فطرت کے سربستہ راز،الطاف حسن قریشی

Hum-Kahan-Kharay-Hain-300x330.jpg

زندگی روز بروز بوجھل اور حزن و ملال میں ڈھلتی جا رہی ہے۔ سانحۂ کوئٹہ سے روح لرز اُٹھی ہے اور کراچی کے درودیوار پر ہمارے نامۂ اعمال کی سیاہی پھیلتی جا رہی ہے۔ لاہور میں جس بے دردی اور سفاکی سے ڈاکٹر علی حیدر اور اُن کا نوعمر بیٹا شہید کیے گئے اُس نے سرطان کے پھوڑے کی ہلاکت آفرینی آشکار کر دی ہے۔ پشاور میں اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ جناب خالد کندی اپنے ہی دفتر میں دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور اپنے اہل کاروں کے ہمراہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔​
بنوں اور اُس کے گردونواح میں دہشت گردی کے خون آشام واقعات کے شعلے چاروں طرف لپک رہے ہیں اور انہی میں جواں ہمت اور پُرعزم بشیر بلور شہید ہوئے۔ دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے ڈانڈے آپس میں گڈمڈ ہو چلے ہیں اور حکومت بے بس دکھائی دیتی ہے جبکہ قومی سلامتی کے ادارے بھی ہر لحظہ دباؤ میں ہیں۔ اِس مہیب صورتِ حال کے بارے میں عمومی طور پر گہری تشویش تو پائی جاتی ہے مگر ہماری قومی قیادت ٗ ہماری عدلیہ اور ہماری فوج ایک واضح سمت اختیار کرنے سے گریزاں ہیں جبکہ بعض سیاسی اور مذہبی قائدین خوفناک دہشت گردی کو امریکی سازشوں کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔​
اُن کے خیال میں امریکہ اور برطانیہ کی جابرانہ پالیسیوں کے نتیجے میں حریت پسند قبائل اپنی آزادی کے لیے خودکش حملوں کا ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور ہیں ٗ اِس لیے اُن کے جذبوں اور قربانیوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اُنہیں اِس امر کا بھی پورا یقین ہے کہ افغانستان سے قابض فوجوں کے انخلا سے دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور فرقہ وارانہ تشدد کا تباہ کن سلسلہ بھی رک جائے گا اور اِن بنیادوں پر امریکہ اور اُس کے حواریوں کے خلاف جہاد ہمارے تمام تر مسائل کا حل ہے۔​
حالات کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ عام انتخابات کی آمد آمد کے زمانے میں ایسے حادثات اور واقعات رونما ہو رہے ہیں جن سے تاثر ملتا ہے کہ یک سوئی کے ساتھ شاید عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ہی نہ ملے اور دو تین سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت مسلط ہو جائے۔ گزشتہ مہینے اندیشہ ہائے دوردراز سیاہ بادلوں کی طرح ہمارے سیاسی اُفق پر تہہ در تہہ چھائے رہے اُن میں بجلیاں بھی کوندتی رہیں اور زلزلے بھی آتے رہے۔​
فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے اِس دوٹوک پالیسی بیان کے باوجود کہ فوجی قیادت جمہوریت کے تسلسل پر یقین رکھتی ہے اور بروقت اور شفاف انتخابات قومی بقا کے لیے ضروری ہیں جبکہ بعض عناصر برملا کہہ رہے ہیں کہ انتخابات مقررہ وقت پر نہیں ہو سکیں گے اور اگر ہو بھی گئے تو بہت خون خرابہ ہو گا اور فوج کو اقتدار سنبھالنا پڑے گا۔ اِسی تناظر میں قومی معیشت کی زبوں حالی کی باتیں بھی ہو رہی ہیں کہ ملک قرضوں کے بوجھ تلے سسک رہا ہے اور توانائی کے بحران سے پیداوار اور برآمدات کے چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں اور فطرت کی تعزیریں مختلف شکلوں میں ہمارے قومی وجود کو اپنے شکنجے میں کستی جا رہی ہیں۔​
پورا معاشرہ بے یقینی اور خوف کی لپیٹ میں ہے اور پانچ دس فی صد مراعات یافتہ طبقے کے سوا نوے فی صد آبادی غربت بے روزگاری اور نفسیاتی ہیجان کا شکار ہے جو نظامِ حکومت چلانے والے فرعونوں اور شدادوں کے خلاف بغاوت پر تُلی ہوئی ہے اور کسی مسیحا کے انتظار میں ہے۔​
٭٭٭​
