فلسطینیوں کی مظلومیت اور امت مسلمہ کی بے حسی

ایس ایم شاہ

محفلین
ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے قبلہ اول پر 75 سالوں سے غاصب اسرائیل قابض ہے۔فلسطینی مسلمان 75 سالوں سے اسرائیلی مظالم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ امت مسلمہ کا دل فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتا ہے، لیکن مسلم ممالک کے حکمرانوں کے تانے بانے امریکہ اور اسرائیل سے ملتے ہیں۔ آج تک قبلہ اول کو غاصب صہیونیوں سے آزاد کرانے کے لیے اسلامی ممالک نے ملکر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ عرب قوم جو اپنے آپ کو دنیا کی باشرف قوم سمجھتی ہے۔ اب یہی عرب ممالک یکے بعد دیگرے اسرائیل کو تسلیم کرتے جا رہے ہیں۔ سعودی عرب، عرب امارات، بحرین، کویت، قطر، اردن سمیت دیگر بعض عرب ممالک میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ ان اڈوں سے کسی بھی اسلامی ملک پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت امریکی جہاز عرب ممالک کے اڈوں سے آکر فلسطین پر بمباری کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں اب عرب حکمرانوں کی غیرت کہاں چلی گئی ہے۔؟

فلسطینی بچے اسرائیل سے لڑتے لڑتے جوان، فلسطینی جوان اسرائیل سے لڑتے لڑتے بوڑھے اور فلسطینی بوڑھے افراد اسرائیل سے لڑتے لڑتے اس دنیا کو خیرباد کہہ چکے ہیں اور وہ اب بھی قربانیاں دے رہے ہیں۔ غلیل سے اپنا دفاع کرنے والے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے پاس اب راکٹ اور میزائل ٹیکنالوجی آگئی ہے۔ اسرائیلی اور امریکی فوج اس وقت فلسطینی مجاہدین کا سامنا کرتے ہوئے لرزہ براندام ہے۔ دنیا اس وقت ورطۂ حیرت میں پڑ گئی، جب 7 اکتوبر 2023ء کو دنیا کی مشہور اسرائیلی ایجنسی موساد کو بھی بے خبر رکھ کر حماس کمانڈوز نے اسرائیل کے اندر گھس کر کم و بیش دو ہزار فوجیوں کو ہلاک کیا اور بڑے بڑے فوجی آفیسروں کو گرفتار کیا اور ایک ماہ کا عرصہ ہونے کے باوجود ابھی تک اسرائیلی اور اپنے آپ کو سپر طاقت ڈکلیئر کرنے والی امریکی فوج غزہ کی پٹی کے اندر داخل ہونے سے قاصر ہے، کیونکہ فلسطینی مجاہدین نے زیر زمین 500 کلومیٹر پر مشتمل سرنگیں بنائی ہوئی ہیں، جن کی اطلاعات فقط حماس مجاہدین کے پاس ہیں۔ امریکی اور اسرائیلی فوج کو معلوم ہے کہ جو بھی ان سرنگوں میں گھسنے کی کوشش کرے گا تو یہ سرنگیں ان کے قبرستان میں تبدیل ہو جائیں گے۔

کیا حماس مجاہدین کے پاس یہ ساری طاقتیں اتفاقی طور پر آگئی ہے؟ ہرگز نہیں۔ اس حوالے سے نہ فقط فلسطینی مسلمان بلکہ پوری امت مسلمہ کو اسلامی جمہوریہ ایران کا شکر گزار ہونا چاہیئے۔ کیونکہ ایران میں 1979ء کے انقلاب اسلامی کے بعد سے تمام تر مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر فرزند اسلام امام خمینی نے اسرائیل کے وجود کو قلب اسلام پر خنجر قرار دے کر فلسطینوں کی بھرپور مدد کرنے کا اعلان کیا۔ آپ نے پوری امت مسلمہ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی اسرائیل پر گرا دیں تو اسرائیل صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے۔ چند سال قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی پیشگوئی کرچکے ہیں کہ اسرائیل پچیس سال سے پہلے ہی صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ اسرائیل کے حوالے سے سخت اصولی موقف اور فلسطینی مسلمانوں کی بھرپور حمایت کی وجہ سے امریکہ اور اس کے حواریوں نے ایران پر سخت پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں۔

