فرقت میں مجھ کو کس کس آفت کا سامنا تھا - سید آلِ محمد نقوی 'گل'

حسان خان

لائبریرین
فرقت میں مجھ کو کس کس آفت کا سامنا تھا
جاں مضطرب جدا تھی، دل مضطرب جدا تھا
فرقت کی رات ہمدم یہ میرا مشغلہ تھا
دل سینے میں تھا بیکل میں دل کو دیکھتا تھا
طاعت گذارِ حق تھا کہنے کو تیرا عاشق
دل میں تھی یاد تیری لب پر خدا خدا تھا
ذرہ تھا جو زمیں کا تھا آفتاب مجھ کو
اُس ماہرو کا نقشہ جب دل میں بس رہا تھا
فرقت کی رات کیونکر کٹتی ہے کون جانے
ہمدم یہ پوچھنا تھا تو مجھ سے پوچھنا تھا
کچھ حد ہے اس ستم کی کچھ حد ہے اس جفا کی
وہ بیٹھے دیکھتے تھے بسمل تڑپ رہا تھا
آنا ادھر تو جانا ٹھکرا کے میری تربت
میں تجھ پہ جو مٹا تھا ہاں اس لیے مٹا تھا
آباد دل کو کیجیے برباد دل کو کیجیے
یہ اب بھی آپ کا ہے پہلے بھی آپ کا تھا
لاکھ ہاتھ پاؤں پیٹے لاکھ ہم نے کوششیں کی
ہو کر رہا وہ اے گل قسمت میں جو لکھا تھا
(سید آلِ محمد نقوی 'گل')
 

فرخ منظور

لائبریرین
واہ! کیا خوبصورت انتخاب ہے۔ شکریہ جناب۔ لیکن کوشش کیجیے کہ مرکب الفاظ کی املا جیسے رائج ہے ویسے ہی لکھیں جیسے اس شعر میں۔​
ذرہ تھا جو زمیں کا تھا آفتاب مجھ کو​
اُس ماہرو کا نقشہ جب دل میں بس رہا تھا​
"ماہرو" کی بجائے "ماہ رُو" لکھا جاتا تو میرے خیال میں زیادہ بہتر ہوتا۔​
 
محفل فورم صرف مطالعے کے لیے دستیاب ہے۔
Top