آج بظاہر تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتیں سول سوسائٹی عدلیہ میڈیا اور فوج بروقت انتخابات کے بارے میں یک سو دکھائی دیتے ہیں اور ہمارے قابلِ احترام چیف الیکشن کمشنر جناب فخر الدین جی ابراہیم یہ اعلان بھی فرما چکے ہیں کہ دھاندلی کرنے والوں کے لیے وہ ڈراؤنا خواب ثابت ہوں گے لیکن فضا میں سرگوشیوں کی سرسراہٹ بڑھتی جا رہی ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد جانا ہوا تو جناب زرداری کے پیرِ باصفا کے ایک رازداں سے ملاقات ہوئی۔​
کہنے لگے کہ پیر صاحب تو اپنے آپ کو انتخابات کے جھمبیلوں سے الگ تھلگ رکھتے ہیں تاہم زرداری صاحب اِن میں کم از کم ایک سال کی تاخیرکے خواہش مند ہیں ٗ کیونکہ اُن کا نامۂ اعمال کارکردگی کے ترازو میں انتہائی بے وزن لگتا ہے۔ یہ آوازیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ غیر آئینی الیکشن کمیشن کے تحت ہونے والے انتخابات بھی غیر آئینی ہوں گے اور اُن کے نتائج تسلیم نہیں کیے جائیں گے۔ دہشت گردی کے روح فرسا واقعات پُرامن اور شفاف انتخابات کے امکانات پر سوالیہ نشانات کی حیثیت رکھتے ہیں۔​
خاص طور پر بلوچستان میں نیم بغاوت کی وحشت اثر صورتِ حال بعض علاقوں میں پائی جاتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینا محال ہوتا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستان دشمن طاقتیں انتخابات کے عمل میں دراڑیں ڈالنے کے لیے شیعہ سنی اور دیوبندی بریلوی اختلافات کو ہوا دے کر فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑکانے میں سرگرم ہیں جبکہ الیکشن کمیشن بھی پارلیمنٹ کے ارکان سے غیر ضروری چھیڑ چھاڑ کے ذریعے نئے نئے مسائل پیدا کر رہا ہے۔​

انتخابات کے التوا کے حق میں سب سے اہم نکتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلا کے وقت امریکہ اِس امر کا ضرور اہتمام کرے گا کہ پارلیمنٹ کے بجائے اُسے ایک اطاعت گزار ٹیکنو کریٹ حکومت کی معاونت دستیاب ہو۔ ۲۴ فروری کی دوپہر اِس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی کہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے سینئر ایڈیٹروں کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز کے سامنے آف دی ریکارڈ بریفنگ میں کھل کر اپنا مافی الضمیربیان کیا جس سے اُن تمام تصورات اور خدشات کی نفی ہوتی گئی جنہیں بعض حلقے ایک مدت سے ہوا دیتے آئے ہیں۔​
فوج کے سپہ سالار نے کہا کہ جب میں نے ۲۰۰۷ء میں منصب سنبھالا تو انتخابات سر پر تھے اور میں نے اِن میں فوجی مداخلت روکنے کی حتی المقدور کوشش کی اور گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ہر طرح کے دباؤ کے باوجود دستوری تقاضوں کے عین مطابق جمہوریت کا ساتھ دیا۔ آج ہم بروقت اور شفاف انتخابات اور پُرامن انتقالِ اقتدار کا مشن پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ قوم خواب کی تعبیر کے قریب آ پہنچی ہے۔​
ہم نے چیف الیکشن کمشنر کوپورے تعاون کا یقین دلایا ہے اور عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کرنے میں ہر طرح آزاد اور محفوظ ہوں گے اور فوج انتخابات کے نتائج کھلے دل سے تسلیم کرے گی۔ جنرل کیانی کے اِن ایقان افروز خیالات سننے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مطلع بہت صاف ہو گیا ہے ٗ سیاسی قوتوں کو اندرونی اور بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال میسر آ گئی ہے اور شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی نظر آتا ہے۔​
٭٭٭​
آرمی چیف نے سوالات کی بوچھاڑ میں بڑی متانت اور دانش مندی سے قومی سلامتی کو درپیش خطرات کی نشان دہی کے ساتھ ساتھ اُن سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر سیر حاصل گفتگو کی۔اِس کی طرف بھی اشارہ کیا کہ انتخابات کو پُرامن بنانے کے لیے ریاست کے تمام اداروں سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کو اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کرنا ہوں گی ٗ کیونکہ ہماری بقا کے لیے اِس پُل صراط سے بخیر و خوبی گزرنا ازبس ضروری ہے۔​