45 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی ایرانی قوم ان تمام تر پابندیوں کا بھرپور مقابلہ کر رہی ہے۔ سخت ترین پابندیوں کے باوجود بھی ایرانی قوم اپنی آئیڈیالوجی سے ذرہ برابر پیچھے نہیں ہٹی۔ امریکی خوف کے باعث بہت سارے اسلامی ممالک نے بھی یا تو ایران کے ساتھ روابط کو مکمل طور پر قطع کر دیا یا روابط کو بہت محدود کر دیا۔ ایران کی سپاہ پاسداران میں باقاعدہ القدس فورس کے نام سے فوجی دستے موجود ہیں۔ ایران نے لبنان میں حزب اللہ کی تشکیل کے ذریعے مقاومتی بلاک تشکیل دیا۔ جسے آج دنیا اسرائیل سے دس گنا طاقتور فوج سمجھتی ہے۔ سپاہ پاسداران اور حزب اللہ کے مجاہدین نے ماضی قریب میں داعش، جس کی پشت پر 80 ممالک کھڑے تھے، کا خاتمہ کر دیا۔ حماس کی تشکیل اور ان کی تربیت اور چاروں طرف سے اسرائیلی نرغے میں ہونے کے باوجود ان تک اسلحے کی ترسیل اور ٹیکنالوجی کی فراہمی میں ایران اور حزب اللہ نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اسی وجہ سے ایرانی سپاہ پاسداران القدس فورس کے سربراہ سردار جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنرل قاسم سلیمانی شہید القدس ہیں۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو نے کہا کہ فلسطینی بجٹ کا 90 فیصد ایران پورا کر رہا ہے۔

اس وقت تریپل ایچ یعنی فلسطینی حماس، لبنانی حزب اللہ اور یمنی حوثی مجاہدین اسرائیل پر حملے کر رہے ہیں اور مزید پہلے سے طاقتور انداز سے حملے کے لیے آمادہ ہیں۔ حزب اللہ کے بہت سارے کمانڈوز جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اس وقت بھی فلسطین کے ساتھ سب سے طاقتور انداز سے ایران کھڑا ہے اور ایران نے دنیا کی دو بڑی سپر طاقتوں یعنی روس اور چین کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ او آئی سی اجلاس میں بھی ایران نے عرب ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تیل دینا بند کر دیں۔ پاکستان، عراق، شام، اردن، ترکیہ، سعودی عرب اور بعض دیگر اسلامی ممالک نے فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ایک طرف عالمی میڈیا پر نہتے فلسطینیوں کی حالت زار پر ہر منصف مزاج انسان فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کر رہا ہے تو دوسری جانب برطانیہ اور امریکہ جنہوں نے انیسویں صدی میں ہی اس ناجائز ریاست کی تشکیل کے لیے بنیاد فراہم کی، آج ساتھ دہائیوں سے سرزمین فلسطین پر قابض غاصب اسرائیل کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں اور اسے مہلک ہتھیار فراہم کر رہے ہیں اور یورپی ممالک نے بھی ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔

البتہ اب ایران اور حزب اللہ کی جانب سے اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی دھمکی کے بعد یہ ممالک امریکہ کو جنگ سے پیچھے ہٹنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ کیونکہ امریکہ نے یورپی ممالک کو ایک طرف یوکرین کی جنگ میں دھکیل کر سپر پاور ملک روس کے مدمقابل لاکھڑا کر رکھا ہے تو دوسری طرف اب امریکہ فلسطین اسرائیل جنگ میں ان ممالک کو دھکیل کر پوری امت مسلمہ اور سپر پاور چین اور روس کے مدمقابل لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس مجاہدین کے حوصلے بلند ہیں اور تواتر سے حزب اللہ اور حماس کی جانب سے اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں اسرائیلی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے اقرار کیا ہے کہ سینکڑوں امریکیوں کو عز الدین القسام بریگیڈز نے پکڑ رکھا ہے۔ حزب اللہ اور حماس کے حملوں اور اسرائیلی حملوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حزب اللہ اور حماس فقط اسرائیل کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نہ ان کے حملوں سے سکول محفوظ ہیں، نہ ہسپتال، نہ گھر محفوظ ہیں، نہ سرکاری ادارے، نہ عورتیں محفوظ ہیں، نہ بچے اور بزرگ۔

