فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ - سرور بارہ بنکوی

انس معین

محفلین
فصلِ گُل کیا کر گئی آشفتہ سامانوں کے ساتھ
ہاتھ ہیں الجھے ہوے اب تک گریبانوں کے ساتھ

پیرِ میخانہ کی اِک لغزش کا حاصل کچھ نہ پوچھ
زندگی ہے آج تک گردش میں پیمانوں کے ساتھ

دیکھنا ہے تابہ منزل ہمسفر رہتا ہے کون
یوں تو اِک عالم چلا ہے آج دیوانوں کے ساتھ

اِن حسیں آنکھوں سے اب للہ آنسو پونچھ لو
تم بھی دیوانے ہوے جاتے ہو دیوانوں کے ساتھ

زندگی نذرِ حرم تو ہو چکی لیکن سرور
ہے عقیدت کا وہی عالم صنم خانوں کے ساتھ

 
Top