اُن کا کہنا تھا کہ اگر آئین کی حکمرانی قانون کی عملداری اور ریاستی رِٹ کے احترام کو معیار بنا لیا جائے تو داخلی امور بھی سُدھر جائیں گے اور خارجی عوامل بھی قابو میں آ جائیں گے۔ اُن کا اصرار تھا کہ ہمیں ہر حال میں آئین پر چلتے رہنااور بنیادی مسائل پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا چاہیے کہ یہی ہماری اصل قوت اور ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت ہے۔ ہم آئین سے ماورا کسی ٹیکنو کریٹ حکومت کے حق میں ہیں نہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت کر رہے ہیں۔ اپنے لیڈر منتخب کرنے کا حق صرف عوام کو حاصل ہے اور سیاسی جماعتوں کے انتخابات کے انعقاد میں ایک ذمے دارانہ طرزِ عمل اختیار کرنا اور ایشوز پر عوام کی راہنمائی کرنا ہو گی۔​
خوشی کی بات ہے کہ انتخابات کے بارے میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے مابین قومی اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے بڑی سیاسی جماعتوں نے اُمیدواروں سے درخواستیں بھی طلب کر لی ہیں اور اُن کے درمیان مذاکرات کے دور بھی چل رہے ہیں۔ ہم نے گزشتہ سال کے وسط میں سیاسی قائدین کو مشورہ دیا تھا کہ وہ انتخابات سے پہلے کم سے کم قومی ایجنڈے پر انتخابی اتحاد کا راستہ اختیار کریں تاکہ قوم کے اندر یہ اعتماد پیدا ہو کہ آنے والی حکومت مضبوط اور قومی ایجنڈے پر کاربند رہنے کی صلاحیت سے مالامال ہو گی۔​
ہماری تجویزتھی کہ اگر مسلم لیگ (ن) جمعیت علمائے اسلام (ف) جماعتِ اسلامی مسلم لیگ فنکشنل اور سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو دوسری جماعتوں کو بھی انتخابات کے حوالے سے اعتدال اور توازن کی راہ اپنانا ہو گی جو قومی زندگی میں صحت مند رجحانات کے فروغ کا باعث بنے گی۔ آج ہمارے لیے یہ امر قابلِ اطمینان ہے کہ مولانا فضل الرحمن ایک طرف جماعتِ اسلامی سے اختلافات ختم کرنے پر بات چیت کر رہے ہیں تو دوسری طرف مسلم لیگ نون کے صدر جناب نواز شریف سے ایک مدت کے بعد سیاسی مذاکرات کے لیے رائے ونڈ آئے اور دونوں کے مابین انتخابی مفاہمت پر اصولی اتفاق ہو گیا ہے۔​
اِسی طرح نواز شریف اور جناب پیر پگارا کے درمیان انتخابی مفاہمت ہو چکی ہے اور جناب ممتاز بھٹو کی قیادت میں سندھ کی قوم پرست جماعتیں مسلم لیگ نون کے ساتھ ایک معاہدے میں منسلک ہیںجو سندھ میں ایک بہت بڑے سیاسی تغیر کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔ نوڈیرو میں جناب نواز شریف کے بہت بڑے جلسۂ عام نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ ایک خوشگوارتبدیلی صوبے کے سب سے بڑے سیاسی مرکز تک آن پہنچی ہے۔​
٭٭٭​
عام انتخابات جو فقط ڈھائی ماہ کے فاصلے پر ہیں ٗ اُن کی راہ میںہنوز متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ عوام کی حد سے بڑھی ہوئی توقعات ہیں جو کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی منتخب حکومت کی راہ تک رہے ہیں جس کے لیے کڑی شرائط عائد کی جا رہی ہیں اور مزاحمت بھی ہو رہی ہے۔ دوسری رکاوٹ ہمارا الیکشن کمیشن ہے جو آئے دن جعلی ڈگریوں کا تماشا لگائے رکھتا ہے اور اُس نے اپنی حیثیت کو متنازع بنا لیا ہے۔​
تیسری رکاوٹ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی طبعی تحلیل سے پہلے بعض قانونی اور آئینی تنازعات سر اُٹھارہے ہیں اور الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ کے درمیان یہ چپقلش مطلوبہ قانون سازی میں تعطل کا باعث بن سکتی ہے۔ چوتھی رکاوٹ بدامنی اور دہشت گردی ہے جس پر قابو پانے کے لیے سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور عسکری قیادت کو ایک مشترکہ لائحہ عمل وضع کرنا اور اِسے غیر معمولی فہم و فراست سے عملی جامہ پہنانا ہو گا۔​
بدقسمتی سے لشکرِ جھنگوی کے بارے میں وزیرِ داخلہ جناب رحمن ملک نے پنجاب حکومت کے خلاف سخت اعصابی اور سیاسی جنگ شروع کر دی ہے جس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ انتخابات کی بساط اُلٹ دینے کا جواز تراشا جا رہا ہے۔ پانچ سال گزرنے کے بعد وہ اعلان فرما رہے ہیں کہ اگر حکومتِ پنجاب نے لشکرِ جھنگوی کے خلاف آپریشن نہ کیا تو وہ ایف سی رینجرز اور ایف آئی اے کے ذریعے خود کلین اپ آپریشن کریں گے۔​