غزہ ہسپتال پر غاصب اسرائیلی فوج کے ہوائی حملے میں کم و بیش ایک ہزار بے گناہ بچے، خواتین اور بزرگ شہید ہوگئے۔ اب آئے روز ہسپتالوں پر مزید حملوں کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ستر فیصد سے زیادہ غزہ کی آبادی بے گھر ہوچکی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت مر چکی ہے۔ نام نہاد انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں معدوم ہوچکی ہیں۔ اقوام متحدہ امریکہ کی لونڈی بن چکی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے علاوہ دیگر اسلامی ممالک کے سربراہان فقط بیان بازی کے ذریعے فلسطینیوں پر اپنا قرض اتار رہے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک کے عوام قبلہ اول اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے کمر بستہ ہیں اور اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے مسلم حکمران امریکی اشاروں پر ناچتے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کی رو سے اس جنگ کے باعث اسرائیل کو روزانہ 300$ سے 400$ ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یعنی یومیہ 80 ارب سے ایک کھرب کی ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔ علاوہ ازیں نتین یاہو کے خلاف تل ابیب میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے وزیراعظم نیتن یاہو سے استعفی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

یوں اسرائیل اندر سے بھی کھوکھلا ہوچکا ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں موجود نتین یاہو کے بیٹے کی ساحل سمندر پر عیاشیاں کرتے ہوئے اسکی ننگی تصویر سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے۔ اس نے اسرائیلی عوام پر جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ ادھر نتین یاہو ہمیں جنگ میں دھکیل کر ہمارا قتل کروا رہا ہے تو دوسری طرف اس کا اپنا بیٹا امریکہ میں عیاشیاں کر رہا ہے۔ حماس مجاہدین نے نتین یاہو کا ایک بھتیجا بھی گرفتار کر لیا ہے۔ لندن میں اسرائیل کے خلاف احتجاج میں ایک لاکھ سے زائد افراد شریک ہوئے۔ مملکت خداداد پاکستان میں قبلہ اول سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک بار پھر پارا چنار کو غزہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے محب وطن شہریوں کو دہشتگرد گروہوں کے ذریعے سے قتل عام کیا جا رہا ہے۔ پارا چنار کے عوام ہر طرف سے محاصرے میں ہے۔ سڑکیں بند اور انٹرنیٹ کی سہولت معطل ہے۔ آخر بار بار ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟

پاک فوج کے شہیدوں کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے تکفیری ٹولے اس وقت کیوں دھندناتے پھر رہے ہیں؟ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر ملک کی حفاظت کرنے والوں پر آئے روز حملے کیوں ہو رہے ہیں۔؟ ان سے جینے کا حق کیوں چھینا جا رہا ہے۔؟ آخر دہشتگرد تکفیری ٹولوں کو کھلی چھوٹ کیوں دی ہوئی ہے۔؟ سکول کے بچوں کو علم کی روشنی فراہم کرنے والے اساتذۂ کرام کو دن دہاڑے شہید کرنے والے دہشتگردوں کا ابھی تک سراغ کیوں نہیں لگایا گیا ہے۔؟ اس وقت پاکستانی عوام بیدار ہوچکی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ دہشتگردوں کو سپورٹ اور ان کی پشت پناہی کون کر رہا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پارا چنار میں فوری امن بحال کیا جائے اور دہشگردوں کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ فلسطینی مسلمانوں کی فقط زبانی کلامی حمایت کافی نہیں بلکہ ایک آزاد اٹامک پاور ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے فلسطینی مظلوم مسلمانوں کیلئے فوجی امداد اور جنگی آلات سمیت ہر قسم کا تعاون کیا جانا چاہیے۔
 
