لگے یکایک جبرئیل امین بھی اتر آئے اور آپ کے بازوئے مبارک کو تھام کر کہنے لگے: پڑھ! آپ نے استفسار کیا کہ کیا پڑھوں؟ تب اس نے سورہ علق کی ابتدائی چند آیتوں کی تلاوت کرنے کی تلقین کی۔ بعدازاں اللہ تعالی نے جو کچھ وحی کی تھی وہ سب آپ تک پہنچا دی۔ بعدازاں جبرئیل امین پھر آسمان کی طرف چلے گئے اور حضوﷺ پہاڑ سے نیچے تشریف لائے۔ اس وقت خدا کی عظمت کا مشاہدہ اور عظیم ذمہ داری کندھے پر آنے کے باعث آپ کو بخار ہونے لگا۔ آپ اس خوف میں تھے کہ خدانخواستہ قریش آپ کے دعوی کو قبول نہ کریں اور آپ کی باتوں کو بیہودہ اور وحی کو شیطانی قرار نہ دے بیٹھیں۔ آپ سب سے عاقل اور باعظمت ترین الٰہی خلیفہ تھے کہ شیطان اور لوگوں کی بیہودہ حرکتوں سے آپ شدت سے نفرت کرتے تھے۔ لہٰذا اللہ تعالی نے ارادہ کیا کہ آپ کے سینے کو کشادہ اور دوسروں کے خوف و ہراس سے اسے پاک کیا جائے۔ پہاڑوں، پتھروں اور زمین کو آپ سے بات کرنے والا بنایا اور آپﷺ جس چیز کے پاس سے بھی گزرتے، وہ آپ سے مخاطب ہو جاتی تھی اور آپ کو سلام کرنے لگتی تھی۔ اے خدا کے ولی! اے خدا کے رسول! اے خدا کے حبیب! آپ کو مبارک ہو۔ اللہ نے آپ کی عزت اور مقام کو تمام مخلوقات سے بلند، آپ کی فضیلت کو سب سے بالاتر اور آپ کو شرافت و کرامت سے نوازا ہے۔ خدانخواستہ قریش آپ کو دیوانہ اور آپ کے دین کو دین انحرافی قرار نہ دیں، کیونکہ حقیقی فضیلت اور بزرگی وہی ہے جسے خدا عطا کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قریش کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہو جائے۔ عنقریب اللہ تعالی آپ کو سب سے بلند درجہ اور سب سے زیادہ بزرگی عطا کرنے والا ہے۔ اللہ تعالی جب بھی اپنے بندوں میں سے کسی کو منصب رسالت پر فائز کرتا ہے تو سب سے پہلے اسے سکون و متانت عطا کرتا ہے۔ بنابریں جو بھی اللہ تعالی کی طرف سے ان کی طرف آتا ہے تو اسے ایسا مانوس لگتا ہے کہ گویا اسے میں نے پہلے سے دیکھا ہوا ہے۔(6)
جب آپ غار حرا سے واپس گھر پہنچے تو اس عظیم منصب پر فائز ہونے کی بشارت حضرت خدیجہ ؑ کو بھی دی۔ آپ کافی عرصے سے حضورﷺ کے اندر کمالات معنوی کا مشاہدہ کررہی تھی۔ جوابا فرمایا: میں بھی کافی عرصے سے اسی دن کے انتظار میں تھی۔ مجھے امید تھی آپ کسی نہ کسی دن ایسے عظیم منصب پر فائز ہوں گے اور لوگوں کے پیشوا اور پیغمبر ہوں گے۔ تمام مورخین نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضور ﷺ کے اس پیغام پر لبیک کہنے والی خاتون حضرت خدیجہؑ اور مردوں میں حضرت علیؑ ہیں۔ سب سے پہلی جو نماز جماعت خانہ کعبہ میں پیغمبر اکرمﷺ کی امامت میں قائم ہوئی وہ نماز ظہر تھی۔ حضرت خدیجہؑ اور حضرت علیؑ کو سب سے پہلے پیغمبر اکرمﷺ کی امامت میں نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کے بعد سے آپﷺکی مخفیانہ تبلیغی سلسلے کا آغاز ہوا۔(7)
منابع:
1. 41313http://shahraraonline.com/news/
2. 1.html نقشی عجیب که در ۱۰ روز خلق شد
3. 73http://www.roshd.org/per/beliefs/?bel_code=
4. ایضا
5. pdf .1396/03/30/13960330001668. http://media.farsnews.com/media/Uploaded/Files/Documents/
6. 73http://www.roshd.org/per/beliefs/?bel_code=
7. ایضا
 
Top