جناب صدر اور ہمارے وزیر اعظم اِس الٹی میٹم کے بارے میں انتہائی معنی خیز خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیںاور یوں لگتا ہے جیسے پیپلز پارٹی مرکز کی طرف سے پنجاب پر چڑھائی اور دو حکومتوں کے درمیان ایک خوفناک تصادم کے حق میں ہے۔ انتخابات کی راہ میں نگراں حکومت کی تشکیل بھی ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ نگران حکومتیں مرکز اور صوبوں میں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کی مشاورت سے قائم کی جائیں گی۔​
کئی ماہ پہلے وزیر اعظم نے اعلان کیاکہ ہم اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہی اعلان اپوزیشن لیڈر جناب چودھری نثار علی خاں کی طرف سے بھی کیا گیا کہ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لے رہے ہیں۔دریں اثنا شیخ الاسلام اچانک ٹپک پڑے اور اُنہوں نے ’’مک مکا‘‘ کا صور پھونک ڈالا۔ اسلام آباد میں ہزاروں مریدوں کے درمیان یہ دھمکی آمیز اعلان فرمایا کہ ہماری مرضی کے بغیر کوئی نگران حکومت قائم نہیں ہو سکے گی حالانکہ دہری شہریت کے حامل ہونے کے باعث وہ حکومت سازی کے معاملات میں دخل دینے کے مجاز نہیں تھے مگر حکومتی نمائندوں نے اُن کا یہ غیر آئینی مطالبہ تسلیم کر لیا جس کے خلاف ایک شہری نے عدالتِ عالیہ میں رِٹ بھی دائر کر دی ہے۔اب یہ سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ غیر سیاسی طاقتیں ایک ایسے نگران وزیر اعظم کی تلاش میں ہیں جو دو چار ہفتوں بعد عدالتِ عظمیٰ میں یہ درخواست دینے کے لیے آمادہ ہو کہ بپھرئے ہوئے حالات میں انتخابات نہیں ہو سکتے اور اِسی حکومت کو چند سال کام کرنے کا آئینی جواز عطا کیا جائے۔​
انہی دنوں وزیرِ خزانہ جناب عبدالحفیظ شیخ مستعفی ہو گئے اور زبانی طیور کی یہ خبر گردش کرنے لگی کہ وہی نگران وزیر اعظم ہوں گے کہ اُنہیں اسٹیبلشمنٹ کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔ جنرل کیانی نے ڈیپ بریفنگ میں اِس تاثر کی پُر زور تردید کی اور یہ اصولی موقف اختیار کیا کہ یہ کام حکومت اور اپوزیشن کا ہے اور اُنہیں یہ آئینی ذمے داری جلد سے جلد نبھانی چاہیے۔ ہمارا خیال ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل سے پہلے پہلے نگران حکومتوں پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین اتفاقِ رائے پیدا ہو جانے سے انتخابات کے عمل پر اعتماد پیدا ہو گا۔بہتر یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم چھوٹے صوبوں سے لیا اور کراچی سے اجتناب کیا جائے جو خونخوار مافیاؤں کے نرغے میں ہے جن کے سبب ہمارے قابلِ احترام فخرو بھائی شدید ذہنی دباؤ میں دکھائی دیتے ہیں۔​
٭٭٭​
انتخابات اور ملکی سلامتی کو آج فرقہ پرستی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے جان لیوا خطرات لاحق ہیں اور اُن کے بارے میں جنرل کیانی کی بریفنگ میں نہایت فکر انگیز اور اسٹریٹیجک اہمیت کی باتیں ہوئیں جن کا ابلاغ میری نظر میں آنے والے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اُنہوں نے اسلامی فکر کی روشنی میں بنیاد پرستی کی یہ تعریف کی کہ ہر مسلمان جو بنیادی عقائد پر یقین رکھتا اور میانہ روی کی زندگی بسر کرتا ہے وہ حقیقی معنوں میں بنیاد پرست (fundamentalist)ہے جبکہ یورپ میں یہ اصطلاح مذہبی شدت پسندوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے اور یہی اختلافِ نظر فساد کا باعث بنا ہوا ہے۔​
پاکستان میں ۹۸ فی صد مسلمان امن پسند اور نماز روزہ زکوٰۃ اور حج کے فرائض ادا کرتے اور آپس میں مل جل کر خوشی خوشی رہتے ہیں۔ جب مغرب میں اسلامی شعائر کا احترام کرنے والے سیدھے سادھے مسلمانوں کو بنیاد پرست قرار دے کر اُنہیں غیر مہذب اور قابلِ گردن زنی قرار دیا جاتا ہے ٗ تو شدید ردِعمل اُبھرتا اور تہذیبی اقدار کے دفاع کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔​
