فریاد

میں نے تم سے ملنے کے لئے نہیں کہا تھا
میں تو کسی سے نہیں ملتا تھا
کسی کو پلٹ کر دیکھتا بھی نہیں تھا
مجھے کسی سے ملنے کا شوق نہیں تھا
تم خود ہی آ کر مجھ سے ملے
اتنا ملے ، اتنا ملے کہ مجھے تمہاری عادت ہوگئی
تم تو میرے اندر ہی در آئے
میرے اندر ہی بس گئے
میرے اندر وہ پھول لگا دئیے کہ جن کی خوشبو بہت تیز تھی
ایسی خوشبو کہ اندر باہر ہر طرف پھیلنے لگی
مجھے تو ان پھولوں سے بھی خوشبو آنے لگی
جنہیں لوگ کاغذ کے پھول کہتے ہیں
لیکن اب کیا ہوگیا ہے
اب تم کہاں ہو
مجھ سے کیوں نہیں ملتے
کیا کوئی تمہیں بتا سکتا ہے کہ
اب یوں لگتا ہے میرے اندر سے سب خالی ہو گیا ہے
اتنا خالی تو تب بھی نہیں تھا جب تم ملے نہیں تھے
جیسے میرے اندر سے تم سب کچھ سمیٹ کر لے گئے
کہاں چلے گئے ہو؟
اب تو مجھے ان پھولوں سے بھی خوشبو نہیں آتی
جن سے لوگوں کو بہت خوشبو آتی ہے
اب تم مجھ سے کیوں نہیں ملتے
اگر چھوڑ کر جانا تھا تو مجھ سے ملے کیوں تھے
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟
کیا یہ ظلم نہیں ہے؟

از لئیق احمد
 
Top