شاہ صاحب آپ کا کہا سر آنکھوں پر کہ فلسطین اور اسرائیل کے قضئیے میں بہت سے پردہ نشینوں کے ستر ننگے ہو گئے ہیں لیکن کیا صرف پاڑا چنار میں ہونے والے واقعات ہی فلسطین کے مسئلے سے نظر ہٹانے کے لئے ایک دھند کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں؟؟ آئیے ہم غور کریں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور امت مسلمہ نے حکومتی سطح پر بے غیرتی کا جام کیوں پی رکھا ہے ۔ یاد رہے کہ حکومتی سطح پر کہا ہے عوامی سطح پر نہیں ۔ امت مسلمہ کے ہر رکن ہر مسلمان کا دل فلسطین کے مظلوموں کے ساتھ دھڑکتا ہے لیکن ان کی اپنے اپنے ملکوں کی اکثر حکومتوں کا اصل مسئلہ جاننا ضروری ہے کیونکہ ان کئ بے حسی اور بے غیرتی کا عوام الناس کے جذبات و احساسات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ آئیے آج صرف پاکستان کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ یہ تجزیہ میرا ذاتی ہے اور اللہ کرے کہ یہ غلط ثابت ہو جائے لیکن بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔

پاکستان:-
پاکستان مسلمان آبادی والے ممالک میں زیاد ہ آبادی والے چند ملکوں مین شمار ہوتا ہے ۔ اقتصادی طور پر مسائل کا شکار یہ ملک اپنی آزادی کے فورا بعد سے ایک ایسے گھناؤنے سائے کے زیر انتظام ہے جسے اسٹیبلیشمنٹ کہا جاتا ہے ۔ اس کا نہ جمہوریت سے کوئی تعلق ہے ۔ نہ اسلام سے اور نہ ہی عوام سے ۔ یہ اسٹیبلیشمنٹ اصل میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی راج کے ایسے باقیات پر مشتمل ان متعفن بیجوں پر مشتمل ہے جن کا وجود سول انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی اداروں میں بھی ثابت شدہ ہے۔ قائد اعظم اور پھر لیاقت علی خان کے قتل ،خواجہ ناظم الدین ، ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا کی حکومت یکے بعد دیگرے ہٹائے جانے اور پھر ایوب خان کی آمد پر اس کے فیلڈ مارشل بن جانے اور الیکشن کے نام پر باچاخان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو غدار وطن ڈکلیئر کرنے سے جن روایات کا آغاز ہوا وہ روایات پھر آدھا ملک اور آدھی درجن سے زیادہ سربراہان مملکت کو کھا کر مزید مضبوط ہوئیں ان سے چھٹکارے کے لئے عوام کی بار بار کی کوششوں کو عوام کے سامنے انہی کے بھائی بندوں کو کھڑا کر کے انہی کے ہاتھوں انہیں قتل کروا کر ، غدار ڈکلیئر کر کے ، ملک دشمن بتا کر ، بد کردار ، دشمن کا ایجنٹ مشہور کر کے کبھی اسلام کے پردے میں لپٹ کر تو کبھی سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کر (جو اصل میں سب سے پہلا شکار پاکستان تھا) ۔ اسلام پرستوں یا ملک میں اسلامی نظام کے خواہشمندوں کو بار بار قانون کے مطابق زیر کیا گیا ۔ کسی کو سزائے موت دی گئی ، کسی کی جماعت کالعدم قرار دے دی گئی ، کسی کو غدار ڈکلیئر کر کے نکال پھینکا گیا ۔ اس اسٹیبلشمنٹ کو شروع سے ایسے سیاستدان قبول ہیں جو وزیر مذہبی امور ہوتے ہوئے بھی مولانا وسکی کے نام سے مشہور ہوں اور ہر دور کا مولانا وسکی الگ ہوتا ہے ۔ جو مولانا وسکی نہ ہو سکے وہ حج کا پیسہ کھانے والا ڈکلیئر کر دیا گیا اور پھر عدالتوں میں خوب رولا گیا ۔ بے شک بعد میں بری ہوا لیکن رگڑا تو لگا دیا گیا ۔ یہ اسٹیبلیشمنٹ انیس سو پچاس سے پہلے پہلے ہی امریکی گود میں جا کر بیٹھ چکی تھی ۔ قائد ملت کا دورہ امریکہ ملک میں موجود اسٹیبلیشمنٹ میں موجود دو رائے رکھنے والوں میں سے امریکی کیمپ کی جیت تھی جس کے بعد ہم ایسے امریکی کیمپ میں جا بیٹھے کہ آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ آج پاکستان کے کسی بھی اعلی عہدے پر امریکی رضامندی کے خلاف کسی کی تعیناتی کا تصور بھی محال ہے ۔ چاہے وہ انتظامی ہو ، دفاعی ہو یا پھر عدالتی ہو ہمیں ریٹائرمنٹ کے تیسرے دن ریٹائرمنٹ والے عہدے سے اوپر والے عہدے پر اسی ادارے یا محکمے میں ترقی پاتے ہوئے لوگ بھی نظر آتے ہیں اور ملک کی اعلی ترین عدالت کے اعلی ترین عہدے پر بیٹھے منصف کی زوجہ کی غیر ملکی شہریت بھی نظر آتی ہے ۔اور ایک سفارت کار کے پیغام پر بچھتے ہوئے سیاہ ست دان اور اس زمانے کی اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل گٹھ جوڑ بھی اسی قوم نے دیکھے جب عالم اسلام کو آواز دینے ، روس کے ساتھ تعلقات بڑھانے ، امریکہ کو نہ کہنے کا ارادہ ظاہر کرنے پر ایک منتخب وزیر اعظم کو اتار پھینکا گیا ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس وزیر اعظم کو بد کردار ، غدار ، قانون کا مجرم ڈکلیئر کرتے ہوئے اس کی عوامی مقبولیت اور اس کے بیانئیے پر عوام کے یقین کو سرعام بے توقیر کرتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کے ذیلی ادارے کو ایسے استعمال کیا گیا کہ اس سے اس وزیر اعظم کی عوامی سطح پر تذلیل ہوئی اور عوامی جذبات کو ٹھیس پہنچی نتیجہ عوام سڑکوں پر آگئی اور ایک تصادم نما صورت حال پیدا ہوئی جس کی آڑ لیتے ہوئے اسٹیبلیشمنٹ نے آقائے امریکہ کی خوشنودی کے لئے ہر اس شخص کو معتوب کردیا جو اس وزیر اعظم کی پارٹی کا نام لیتا تھا ۔اس پارٹی کا جھنڈا لہرانا جرم ٹھہرا ، حیلے بہانوں سے اس کے حامیوں کو گزشتہ کئی ماہ سے جیلوں میں رکھا جا رہا ہے ۔ اس اسٹیبلشمنٹ سے آپ توقع کرتے ہیں کہ وہ فلسطین کے لئے کچھ کریں گے ۔ سچ میں بڑے بھولے ہیں آپ جس اسٹیبلشمنٹ کو آزاد سوچ ہی قبول نہ ہو اس سے آپ آزاد عمل کی توقع کرتے ہیں ۔ حضور فلسطین کے حق میں نعرہ لگاتی خاتون کی گرفتاری کی ویڈیو پورے ملک نے دیکھی ، ایک کرکٹر کے بیٹ پر فلسطین کا جھنڈا نظر آگیا تو اسے جرمانہ ہو گیا ، ایک طرف یہ سب کاروائیاں ہیں ۔ دوسری طرف ایک اپنی آئینی مدت سے تجاوز کر چکی پاکستان کی طویل ترین نگران حلف پر قائم غیر آئینی حکومت ہے تو آپ امریکی (جو سرعام دنیا کے سامنے یہ اعلان کر چکا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں اور ہر طرح سے اس کے مدد گار ہیں) خواہشات کے برعکس اس حکومت سے کیسے توقع رکھ سکتے ہیں ۔ یہ صرف طفل تسلیاں ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔ جن کے ہاتھوں میں ملک انہی کے ہاتھوں میں ملک کا ایٹمی پروگرام ۔ اور عوام کا اعتماد اب ان ہاتھوں پر نہیں رہا کیوں یہ سوال ان ہاتھوں کو اپنے آپ سے پوچھنا ہے
 
Top