اہلِ مغرب کی طرف سے اتنی عظیم اکثریت کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے اور اُن کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے اور ہمارے اپنے معاشروں میں بھی اُن کا احترام لازم ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا طبقہ پروان چڑھ رہا ہے جو اپنے آپ کو مذہب کے بارے میں عقلِ کل سمجھنے لگا ہے اور شریعت کا جو مفہوم وہ سمجھ پاتا ہے ٗ اُسے حرفِ آخر کا درجہ دیتا ہے۔ یہ وہ مذہبی انتہا پسندی ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا ٗ کیونکہ وہ اعتدال ٗ میانہ روی اور مشاورت کا دین ہے۔​
یہی انتہا پسند طبقہ جب اپنی رائے کو طاقت کے ذریعے نافذ کرنا چاہتا ہے تو دہشت گرد بن کر معاشرے میں سرطان کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسلام اور انسانیت کے دشمن یوں ریاست کے خلاف ہتھیار اُٹھاتے اور خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے عالمی امن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اِس وضاحت کی رُو سے ہمیں اسلام کی بنیادی تعلیمات پر عقیدہ رکھنے والوں کا احترام ٗ انتہا پسندوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے مذاکرات اور ہتھیار اُٹھانے والوں کے خلاف قیامِ امن کی خاطر طاقت استعمال کرنا ہو گی۔​
میں جنرل کیانی کی باتیں جس قدر سمجھ سکا وہ بڑی حد تک حقیقت پسندانہ پُر مغز اورایقان افروز تھیں۔ اُن سے پتا چلا کہ اِن تینوں اصطلاحات کی عام فہم تعریف ایک فوجی کے لیے کس قدر اہمیت رکھتی ہے جسے میدانِ جنگ میں دشمن اور دوست کے درمیان واضح فرق کر کے فوری اقدام کرنا ہوتا ہے۔ اِس کا تعلق مسلمانوں کی ۹۸ فی صد آبادی سے ہے اور وہ جان پر کھیل کر وطن کی حفاظت کرتا ہے۔​
جنرل صاحب کے تجزیے کے مطابق افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کے معاملات جدا جدا ہیں اِس لیے اُن کے حوالے سے ہمارے لائحہ عمل بھی فطری طور پر مختلف ہیں۔ افغانستان میں امن اور سلامتی کا حصول طالبان اور شمالی اتحاد کو قومی دھارے میں لے آنے ہی سے ممکن ہے چنانچہ ہم امریکا اور اُس کے اتحادیوں کو یہ کلیدی نکتہ سمجھانے میں کامیاب رہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات پوری سنجیدگی سے شروع کر دیے جائیں جن کی کامیابی میں پاکستان بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔​
اِس کے برعکس پاکستانی طالبان ہمارے دستور ٗ ہمارے قانون اور ہماری ریاست کی رِٹ تسلیم نہیں کرتے ٗ اِس لیے اُن کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں قومی اتفاقِ رائے کے بعد ہی سوچا جا سکتا ہے اور مذاکرات سے پہلے طالبان کی قیادت کو لچک اوراچھی نیت کا مظاہرہ بھی کرنا ہو گا۔​
٭٭٭​
اِس موضوع پر کچھ ایڈیٹروں کالم نگاروں اور ٹی وی اینکرز نے شدید جذبات کا اظہارکیا اور خفیہ ایجنسیوں پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گردوں کی پشت پناہی کرتی اور اُنہیں اپنا اثاثہ سمجھتی آئی ہیں ٗ اسی لیے اُن کے خلاف نتیجہ خیز آپریشن کرنے سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ بعض دوستوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ٗ کیونکہ آج ہم مذہبی شدت پسندی اور دہشت گردی کے جس الاؤ میں جل رہے ہیں وہ اِسی تعلق کے نتیجے میں سالہا سال سے دہک رہا ہے۔​
ایک دانش ور صحافی نے یہ نکتہ اُٹھایا کہ پاکستانی طالبان کا موقف یہ ہے کہ چونکہ پاکستان افغانستان میں غاصب فوجوں کی اعانت کر رہا ہے اِس لیے ہم اُس سے لڑنے پر مجبور ہیں۔ اب غور طلب نکتہ یہ ہے کہ جب افغانستان میں برسرِ جنگ طالبان سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں تو پاکستانی طالبان سے کیوں نہیں؟ ایک رائے یہ بھی تھی کہ طالبان کا مکمل صفایا ہونے تک پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکے گا۔​
ایک باخبر صحافی اصرار کر رہے تھے کہ طالبان سے مذاکرات کرنے ہی میں پاکستان کی عافیت ہے اور فوج کو اپنی سوچ میں تبدیلی لے آنی چاہیے۔ جنرل کیانی اُن کے دعووں کی بلندی کا خندہ پیشانی سے جائزہ لیتے اور آزادیٔ اظہار کے ثمرات سمیٹتے رہے۔اُن کا موقف یہ تھا کہ عسکری قیادت حکومت کے فیصلوں کے تابع ہوتی ہے اور فوجی آپریشن سے پہلے اُسے بہت سارے عوامل بروئے کار لانا پڑتے ہیں۔​
اُنہوں نے انکشاف کیا کہ سوات کا مسئلہ حل کرنے کے لیے وہ اسفند یار ولی کے ہمراہ صدر زرداری کے پاس گئے اوراُنہیں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار کیا ٗ کیونکہ فوجی قیادت کی خواہش یہ تھی کہ اگر معاہدے کے ذریعے امن قائم ہو جائے ٗ تو طاقت استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ صوفی محمد نے معاہدہ توڑ دیا اور اُس کے خوفناک عزائم قوم کے سامنے آ گئے۔ اُس نے سوات پر قبضہ کرنے کے بعد بُنیر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی اور اُس کے ہم نواؤں نے مذہبی اعتقادات سے اختلاف کرنے والوں پر انسانیت سوز مظالم کا سلسلہ تیز کر دیا۔​
اِن حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت نے فوجی آپریشن کا حکم دیا اور ہم نے طاقت کا استعمال کرنے سے پہلے بیس لاکھ شہریوں کو وادیٔ مردان کی طرف ہجرت کے لیے تیار کیا۔ وہ عوام کے تعاون سے کئی ماہ سختیاں جھیلتے رہے اور تاریخ میں وطن کے لیے ایثار کا ایک تابناک باب رقم کر گئے۔فوج نے سوات اور اُس کے ملحقہ علاقے طالبان سے واپس لے لیے اور امن و امان قائم کر دیا مگر اس داخلی جنگ میں جو سیکڑوں افراد گرفتار کیے گئے اُن پر مقدمات چلے نہ دو دہشت گردوں کے سوا کسی کو عدالت سے سزا ہوئی۔​
دوسرے علاقوں میں بھی فوجی کارروائیوں سے ہمیں یہی سبق ملا ہے کہ آپریشن اسی وقت کیا جائے جب اُس کے بعد کے معاملات سنبھالنے کے لیے قابلِ اعتماد انتظامات موجود ہوں۔ جنرل کیانی نے چند ماہ پہلے قومی سلامتی کا جو نظریہ پیش کیا اُس میں داخلی خطرات کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے۔ بلاشبہ آج ہمیں داخلی چیلنجوں کا سامنا سب سے زیادہ ہے کیونکہ لسانی ٗ نسلی ٗ قبائلی اور فرقہ وارانہ ریشہ دوانیوں اور خونریزیوں نے وطنِ عزیز کا چہرہ داغ داغ کر ڈالا ہے اور عالمی برادری میں اِس کی عزت و وقار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔​
ہزارہ برادری پر دوبار قیامت ٹوٹ چکی ہے اور بلوچستان میں سرکشی کے خوفناک مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ انہی لسانی اور نسلی عداوتوں نے کراچی کا امن اور سکون تباہ کر ڈالا ہے جو پاکستان کا معاشی اور کاروباری دارالحکومت ہے۔ فرقہ واریت کی وبا پھیلتی جا رہی ہے۔ ہزارہ قبیلے کے خلاف دہشت گردی کے خلاف ملک بھر میں کئی روز تک دھرنے دیے جاتے رہے اُن میں بڑے بڑے مقامات پر سنی علماء اور سیاست دان شامل ہوئے اور اِس طرح قومی یک جہتی کا زبردست مظاہرہ دیکھنے میں آیا مگر اِن دھرنوں میں اسلحہ بردار عناصر بھی ایک منصوبے کے تحت داخل ہو گئے جنہوں نے پورا ملک مفلوج کر کے رکھ دیا۔​
کراچی میں اُنہیں سپاہ محمد کے علاوہ ایم کیو ایم کی بھی حمایت حاصل تھی اور عام شہری یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ مختلف شیعہ تنظیموں نے اپنی بالادستی قائم کر لی ہے اور حالات ایک ہلاکت خیز فرقہ وارانہ تصادم کی طرف لڑھک رہے ہیں۔ جنرل کیانی نے اپنی سیکورٹی ڈاکٹرائن میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کو قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور اُس کے سدِ باب کے لیے حکمتِ عملی بھی وضع کی ہے۔​
٭٭٭​
آرمی چیف نے اپنی سیکورٹی ڈاکٹرائن کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے بیرونی خطرات سے آنکھیں بند نہیں کی ہیں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی زبردست خواہش کے باوجود ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ جب تک بھارت بنیادی مسائل کے حل کی طرف نہیں آتا اُس وقت تک پائیدار امن ایک سراب ہے۔ مسئلہ کشمیر پر پیش رفت تو دور کی بات سرکریک کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے اور ہماری تمام کوششوں کے باوجود بھارتی آرمی چیف نے سیاچن سے فوجیں ہٹانے سے انکار کر دیا ہے جبکہ پانی کا تنازع گہرا ہوتا جا رہا ہے۔​
اِس کے علاوہ بھارت نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزیاں شروع کر دی ہیں اور اچانک ہماری فوج کے خلاف ایک جارحانہ رویہ اختیار کر لیا ہے۔ ہم یہ سب کچھ امن کی خاطر برداشت کر رہے ہیںاور اُمید رکھتے ہیں کہ ہمارے مثبت طرزِ عمل سے بھارت کی رائے عامہ پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ وہاں کی سیاسی اور انتظامی اسٹیبلشمنٹ کو حقائق کا بتدریج ادراک ہونے لگا ہے اور دہشت گرد عناصر کی بھی نشان دہی کی جانے لگی ہے۔​
بریفنگ میں بلوچستان کے معاملات پر آزادانہ تبادلۂ خیال ہوا۔ جنرل کیانی نے پورے اعتماد سے کہا کہ وہاں ایک بھی فوجی ڈپلائے ہے نہ کہیں فوجی آپریشن ہو رہا ہے البتہ ایک ڈپٹی کمشنر بھی فوج کو سول ایڈمنسٹریشن کی مدد کے لیے طلب کر سکتا ہے اور ہم اِس کے لیے تیار ہیں مگر بہتر یہی ہو گا کہ پولیس اور ایف سی کے ذریعے لاقانونیت اور بدامنی پر قابو پایا جائے۔​
وہاں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ صرف پانچ فی صد علاقہ پولیس کی تحویل میں ہے جبکہ بقیہ پچانوے فی صدلیویز کے زیرِ انتظام ہے جو زیادہ تر سرداروں کے دائرۂ اثر میں ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کے پاس دہشت گردوں کو صرف گرفتار کرنے کے اختیارات ہیں جبکہ پولیس مقدمہ قائم کرتی اور تفتیش کے بعد اُسے عدالت میں لے جاتی ہے اور ناکافی قانون کے باعث ملزم عدالتوں سے اکثر چھوٹ جاتے ہیں۔​
اُنہوں نے بتایا کہ براہمداغ کے جرائم کی فہرست خاصی طویل ہے اور اُس کے ساتھ براہِ راست مذاکرات نہیں کیے جا سکتے۔ بلوچستان کے حالات سے باخبر صحافیوں نے بتایا کہ لشکرِ جھنگوی کو بلوچستان لبریشن آرمی کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے شیعہ سنی فسادات کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے حالانکہ بلوچستان میں فرقہ واریت کا چند سال پہلے تک نام و نشان بھی نہیں تھا۔​
ایک دانش ور کالم نگار جو بلوچستان میں اعلیٰ انتظامی عہدے پر بھی فائز رہ چکے ہیں اُنہوں نے بتایا کہ جو اعدادوشمار دیے جاتے ہیں وہ ہوم سیکرٹری کی فائلوں میں بہت پہلے سے تیار ہوتے ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بریفنگ کے دوران جنرل کیانی نے بڑے اعتماد سے کہا کہ وہ اپنے منصب کی معیاد ختم ہونے پر اِس میں توسیع قبول نہیں کریں گے اور اُن کی تمام تر کوشش ہو گی کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں ایک ہی دن انتخابات منعقد کیے جا سکیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ آئینی تقاضا پورا کرنے کی خاطر ۱۶ مارچ سے کچھ روز پہلے اسلم رئیسانی کی حکومت بحال کر دی جائے گی تاکہ نگران حکومت کا قیام عمل میں آ سکے۔​
اُنہوں نے آئی ایس آئی اور ایم آئی پر تابڑ توڑ حملوں کے جواب میں نہایت مؤثر اور مدلل انداز میں اِس امر کی وضاحت کی کہ آئی ایس آئی کا مینڈیٹ بیرونی دشمنوں پر نگاہ رکھنا اور اُنہیں ناکام بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہے۔ ملٹری انٹیلی جنس صرف فوجی آپریشن کے دوران سرگرم ہوتی ہے جبکہ داخلی حالات کے بارے میں معلومات جمع کرنا آئی بی ٗ اسپیشل برانچ اور پولیس کی ذمے داری ہے مگر بدقسمتی سے حکومت اِن سول اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے بجائے بالعموم فوج کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف دیکھتی رہتی ہے جس کے باعث شکوک و شبہات جنم لیتے اور بتنگڑ بنتے رہتے ہیں۔​
٭٭٭​
بریفنگ میں خبریت انتہائی کم ٗ لیکن ذہنی غذا بڑی فراواں تھی۔ جنرل صاحب کی باڈی لینگوئج میں بڑا اعتماد اور بڑا وقار تھا اور اُن کی گفتگو میں پائی جانے والی تازگی شادابی اور دانش مندی نے ہمیں اِس یقین سے سرشار کر دیاکہ ملک میں انتخابات شفاف اور بروقت ہوں گے۔ بیشتر حاضرین جنرل کیانی کی صاف گوئی بالغ نظری اور تجزیے کی گہرائی سے بے حد متاثر اور شادکام ہوئے۔ جمہوریت اور آئین و قانون کے ساتھ اُن کی غیر متزلزل وابستگی نے سبھی کے دلوں میں اُمید کے چراغ روشن کر دیے اور یہ احساس گہرا کیا کہ ہماری فوج کی قیادت محفوظ ہاتھوں میں ہے جو حال اور مستقبل کے چیلنجوں کا گہرا ادراک اور اُنہیں شکست دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔​
اُن کے ہاں تحکم کے بجائے ایک حلم تھا اور ایک وضعداری تھی۔ اُنہوں نے قومی طاقت (National Power)کے چار پانچ عناصر میں اقتصادیات کو بڑی اہمیت دی ٗ پاکستانی معیشت کی زبوں حالی پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور سویت یونین کی مثال پیش کی کہ عالمی طاقت کے تمام تر لوازمات سے لیس ہونے کے باوجود اقتصادی زوال کے ہاتھوں شکست و ریخت سے دوچار ہو گیا تھا۔​
اُنہوں نے قومی سطح کے چالیس سے زائد ایڈیٹروں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ پانچ گھنٹے تک تبادلۂ خیال جاری رکھا ہر سوال کا بے کم و کاست جواب دیا اور پاکستان کی صحیح سمت کی نشان دہی کی۔ اُن کی نظر میں صحیح سمت آئین کے مطابق نظمِ حکومت چلانا اور عوام کو بنیادی ضرورتیں تحفظ اور انصاف فراہم کرنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات قومی مفادات کے گہرے شعور اور آئین کی حکمرانی کے تصور پر قائم ہونے چاہئیں۔​
اُنہوں نے واضح کیا کہ اسٹریٹیجک گہرائی کا نظریہ اب تبدیل ہو چکا ہے اور علاقائی گہرائی باہمی تعلقات کی گہرائی کے ساتھ منسلک ہے۔ افغانستان میں اگلے سال انتخابات ہو رہے ہیں جن میں افغانستان میں بسنے والے پشتون تاجک اور ازبک آبادی کی شمولیت سے امن اور استحکام قائم ہو گا جو ہمارے خطے میں استحکام کو قوت فراہم کرے گا۔
پاکستان میں آنے والے چند مہینے بڑی اہمیت رکھتے ہیں اِن میں انتخابات ہوں گے اور تازہ دم حکومتیں آئیں گی جنہیں معاشی ابتری بدترین انتہا پسندی اور دہشت گردی کا سامنا کرنا ہو گا۔​
غالب امکان یہ ہے کہ اسمبلیوں میں زیادہ تر جواں سال اور ناتجربے کار لوگ آئیں گے جو ایک نعمت بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور بہت بڑی زحمت بھی۔ اگر اسمبلیوں کے نوجوان ارکان کو تجربے کار اور کسی قدر دیانت دار قیادت میسر آ گئی تو وہ تاریخ کو دہرانے کا موقع نہیں دیں گے فطرت کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے ایثار تعمیر اور تخلیق کا راستہ اختیار کریں گے اور عوام کے معیارِ زندگی کے قریب رہتے ہوئے لائف اسٹائل اپنائیں گے۔ خود احتسابی اور خود شناسی سے اُن کی صلاحیتیں جِلا پائیں گی اور وہ اپنے عزیز وطن کو مسائل کے بھنور سے نکالنے اور اُسے ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے میں ایک عظیم کردار ادا کر سکیں گے۔​
اِس کے برعکس اگر الزام تراشیوں کے سیلاب میں جہاندیدہ قیادت بہہ جاتی ہے اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کا پاگل پن قائم رہتا ہے تو جواں سال منتخب حکومتیں ملکی نظم و نسق میں افتری پیدا کریں گی اور اپنی ناتجربے کاری کے باعث مسائل کو اُلجھاتی رہیں گی۔انتخابات سے پہلے اگر سیاسی جماعتیں ایک ضابطۂ اخلاق کے تحت جمہوری روایات کے ساتھ وابستہ رہتی ہیں اچھے اُمیدوار میدان میں اُتارتی ہیں اور دولت اور برادری کے بجائے ایشوز کی قوت سے انتخابات میں کامیاب ہوتی ہیں تو اُنہیں جنرل کیانی کے یہ الفاظ بڑی تقویت پہنچائیں گے کہ عوام اپنے جن لیڈروں کا انتخاب کریں گے ہم آئینی طور پر اُن کے ساتھ تعاون کرنے کے پابند ہوں گے۔ایک اعتبار سے یہ دوٹوک اعلان سول ملٹری تعلقات کے عظیم میثاق کی حیثیت رکھتا ہے۔​
بشکریہ اردوڈائجسٹ
 
Top